دوپہر کا ڈیڑھ بجنے والا تھا جب وہ تیز قدموں سے چلتا گھر میں داخل ہوا۔ لاؤنج میں آیا تو پورے گھر میں چھائی خاموشی کا احساس ہوا۔ دادو، مما اور چچی شاید چچا جان کے ساتھ شادی کی شاپنگ کے لیے جا چکی تھیں جبکہ بابا فیکٹری تھے۔ سارہ اور نمرہ بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ وہ سر جھٹکتا مطلوبہ فائل لینے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔ ایک ضروری فائل گھر رہ گئ تھی جسے لینے وہ لنچ بریک میں اب گھر آیا تھا۔
نمرہ اور سارہ کے مشترکہ کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اسے کسی کے رونے کی آواز سنائی دی جس نے اسے اچھا خاصا چونکا کر رکھ دیا۔ وہ حیران ہوتا بند دروازے کے قریب آیا تو احساس ہوا کہ رونے والی نمرہ تھی۔
“خدا کا واسطہ ہے نمی! اپنا یہ باجا بند کرو۔ پچھلے دو گھنٹے سے تمہارا یہ بھونپو سنتے سنتے میرے کانوں میں درد شروع ہو گیا ہے۔” سارہ نے نمرہ کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے منت کی تھی۔
“تو؟؟ یہاں میری ذندگی برباد کی جا رہی ہے اور میں رو بھی نہیں سکتی؟؟” نمرہ کے رونے میں تیزی آئی۔
“یار گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں، سب اتنے خوش ہیں، اس خوشی کے ماحول میں رو رو کر تم خوامخواہ نحوست پھیلا رہی ہو۔ ” سارہ شاید اکتا گئی تھی کیونکہ جس دن سے مرتضٰی اور نمرہ کی شادی کا اعلان ہوا تھا گھر میں اس دن سے نمرہ اسی کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
“تم میری جگہ ہوتی نہ تب تمہیں پتا چلتا کتنا دکھ ہوتا ہے جب آپ کو ایک سڑیل، جلاد شخص کے پلے باندھا جا رہا ہو۔ ہائے! گھر والوں کو مجھ پر ذرا ترس نہیں آیا یہ ظالمانہ فیصلہ کرتے ہوئے۔ ہائے میں کدھر جاؤں۔۔۔” نمرہ نے دہائ دی۔
“خدا کا نام لو یار! اتنے بھی برے نہیں ہیں بھائی۔ انفیکٹ اچھے خاصے ہینڈسم اور گڈلکنگ ہیں۔ تمہیں پتا ہے کل بھائی مجھے کالج ڈراپ کرنے گئے تو وہاں میری ایک کلاس فیلو نے انہیں دیکھ لیا۔ بڑا کرید کرید کر ان کے بارے میں پوچھ رہی تھی کہ کہیں انگیجڈ تو نہیں۔ میں نے بھی صاف کہہ دیا کہ بی بی کہیں اور ٹرائے کرو۔ میرا بھائی الحمدللّہ انگیجڈ ہے اور دو ہفتے بعد شادی شدہ بھی ہو جائے گا۔” سارہ کے لہجے میں مرتضٰی کے لیے مان ہی مان تھا۔۔جبکہ نمرہ اس کی بات پر اسے گھورنے لگی۔
“اس نے صرف شکل دیکھی نا تمہارے بھائی کی تبھی ایسا بول رہی تھی۔ مجھ سے آ کر پوچھے کوئی جو اس کی ہر ہر بات سے واقف ہے۔ ایک نمبر کا بدتمیز انسان ہے وہ۔” نمرہ اس بات سے بے خبر تھی کہ جو کچھ وہ کہہ رہی ہے اس کی بات حرف بہ حرف کسی اور کے کانوں تک پہنچ رہی ہے۔ تبھی جو منہ میں آیا کہتی چلی گئ۔
“نمی تم مجھے یہ بتاؤ کہ آخر تمہیں اعتراض کس بات پر ہے؟؟ کمی کیا ہے بھائی میں؟؟” سارہ سنجیدگی سے کہتی اس سے کچھ فاصلے پر بیڈ پر بیٹھ گئ۔
“ہائیں! یہ تم پوچھ رہی ہو مجھ سے؟؟ تم خود نہیں جانتی کیا؟؟ دیکھتی نہیں ہو ہر روز کیسے گھر میں تماشا ہوتا ہے؟؟ ہر وقت تو وہ مجھ سے جھگڑتا رہتا ہے۔ میری ہر بات پر اعتراض ہوتا ہے اسے۔ اگر اس کا بس چلے نا تو میری سانسوں کے چلنے پر بھی پابندی لگا دے۔ اور کبھی اس کی شکل دیکھی ہے؟؟ ہر وقت بارہ بجے رہتے ہیں۔ غصہ ایسے ناک پر رہتا ہے جیسے کڑوے کریلے چبا رکھے ہوں۔ سال میں کبھی ایک بار ہی مسکراتا ہو گا شاید، جیسے مسکرانے پر بھی ٹیکس لگتا ہے۔ اور اس دن رومینٹک سینز کی پریکٹس کرتے ہوئے ایک رومینٹک لائن تک تو بولی نہیں گئ اس سے۔ نہایت ان رومانٹک انسان ہے۔ جبکہ میرے اتنے خواب ہیں۔ مجھے ایسے شخص سے شادی کرنی ہے جو رومینٹک ہو، مجھ سے محبت بھری باتیں کرے، میری تعریفیں کرے۔ تمہارے بھائی کو تو مجھ میں ہر وقت کیڑے ہی نظر آتے ہیں بس۔ ” نمرہ بولنے پر آئ تو بولتی چلی گئ۔ جبکہ اس کی سب باتوں پر سارہ سر جھکائے اپنی ہنسی ضبط کرنے لگی۔
“اف بھولی گڑیا! جب تک کسی کو قریب سے جان نہیں لیتے اس وقت تک اس کے بارے میں اندازے نہیں لگانے چاہئیں۔ بھائی صرف اوپر سے ہی سخت گیر نظر آتے ہیں،اندر سے بہت سوفٹ ہے ان کا دل۔ تمہیں ڈانٹتے اس لیے ہیں کہ تم یہ بچپنا چھوڑ کر تھوڑی میچیور ہو جاؤ تاکہ تم جیسی معصوم لڑکی کا یہ دنیا والے ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ ویسے بھی وہ بے چارے تو اکثر بے قصور ہوتے ہوئے تمہاری وجہ سے ڈانٹ بھی کھا لیتے ہیں بابا سے۔ جھگڑے میں بھی پہل اکثر تمہاری طرف سے ہی ہوتی ہے۔ اور رہی بات رومینٹک ہونے کی تو میاں بیوی کا رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس میں رومینس خودبخود آ جاتا ہے۔ ابھی بھائی کا تم سے کوئی ایسا رشتہ ہی نہیں ہے تو وہ ابھی سے کیسے خود کو رومینٹک ثابت کریں؟؟ اتنی جلدی رائے قائم مت کرو۔ دو ہفتے مزید ہیں اس کے بعد بتانا بھائی تمہاری امیدوں پر پورے اترے ہیں یا نہیں۔ ” سارہ نے نرمی سے اس کا گال چھوتے ہوئے اسے سمجھانا چاہا تھا۔ نمرہ کے چہرے پر ہلکی سی سرخی جھلکنے لگی۔ چند پل۔کو وہ کچھ بول ہی نہ پائ۔
“لیکن میرے اتنے خواب تھے کہ ایک دن کوئی نیلی آنکھوں والا شہزادہ اچانک میری ذندگی میں آئے، مجھے دیکھے اور دیکھتے ہی فدا ہو جائے، ہر جگہ میرا پیچھا کرے، پھر اس کی مجھ سے شادی ہو، شادی کے بعد مجھے پتا چلے کہ اس نے کوئی پرانا بدلہ لینے کی خاطر مجھ سے شادی کی۔ کچھ عرصہ تک وہ مجھ پر ظلم ڈھائے، میرے ساتھ برا سلوک کرے، میں پھر بھی اس سے محبت کروں اور پھر دھیرے دھیرے اسے بھی میری محبت سے محبت ہو جائے۔ اور یوں آخر میں ہم ہنسی خوشی رہنے لگیں۔ میرے سارے خواب تو مٹی میں مل گئے نا۔” نمرہ اب ایک اور مسئلہ سامنے لے آئ تھی۔ سارہ اس کی باتوں پر سر پیٹ کر رہ گئ۔
“بیوقوف لڑکی! اللّہ نہ کرے کہ کبھی تمہارے ساتھ یا کسی بھی لڑکی کے ساتھ ایسا ہو۔ یہ سب ناولز اور فلموں میں ہی اچھا لگتا ہے۔ حقیقت میں تو اگر آپ کا شریک حیات آپ کو ذرا سا نظرانداز بھی کر دے نا تو جان لبوں پر آ جاتی ہے۔ گھر ہمیشہ بستے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں اور گھر کے مکین ہنستے ہوئے۔ ایسے ناولز کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اگر کسی کیس میں لڑکی سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو اس کی سزا ساری عمر بھگتنی پڑتی ہے اسے۔ کبھی بات بات پر بے عزت ہو کر، کبھی تھپڑ کھاتے ہوئے اور کبھی طعنے سنتے ہوئے۔ اور یہ سزا اس کے قبر میں جانے تک برقرار رہتی ہے۔ سزا ملنے کے بعد بھی اس کا ذکر نفرت سے ہی کیا جاتا ہے۔ یہ مردوں کا معاشرہ ہے میری جان، جہاں عورت کی غلطی کی کوئی معافی نہیں ہوتی۔ اس لیے اپنے لیے خیر مانگا کرو، ایک اچھا ہمسفر جو تمہیں عزت دینا جانتا ہو، تمہاری عزت کروانا جانتا ہو۔ یہ جو ناولز میں لڑکی کو مارتے پیٹتے ہیں، ان سے بدلہ لینے کے لیے شادی کرتے ہیں وہ کبھی ان کی عزت نہیں کرتے۔ ان سب باتوں کو صرف ناولز تک ہی محدود رکھو۔ اصل زندگی میں یہ سب اللّہ سے مت مانگو۔ ” سارہ نے نرمی سے اس کے چہرے پر آئ بالوں کی لٹ کو اس کے کان کے پیچھے اڑسا۔ کہنے کو وہ نمرہ سے ایک سال چھوٹی تھی لیکن کالج جا کر، وہاں رنگ برنگے اسٹوڈنٹس کو دیکھ کر وہ دنیا کو اچھا خاصا جاننے لگی تھی اور کافی حد تک سمجھدار بھی ہو گئ تھی۔
“لیکن ایسے تھوڑی نا رشتہ ہوتا ہے اور شادی کر دی جاتی ہے۔ پہلے لڑکا لڑکی آپس میں ملتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے ان کی دوستی ہوتی ہے، دوستی محبت میں بدلتی ہے، پھر لڑکا رشتہ بھیجتا ہے تو خاندان والے ظالم سماج بنتے ہیں، اور پھر بڑی مشکلوں سے ان کی شادی ہوتی ہے۔ ہماری کہانی تو بالکل ہی بورنگ بنا دی ہے گھر والوں نے۔” نمرہ کی سوئ وہیں اٹکی تھی ابھی تک۔
“پگلی تمہیں تو شکر کرنا چاہیے کہ بھائی جیسا رشتہ مل گیا ہے تمہیں۔ یہ دیکھ دکھائ کے جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ورنہ تم کیا جانو ان معصوم لڑکیوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہے جن کے بردکھوے کے لیے لوگ آتے ہیں، آ کر کھاتے پیتے ہیں، لڑکی کو نظروں سے ٹٹول کر ڈھیر ساری خامیاں گنوا کر چلتے بنتے ہیں۔ اور ہر بار بے چاری لڑکیاں خون کے آنسو پیتے ہوئے خود کو شو پیس کی طرح اجنبی لوگوں کے سامنے پیش کر دیتی ہیں اس امید پر کہ شاید اب کی بار کوئی بات بن جائے۔ تم بہت لکی ہو میری جان! ویسے بھی کتنی اچھی بات ہے کہ تمہیں شادی کے بعد اپنے پیرنٹس اور اپنے گھر کو چھوڑ کو کہیں نہیں جانا پڑے گا۔ تم یہیں رہو گی اسی گھر میں، تمہیں خود میں سسرالیوں کی پسند کے مطابق تبدیلی نہیں لانی پڑے گی۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ مرتضٰی بھائی خود بھی تمہیں پسند کرتے ہیں۔ ” سارہ دھیرے دھیرے اس کی برین واشنگ کر رہی تھی تاکہ وہ خود کو اس شادی کے لیے تیار کر لے۔
“پسند کرتا ہے؟؟ وہ کھڑوس؟؟ اور وہ بھی مجھے؟؟ تم پاگل ہو گئ ہو شاید۔ اگر تایا ابا کے اتنے سخت آرڈر نہ ہوتے تو وہ بھی کبھی مجھ سے شادی کے لیے راضی نہ ہوتا۔ ” نمرہ سارہ کی آخری بات ماننے سے انکاری ہوئی۔
” تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں؟؟ بھائی کو مت بتانا تم۔ تم سے شادی کی بات بھائی نے ہی کی تھی دادو سے۔ اور پھر دادو نے بڑوں کو اس بات پر راضی کیا۔ میں نے خود دادو اور بھائی کی باتیں سنی تھیں۔ لیکن اس سے پہلے ہی تمہارے لیے بھائی کی آنکھوں سے جھلکتی پسندیدگی دیکھ چکی تھی میں۔ ایک تم ہی جھلی ہو جسے خبر نہیں ہو سکی۔” سارہ آج نئے انکشافات کر رہی تھی۔ جبکہ دروازے سے باہر کھڑا مرتضٰی اپنی بہن کی چالاکی پر دانت پیس کر رہ گیا۔ نمرہ کتنی ہی دیر کچھ بول ہی نہ سکی۔
“اب تم یہ فضول کی فکریں چھوڑو۔ اور ریلیکس ہو جاؤ۔ شادی ایک بار ہی ہونی ہوتی ہے زندگی میں اسی لیے شادی سے پہلے کے یہ خوبصورت دن انجوائے کرو۔ یوں کڑھتے ہوئے انہیں ضائع مت کرو۔ اور اس شادی کے لیے اپنا ذہن ابھی سے بنانا شروع کر دو۔” سارہ کو لگا تھا وہ نمرہ کو سمجھانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
“ہاں لیکن لو اسٹوری میں تھوڑا ٹوئسٹ بھی تو ہونا چاہیے نا۔ شادی میں دن بھی کم رہ گئے ہیں۔ اب تو کوئی اور ہیرو بھی نہیں آ سکتا۔ ارے ہاں! ایک آئیڈیا ہے۔ اگر عین نکاح کے دن میں برائیڈل روم میں گھونگھٹ گرائے بیٹھی ہوں، مولوی صاحب نکاح کے لیے میرے پاس آ چکے ہوں تبھی تڑاتڑ ہوائ فائرنگ کی آواز سنائی دے اور ایک ہینڈسم سا مرد اپنے گارڈز کے ساتھ آ کر شادی رکوا دے۔ تمام مہمانوں کو گن پوائنٹ پہ رکھ کر وہ سب کے سامنے زبردستی مجھ سے نکاح کر لے تو کیسا رہے گا؟؟ ہائے اللّہ! اگر ایسا ہو جائے تو کتنا مزے آئے گا قسم سے۔” نمرہ تصور میں یہ منظر دیکھ کر خوشی سے اچھل ہی تو پڑی تھی جبکہ سارہ کڑی نگاہوں سے اسے گھورنے لگی۔
“ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟ کچھ غلط کہہ دیا کیا میں نے؟؟” وہ سارہ کی ایسی نظروں پر گڑبڑائ۔
“ترس آ رہا ہے مجھے اپنے بھائی کی قسمت پر۔ ظلم تو واقعی ہو رہا ہے لیکن تمہارے ساتھ نہیں میرے بھائی کے ساتھ۔ ” اتنی دیر سے وہ جو نمرہ کو سمجھا رہی تھی اس کی آخری بات پر طیش میں آ گئ۔ تبھی اس سے مزید کوئی بات کیے بغیر ناراضگی کے اظہار کے طور پر اپنے بیڈ پر گرتے ہوئے سرہانے میں منہ چھپا لیا جبکہ نمرہ یہی سوچتی رہ گئ کہ اس نے ایسا کیا کہہ دیا جو سارہ یوں غصہ کر گئ۔ دروازے سے باہر کھڑا مرتضٰی سر جھٹکتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا لیکن اس بار گھر سے نکلتے وقت اس کے چہرے پر گہری سوچ کی پرچھائیاں تھیں۔
“مرتضٰی! کیا کر رہے ہو جلدی کرو۔۔۔” نمرہ بیگ کندھے پر لٹکائے مرتضٰی کے کمرے کے دروازے پر ہی رک کر اس سے مخاطب ہوئی۔
“تم گاڑی میں بیٹھو جا کر۔ میں بس آ رہا ہوں۔” وہ آئینے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا۔ آئینے میں ہی نظر آتے اس کے عکس پر نگاہ جما کر مخاطب ہوا۔ جواب میں وہ اوکے کہتی چلی گئ۔
شادی میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ نمرہ کو مایوں بٹھا دیا گیا تھا اور مرتضٰی سے بھی اس کا سخت پردہ کروایا جا رہا تھا تبھی نمرہ نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا۔ اس سے پہلے اس کی اور سارہ کی تمام شاپنگ اس کی مما اور تائ ہی کرتی تھیں لیکن نمرہ نے ضد پکڑ لی تھی کہ شادی کا جوڑا وہ مرتضٰی کے ساتھ جا کر خود لے گی۔ اب جبکہ وہ مایوں بیٹھ چکی تھی ایسے میں اس کے گھر سے نکلنے کی بات پر خاصا اعتراض کیا گیا تھا لیکن وہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی۔ صاف کہہ دیا سب سے کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئ تو وہ عین شادی کے دن نکاح کے وقت انکار کر دے گی اس شادی سے۔ اس کی اس ضد کی بابت جب مصطفٰی صاحب کو علم ہوا تو نہ جانے کیا سوچ کر انہوں نے اجازت دے دی۔۔۔ اور آج وہ مرتضٰی کے ساتھ مارکیٹ جا رہی تھی بارات کا جوڑا لینے۔
“ارے ارے آرام سے لڑکی! گر کر چوٹ لگوا بیٹھو گی۔” اسے سیڑھیوں پر اچھلتے ہوئے تیزی سے آتے دیکھ کر صفیہ بیگم(نمرہ کی والدہ) نے ٹوکا۔ لیکن نمرہ کی چال میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ اس کے نیچے آتے ہی صفیہ بیگم نے اوپر سے نیچے تک اس کا تنقیدی جائزہ لیا۔
“یہ کپڑے پہن کر جاؤ گی تم بازار؟؟ اور اتنا سج سنور کر؟؟” انہوں نے خشمگیں نگاہوں سے نمرہ کو گھورتے ہوئے چھری ٹرے میں رکھی۔ وہ اس وقت لنچ بنانے کی تیاری کر رہی تھیں۔
“ہاں تو؟؟ کیا برائ ہے ان کپڑوں میں؟؟” نمرہ نے ایک نظر اپنے لباس کی طرف دیکھا۔ سیاہ کیپری کے ساتھ گھٹنوں تک آتی سیاہ ریشمی قمیض پہن رکھی تھی جس پر بہت خوبصورت کڑھائ ہوئی تھی۔ ساتھ سیاہ دوپٹہ شانوں پر پڑا تھا جبکہ بال کھلے اور چہرے پر لائٹ میک اپ تھا۔ کچھ اس کی رنگت بھی سفید تھی جس پر سیاہ رنگ کا لباس اس کی خوبصورتی کو مزید اجاگر کر رہا تھا۔ اور اسے یوں نک سک سے تیار دیکھ کر صفیہ بیگم کو عجیب سا ڈر لاحق ہو گیا تھا۔ ان کے ہاں ویسے بھی مایوں کے بعد لڑکی کا گھر سے باہر جانا نامناسب سمجھا جاتا تھا۔ یہ تو نمرہ کی ضد پر انہیں ہتھیار ڈالنے پڑے تھے۔
“ابھی جاؤ اور جا کر کپڑے بدل کر آؤ۔ کوئی سادہ سا سوٹ پہننا اور منہ بھی دھو کر آنا۔ غضب خدا کا، مایوں میں لڑکی گھر سے باہر نہیں نکلتی اور یہ محترمہ تیار ہو کر باہر جا رہی ہے۔” صفیہ بیگم نے اس کے لتے لیتے ہوئے حکم سنایا۔ مرتضٰی جو کمرے سے نکلتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہا تھا وہ بھی رک سا گیا۔
” کیوں اماں؟؟ اب کیا میں فقیرنی بن کر چلی جاؤں تاکہ دکاندار مجھے دیکھتے ہی پانچ روپے کا سکہ تھما کر جانے کو کہہ دے۔ شادی کا جوڑا لینے جا رہی ہوں میں۔ ہونے والی دلہن ہوں، تھوڑا سپیشل تو دکھنا چاہیے نا مجھے۔ ” نمرہ کی اپنی ہی منطق تھی۔ صفیہ بیگم کا دل چاہا تھا رکھ کر ایک تھپڑ لگائیں لیکن ضبط کر گئیں۔
” دیکھو نمرہ! بچے مایوں بیٹھنے کے بعد لڑکی کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔۔بلکہ گھر میں بھی سجنا سنورنا نہیں چاہیے اس سے لڑکی پر روپ نہیں آتا۔ اور تم یوں تیار ہو کر باہر جا رہی ہو۔ جاؤ میرا بچہ جلدی سے کپڑے چینج کر کے آؤ۔” صفیہ بیگم نے محبت کی چاشنی لہجے میں سموئ۔
“بس کر دیں اماں! یہ سب پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ میں تیار ہو چکی ہوں اور ایسے ہی جاؤں گی۔ اگر میرا یوں جانا ناگوار گزرتا ہے آپ کو تو ٹھیک ہے میں جاتی ہی نہیں۔ نہ آئے گا شادی کا جوڑا اور نہ ہو گی یہ شادی۔” نمرہ نے بات ہی ختم کر دی۔
“بکواس بند کرو اپنی۔ یہ جو قینچی کی طرح تمہاری زبان چلتی ہے نا کاٹ کر پھینک دوں گی اسے میں۔” صفیہ بیگم ماؤں والے جلال میں آئیں تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ نمرہ تک پہنچ کر اس کی درگت بناتیں مرتضٰی درمیان میں آ گیا۔
“کیا ہو گیا ہے چچی جان آپ کو۔ ایسی بھی کیا برائ ہے اس لباس میں۔ اگر وہ ایسے جانا چاہ رہی ہے تو جانے دیں اسے۔ یہ میں سارہ کی شال لایا ہوں۔ یہ اوپر لے لو تم نمرہ۔” مرتضٰی نے صفیہ بیگم کا غصہ ٹھنڈا کرتے ہوئے نمرہ کو شال تھمائ۔ جسے چند پل کے توقف کے بعد چہرے کے زاویے بگاڑتے ہوئے اس نے تھام لیا تھا۔
“شال اوڑھو اور گاڑی میں جا کر بیٹھو۔ میں آ رہا ہوں۔ ” مرتضٰی نے پھر سے اسے مخاطب کیا تو وہ ایک تیکھی نگاہ ان دونوں پر ڈال کر دھپ دھپ کرتی باہر نکل گئ۔
“مرتضٰی کیوں روکا تم نے مجھے؟؟ آج اس کی طبیعت اچھی طرح صاف کر دیتی میں۔ اتنا مت بگاڑو اسے کہ بعد میں خود پچھتانا پڑے۔” صفیہ بیگم کا دماغ اب بھی گرم تھا۔
“ریلیکس ہو جائیں چچی جان۔ آپ جانتی تو ہیں اسے۔آج کل ویسے ہی چڑچڑی سی ہو رہی ہے وہ۔ ضد میں آ کر ایسے الٹے سیدھے کام کرتی ہے۔ ٹھیک ہو جائے گی۔ ” مرتضٰی نے نرمی سے کہتے ہوئے انہیں کرسی پر لا کر بٹھایا۔
“آثار نظر تو نہیں آ رہے ٹھیک ہونے کے۔” صفیہ بیگم بڑبڑائیں۔
“مجھ پر بھروسہ رکھیں۔ میں سدھار لوں گا اسے۔ آپ بس ٹینشن لینا بند کریں۔ اور اب سے یہ جلنا کڑھنا بند۔ ہماری شادی پر آپ کو بالکل فریش دکھائ دینا ہے۔ اتنی فریش کہ چچا جان کا دل دھڑکا دیں۔۔۔” مرتضٰی نے آخر میں شرارتی لہجہ اختیار کیا جس پر صفیہ بیگم نے جھینپتے ہوئے اسے ہولے سے چپت رسید کی۔
“ہٹ شرارتی۔۔۔ چلو جاؤ وہ انتظار کر رہی ہو گی۔ اگر موڈ بگڑ گیا نا تو سارا غصہ تم پر اتار دے گی پھر۔۔۔” صفیہ بیگم نے کہتے ہوئے آیت الکرسی پڑھ کر اس پر پھونکی تو وہ کی چین انگلی میں گھماتا پورچ کی جانب بڑھ گیا۔
“نمرہ بس بھی کرو اب۔ پورا بک اسٹال خرید لو گی کیا؟؟ ” مرتضٰی کی جھنجھلائ ہوئی سی آواز سنائی دی تھی۔ وہ دونوں آئے تو شادی کا جوڑا لینے تھے لیکن ایک دو جگہ سے جوڑا پسند نہ آنے پر آگے جاتے ہوئے نمرہ کو کافی دور ایک بک اسٹال دکھائ دے گیا اور بس۔ وہ سب چھوڑ چھاڑ کر دیوانہ وار اس بک اسٹال کی جانب بڑھی اور ناولز خریدتی چلی گئ۔ دس سے پندرہ ناولز وہ خرید چکی تھی جبکہ ابھی مزید ناولز منتخب کر رہی تھی۔
“ہاں تو۔۔۔ اب تم جیسے سڑیل سے شادی ہو رہی ہے تو ظاہر ہے شادی کے بعد بھی لڑائیاں ہی ہوں گی۔ اور جب تم سے لڑائ ہو گی تو تم پیکج تو کروا کے نہیں دو گے مجھے۔ تب بوریت سے بچنے کے لیے ظاہر ہے مجھے ناول تو چاہیے ہوں گے۔ ” نمرہ دور کی کوڑی لائ تھی۔ مرتضٰی کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے لیکن افسوس وہ ایسا کر نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے دونوں ہاتھوں میں بھاری شاپنگ بیگز تھے جن میں ناولز تھے۔
” خدا کا واسطہ ہے یار! چھوڑ دو اب اس اسٹال کی جان۔ بارات کا ڈریس لینا ہے یا تب بھی یہی ناولز پہنو گی؟؟ شادی کے بعد میں خود لا دوں گا تمہیں ناولز۔ ابھی آگے بھی بڑھ جاؤ۔ پتا نہیں اور کتنا خوار ہونا پڑے گا ابھی ڈریس کے لیے۔ ” مرتضٰی جھنجھلایا۔ نمرہ اس کی بات پر منہ بسورتی اس کے والٹ سے رقم نکال کر ناولز کی قیمت ادا کر کے آگے بڑھ گئ۔
بارات کے لیے نمرہ نے بالآخر خوبصورت سا سرخ اور گولڈن لہنگا پسند کر ہی لیا تھا۔ اور مرتضٰی نے شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے قیمت ادا کی۔ اسے میچنگ سینڈلز دلا کر اب وہ دونوں گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے جو یہاں سے کافی فاصلے پر پارک کی تھی تبھی ایک جیولری کے اسٹال پر نمرہ رک گئ۔
“اب کیا ہوا؟؟” مرتضٰی نے اس کے رکنے پر سوال کیا۔
“دیکھو کتنی پیاری جیولری ہے۔ اور یہ ائیرنگز۔۔۔ اف اللّہ۔۔۔” وہ پرجوش سی بولی۔ مرتضٰی کے چہرے ہر بیزاریت جھلکی۔ اسے سخت کوفت ہوتی تھی عورتوں کو شاپنگ پر لے جانے سے۔ لیکن آج وہ پھنس گیا تھا اور بہت برا پھنسا تھا۔
“نمرہ جلدی کرو میرے ہاتھ تھک گئے ہیں۔” جب کافی دیر تک نمرہ وہاں سے ہلی تک نہیں اور مختلف چیزیں اٹھا اٹھا کر دیکھتی رہی تو مرتضٰی کو ٹوکنا پڑا۔ اس کے ہاتھوں میں واقعی درد ہونے لگا تھا اب کہ ناولز کافی بھاری تھے اور ساتھ باقی سب سامان بھی اسی نے تھام رکھا تھا۔ اس کی بات پر نمرہ نے گردن موڑ کر اسے گھورا۔
“ہیرو تو ہیروئین کو بازوؤں میں اٹھا کر اندر لے جاتے ہیں اور پھر بھی نہیں تھکتے۔ تم سے یہ دو شاپنگ بیگز نہیں سنبھالے جا رہے؟؟” وہ اردگرد کی پرواہ کیے بغیر تیز لہجے میں بولی جس پر اسٹال کا مالک بتیسیوں کی نمائش کرنے لگا۔ چند ایک لوگوں نے مڑ کر یہ ڈائیلاگ بولنے والی محترمہ کا دیدار کرنا ضروری سمجھا جبکہ مرتضٰی یوں بھرے بازار میں اس بات پر خفت ذدہ سا ہو گیا۔ وہ سکون سے اپنے سابقہ مشغلے میں مصروف ہو چکی تھی جبکہ مرتضٰی خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
اف یار! اب اس گاڑی کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔” واپسی پر جب ایک سنسان سی سڑک پر ان کی گاڑی ہچکولے کھاتی رک گئ اور اس نے چلنے سے انکار کیا تو مرتضٰی کی بیزاریت بھری آواز ابھری۔
“تمہاری گاڑی ہے تو ظاہر ہے تمہارے جیسی نکمی اور ناکارہ ہی ہو گی نا۔” نمرہ طنز کرنے سے باز نہیں آئ تھی۔ مرتضٰی نے اسے ایک گھوری سے نوازا۔ پھر بغیر کچھ کہے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ زور سے دروازہ بند کرتے ہوئے وہ گاڑی کے سامنے آیا۔ آج کا دن ہی شاید خراب تھا۔ کتنا خوش تھا وہ آج صبح کہ نمرہ جو پچھلے چند دنوں سے اس سے پردہ کیے ہوئے تھی آج اسے دیکھ سکے گا۔ اس کا موڈ انتہائ خوشگوار تھا لیکن بازار آ کر نمرہ کی حرکتوں نے اسے پھر سے غصہ دلا دیا تھا۔ اوپر سے اب یہ گاڑی کا مسئلہ۔
منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے وہ بونٹ اٹھاتا گاڑی کا معائنہ کرنے لگا۔ نمرہ بھی کوفت ذدہ ہوتی سیل فون کی جانب متوجہ ہو گئ۔ چند لمحوں بعد مرتضٰی اس کی طرف آیا۔
“نمرہ! ریڈی ایٹر سے پانی ختم ہو گیا ہے جس کے باعث انجن ہیٹ اپ ہو چکا ہے۔ مصیبت یہ کہ گاڑی میں پانی بھی نہیں ہے۔ ” مرتضٰی نے نمرہ کو مشکل بتائ۔ نمرہ نے غصے سے اسے دیکھا۔
“تو؟؟ اب ؟؟” ابرو اچکا کر سوال کیا تھا۔
“ایک ہی حل ہے اب۔ پیچھے جو پل کراس کیا ہم نے پانی تو وہیں سے ملے گا۔ میں پانی لینے جا رہا ہوں تم دروازہ لاک کر لو اور گاڑی کے اندر ہی رہنا۔” مرتضٰی نے پانی کی گیلن تھامتے ہوئے اسے ہدایت کی۔
“میں بھی چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔ میں اکیلی یہاں کیسے؟؟” نمرہ ہڑبڑائ تھی تبھی جلدی سے گاڑی سے نکلی۔ پہلے کبھی ایسا موقع نہیں آیا تھا تبھی وہ یوں سڑک پر اکیلے پن سے گھبرا گئ تھی۔
“پاگل ہو کیا؟؟ تم میرے ساتھ چلو گی تو یہ جو گاڑی میں سامان ہے اس کا کیا؟؟ جانتی ہو تمہارا جوڑا کتنا مہنگا آیا ہے۔ ” مرتضٰی نے اسے لتاڑا۔ نمرہ کا رونے والا منہ بن گیا۔
“پریشان مت ہو صرف پانچ منٹ کی مسافت پہ ہے پانی۔ میں جلد آ جاؤں گا۔ تم گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ ” مرتضٰی نے اسے تسلی دی اور پھر وہاں سے پیچھے کی جانب چل دیا۔ نمرہ لب کاٹتی گاڑی میں آ بیٹھی لیکن اب کی بار نہ جانے کیوں دل میں عجب سا خوف بیٹھ گیا تھا۔ وہ کافی دیر تک مرتضٰی کا انتظار کرتی رہی۔ فون پر کسی ناول کا پی ڈی ایف کھول کر خود کو بہلانا چاہا لیکن بے سود۔ تنگ آ کر وہ موبائل وہیں سیٹ پر پٹختی باہر نکلی۔
“یہ مرتضٰی کا بچہ پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے۔ ویسے کہہ رہا تھا پانچ منٹ کی مسافت پر پانی ہے ۔ اب بیس منٹ ہو گئے ہیں اور ابھی تک نہیں آیا ۔” وہ جھنجھلائی۔ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر نظر دور تک دوڑائ لیکن مرتضٰی کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ وہ مڑنے ہی والی تھی جب اس کے عقب سے کوئی ہاتھ آگے آیا اور ایک سفید رومال اس کے منہ اور ناک پر رکھ کر دبایا گیا۔ اس نے مزاحمت کرنی چاہی تھی لیکن گرفت خاصی مضبوط تھی۔ وہ مقابل کا چہرہ بھی نہ دیکھ پائی اور چند ہی لمحوں میں ہوش و خرد سے بے گانہ ہو چکی تھی۔۔۔