وہ روتی ہوئی بس بولتی چلی گئی……
”تمھیں پتہ ہے صفان علی! کسی کو زندہ درگور کرنے کے برابر ہے کہ آپ اُس کی دل شکنی کریں اور ایک بار نہیں بار بار کریں۔ کبھی تم نے سوچا ہے صفان! کہ بار بار تمھارے ہی ہاتھوں تذلیل کیوں کرواتی ہوں، کیوں کرچی کرچی ٹوٹا دل جوڑ کے پھر سے تمھارے ہی ہاتھوں میں دیتی ہوں؟ جب کوئی اپنا آپ ہمیں کھلونے کی طرح سونپتا ہے نا! تو اس کے مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بے وقوف ہے …… دراصل وہ اپنی محبت کو کندن بنا دیتا ہے آپ اپنا جلا جلا کے…… تم نے بھی میری محبت کو کندن بنا دیا ہے صفان! اور اب یہی کندن تمھاری روح پر ٹپکتا رہے گا ایندھن بن کے…… احساسِ ندامت میں جلو گے تم ایک دن……اور ہاں آیندہ کسی کی اتنی ہی ہتک کرنا کہ جو بعد میں احساسِ گناہ نہ بنے …… ورنہ پچھتاوے عمر بھر کے روگ بنتے دیر نہیں لگتی…… صفان علی!“
دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔ شاید وہ کسی سکتے میں تھا یا فون سائیڈ پر رکھ چکا تھا، لیکن ادیوا نے بس آخری جملے بولے اور فون بند کر دیا۔
”صفان علی! میں تمھیں وہ سب معاف کر سکتی تھی، جو تم نے اپنا یک طرفہ فیصلہ مجھ پر مسلّط کیا تھا، لیکن میں تمھیں یہ تین سال کبھی معاف نہیں کروں گی، جو تم نے مجھے جھوٹی محبت کا یقین دلانے میں لگائے…… مجھے یہی کہتے رہے کہ اگر میں کسی اور سے شادی کروں، تو تمھیں دکھ ہو گا، تم hurt ہو جاؤ گے، کتنے خودغرض انسان نکلے تم…… میں نے تو اپنے لیے تنہائیاں چُن لیں، پر تمھیں یہ دُکھ نہیں دیا۔“
اب ادیوا کے ضبط کی حد ختم ہو گئی تھی…… وہ ٹوٹ گئی تھی ایک بار پھر…… اور آج وہ ایسے روئی تھی جیسے صفان علی نے آج اُسے اپنی زندگی سے بے دخل کیا ہو……
ادیوا کو صفان علی کی طلاق آج سنائی دی تھی۔ تین سال اُس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے رُسوائی ہاتھ آئی بس……
اگلے دن ہی ادیوا نے پہلی فلائٹ لی اور پاکستان واپس آ گئی۔
صفان علی کا آسیب جا چکا تھا۔ اُس کے دل سے اب اُس آسیب کے اثرات کا عمل رہ گیا تھا۔ وہ اُس کے اثرات کو زائل کرنے کی ناکام کوششوں میں تھی۔ دو سال کا مزید عرصہ پاکستان واپس آ کر اُسے پل پل خود سے لڑنا پڑا……
٭٭٭
”ادیوا! چلو بیٹا! جلدی سے ریڈی ہو جاؤ…… تمھارے ماموں کی فلائیٹ کا ٹائم ہو رہا ہے۔“
فلائٹ لینڈ ہونے کے کچھ ہی دیر بعد شجاع ماموں اپنی فیملی کے ہمراہ باہر آئے، تو آگے عمر حیات کے سب گھر والوں نے اُن کا بہت پُرتپاک استقبال کیا۔ عنائیہ، ہانیہ دونوں ہی بہت decent لگ رہی تھیں، باپردہ اور بالکل الگ سی چمک اُن کے چہروں پرتھی۔ ذریاب شجاع بہت ہی مودب طریقے سے عمر حیات اور مسز عمر حیات سے پیش آیا۔ اشعر اور حادی کے ساتھ بالکل سلجھے ہوئے انداز میں بات چیت کرتا رہا، اُسے دیکھ کے لگتا ہی نہیں تھا کہ مغربی ملک میں رہتے ہوئے اُس نے وہاں کی ثقافت اور طور طریقوں کا کچھ رتی برابر بھی اثر اپنی شخصیت پر ہونے دیا ہو۔ اس کی عینک کے پیچھے چھپی آنکھوں میں اتنی حیا تھی، جیسے کہ ایک مرد کی آنکھوں میں ہونی چاہیے۔ نظر کا چشمہ اُس کے چہرے پر ایسے سوٹ کر رہا تھا، جیسے اُس کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہو۔ سب سے رسمی ملاقات کے بعد وہ ادیوا کی طرف متوجہ ہوا، جو عنائیہ اور ہانیہ سے باتوں میں مصروف تھی۔
”السلام علیکم …… ادیوا! کیسی ہیں آپ؟“
وہ ادیوا کو جن نظروں سے دیکھ رہا تھا، اُس سے صاف صاف عزت اور تکریم کی جھلک نمایاں تھی۔
”جی ذریاب! میں ٹھیک ہوں کیسا رہا آپ کا سفر؟“
”الحمداللہ! کرم ہے اللہ کا …… بہت اچھا رہا سفر۔ حالاں کہ بہت long flihght تھی، مگر you can see we all are fresh“
ادیوا مسکرائی اور پھر سب گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ ایئرپورٹ سے عمرحیات کا گھر مشکل سے بیس منٹ کی ڈرائیور پر تھا۔
ناشتہ کرنے کے بعد مسز عمر نے سب کو ان کے کمرے دکھائے اور پھر وہ لوگ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔ عنائیہ اور ہانیہ کا کمرہ ادیوا کے روم کے سامنے تھا جب کہ ذریاب حادی کے روم میں ایڈجسٹ ہو گیا تھا۔ شجاع ماموں اور ممانی کوگیسٹ روم کے ساتھ والا بیڈ روم دیا گیا،جو کہ اشعر کے روم کے ساتھ تھا۔
ادیوا صبح جلدی اٹھی تھی، تو اس لیے وہ بھی جا کر لیٹ گئی۔ ویسے بھی وہ مشکل سے ایک گھنٹہ بھی نہیں سو پائی تھی۔ رات کا جاگنا تو اب جیسے اُس کی قسمت میں لکھا جا چکا تھا۔
ادیوا کا کمرا چوں کہ بالکل کارنر پر تھا، اس لیے وہ سب سے زیادہ تاریک تھا۔ وہاں پردے ہٹا کے بھی روشنی نہ ہونے کے برابر اندر آتی۔ باقی کچھ اندھیرے اُس کے اپنے پھیلائے ہوئے تھے۔ خیر وہ مزید اندھیرے کے لیے لائٹ آف کر کے لیٹ گئی۔ اتنا اندھیرا تھا کہ کمرے میں کیا چیز کہاں ہے، کچھ اندازہ ہی نہ ہوتا تھا بالکونی ذرا سائیڈ پر تھی اور اس کے آگے پردے اتنے بھاری تھے کہ روشنی کی ایک جوت تک اندر داخل نہ ہو سکتی تھی۔ شام ہوئی، تو عنائیہ ہلکی سی دستک کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔
”ادیوا! اتنے اندھیرے اتنے سناٹے سے ڈر نہیں لگتا تمھیں؟ کیسے نیند آ جاتی ہے اپنے کمرے کو قبر بنا کر تمھیں؟ توبہ ہے میرا تو دم گھٹنے لگا ہے ادیوا……! کچھ تو زندگی کے آثار رہنے دو اپنے اردگرد……“
اور عنائیہ نے فوراً لائٹ جلا دی۔
”آپی! آپ کو پتا ہے کہ قبرستان تاریک سنسان کیوں ہوتے ہیں؟ کیوں کہ ان کے اندر لاشیں دفن ہوتی ہیں بے جان لاشیں ……اکثر ویسے ہی قبرستان ہماری اپنی چھوٹی بڑی غلطیوں کے نتیجے میں ہمارے اندر بھی دریافت ہوجاتے ہیں اور پھر اس قبرستان میں ہم اپنی آرزوئیں دفناتے ہیں اور کچھ آرزؤں کو تو اتنی بھیانک موت آتی ہے کہ کفن بھی نصیب نہیں ہوتا…… وہ آرزوئیں بھٹکتی رہتی ہیں ہمارے اندر…… اور مردے بھٹکتے رہیں، تو سناٹے کہاں رہتے ہیں آپی! میرے اندر کی رونق سے تو آپ واقف ہی نہیں ہیں۔“
”اور آپی! کیا واقعی ہی بظاہر نظر آنے والے اندھیرے کے پیچھے آپ کو اس آگ سے نکلتی روشی دکھائی نہیں دیتی…… جو میری روح کے جنگل کو جلا کے راکھ کر رہی ہے؟؟ کیا آپ کو واقعی ہی اندھیرا محسوس ہوتا ہے میرے آس پاس؟“
اب وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے مخاطب تھی۔
”آپی! یہ اندھیرا یہ سناٹے میری قبر کی پہچان ہے۔ آپ میرے کمرے سے فاتحہ پڑھ کے گزر جایا کریں۔ اندر آئیں گی، تو واقعی ہی دم گھٹ جائے گا آپ کا…… کیوں کہ مُردوں کی دنیا میں زندہ لوگ واقعی ہی سانس نہیں لے سکتے……“
وہ اندر ہی اندر خود سے مخاطب تھی کہ عنائیہ کی آواز نے اُسے چونکا دیا۔
”ادیوا! تمھیں پتا ہے کہ تمھیں اس حال میں دیکھ کر ہم سب کو تکلیف ہوتی ہے۔ پانچ سال کی سزا کوئی چھوٹی سزا نہیں ہوتی اور تم نے کس بنیاد پر زندگی کو روک دیا ہے …… جب تمھیں پتا ہے کہ تم بے قصور تھی، پھر نہ کردہ خطا کی سزا دی گئی ہے ……
(کبھی بھی سزائیں نہ کردہ گناہوں کے نتیجے میں نہیں دی جاتی۔کہیں نہ کہیں رتی برابر سہی ہمارا اپنا بھی قصور ہوتا ہے)۔
تم اپنے ساتھ تو وفا کرو، اپنا آپ تو خود کو سونپ دو۔ پتا ہے اپنی ذات کا سہارا بھی بہت بڑا سہارا ہوتا ہے۔ انسان ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزرتا ہے، تو آخر میں اپنی کرچیاں خود سمیٹ سکتا ہے پھر سے،کسی بے فیض سہارے کی چاہ نہیں رہتی پھر۔“
ادیوا سب کچھ چپ چاپ سنتی رہی۔ عنائیہ کو اُس کا صرف وہ دُکھ پتا تھا، جو پانچ سال پہلے صفان علی نے میڈل کے طور پر اُس کو نوازا تھا۔ عنائیہ اُس سے یکسر لاعلم تھی، جو مسافت اُس نے تین سال اور اُسی سراب کی آرزو میں کاٹی …… اُسے تو خبر تک نہیں تھی کہ ادیوا کی روح کے گھاؤ سالوں کیا صدیوں پر بھی محیط ہوتے، تو بھی ایسے ہی تازہ رہتے جیسے حادثہ کو ہوئے ابھی ایک ہی دن گزرا ہو۔
”آپی! آئیے …… لان میں واک کرتے ہیں۔“ اس نے بات بدل کے کوئی اور موضوع شروع کرنا چاہا۔
”او۔کے! ٹھیک ہے، لیکن میرے خیال سے مغرب کا ٹائم ہو رہا ہے۔ چلو! پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں۔“
ادیوا نے اسبات میں سر ہلایا۔ ادیوا مشکل سے فجر کی نماز پڑھتی تھی۔ وہ بھی اگر اُس کا دل چاہے تو……
عنائیہ اور اس کے گھر کا ایک ایک فرد پانچ وقت نماز کا پابند تھا۔ پرورش اچھی ہو، تو اُسے کسی کے ثبوت یا گواہی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ خود اپنا آپ محسوس کرواتی ہے۔ مسز عمر اور عمرحیات دونوں نماز کے پابند تھے، مگر ان کے بچے اس لائن سے ذرا ہٹ کے مرضی کے مالک تھے۔
رات کے کھانے کے بعد سب لاؤنج میں موجود تھے کہ ممانی نے سب کے لیے تحائف نکالے اور اشعر، حادی اور ادیوا کو دیے۔ ادیوا کے لیے ایک اسلامک کیلی گرافی کا canvas تھا جس پر قرآن پاک کی بہت خوبصورت آیت اُردو ترجمے کے ساتھ بہت ہی خوبصورت انداز میں لکھی ہوئی تھی۔ آرٹسٹ کا ہنر اور قرآن پا ک سے محبت صاف صا ف دکھائی دے رہے تھے جس خوبصورتی سے اس کی شیڈنگ کی اور کلر کنٹراسٹ منتخب کیاگیا تھا ……وہ سب بہت خوبصورت تھا۔
ان اللہ مع الصابرین
”اور بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
”ادیوا …… بیٹا! میں چاہتی ہوں کہ آپ اسے اپنے کمرے میں لگاؤ۔ آپ کے روم میں مَیں نے کبھی کوئی قرآن پاک یا کوئی اسلامی شیلڈ اور فریم نہیں دیکھے۔ ایسی چیزیں گھر میں لگانے سے برکت رہتی ہے۔“
”جی ممانی! میں آج ہی لگاتی ہوں بہت اچھا canvas ہے۔thank you very much.“
اب ادیوا، عنائیہ اور ہانیہ ادیوا کے روم میں بیٹھی گپ شپ میں مصروف تھیں۔ وہ دونوں اپنے کالج اوریونی ورسٹی کے قِصّے سنانے میں مصروف تھیں کہ اچانک حادی اور ذریاب اندر آئے۔
”ارے بھئی! ہم لوگ وہاں بور ہو رہے ہیں اور آپ لوگ یہاں ہو۔ that’s not fair۔“ حادی گلا کرنے لگا۔
”تو آپ لوگ بھی تشریف رکھیں نا!“ عنائیہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
اب وہ دونوں آپس میں باتوں میں مصروف ہو گئے اور ادیوا، ہانیہ سے باتوں میں مصروف ہو گئی۔ ادیوا کا بولنے کا، بات کرنے کا انداز اتنا اچھا تھا، اتنا دھیما، دیکھنے والا اور سننے والا دونوں ہی محصور ہو جاتے۔
ذریاب شجاع نا چاہتے ہوئے بھی ادیوا کو دیکھتے رہنے پر مجبور ہوتا گیا۔ کچھ بات تھی کچھ الگ تھا اس میں، اُس کے چہرے کا پُرنور ہونا، اُس کے لہجے کا شائستہ پن، اس کی آنکھوں کی حیاء…… سب کچھ ہی تو سحر انگیز تھا۔
کبھی کبھی کچھ چیزیں ہمارے اختیار سے بہت دُور جا کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ہماری پہنچ سے کہیں دور…… اور ایسے ہی جذبات ذریاب شجاع کے تھے۔ ادیوا کے لیے…… جنھیں وہ اپنے اختیار میں لانے کی سر توڑ کوشش میں تھا۔
اگلے دن سب کا پلان تھا کہ شام کی چائے کے بعد lake view park کا وِزٹ کیا جائے۔ کھانے کے بعد ادیوا، عنائیہ اور ہانی کے ساتھ اوپر کمرے میں آ گئی۔ ہانیہ شام کے لیے کوئی ڈریس منتخب کرنے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”ادیوا! ظہر کی نماز پڑھ لی؟؟“
عنائیہ اُس سے مخاطب ہوئی تھی۔
”جی آپی! پڑھتی ہوں ……“‘
”پڑھتی ہوں نہیں …… ابھی وضو کر کے آؤ۔ میں بھی آ رہی ہوں آج میں نماز تمھارے روم میں پڑھوں گی۔“
ادیوا نے وضو کیا اور نماز پڑھی…… اُسے ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا کہ اُس نے پورے چار فرض پڑھے بھی ہیں یا نہیں …… کیوں کہ اُس کا دھیان نماز کے دوران ہی صفان علی کی طرف چلا گیا تھا اور پھر وہ بس سجدے کر رہی تھی۔ جانے کس کے خیال میں، گمان میں تھی۔ یہ سب عنائیہ دیکھ رہی تھی۔ وہ اچھی طرح واقف تھی کہ کیا ہو رہا ہے اور ادیوا کس مرحلے سے گزر رہی ہے۔
اب ادیوا نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور گم صم ہو گئی کہ اچانک عنائیہ کی آواز آئی اور وہ چونک گئی……
”اصل تنہائی تو اب تم پر آئی ہے ادیوا……! دیکھو اپنے خالی ہاتھوں کو…… تمھیں تو حرفِ دعا بھی یاد نہیں …… پورے دن کی نمازوں کا کوئی ایک بھی لمحہ ایسا بتاؤ جس میں تم نے اپنے رب کو سجدہ کیا ہو اور وہ تمھیں تمھارے سامنے محسوس ہوا ہو۔تمھارے دل کو سکون ملا ہو کہ ہاں وہ ہے تمھیں سنبھالنے کے لیے…… وہ ایک لمحہ بتاؤ جب تم نے خودکو اللہ کے حوالے کیا ہو؟ تم نے اپنا رب بھی گنوا دیا ایک انسان کی محبت کے پیچھے ادیوا……! تمھارے رکوع، سجود اللہ کی محبت سے خالی ہو گئے ہیں۔ تمھارا دل بت پرست ہے، تمھارے سجدے اللہ کے آگے اور دل اس سفاک انسان کی محبت کے لیے تڑپتا ہے۔ ادیوا! کس منہ سے اللہ کے آگے ہاتھ پھیلائے بیٹھی ہو۔ اپنی عبادتوں کا قبلہ تو درست کرو…… اپنے دل سے دنیا کی خواہشیں تو نکالو……“
وہ بولتے جا رہی تھی۔
”میں سچ کہہ رہی ہوں ادیوا! مجھے تمھاری اس حالت سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔“
اُس کی آواز بھر آئی……
”اور میں تمھیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتی……“
وہ اُٹھ کے کمرے سے فوراً چلی گئی ……
ادیوا کا دل چاہا کہ وہ زور زور سے روئے، اتنا روئے کہ اس کی آنکھوں سے صفان علی کی محبت کے خواب ریزہ ریزہ ہو کر بہہ جائیں …… وہ بھاگ جائے کہیں دُور کسی جنگل کسی ویرانے میں …… زور زور سے پکارے اپنے رب کو اُسے واسطے دے، اُس سے کہے۔
”مجھے اپنا سہارا دے دے اے اللہ……! اے اللہ! میرے دل کو اپنی محبت سے بھر دے……“
محبت بھی کتنی عجیب چیز ہوتی ہے نا…… ہوتی بھی ہے تو اپنے ہی جیسے بے بس انسانوں سے…… جنھیں نہ نباہ کا پتا، نہ وفا کا……
عنائیہ کی باتیں اُس کے ذہن میں آ کر ایسے ہی قابض ہو گئی تھیں جیسے اُنھیں ادیوا کی مرضی کی بھی پرواہ نہیں، ادیوا انھیں اپنے ذہن میں رکھنا بھی چاہتی ہے یا نہیں۔ وہ باتیں ذہن کے ہر پنہاں خانوں میں جا کر چھپ گئی تھیں، جو وقفے وقفے سے باہر آتیں اور اپنے ہونے کا احساس دلا کر پھر چھپ جاتیں۔
جب کوئی سوچ اس طرح سے آنکھ مچولی کھیلتی ہے نا! تو وہ تب تک ذہن سے نہیں جاتی جب تک وہ ذہن نشین نہ ہو جائے۔ وہ زبردستی کا قبضہ نہیں چاہتی، وہ اپنے پورے مقام اور رُتبے کے ساتھ خود کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور پھر وہ مطالبے تو ہر حال میں ماننے پڑتے ہیں جن کا تعلق ہمارے ذاتی سکون سے ہو۔
lake view سب نے ہی بہت انجوائے کیا اور ذریاب ادیوا سے مسلسل باتیں کرنے کی کوشش کرتا رہتا، وہ کسی چھوٹی سی بات میں بھی ہاں، نہیں کر دیتی، تو وہ اسی میں خوش ہو جاتا۔
اگلے دن ماہا کا فون آیا اور اس نے ادیوا کو گھر آنے کا کہا۔ اُس کے گھر میں کوئی درس و تدریس کی محفل تھی کچھ دن بعد، اس سلسلے میں اسے ادیوا کی ہیلپ چاہیے تھی۔ ادیوا نے مسز عمر سے جانے کی اجازت لی اورانھوں نے عنائیہ کو ساتھ لے جانے کا مشورہ دیا۔ عنائیہ کا حادی کے ساتھ شاپنگ پہ جانے کا پلان تھا، اس لیے وہ ادیوا کے ساتھ نہ جا سکی۔ مسز عمر نے ذریاب سے ادیوا کو ماہا کی طرف ڈراپ کرنے کو کہا اور وہ خوشی سے راضی ہوگیا۔
ذریاب شجاع کی عادتیں بالکل عام لڑکوں سے مختلف تھیں۔ ایک تو وہ کام کی بات کرتا اور بلاوجہ frank ہونے کی کوشش نہ کرتا۔ اس کی face reading اچھی تھی، اس لیے وہ اندازہ لگا لیتا کہ اگلا بندہ اس سے بات کرنے میں کتنا انٹرسٹڈ ہے۔ ادیوا کے معاملے میں وہ اور بھی زیادہ محتاط ہو جاتا، کیوں کہ وہ اسے خود سے بیزار ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ دل میں اس کے لیے جو بھی جذبات رکھتا تھا، اُنھیں ادیوا تک پہنچانے کی کبھی کوششیں نہ کرتا، ویسے بھی جذبات میں سچائی ہو، تو محسوس اپنے آپ ہو جاتے ہیں۔
وہ ظہر کی نماز ادا کر کے گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا اور ادیوا کا انتظار کرنے لگا۔
ادیوا میں اس دن عنائیہ کی باتوں کے بعد ایک change آیا تھا کہ وہ نماز باقاعدگی سے پڑھنے لگی۔کوشش کرتی تھی کہ دھیان اِدھر اُدھر نہ بھٹکے، کبھی اُسے کامیابی ملتی اور کبھی وہ ناکام ہو جاتی۔
جب دل سال ہا سال تاریکیوں میں گھِرے رہے ہوں، تو ان کے اندر کی کالک اترنے میں کچھ وقت تو لگتا ہے۔
ذریاب ادیوا سے ڈائریکشن پوچھ کر ڈرائیو کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ ایک دم سے گاڑی سائیڈ پر روک کر تیزی سے باہر نکلا۔ ادیوا چوں کہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی سمجھ نہ پائی کہ ہوا کیا ہے؟ کچھ ہی دیر میں وہ ایک بلی کا بچہ اٹھائے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے سے انتہائی پریشانی کے اثرات نمایاں تھے۔ وہ بلی کا بچہ درد کی شدت سے مسلسل چیخ رہا تھا۔
”ادیوا! یہ دیکھو اس کی leg frecture ہے۔ اگر آپ کو دیر نہیں ہو رہی، تو میں اسے پہلے کسی pet ڈاکٹر کے ہاں لے جاؤں؟ پتا نہیں کیسے ظالم لوگ ہیں تکلیف چاہے انسان کی ہو یا کسی بھی اور جاندار چیز کی انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ اُس کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا کہ کون تھا، جو اس کی یہ حالت کر گیا۔“
ادیوا اُس کی یہ حرکت دیکھ کر بہت متاثر ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد ذریاب نے ادیوا کو ماہا کی طرف ڈراپ کیا اور واپس چلا گیا۔
ادیوا اب ماہا کے ڈرائنگ روم میں تھی۔ ماہا شاید کسی کام سے قریبی سپرمارکیٹ تک گئی ہوئی تھی۔ ادیوا قریب ہی پڑی بک شیلف سے کتابوں کا جائزہ لینے لگی۔
اس کی نظر ایک کتاب پر پڑی، جو کہ غالباً شاعری کی کتاب تھی۔ ”اُس نے کہا تھا الوداع“ وہ نام پڑھ کر خود کو نہ روک پائی اور بک اٹھا کر پڑھنے لگی۔
سنُو!
تم کتنے خوش قسمت ہو نا……
محبت کو ٹھکرا بھی دو تو……
کسی کے خواب جلا بھی دو تو……
دھوکا دے دو
رستہ بدل لو……
ہاتھ چھڑا لو
دامن بچا لو
ہنستا بستا دل کسی کا
چپکے سے تم بنجر کر دو
پتھر کر دو آنکھ میں آنسو
کسی کی دنیا کھنڈر کر دو……
سنُو!
تم کتنے خوش قسمت ہو نا……
تم یہ سب کچھ کر سکتے ہو
لیکن
کچھ بدقسمت بھی ہیں
وفا کر کے بھی
نبھا کر کے بھی
جو خالی ہاتھ
اور خالی دامن
صحرا صحرا بھٹک رہے ہیں
دل سے روح تک تڑپ رہے ہیں
خوشیوں کو ترس رہے ہیں
سنو!
تم تو بہت ہی خوش قسمت ہو نا
بس اتنا گر سکھا دو ان کی
اتنی ترکیب بتا دو ان کو
کسی کے دل کے ٹکڑے کر کے
کیسے سکوں سے سو سکتے ہیں
برباد کر کے کسی کی دنیا
کیسے ہم خوش ہو سکتے ہیں ……
اُسے لگا جیسے یہ نظم اُسی کے لیے لکھی گئی ہو۔ لیکن اُس کا ذہن اسی ایک لائن کے بیچ الجھا ہوا تھا۔
”پتھر کر دو آنکھ میں آنسو“