جعفر ساہنی(کلکتہ)
مقیّد سدا کی طرح رہ گئی
رات کی صحبتوں میں
حسیں چاند جب
آسماں پر نزاکت سے چمکا کیا
اجنبی ہوکے بادل کہیں رہ گیا
پھول شبنم سے تر
شاخ کو تھام کر
مسکراتا رہا،
سرد ٹھنڈی ہوا
گرم دھرتی کا تن
شفقتوں سے مسلسل
تھپکتی رہی
گنگناتی رہی
بند کھڑکی سے لیکن کوئی آرزو
چاندنی میں ٹہلنے
محبت سے ملنے
نہیں جا سکی
وہ مقیّد سدا کی طرح رہ گئی!
زندگی
ہر لمحہ تبسم میں گزارا نہیں جاتا
خوشیوں سے مکمل کوئی راحت نہیں پاتا
پوشیدہ تمنّا ہے سکوں خیز جہاں کی
خاموش تکلم میں چہکتی سی زباں سی
طوفان کبھی شور کا پیغام تو دے دے
روشن سے احاطے میں ذرا شام تو دے دے
زخموں کی جواں ٹیس نشہ دیتی ہے پیہم
آئے نہ قریب اس کے شفا دینے کو مرہم
لہروں سے سمندر کی شناسا ہو کنارہ
کانٹوں میں ملے پھول کا مسرور اشارہ
یہ چاند کبھی اوڑھ لے بادل کا دوپٹہ
کچھ حُسن کو محفوظ ملے عشق کا رستہ
جینے میں کسک،درد،خلش،لطف بڑھا دے
اشکوں کی رفاقت میں مسرت بھی مزہ دے