(حیدر قریشی کا ادبی سفر)
حیدرقریشی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔اُردو مراکز سے دورجرمنی میں رہ کربھی وہ ادبی دنیامیں اپنی موجودگی کااحساس گزشتہ چاردہائیوں سے دلاتے آرہے ہیں۔جیساکہ ہم سب جانتے ہیں وہ بیک وقت ایک اچھے محقق،ناقداور تخلیق کارہیں۔لہٰذا ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کاجائزہ لیناکسی عام ناقداورمحقق کے بس کاکام نہیں ہے۔ایسی ہمہ جہت شخصیت پرکام کرناکسی رشی مُنی کی طرح تپسیہ کرنے کے مترادف ہے۔
اردوادب میں تپسیہ کرنے واے تپسوی نایاب نہیں توکمیاب ضرورہیں۔ عامرسہیل اردوکے کمیاب تپسیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے پاکستان کے شہرایبٹ آباد میں رہ کرپاکستان کی یونیورسٹیوں کی لائبریریز، اساتذہ اوردوستوں کی ذاتی کتب خانوں کی مدتوں خاک چھانتے رہے اور حیدرقریشی کی شخصیت اورفن سے متعلق موادحاصل کرتے رہے جویقیناًانتہائی مشکل کام ہے۔اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے ہاتھ پاؤں توڑکرایک تپسوی کی طرح بیٹھنا اورتمام مواد کامطالعہ کرنا اورپھراپنی تنقیدی صلاحیتوں کوبروئے کارلاکر حیدرقریشی کے فن اورشخصیت کومتعین کرنا۔عامرسہیل نے اس کام کوانجام دینے میں تحقیق وتنقیدکاحق اداکردیاہے۔ان کی زیربحث تصنیف ’’حیدر قریشی کا ادبی سفر‘‘ان کی تحقیقی وتنقیدی وژن کی بہترین مثال ہے۔عامرسہیل نے اتنی کم عمری میں اپنے ادبی کارناموں کی وجہ سے ہندوپاک ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک کی سرگرم ادبی محفلوں میں اپنی منفردپہچان بنالی ہے۔سائبراسپیس کی ادبی دنیاپربھی ان دونوں حضرات کی حکمرانی ہے۔حیدرقریشی جیسی قدآورشخصیت کے تمام ادبی کارناموں پرریسرچ کرنے کے لیے جس طرح کے محقق وناقد کی ضرورت تھی عامرسہیل بالکل ویسے ہی ہیں۔
حیدرقریشی نے ایک تخلیق کارکی حیثیت سے نظم ونثرکے بیشتراصناف میں طبع آزمائی کی ہے اورکم وبیش ہرصنف میں اپنے فن کاجوہردکھایاہے جس میں صنف افسانہ خاص اہمیت کی حامل ہے۔عامرسہیل نے حیدرقریشی کے تمام افسانوں کامطالعہ اوران کے افسانوں کے تمام ناقدین کامطالعہ کرنے کے بعد افسانے کی شعریات کی روشنی میں انہیں بحیثیت افسانہ نگارجس طرح متعارف کرایاہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ حیدرقریشی ہم عصر افسانہ نگاروں کے کہکشاں میں اگر چمکتے ہوئے ستارے کی مانندہیں تو عامرسہیل بھی معاصر افسانے کے جوہرشناس ہیں۔فکشن کے ناقدین میں بیشترحضرات افسانے میں حقیقت نگاری کی اہمیت پرزوردیتے ہیں اوراگرانہیں فکشن میں حقیت نگاری کی کمی محسوس ہوتی ہے تو ناقص فکشن قراردیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ کہ کسی فکشن میں حدسے زیادہ حقیقت نگاری فکشن کی اصل روح کو مجروح کردیتی ہے۔عامرسہیل بھی فکشن میں حقیقت نگاری کی زیادتی کے قائل نہیں ہیں۔ان کا خیال ہے کہ حقیقت اورفنٹاسی کے درمیان توازن ضروری ہے۔اسی لئے حیدر قریشی کے افسانوں پراظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے لکھاہے:
’’حیدر قریشی کے افسانے اگر سرسری نظر سے بھی دیکھے جائیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے افسانوں کی بنیاد بیشتر خارجی محسوسات پر رکھتے ہیں یعنی جو کچھ وہ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں و ہی سب کچھ ہمیں دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن اپنے موضوع کی طرف ان کی پیش قدمی خالصتاً داخلی اور نفسیاتی سطح پرہوتی ہے ۔ اُن کے افسانوں میں حقیقت شناسی اور خیال پرستی کا متوازن امتزاج ملتا ہے ۔ ان کا یہی امتزجی اسلوب فنی اور فکری سطح پر ہر افسانے کو معیاری بنا تا ہے۔‘‘
حیدرقریشی کے افسانہ نگاری کے متعلق عامرسہیل کاخیال درست ہے کیوں کہ ہربڑاافسانہ نگاراپنے افسانوں کے کردارکوحقیقی دنیا کے بجائے خیالی دنیامیں متعین کرتاہے اور افسانے کاتانابانا بھی فنٹاسی کی دنیامیں ہی بنتاہے۔اسی لئے افسانہ اورناول کوفکشن سے تعبیرکیاجاتاہے۔
حیدرقریشی کا تخلیقی کینوس کافی وسیع ہے۔لہٰذا اُن کے افسانوں کے تمام فنی اور فکری لوازمات کا احاطہ کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن صاحبِ مقالہ نے حیدرقریشی کے افسانوں کاباریک بینی سے تجزیہ کرنے کے لیے اپنے مطالعہ کو کئی حصوں میں تقسیم کیاہے اورہرحصہ میں کئی ذیلی موضوعات کے تحت تجزیہ پیش کیاہے۔مثلاً پہلا حصہ ’’حیدر قریشی کے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ‘‘ہے جس کے تحت اُنھوں نے ’’تصّوف اور روحانیت کے عناصر‘‘،’’ فلسفہ ء توحید‘‘،’’قومی سوچ کے دھارے‘‘،’’تجزیا ت اور اُصول سازی‘‘،’’منفی سماجی رویّو ں کی عکاسی‘‘،’’ایٹمی جنگ کا مسئلہ ‘‘وغیرہ موضوعات کی روشنی میں حیدرقریشی کے افسانوں کاجائزہ پیش کیاہے جس سے معلوم ہوتاہے حیدرقریشی کے افسانوں میں دنیاومافیہا کے تمام مسائل سمٹ آئے ہیں۔اِن موضوعات کے مطالعے سے عامرسہیل کی تنقیدی بصیرت کابھی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اُن کاخیال درست ہے کہ انسان کافکری نظام سماجی ماحول سے وابستہ ہوتاہے۔انہوں نے حیدرقریشی کے افسانوں میں ’’منفی سماجی رویّوں‘‘کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’حیدر قریشی کے افسانوں میں زندگی کے جیتے جاگتے مسائل کا گہرا شعو ر اور ادراک ملتا ہے ۔ انسان کا ہر نظام ِفکر چاہے وہ فلسفہ و حکمت ہو یا مذہب یا پھر فنون ِ لطیفہ کے مظاہر ، یہ تمام شعبے سماجی اور اقتصادی ماحول سے پوری طرح وابستہ ہوتے ہیں لیکن ادیب کا تخیل فکرو احساس کے اُن مدارج تک رسائی حاصل کر لیتا ہے جہاں دیگر مظاہر انسانی کے پر جلنے لگتے ہیں ۔ ‘‘
عامر سہیل نے اس اقتباس میں اس بات کی طرف اشارہ کیاہے کہ حیدرقریشی نہ صرف روحانی اوراخلاقی قدروں کے رمزشناس ہیں بلکہ سماجی شعوربھی رکھتے ہیں۔ ان تمام تجزیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حیدرقریشی سیاسی،سماجی،معاشرتی اوربین الاقوامی سطح پرہونے والے ایٹمی جنگ کے خطرات سے بھی باخبرہیں اوراپنے قاری کواپنی تخلیقات کے ذریعہ واقفیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔عامرسہیل نے مطالعہ کے دوسرے حصے میں’’ فنی اور اُسلوبیاتی مطالعہ‘‘کے تحت پلاٹ،وحدتِ تاثر ،کردار نگاری ،شاعرانہ انداز بیان،خیال افروزی، تاریخی حکایات اور اقوال کا بر محل استعمال،علامت کا استعمال،سادگی،اثرپذیری، فضا بندی جیسے فنی اوراسلوبیاتی خوبیوں کی اہمیت پربحث کرتے ہوئے حیدرقریشی کے افسانوں کاتنقیدی جائزہ پیش کیاہے۔اس جائزے سے جہاں حیدرقریشی کے افسانوی اسلوب اورافسانے کے فن پران کی مہارت کااحساس ہوتاہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ عامرسہیل نے ان کے افسانوں کے تجزیہ میں اپنے ناقدانہ وژن کااستعمال کس طرح کیاہے اوروہ فن افسانہ کے تمام لوازمات اورشعریات سے وہ کس قدر واقف ہیں۔
افسانوں کے علاوہ حیدقریشی نے خاکے بھی لکھے ہیں اورخاکہ نگاری میں بھی اپنامنفردمقام حاصل کیاہے۔صاحب ِ کتاب نے خاکہ نگاری کے فن،اہمیت اورارتقاپرسیرحاصل ناقدانہ بحث کی ہے۔ اور اس کی اہمیت پرزوردیتے ہوئے بجافرمایا ہے کہ
’’ایک اچھااور معیاری خاکہ کسی شخص کا محض ظاہری اور باطنی تجزیہ ہی پیش نہیں کرتا
بلکہ اپنے عہد کا ادبی ، سماجی ، سیاسی ، نفسیاتی اور ثقافتی منظر نامہ بھی مرتب کرتا ہے ۔‘‘
حیدرقریشی کے خاکے دوحصوں پر مشتمل ہیں ۔پہلے حصے میں اپنے خاندان کے افراد پر اوردوسرے حصے میں ادیبوں اور دوستوں پرخاکے ہیں۔عامرسہیل نے دونوں حصوں کے تمام خاکوں کامطالعہ اُسلوبیاتی اورفنی سطح پرکیاہے اوریہ نتیجہ اخذکیاہے کہ اپنے خاندان اوررشتہ داروں کے خاکوں میں حیدرقریشی کااُسلوب وہ نہیں ہے جودوستوں اورادیبوں کے خاکوں میں ہے۔حیدرقریشی کے اُن خاکوں جواہلِ خاندان سے متعلق ہیں ، کے اسلوب پر تبصرہ کرتے ہوئے عامرسہیل نے صحیح لکھاہے کہ
’’اُنھوں نے اپنے اہلِ خانہ کے حوالے سے جو خاکے تحریر کیے وہ روایتی یا تاثراتی نوعیت کے بر عکس اعلی ادبی اقدار کا جامع مرقع بن گئے ہیں ۔ وہ محض تعارفی اورسوانحی معلومات پر انحصار کرنے کے بجائے گہرے ادبی شعور کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔‘‘
عامر سہیل نے اہلِ خاندان اوردوستوں وادیبوں کے خاکوں کے اُسلوب میں جوبنیادی فرق ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے ہے کہ’’حید ر قریشی نے جو خاکے اپنے اہلِ خانہ کے حوالے سے تحر یر کیے ہیں ان میں طنز و مزاح کا خاصا اہتمام نظر آتا ہے جبکہ ادیبوں پر لکھے گئے خاکوں میں یہ عنصر نہ ہو نے کے برابر ہے۔‘‘ عامرسہیل کے تنقیدی تبصروں سے معلوم ہوتاہے کہ وہ ادب میں اعلیٰ ادبی قدروں کے قائل ہیں۔عام طورپرخاکہ نگاراپنے اہلِ خانہ اوررشتہ داروں کاجب خاکہ لکھتاہے تواکثرجذباتی ہوجاتاہے اوران کی کمزوریوں کونظراندازکرکے صرف خوبیوں کوپیش کرتاہے لیکن حیدرقریشی نے اس کے برخلاف کمزوریوں اورکمیوں کوبھی سامنے لانے کے لیے مزاحیہ اُسلوب کااستعمال کیاہے جس کی طرف عامرسہیل نے بطورخاص اشارہ کیاہے اوراس کی اہمیت پرزوردیاہے۔سنسکرت کے اچاریوں کی طرح عامرسہیل کابھی خیال ہے کہ ادب میں طنزومزاح کی اگرچاشنی نہ ہو تووہ ادب میں دلکشی پیدانہیں ہوسکتی ہے۔عامرسہیل نے خاکے کے اصول وضوابط کی روشنی میں حیدرقریشی کے خاکوں میں ماضی پر ستی،شخصی تجزیات ، نفسیاتی نکتے، خاکہ نگار کی اپنی شخصیت کا عکس ، اَن دیکھی شخصیت کا خاکہ، مافوق الفطرت عناصر، شگفتہ مزاجی،حیدر قرشی کی تحریروں میں زوجہ مبارکہ جیسے ذیلی عنوانات کے تحت تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے جس سے ان خاکوں میں حیدرقریشی کی ہمہ گیریت کااندازہ ہوتاہے ساتھ ہی خاکہ نگاری کی تنقیدمیں عامرسہیل کی مہارت کا بھی پتہ چلتاہے۔ناقدین کاخیال درست ہے کہ تخلیق کارکی شخصیت کے ارتعاشات اس کی تخلیق میں موجودہوتے ہیں۔حیدرقریشی کے خاکوں میں بھی اُن کی شخصیت کی پرچھائیاں موجودہیں۔ حیدرقریشی کے خاکہ نگاری پرتبصرہ کرتے ہوئے آپ نے خاکہ کے فن پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔آپ کا کہنا ہے:
’’خا کہ نگاری توازن کا فن ہے اگر یہ توازن برقرار نہ رہے تو صاحب خاکہ کی شخصیت اُبھر نے کے بجائے مسخ ہو جا تی ہے۔حید ر قریشی شخصیت کی پر کھ کے لیے معروضی اور مو ضوعی دونوں زاویوں کو اہمیت دیتے ہیں وہ بذات خود باغ وبہار طبیعت کے مالک ہیں اور اپنی عملی زندگی میں خلوص ، محبت اپنائیت اور دوستی کو خاص اہمیت دیتے ہیں ، یہی تمام اوصاف ان کے خاکوں میں جگہ بناتے نظر آتے ہیں۔ ‘‘
فاضل مصنف نے حیدرقریشی کے خاکوں کے اقتباس کوپیش کرتے ہوئے ’شاعرانہ تخیل اور انداز بیان‘پربھی اظہارخیال کیاہے۔ اُن کا خیال ہے کہ حیدرقریشی نے اپنے بیشتر خاکوں میں شاعرانہ طرز نگارش اختیار کی ہے ۔رشید احمدصدیقی نے بھی خاکے کے فن پراظہارخیال کرتے ہوئے لکھاہے کہ
’ ’یہ تاریخی دستاویز اور شاعری کے درمیان کی چیز ہے۔اس کا تمام تر تعلق حافظے میں موجود یادوں کو جگاکرانہیں ذاتی، خوشگواراورغیررسمی لب ولہجے میں بیان کردینے سے ہے‘‘۔
حیدرقریشی نے اپنے خاکوں میں حقیقت نگاری اورخیال افرینی کے علاوہ طنزومزاح اوراشعارکا استعمال بھی کثرت سے کیاہے۔عامرسہیل نے ان تمام پہلوں پرروشنی ڈالتے ہوئے حیدرقریشی کی خاکہ نگاری کا جوتنقیدی جائزہ پیش کیاہے وہ قابل تعریف ہے۔
حیدرقریشی نے اپنی کھٹی میٹھی یادوں کو بھی الفاظ کے سانچے میں ڈھال دیا ہے اوریادوں پرمبنی مضامین کا مجموعہ شائع کیا ہے جس کا نام’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ہے۔اس کتاب کامطالعہ عامرسہیل نے بطورخاص کیا ہے اور اس فن کو ’’یادنگاری‘‘سے تعبیرکیاہے۔ان کے مطابق یادنگاری کی روایت اردومیں نہیں ملتی ہے البتہ انگریزی زبان میں اس کی روایت موجودہے۔شاید اسی لیے اردومیں اس موضوع پر اب تک کسی نے کچھ نہیں لکھاہے۔حیدرقریشی کے بعض ناقدین نے یادنگاری کو خودنوشت سے تعبیرکیاہے لیکن ہمارے نقاد نے دلیلوں کی روشنی میں اسے رد کردیااور کافی غوروفکرکرنے کے بعداس کے فن کومتعین کیااوراس کی خصوصیات پربھی روشنی ڈالی ہے جویقیناًقا بل تعریف ہے۔انہوں اس کے فن پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے :
’’یادنگاری ‘‘ اصل میں سوانحی ادب کی ذیلی شاخ ہے اور دیگر ادبی اصناف کی طرح اپنا الگ وجود اور شنا خت رکھتی ہے۔ اس کے کچھ اجزا خود نوشت سوانح اور خاکہ نگاری سے مناسبت رکھتے ہیں لیکن اپنے بنیادی اوصاف کے باعث اس کا ذکر جداگانہ صنف کے طور پر کیا جا نا چاہیے۔‘‘
عامرسہیل نے یادنگاری پرمزید تبصرہ کرتے ہوئے اسے سوانحی ادب کی ایسی صنف قراردیاہے جس میں گزرے ہوئے زمانے کے تجر بات ، مشاہدات اور واقعات کو ازسر نو تازہ کیا جاتا ہے۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ ’’یہ خا لصتاََ شخصی اور نجی واقعات پر مشتمل بیا نیہ ہوتا ہے جس کا مقصد اپنے دوستوں، عزیزوں اور قریبی رشتے داروں کی یاد وں کو غیر رسمی مگر ادبی سطح پر محفوظ کرنا ہے۔‘‘آپ نے یادنگاری کے اسلوب بیان پربھی اظہار خیال کیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ اس کے اسلوب میں بے تکلفی پائی جاتی ہے۔
آپ نے حیدرقریشی کی یادنگاری کاپھرپورجائزہ پیش کیاہے اوریادنگاری کی تمام خصوصیات کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے اظہارخیال کیا جس سے اُن کی نثری تنقیدمیں مہارت کااحساس ہوتاہے۔ حیدرقریشی کی یادنگاری پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حیدر قریشی کی یادوں کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ وہ بالکل ذاتی اور نجی تجربات اور مشاہدات کو ایسے شگفتہ اور پر ا ثر اُسلوب میں بیان کر تے ہیں کہ قاری بذات خود غیر محسو س طور پر ان کے حسی تجر بات کا حصہ بنتا چلا جا تا ہے۔ اُن کی ذاتی خوشیاں اور کرب پڑھنے والے کا ذاتی کرب اور خوشی بن جاتے ہیں۔ یادوں کے بیان میں کئی مقامات ایسے آتے ہیں جب انفرادی تجر بات اجتماعی روپ کے حوالے سے اُبھر تے اور ڈوبتے محسوس ہو تے ہیں‘‘۔
بچپن سے لے کران کے جرمنی آنے اورپھرجرمنی میں اپنے دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحوں کاذکرحیدرقریشی نے جس دلکش اندازمیں کیاہے وہ لاجواب ہے۔زندگی کے ہرموڑ پر چھوٹے بڑے جو واقعات وحادثات پیش آئے ہیں ان کا ذکربھی یادوں کی روشنی میں کیاگیاہے۔ہرشعبہ ہائے زندگی میں اپناپسندوناپسندبھی قلم بندکیاہے۔تصوف،تفکر،مذہب ،اخلاقیات،سماجی،سیاسی نظریات جیسے موضوعات پربھی حیدرقریشی نے کھل کرلکھاہے۔ان تمام پہلوؤں پرعامرسہیل نے اظہارخیال کیاہے۔ حیدرقریشی نے ان تمام موضوعات پرجوکچھ لکھاہے وہ یادوں پرمبنی ہے اس لیے اس میں غضب کی روانی اوردلکشی پیداہوگئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قاری اس کتاب کامطالعہ کرتے وقت خودکوحیدرقریشی کاہمنوامحسوس کرنے لگتاہے جس کی طرف عامرسہیل نے اشارہ کیاہے۔
حیدرقریشی کی نثری نگارشات میں انشائیے بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔انشائیوں کامجموعہ’’ فاصلے ،قربتیں ‘‘میں حیدرقریشی اس فن پرمہارت کاشاندارمظاہرہ کیاہے۔آپ نے حیدرقریشی کی انشائیہ نگاری پراظہارخیال کرنے سے پہلے انشائیہ کے فن،اس کی اہمیت اورانشائیہ کے ارتقاپر کھل کربحث کی ہے۔انشائیے کے بیشتر ناقدین نے انشا ئیہ کومضمون کی بدلی ہوئی شکل سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ہمارے دوست ایسے ناقدین سے بالکل اتفاق نہیں کرتے ہیں بلکہ ان ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔اس سلسلے میں وزیرآغا ،اکبر حمیدی اورکئی دیگرماہرین انشائیہ کے اقتباسات کو کوٹ کیاہے اورسیرحاصل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ انشائیہ کی تنقید پران کی گہری نظرہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’انشائیے کے موضوعات عمو ماً ہلکے پھلکے ہوتے ہیں اور انشائیہ نگار اپنے زورِ تخیل اور شخصی زاویہء نظر اختیار کرتے ہوئے موضوع کے ایسے پوشیدہ گو شے بے نقاب کرتا چلا جا تا ہے جو اَب تک نظروں سے اوجھل تھے۔ انشائیہ نگار کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے چنید ہ موضوع کو معمولی یا غیر معمولی بنانے کی صلا حیت رکھتا ہو۔‘‘
عامرسہیل نے حیدرقریشی کی انشائیہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے انشائیہ کے عنوان کی اہمیت پرزوردیاہے ۔حیدرقریشی نے اپنے انشائیوں کاآغازایک شعر سے کیاہے اور اس کامنطقی جوازیہ دیاہے کہ ’’ ہر شعر مرکز ی موضوع پر مبنی ہے اور مو ضوع زیر بحث کی بہت سی اَن کہی باتیں شعر کی زبانی بیان ہوجاتی ہیں۔ ‘‘ وہ انشائیے میں اختصار اور جا معیت کے بھی قائل ہیں۔انشائیے کے متعلق ناصرعباس نیرکے اس خیال کہ ’’ انشائیہ انسان کی ذہنی اور تہذیبی ترقی کے ایک مر حلے پر نمودار ہوتا ہے‘‘،سے اتفاق کرتے ہوئے بجا فرمایاہے کہ’’یہی ذہنی اور تہذیبی ترقی انشائیے میں فکر یات کے ایسے عناصر پیدا کرتی ہے جن کا مطالعہ حیات وکائنات کی تقسیم میں آسانیاں پیدا کرتا ہے‘‘عامرسہیل نے انشائیے کے متعلق بصیرت افروزخیالات پیش کرنے کے بعد حیدرقریشی کے انشائیوں کے متعلق یہ رائے دی ہے کہ’’ان کے انشائیوں میں فکر ی اکائیاں دھیمے سروں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔‘‘ حیدرقریشی کے انشائیوں میں جوتفکر کے عناصرپائے جاتے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ پیش کیاہے۔اس کے علاوہ ان کے انشائیوں میں اُصول اخذ کرنے کی صلا حیت بھی پائی جاتی ہے، سماجیات پر بھی ان کی نظرہے۔ان کے انشائیوں میں سائنسی عناصر، ادبی مشاہدات ور تجر بات،نفسیا ت ، مشاہد ہء باطن اور اخلا قیات بدرجہ اتم موجودہے۔کتاب میں ان تمام پہلوؤں کاباریک بینی سے مطالعہ کیاہے اورناقدانہ اظہارخیال کیاہے جو اس بات کا غماز ہے کہ انشائیے کی تنقید پر وہ بصیرت افروز نظررکھتے ہیں۔
حیدرقریشی کے نثری سرمایوں میں سفرنامے بھی شامل ہیں جن کابغورمطالعہ برادرم عامرنے کیاہے اورسفرنامے کے فن، ارتقااور خصوصیات پراظہارخیال کرتے ہوئے حیدرقریشی کے سفرناموں کاجائزہ پیش کیاہے۔حیدرقریشی کاسفرنامہ چونکہ عمرہ اورحج سے متعلق ہے اس لیے اُنھوں نے سفرنامے کے اس حصے پرعالمانہ بحث کی ہے جن کا تعلق خدا کے تصورِ انوارپر ستی اور ارض پر ستی کے ساتھ ہے۔اس موضوع پراظہار خیال کرتے ہوئے حیدرقریشی نے اپنے سفرنامہ میں درست فرمایا ہے کہ:
’’ اسلام نے اﷲ کو آسمانوں اورزمین کا نور کہہ کر اسے روشنی کے عام مظاہر سے ارفعٰ قرار دیا ، دوسری طرف بت پرستی کو ختم کرکے خانہ کعبہ کو زمینی مرکزبنا دیا ، یوں اسلام نے انوار پرستی اور ارض پر ستی کے مروجہ تصوارت سے ہٹ کر ایسا معتدل تصور عطا کیا جو خالق ِکائنات کے بارے میں ہماری بہتر رہنمائی کرتا ہے۔‘‘
حیدرقریشی کے اس اقتباس پرعامرسہیل نے عالمانہ تبصرہ کیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کس قدر خداکی ذات وصفات،کونیات،غایت وجو دیات پر اُن کی گہری نظرہے:
’’حیدر قریشی نے خدا کی ذات وصفا ت کے حوالے سے جو باتیں لکھی ہیں وہ بظاہر بہت سادہ نظرآتی ہیں لیکن اگر اُن پر غو ر کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے خداکے بارے میں ایسے تمام دلا ئل یا تصورات جن کا تعلق کو نیات ،غا یت ، وجو دیا ت یا اخلاقیات سے بنتا ہے اور جس کی روسے ذات باری تعالی کا ایک میکا نکی تصور اُبھر تا ہے اُن کی نفی کردی ہے اور اس کے بر عکس خداکے اس ارفٰع تصور کو نمایاں کیا ہے جو قرانی تعلیمات کا عطا کر دہ ہے اور خد ا کے بار ے میں ہمارے تمام تصورات کو راست سمت رکھتا ہے۔ ‘‘
حیدرقریشی کے زیربحث سفرنامہ میں تاریخی مقامات کی معلومات بھی فراہم کرائی گئی ہے جن میں حضو ر اکرؐم کا مقام پیدا ئش ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا مکان ، حضرت حسان بن ثابت ؓ ، حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ اور متعد د دیگر صحابہ کرام ؓ کے مکا نات شامل ہیں۔جن کے نشانات اب ختم ہوچکے ہیں۔حیدرقریشی نے ان مقامات کے لیے اظہار افسوس کیاہے۔صاحب ِ کتاب بھی حیدرقریشی کے غم میں برابرکے شریک ہیں۔اُنھوں نے اس کے علاوہ اس سفرنامہ میں موجود حیدرقریشی کے صوفیانہ خیالات پربھی روشنی ڈالی ہے۔ اُن کاخیال ہے کہ تصو ف میں حیدرقریشی کا مسلک خانقایت نہیں بلکہ اجتماعیت ہے اور وہ تصوف کو زندگی کی حرکی قوت سمجھتے ہیں اور دنیا تیا گ دینے والی روحانیت اور تصوف کو خاطر میں نہیں لاتے۔‘‘ فاضل محقق کے تبصروں کی روشنی میں یہ کہاجا سکتا ہے کہ وہ صرف تنقیدوتحقیق ہی نہیں بلکہ تصوف اوردینیات میں بھی عمل دخل رکھتے ہیں۔
حیدرقریشی نے نثرکے علاوہ شاعری میں بھی اعلیٰ مقام حاصل کیاہے۔شعری اصناف میں غزلیں، آزادنظم اورماہئے میں اپنی انفرادیت قائم کی ہے۔اس کتاب میں حیدرقریشی کے تمام شعری سرمایے پراظہارخیال کیا گیاہے۔غزل کی شعریات کی روشنی میں حیدرقریشی کی غزلوں میں موجودسماجی شعور،اقدار کی شکست وریخت ، نئے نئے معاشرتی مسائل ،فکر و فلسفے ،جذبہ محبت،منفی اقدارپرطنز،تہذیبی دھارے اورفلسفہ عشق وغیرہ موضوعات پرباریک بینی سے بحث کی ہے اورتنقیدی رائے دی ہے۔مثلاً فلسفۂ عشق تبصرہ کرتے ہوئے عامرسہیل نے لکھاہے:
’’حید ر قریشی کا فلسفۂ عشق رجائیت پر مبنی ہے اور یہی ان کے فکر و تخیل کی اصل پہچان ہے۔ ان کی شاعری میں یہ جذبہ کبھی جنون اور کبھی والہانہ محبت کی صورت سامنے آتا ہے اور فکر ی تہہ داری میں اضافہ کرتا ہے‘‘۔
عامرسہیل کی تنقیدی تبصرہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ شاعری میں روایتی تصورعشق کے قائل نہیں ہیں ۔عشق ان کے نزدیک جستجواور طاقت کے مترادف ہے۔ ہمارے دوست شاعری میں شورید ہ سری اور تلخی کے قائل بھی نہیں ہیں۔وہ مسائل سے گھبرانے کے بجائے اس سے سامناکرنے کے قائل ہیں۔اسی لیے حیدرقریشی کی غزل کے اشعار پرتبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’مسائل کی آگ نے ان کی شخصیت اورفن کو جلایا نہیں، کند ن بنایا ہے۔ وہ اپنی ناراضگی ، تکلیف اور دکھ کا اظہار بھی تہذیب اور شائستگی کے ساتھ کرنا پسند کر تے ہیں ۔‘‘ حیدر قریشی کی غزلوں میں جو فلسفیا نہ اور حکیمانہ انداز فکرہے اس پربھی اُنھوں نے اظہارخیال کیاہے۔ان کا خیال درست ہے کہ’’ حیدرقریشی کے فکر ی اُسلوب جہاں حیات وکائنات کے اہم مسائل سے تعرض کر تا ہے وہاں شعری اُسلوب میں فنی محاسن کی موجودگی معیار و اعتبارکے نئے علا قے قائم کرتی ہے‘‘۔اس کے علاوہ حیدرقریشی کی غزلوں کے حوالے سے صنعتوں اورشعری لوازمات مثلاًتلمیحات،تغزل،صنعت تضادیاطباق،قوافی میں صنعتِ تضاد کی مثال،تکرارلفظی،تکرارِمطلق،تکرارمستانف،تکرارمع الوسائط،تشبیہا ت واستعارات،سہلِ ممتنع،تراکیب کااستعمال اورشعری محاسن کی اہمیت پرسیرحاصل بحث کی ہے اورحیدرقریشی کی غزلوں میں ان تمام لوازمات کے استعمال کاجائزہ پیش کیاہے۔آخرمیں انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ:
’’حید رقریشی کا فکر ی اُسلوب جہاں حیات وکائنات کے اہم مسائل سے تعرض کر تا ہے وہاں شعری اُسلوب میں فنی محاسن کی موجودگی معیار و اعتبارکے نئے علا قے قائم کرتی ہے۔اُنھوں نے اپنا وسیلۂ اظہار موثر بنانے کے لیے عمدہ الفاظ، معیاری زبان و بیان ، بلیع تراکیب ، معنی خیز استعارات و تشبیہات اور جدید علائم و رموز کا استعما ل بہت سو چ سمجھ کر کیاہے۔ مو اد و ہیئت کا سلجھا ہوا امتزاج اور ارتکاز اُن کی غزل کا وقار بڑ ھا تا ہے ۔‘‘
حیدرقریشی نے غزلوں کے بعدذیلی اصناف شاعری ’’ ماہیا‘‘میں بھی طبع آزامائی کی اوراس فن کوبلندی تک پہنچانے میں ایک شاعر،محقق اورناقدکی حیثیت سے اہم رول ادا کیاہے۔ماہیادراصل تین مصرعوں پرمشتمل ایک مختصرترین نظم ہوتی ہے لیکن اس میں حسن وعشق کے علاوہ ہرطرح کے مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ماہیامیں بلاکی نغمگی پائی جاتی ہے شایداسی لئے فلموں میں اس کااستعمال زیادہ ہواہے۔ نے حیدر قریشی کی ماہیا نگاری کا فنی وفکر ی مطالعہ جس طرح سے پیش کیاہے وہ قابل تعریف ہے۔حیدرقریشی کے ماہیوں میں نعتہ اورمنقبتی ماہیوں کی تعدادکافی ہے۔لہٰذاعامرسہیل نے فکری محاسن کے تحت حیدرقریشی کے نعتہ اورمنقبتی ماہیوں کاجائزہ پیش کیاہے اوران ماہیوں میں حضرت محمد ؐ سے عقیدت اور محبت،خانہ خدا میں حاضر ی کی کیفیت،حضرت علی ؓ کے فرمودات سے اکتساب اورصوفیا ئے کرام سے نیاز مند ی وغیرہ کے جو جذبات بدرجہ اتم موجودہیں ان کا بطورخاص جائزہ پیش کیاہے ۔ حیدر قریشی نے اپنے ماہیوں میں مظاہر فطر ت،سماجیاتی مسائل،ثقافتی رنگ،لوک داستانوں کاذکر،عمرگریزاں کااحساس ملتاہے جن پرعامرسہیل نے کھل کرتنقیدی تبصرے کئے ہیں۔
عامرسہیل نے فکری محاسن کاجائزہ لینے کے بعد ماہیا کے اُسلو بیاتی اور فنی محاسن سے بھی بحث کی ہے ۔ان کاخیال ہے’’ فکر و فن کا یہ امتزاجی عمل خیال کی شیر ازہ بندی میں حسن و جما ل کے رنگ پیدا کرتا ہے۔ ان فنی محاسن کا مطالعہ اصل میں شاعر کے ذہنی اُفق اور جو دت ِطبع کا مطالعہ بھی ہے‘‘ ۔اس ضمن میں انھوں نے حیدرقریشی کے ماہیوں کاجائزہ لیتے ہوئے کہاہے کہ ان کی کامیابی میں محاکات نگاری کابہت اہم رول ہے کیوں کہ حیدرقریشی کے ماہیوں میں بعض مناظرکی ایسی تصویرکشی کی گئی ہے کہ تمام مناظرآنکھوں کے سامنے رقص کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے ماہیوں کے اوزان سے بھی بحث کی ہے ۔آپ کاخیال ہے کہ حیدرقریشی نے ہی ماہیاکے معیارواوزان متعین کیاہے اورانہیں کے وضع کردہ اوزانوں اوراصولوں کوتمام ماہیانگاروں نے اپنایا۔آپ لکھتے ہیں :
’’ ماضی میں شعرائے کرام نے ثلا ثی اور ہائیکو کے اوزان میں ماہیے لکھے جس کی وجہ سے ماہیے کی اپنی شناخت گم ہو کر رہ گئی تھی۔ حیدر قریشی نے اس صنف کے اوزان اور مزاج کی وضاحت کے لیے جو تحقیقی اورتنقید ی مضامین لکھے تھے، وہ بالآخر ایک تحر یک کی شکل اختیار کرگئے جس کا فائد ہ یہ ہوا کہ اب اُردو ادب میں ماہیے کو دوسر ی تمام اصناف سے الگ سمجھا جاتا ہے اور اسے مخصوص اوزان کی مد د سے لکھا جار ہا ہے۔حیدر قریشی نے ماہیے کو اپنا اصل مقام دلانے میں کلید ی اور تاریخی کا رنامہ انجام دیا ہے۔‘‘
عامرسہیل نے اپنی تحقیق وتنقیدسے حیدرقریشی کی ماہیانگاری پرجس طرح سے روشنی ڈالی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔انہوں نے ماہیے کے ثقافتی پس منظراور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ’’ حیدرقریشی نے اپنے ماہیوں میں کئی ایسے الفاظ برجستہ استعمال کیا ہے جو عوامی محل ِاستعمال تو رکھتے ہیں لیکن ادبی زمرے میں نہیں آتے تھے۔ یہ ان کا لسانی شعور ہے کہ اصل زبان کی چاشنی اور سادگی کو قائم رکھا ہے‘‘۔عامرسہیل نے حیدرقریشی کے ماہیوں کاجائزہ لیتے وقت سراپا نگاری،جد تِ ادا، مجاز کی صورتیں،خیال بندی،تخیل اورمکا لماتی اندازکواپنے بحث کے دائرے میں لائے ہیں اور ان کی اہمیت افادیت پرزوردیاہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ماہیابلکہ تمام اصناف شاعری کے ناقدہیں۔
حیدرقریشی نے جس طرح غزل اورماہیا کی تخلیق میں اپنے فکرو فن کاجوہردکھاہے اسی طرح آزادنظم میں بھی انہوں نے قابل قدرتخلیقی بصیرت کا ثبوت پیش کیاہے۔صاحب ِ کتاب نے بھی حیدر قریشی کی آزاد نظموں کا فنی و فکر ی مطالعہ کیاہے اوریہ نتیجہ اخذکیاہے کہ ’’حیدر قریشی کی فکراور توانائی کا جو معیار اُن کی غزلوں اور ماہیوں میں نظر آتا ہے وہ آزاد نظم میں بھی اپنی پوری رعنائی اور توانائی کے ساتھ دکھا ئی دیتا ہے۔‘‘فاضل مصنف نے ان کی آزاد نظموں کے فکری محاسن کے ضمن میں فطرت پسند ی، ثقافتی تصورات،فلسفیانہ تنا ظر، دین اسلام سے محبت اوررومانوی عناصرکاتنقیدی جائزہ لیاہے اورآزاد نظم میں حیدرقریشی کی فکری وژن پربھرپورروشنی ڈالی ہے۔مثلاً فلسفیانہ تناظرپراظہارخیال کرتے ہوئے حیدرقریشی کی فلسفیانہ بصیرت کوجس طرح پیش کیااس سے معلوم ہوتاہے کہ عامرسہیل بھی فلسفے کے رمزشناس ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’حیدرقریشی کی شعری جمالیات میں ایک بڑا حصہ فلسفیا نہ پہلوداری کا بنتا ہے۔ اُن کی نظم
’’ تخلیق در تخلیق ‘‘ کائناتی سچائیوں کو کلیت کے دائرے میں رکھ کرسمجھا جا رہا ہے۔ اس فکری نظم میں کائنات کی قو تِ تخلیق کو انسان کی جمالیات ،اخلاقیات اور تہذیبی و ثقافتی حوالوں کی مد د سے مشاہد ہ کیا گیا ہے۔ حیدرقریشی خود بھی حسنِ اَزل اور کائنات میں اُبھر نے والی صورتوں سے لطف انداز ہو رہے ہیں اور قاری کو اپنے ساتھ اس فلسفیانہ گہر ائی میں اترنے کا موقع فراہم کر تے ہیں ۔ کائنات کے عملِ تخلیق میں چھپا ارتقاکا راز حیدر قریشی کے لیے باعث کشش ہے ۔وہ کُل کی معنو یت کو ارتقا سے جو ڑ کر فکر ی جمالیات کا تاثر گہر ا دیتے ہیں‘‘
عامرسہیل نے حیدرقریشی کی نظموں میں فکری عناصرکاجائزہ لینے کے بعدفنی اور اُسلو بیاتی محاسن کابھی تنقیدی تجزیہ پیش کیاہے۔اس ضمن میں خود کلامی ، تجرید و تجسیم،تلمیحات،گداز کی کیفیت اورامیجر ی جیسی صنعتوں کی تعریف وتوضیح پیش کی ہے اوراس کی اہمت پرزوردیتے ہوئے فنی اوراسلوبیاتی سطح پر حیدرقریشی کی آزادنظم کا جائزہ پیش کیاجوقابل تعریف ہے۔مثلاًامیجری کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شاعری میں امیجری کا استعمال خاصا و سیع اور عمیق معنو یت کا حاصل ہو تا ہے۔ انگر یز ی لفظ امیجر ی ہمارے ہاں اُردو اصطلاح کے مطابق ’’ محاکات‘‘سے قدرے وسیع ہے اور اس میں لفظی پیکر یا محاکات کے تمام تلازمات از خود شامل ہو جا تے ہیں ،بلکہ تمثال کے تمام رنگ بھی اسی کی ذیل میں آتے ہیں۔ حیدر قریشی کے ہاں امیجر ی کا استعمال کئی نظموں میں ملتا ہے‘‘۔
حیدرقریشی کی نثری اورنظمیہ تخلیقات کاتنقیدی جائزہ جس انداز سے لیا گیا ہے اس کومدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ ہم عصرناقدین کی کہکشاں میں انہوں اپنی موجودگی درج کرالی ہے۔عامرسہیل نے حیدرقریشی کی تخلیقی تصانیف کے علاوہ تحقیقی اورتنقیدی تصانیف کابھی تنقیدی جائزہ پیش کیاہے جس سے ان کے تنقیدی وژن کاپتہ چلتاہے۔
عامرسہیل نے حیدر قریشی کے خالص تحقیقی کا موں کو پرکھنے کے لئے تحقیقی اُصول وضوابط کوملحوظ خاطررکھاہے ۔اس سلسلے میں عامرسہیل نے ڈاکٹرخلیق انجم کے حوالے سے ادبی محقق کے تین اہم فرائض یعنیحقا ئق کی تصدیق یا تردید،نئے حقائق کی تلا ش ، حقائق کی تشریح وتعبیرکی روشنی میں محقق کی اوصاف کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھاہے:
’’ایک سنجید ہ اور ذمہ دار محقق ان فرائض کی ادائیگی کے بعد پوشیدہ ادبی خزانوں کی بازیافت کرتا ہے۔ تحقیق کا اصل کا م ہی سچائی کی تلاش ہے۔ جو تحقیق داخلی اور خارجی حوالوں سے خود مکتفی ہو وہی قبولیت کا شرف حاصل کر تی ہے اور علم و ادب کے نئے نئے پہلو سامنے لاتی ہے۔ معرو ضیت اور حقیقت پسندی کی بد ولت تحقیقی اُمور کی قدر بڑ ھتی ہے۔‘‘
اس اقتباس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ تحقیقی عمل کوکافی سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔اس لیے یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ ماہیے کی تحقیق میں حیدرقریشی کارناموں کاجائزہ انہوں نے کافی دیانت داری سے لیاہے۔تحقیق کے اصولوں کی روشنی میں آپ نے حیدرقریشی کے متعلق صحیح لکھاہے کہ:
’’حیدرقریشی کی تحقیقات میں یہ مثبت عنا صر بدرجہ اتم موجودہیں۔ ماہیے کی تحر یک میں جہاں ان کا ذوق ِتکمیل خضرِ راہ کا فریضہ انجام دے رہا تھا وہاں اُن کی قوت ِاستدلال ، خود اعتمادی اور تو ضیحِ فکر، حقائق کی فراہمی میں ہمدرد معاون ثابت ہوئے۔ یہ ان کی ذہین فعالیت اور وسیع النظر ی کا منہ بو لتا ثبوت ہے کہ اُنھوں نے جہاں مرد ماہیا نگاروں کی تخلیقی کاوشوں کو متعارف کرایا ، وہاں خواتین کی ادبی خد مات کو بھی خراج تحسین پیش کیا‘‘ ۔
تحقیق اورتنقید ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں لیکن ہمارے دوست نے حیدرقریشی کی تحقیقی صلاحیتوں کی وضاحت کرنے کے لئے ان کی تصانیف جوصرف ماہیے سے متعلق ہے کاجائزہ پیش کیاہے۔اس سلسلے میں ان کا خیال ہے کہ حیدرقریشی کی تحقیقی تصانیف کی بدولت ماہیاکاصحیح معیارمتعین ہوا،اس کی نئی تعریف و توضیح سے اس صنف کی غیرمعمولی مقبولیت ہوئی ۔ماہیے سے متعلق دیگرمصنفین کی کتابوں کامطالعہ کرنے کے بعد آپ نے حیدرقریشی کی تمام تصانیف کا مطالعہ’’ حیدر قریشی کے تحقیقی موضوعات ‘‘اور’’ حیدرقریشی کے محققانہ اوصاف‘‘کی روشنی میں کیا ہے۔ حیدر قریشی کے تحقیقی موضوعات کی کے تحت ’ماہیے کا آغازو ارتقا‘،’ما ہیے کے اصل اوزان کی دریافت‘ ،’ماہیے کی تحر یر ی صورت کا مسئلہ‘ ،’ماہیے کے موضوعات‘،’ماہیے کے مزاج کا مسئلہ‘،’اردو میں ماہیے کا اصل بانی‘،’ماہیے کے فروغ میں خواتین کا حصہ‘،’ماہیا اور ادبی رسائل‘،’حیدرقریشی کے مصاحبے اور تحقیقی زاویے‘اور’ماہیے کے سالا نہ تحقیقی جائزے‘ جیسے عنوانات قائم کرکے عامرسہیل نے حیدرقریشی کی ماہیانگاری پر سیرحاصل بحث کی ہے ۔ماہیے کے متعلق انہوں نے ایک جگہ لکھاہے:
’’ما ہیا پنجا بی تہذیب وثقافت کا زائیدہ ہے اور اس میں گہر ے فلسفیانہ اور فکر ی موضوعات کے برعکس جذبوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ پنجابی میں ماہیے کی جو روایت چلی آرہی ہے، اُس میں پیارو محبت کا اظہار عورت کی طرف سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن مرد کے اظہاریے بھی موجود ہیں۔ دورِ جد ید میں عورتوں کی نسبت مردوں نے اس صنف پر خصو صی توجہ صرف کی جس کی وجہ سے یہ صنف اپنی انفرادیت اور اہمیت منو انے میں کا میاب رہی ہے۔‘‘
عامرسہیل نے حیدرقریشی کے محققانہ اوصاف کا بھی جائزہ پیش کیاہے۔حیدرقریشی نے تحقیق کے مراحل سے گزرتے وقت توازن،غیر جانب داری کا ہمیشہ خیال رکھا ہے۔انہوں نے معتدل تحقیقی روش اختیار کیا اورعروض سے واقف ہونے کا بھی ثبوت پیش کیاہے ۔انہوں نے حوالے درج کر نے میں بھی احتیا ط برتی ہے یہاں تک کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کیاہے۔ انہوں نے دستاویز ی تحقیق سے بھی استفاد ہ کیاہے اورمستقل مزاجی کاثبوت پیش کیاہے۔تجزیاتی اور وضا حتی اُسلوب ایسا اختیار کیاہے کہ قاری بہ آسانی سمجھ سکتاہے۔مختصریہ کہ انہوں نے سادہ اُسلوب نگارش سے انحراف نہیں کیاہے۔ ان تمام نکات کی روشنی حیدرقریشی کے تحقیقی نگارشات کاتنقیدی جائزہ پیش کیاجس معلوم ہوتا ہے کہ خود اُن کا اپنا ذہن کس قدر محققانہ ہے۔حیدرقریشی کے اسلوب پر اظہار خیال کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ:
’’حیدرقریشی کی تما م تحقیقی تحریروں میں تجز یات اور تشر یحات کا عنصر نمایا ں ہے۔ یہ سائنسی اور وضاحتی اُسلوب ان کی تحقیقات میں قطعیت پید ا کر تا ہے صنف ماہیا پرا ن کا مؤ قف جہاں تاریخ کی روشنی میں استدلال قائم کرتا نظرآتا ہے وہاں مسائل کو استخراجی اور استقرائی طریقوں سے واضح کر نے کا عام رحجان بھی ملتا ہے۔ ‘‘
عامرسہیل نے حیدر’’قریشی بحیثیت محقق‘‘ کا جائزہ لینے کے بعدحیدر قریشی کامقام بحیثیت نقادبھی متعین کیاہے۔حیدرقریشی کی تنقیدی تصانیف میں ماہیے سے متعلق کتابوں کے علاوہ ان کے خطوط، تقاریر اور مستقل تنقیدی مضامین ہیں جن کے ذریعے انہوں نے تنقیدی عمل کو آگے بڑھایا ہے۔ نیز ان کے تبصرے اور کتابوں کے دیباچے بھی ہیں جن میں تنقیدی عناصرموجود ہیں۔ آپ نے تمام تنقیدی سرمایے کاجائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ’’ وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں منصف مزاج اور معقولیت پسند نقاد کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ تہذیبی رکھ رکھاؤ اور اثر آفرینی ان کے تنقیدی اسلوب کے مضبوط ستون ہیں۔‘‘عامرسہیل نے ان کی تنقیدپرتبصرہ کرتے ہوئے کافی احتیاط برتنے کی کوشش کی ہے۔وہ تنقید کی تعریف ، موضوع اور حدودپر مختلف ناقدین کی رائے اوراقتباس کی روشنی میں تنقیدی تبصرے کرتے ہیں۔
حیدر قریشی کے اہم تنقیدی موضوعات کا مطالعہ کرنے کے لیے انھوں نے حیدرقریشی کی تنقیدی نقطۂ نظرکے کئی پہلوؤں کوملحوظ خاطررکھاہے۔ مثلاً اُردو زبان وادب اور مغربی ممالک،تنقید نگاروں پر تبصرے اور تجزیے،افسانوی مجموعوں پر اظہارِ رائے،معاصر ناول پر تنقیدی نظر،سفر ناموں پر مختصر تبصرے اور تاثرات،تحقیقی کاموں کا محاکمہ،سوانحی ادب پر نقد ونظر،شعری مجموعوں پر ناقدانہ نظر،ادبی شخصیات
پر نقد و نظر،ادب میں سرقہ اور جعل سازی کی نشاندہی اورماہیے پر تنقیدی مباحث جیسے عنوانات کے ذیل میں حیدرقریشی کی تنقیدی صلاحیتوں کاجائزہ لینے کے بعد حیدر قریشی کے تنقیدی رویے اور اُسلوب پرناقدانہ اظہارخیال کیاہے۔اس سلسلے میں آپ نے حیدرقریشی کی تنقیدی رویوں کو کامطالعہ، تنقیدی نظریات اور طریقِ کار،کفایت لفظی اور سادگی،حقیقت پسندی،تشریحی اور توضیحی انداز،معروضی تنقید،فکری عناصر،عصری آگہی،تخلیقی اُسلوبِ تنقید،ادبی دیانت داری،موضوع اور اُسلوب کی سنجیدگی وغیرہ جیسے موضوعات پربحث کی ہے اوران کاجائزہ لیا ہے تاکہ بحیثیت ناقد حیدرقریشی کامقام متعین کیاجاسکے ۔ جناب ِسہیل نے متذکرہ تمام موضوعات کی تعریف اوراہمیت پربھی اظہارخیاکیاہے ۔ مثلاً معروضی تنقیدکے متعلق ان کاخیال ہے کہ’’معروضی تنقید کا ناقد اگر ایک طرف زیرِ بحث مسئلہ پر غیر جانب داری کا ثبوت دیتا ہے تو دوسری جانب وہ اپنے انفرادی ذوق کو بھی بروئے کار لاتا ہے۔جمالیاتی قدروں اور اُسلوبیاتی اوصاف پر بات کرنا معروضی تنقید کے اہم زاویے ہیں۔‘‘اس کے بعد آپ نے معروضی تنقید کی ذیل میں حیدرقریشی کی تنقیدنگاری کاجائزہ لیاہے۔ مثال کے طورپرمندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کریں:
’’حیدر قریشی کی تحریروں میں معروضی تنقید کا عنصر اپنے تمام مثبت پہلوؤں کے ساتھ موجود ہے۔اس ضمن میں ذوق و وجدان کی رہنمائی بھی وہ حاصل کرتے ہیں۔ وہ تنقید کے مروجہ اسالیب سے اپنی الگ راہ نکالتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تنقیدات اصل فن پارے کے صوری اور معنوی حسن کی نقاب کشائی کریں۔وہ تنقید کی بڑی بڑی اصطلاحات سے نہ خود مرعوب ہوتے ہیں اور نہ دوسروں پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ اپنے ہر تنقیدی مضمون میں اخلاقی مطالبات کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اور جذبہ،خیال،مواد اور ہیئت میں خاص تناسب قائم رکھتے ہیں۔ ‘‘
اس اقتباس سے معلوم ہوتاہے کہ خو دان کا تنقیدی رویہ کیاہے اوروہ تنقیدکے کن اصولوں کے قائل ہیں۔مختصریہ کہ عامرسہیل نے حیدرقریشی کے ادبی سفرپرجوتحقیقی کام کیاہے اس میں انہوں نے تحقیق وتنقیدکاحق اداکردیاہے۔حیدرقریشی کے تمام تخلیقی،تحقیقی اورتنقیدی سرمایوں کاجا طرح جائزہ لیاہے اورحیدرقریشی کی شخصیت کے تمام پہلوؤں پرروشنی ڈالی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ عامرسہیل ایک منجھے ہوئے ناقدہیں۔مجھے امید ہے کہ یہ کتاب ہندوپاک کے ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوگی۔