زبان کا تخم لفظ ہے۔ لفظ کا تخم تصویر ہے۔ تصویر کا تخم تصور ہے۔ تصور کا تخم یاداشت ہے اور یاداشت انسانی مشاہدات و تجربات کے بھنڈار سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اُردو ہماری اپنی زبان ہے اور اِس کا خمیر ہماری اپنی ہی دھرتی سے اُٹھا یعنی خطۂ بر صغیر اُردو کی بلا شرکتِ غیرے جنم بھومی ہے۔ اِس کے برعکس عربی فارسی ہماری زبانیں نہیں ہیں اور انگریزی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے اِس جدید تکنیکی دور میں انگریزی کے بغیر چارہ نہیں اور بہتر یہی ہے کہ اُردو سے کنارہ کر کے ساری توجہ انگریزی کی جانب مرکوز کر لی جائے۔ بالکل بجا ہے لیکن یہ بھی تو دیکھنا پڑے گا کہ جن گوروں کی ذہنی و سماجی غلامی سے جان چھڑانے میں تمام اہلِ ہند کو دو سو سال سے زائد کا عرصہ لگ گیا واپس اُنہی کی زبان اور تمدن کو اختیار کرنے میں ہماری اپنی تہذیبی و لسانی شناخت کس حد تک مسخ ہو سکتی ہے۔
میری مادری زبان سرائیکی ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ سرائیکی میں بہت بعد میں لکھنا شروع کیا۔ اب شاید کسی حد تک اِس غبار سے گلو خلاصی نصیب ہو رہی ہے لیکن یہ تو معجزہ سا ہو گیا کہ سرائیکی میں لکھنے کے فوری بعد معلوم ہوا کہ سرائیکی زبان کا قریباً نوے فیصد ذخیرۂ الفاظ اُردو ہی کی طرح فارسی اور عربی ہے۔ رہ گیا پیچھے نحو کا معاملہ تو اُسے برتنے کے باوجود بھی سرائیکی اُردو سے الگ کوئی زبان نظر نہیں آ رہی تھی بالکل یہی صورتحال اُس پنجابی کی بھی ہے جو پاکستان میں لکھی جا رہی ہے۔ سرائیکی لکھتے وقت جب میں نے لکھے گئے پیراگراف پر نظر ڈالی تو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ اُردو لکھی ہوئی ہے۔ پھر میں نے کوشش کی کہ سرائیکی کی صَرف کا کچھ انتظام کیا جائے لیکن بہتیری کوشش اور غور و فکر کے بعد بھی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ اس مسئلہ کو سمجھنے کیلئے آپ کو خواجہ غلام فرید سائیں کا کلام پڑھنا پڑے گا جس میں آپ نے فارسی اور عربی اصطلاحات کا خوب استعمال کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ سرائیکی زبان کی بُنت سمجھنے کیلئے خواجہ صاحب کا کلام فی نفسہٖ ممد و معاون ہے۔ پس اب مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ ہمارے پاس اِس وقت اُردو کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور نہ ہی فی الحال اِس زبان کی کوئی متبادل زبان موجود ہے۔ مذکورہ مسائل کے سبب سرائیکی میں لکھنے کا جنون فی الحال تو ماند پڑ گیا لیکن اِس مسئلے کے حل کیلئے میں تا حال سرگرداں ہوں کہ اپنی ماں بولی کی کم از کم صَرف کا تو لازماً کوئی انتظام کیا جانا چاہئے تاکہ فارسی اور عربی کے دخیل الفاظ سے سرائیکی کو کسی حد تک محفوظ کر لیا جائے ورنہ بہتر یہی ہو گا کہ اُردو پر اکتفاء کر لیا جائے۔ پس اس مسئلہ پر میں اپنی سرائیکی کتاب میں تفصیل سے بحث کروں گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ اِس وقت اُردو سرائیکی اور پنجابی دونوں منفرد زبانوں کا انفرادی استحقاق غٹک چکی ہے۔ چنانچہ سرائیکی لوگ تو پھر بھی دورانِ اَبلاغ سرائیکی نحو استعمال کر لیتے ہیں لیکن پنجابی تو اپنی ٹھیٹھ پنجابی سے اتنے دور ہو چکے ہیں جتنے گورے اب پنجاب سے۔ دریں اثناء کئی ایک تحریکیں اٹھیں اُردو کو پنجابی سے الگ کرنے کی اور اِس پر علمی کام بھی بہت زیادہ ہو چکا ہے جیسا کہ حافظ محمود شیرانی نے بہتیری مشقت اُٹھائی۔ بالکل یہی صورتحال پیدا کرنے کیلئے ڈاکٹر مہر عبد الحق نے بھی اُردو کو سرائیکی کی گود میں سلانے کی ریاضت کی۔ کافی مشقت کے بعد بھی معجزاتی طور پر پنجابی اور سرائیکی اُردو کی رہین رہیں اور اب ہم لاکھ کوشش کر لیں پھر بھی اُردو کا متبادل کسی بھی مقامی زبان کو نہیں بنا سکتے اور یہ اِس وقت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے پھر بھلے ہم اِس کے برعکس مدلّل اختلاف کا حق بھی رکھتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت ہمارے پاس کم سے کم اُردو کا کوئی متبادل ابلاغ نہیں ہے۔
بہت ہی چھوٹی عمر سے مجھے اُردو کا عشق لاحق ہو گیا تھا اور پھر غالباً جماعت چہارم سے اُردو میں شعر لکھنے کی کوشش کی تھی جو آج بھی جاری و ساری ہے۔
زبان کا ایک اٹل اُصول یہ ہے کہ یہ کبھی پرانی یا غیر مؤثر نہیں ہوتی گو کہ بحیثیتِ زبان اُردو آج محض شعر و شاعری تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ لیکن اِس کا ہرگز یہ معنیٰ نہیں کہ اُردو اب غیر مستعمل یا متروک ہو چکی ہے اور کیوں ہو کہ ہر زبان کا تخم کسی نہ کسی خطہ سے اُٹھتا ہے تو ایسی صورت میں اہلِ علاقہ اپنی زبان سے کبھی بھی اجنبی اور غیر متعلق نہیں ہو سکتے۔ پس ہر زمانے میں کچھ ایسے تہذیب پرور ضرور پائے جاتے ہیں جنہیں اپنی زبان سے عشق کی حد تک لگاؤ ہوتا ہے اور وہ دیوانے اپنی زبان کی ترویج کیلئے تن من اور دھن قربان کرتے رہتے ہیں۔
کوئی بھی زبان پسماندہ یا بیکار نہیں ہوتی۔ ہر زبان بولنے والوں کیلئے یکساں مفید اور کارآمد ہوتی ہے۔ چنانچہ آج لاطینی، یونانی اور سنسکرت اپنی اصل حالت میں کہیں بھی مستعمل نہیں ہیں لیکن اپنے وقتوں میں یہ زبانیں آج کی انگریزی، چائنیز اور ہندی سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور رواج یافتہ زبانیں تھیں۔
ہندوستان میں تُرکوں نے فارسی اپنائی جبکہ پٹھانوں نے پشتو لیکن عربوں نے عربی نہیں اپنائی بلکہ انہوں نے ہندی نحو پر مبنی عربی، فارسی اور سنسکرت الفاظ کے سنگم سے ایک ایسی زبان کو رواج دیا جسے آج ہم پاکستان میں اُردو اور بھارت میں ہندی کے نام سے جانتے ہیں۔ اُردو کا اوّلین اعجاز یہ ہے کہ اِس کی پیدائش خاص ہندوستان کی زمین پر واقع ہوئی کیونکہ اُردو کی نحو (Syntax) خالص ہندی سے لی گئی ہے۔ اِس لئے تمام ہندوستانی بلا تخصیص اُردو یا ہندی کے اہلِ زبان ہیں بشرطیکہ وہ بغیر کسی تعصب کے اُردو کو دل و جان سے اپنانے کیلئے تیار ہو جائیں۔
اہلِ زبان ہونے کی لغوی اور قانونی تعریف تو یہی ہے کہ یہ آپ کے والدین کی زبان ہو یا کم از کم گھر کی لیکن اُردو کے معاملے میں مجھے ایسا کہنے میں ذرا سا بھی تردّد نہیں کہ اُردو کے عشاق بھی اہلِ زبان میں شمار ہوتے ہیں۔ بھلا اگر ایک شخص جس نے پوری زندگی ایک زبان کی آبیاری میں کھپا دی ہو وہ اُس کا اہل نہیں تو اور کون ہے؟۔ اُردو یوپی، بِہار میں پیدا ہوئی یا دکن میں یا پھر اسے عسکری مقتدرہ نے خطۂ پاکستان کی عوام پر زبردستی تھوپ دیا ہو لیکن اب تو یہ ہماری زبان بن چکی ہے اور ہمیں اب اسے اپنی مادری زبان کی طرح برتنے میں کوئی مضائقہ ہے نہ عار بلکہ اس میں ابلاغ اب پورے خطے کیلئے طبعی بن چکا ہے۔
میرے گھر کی زبان سرائیکی ہے لیکن یہ تو میں ہی جانتا ہوں کہ مجھے اپنی اس زبان میں لکھنے کیلئے کن کن مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ اُردو کے معاملے میں مجھے کبھی کوئی ایسی دِقّت محسوس نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں اُردو زبان سے جو ایک عین طبعی تعلق بن چکا ہے اِس سے کنارہ اب بارہا اور بہتیری کوشش کے باوجود بھی ممکن نہیں رہا۔
اِن دنوں میں انگریزی زبان کے اثر میں ہوں مگر یقین جانئے ایک طویل عرصہ انگریزی سے رہ و رسم کے باوجود بھی یہ دل پر لگتی ہے نہ ہی دماغ پر۔ اُردو سے لاشعوری رغبت، بے ساختہ میلان اور فہم کی وہ گہری روشنی چھپائے نہیں چھپتی اور اِدھر اُدھر کی علمی تھکن اُردو کی گود میں سر رکھ کر ہی رفع ہوتی ہے۔
کوئی بھی اَدب در اصل زبان کی اولاد ہوتا ہے اِس لئے میں اپنی شاعری پر کچھ بھی کہنے کی بجائے اُس زبان پر گفتگو کر رہا ہوں جس میں یہ شاعری کی گئی ہے۔ یہ زبان نہ ہوتی تو میرا شعر بھی نہ ہوتا۔ اشعار پر رائے قارئین کا کام ہے۔ میرا حال تو یہ ہے کہ جسے ہم اُردو زبان کہتے ہیں اِس کے معجزات نے مجھے سرنگوں کیا ہوا ہے۔
تُرک مرزا غالب نے جس زبان میں اشعار کہے وہ بھی اُردو ہے۔ کشمیری برہمن علامہ محمد اقبال نے جس زبان میں شاعری کی وہ بھی اُردو ہے۔ علامہ نیاز فتح پوری جیسے آزاد منش کی نگارشات بھی اُردو زبان میں ہی ہیں جبکہ ایک معتبر ہندو اُستاد شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کے اشعار بھی اُردو زبان میں ہیں۔ منشی پریم چند اور سعادت حسن منٹو کے افسانے بھی اُردو میں ہیں۔ انڈین فلم مغلِ اعظم اور چِتر لیکھا بھی اُردو میں ہیں جبکہ پاکستانی فلمیں ارمان اور سہیلی بھی اُردو میں ہیں۔ نیٹ فلیکس پر ہندی ویب سیریز بھی اُردو میں ہیں اور ہم ٹی وی پر پاکستانی ڈرامے بھی اُردو میں ہیں۔ البتہ یہاں اُردو اُس پار (انڈیا) میں اِسے ہندی کہا جاتا ہے اور یہی زبان آج پورے بر صغیر میں لنگوا فرانکا بن چکی ہے۔
پس کہیں یہ اُردو فارسی اور عربی کے ہار پہنے ہوئے ہے تو کہیں یہ سنسکرت اور پراکرتوں کے گھونگھٹ لئے ہوئے ہے جبکہ کہیں انگریزی کی نکٹائی لگائے ہوئے ہے۔ چنانچہ آپ اِس میں دنیا کی کسی بھی زبان کی صحیح یا معلول آواز برت سکتے ہیں۔ فارسی میں ہائیہ آوازیں نہیں ہیں جیسے پھ، تھ، ڈھ، کھ، گھ وغیرہ، اِسی طرح عربی میں گ،چ اور ڈ جیسے صحیح حروف نہیں ہیں جبکہ انگریزی زبان میں ت، د،خ اور غ جبکہ سنسکرت میں ث، غ، ض،ق اور ظ جیسی اصوات کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مگر اُردو کا خاص اعجاز یہ ہے کہ اِس میں لاطینی اور جرمنی کے علاوہ آپ انگریزی کی خاص آوازیں بھی استعمال کر سکتے ہیں گویا اُردو میں دنیا کی کسی بھی زبان کی آواز برتی جا سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پٹھان اِس میں پشتو دھر لیتا ہے تو پنجابی اس میں پنجاب کی دھُن، سرائیکی اس میں اپنے لہجے کی مٹھاس گھول لیتا ہے تو تمل اِس میں اپنا تیکھا پن۔ پس پشاور سے پانڈیچری تک ہم جسے بہر صورت بہر طور سمجھ لیتے ہیں اُسے اُردو یا ہندی کہا جاتا ہے۔
چاہے آپ اِسے نسخ، نستعلیق یا پھر دیوناگری رسم الخط میں لکھیں یہ اُردو ہی رہے گی پس اُردو یا ہندی دیوناگری لِپی میں لکھے جانے کے سبب اُردو سے الگ نہیں ہو جاتی گو کہ آج ایک فیصد پاکستانی ادیب بھی دیوناگری لپی نہیں جانتے جس کے سبب یہ دیوناگری میں لکھی گئی اُردو کو ہندی سمجھ کر اُردو سے بالکل الگ کر لیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اُردو کو صرف پرسو عریبک رسم الخط کے سبب ہم ایک بالکل نئی زبان نہیں بنا سکتے۔ اِسی خلیج کو پاٹنے کیلئے میں نے کوشش کی کہ چند ایک نظموں کو دیوناگری رسم الخط میں بھی لکھ لوں تاکہ سند رہے کہ اُردو دیوناگری میں ڈھل جانے کے بعد کوئی الگ زبان نہیں بن جاتی۔
دخیل الفاظ استعمال کرنے سے کسی بھی زبان کا نحوی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہو جاتا۔ زبان نحو سے بنتی ہے۔ صَرف (Morphology)کسی بھی زبان میں موتیوں کا کام دیتا ہے جبکہ نحو اُس لڑی کا جس میں یہ موتی پروئے جائیں۔ اُردو زبان میں سنسکرت سے لئے گئے تت سم ہوں یا پھر متبدل شدہ تت بھو اُردو کی نحو میں ایسے الفاظ کی بُنت سے کوئی فرق نہیں پڑتا حتیٰ کہ آپ چاہیں تو اُردو عبارت میں انگریزی تک کے الفاظ داخل کر لیں تب بھی یہ اُردو ہی رہے گی۔ اِن فیکٹ اُردو ہے ہی ایسی یونیورسل لینگویج۔ سو آپ اِس میں کسی بھی لینگویج کا کوئی بھی ورڈ اِیزیلی اِنکلوڈ کر سکتے ہیں وِد آؤٹ اینی کنفیوژن۔
کوئی بھی زبان فی نفسہٖ کسی خاص قاعدہ یا ضابطہ کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہ اہلِ زبان پر نِربھر ہے کہ وہ اپنی زبان کو کیسے برتتے ہیں۔ چنانچہ جیسے جیسے وہ برتتے جاتے ہیں ویسے ویسے زبان کے اُصول و قواعد بھی مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی زبان کو اُصول و قواعد سے سیکھنا انتہائی مشکل اَمر ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی زبان بولنے والے کسی خاص اصل و قاعدہ کو سامنے رکھ کر نہیں بوتے بلکہ اُن کا بولنا ہی اصل و قاعدہ ہوتا تھا۔
اس کو کئی ایک مثالوں سے واضح کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ہم اُردو میں ایک بالکل عام سا لفظ ’’مسئلہ‘‘ روزانہ کئی بار استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن اس کو عام طور پر ’’مَس۔ اَلہ‘‘ نہیں بولتے بلکہ ’’مَس۔ لَہ‘‘ بولتے ہیں جو کہ عربی قواعد کے لحاظ سے بالکل غلط ہے اور اکثر ادیب یوں بولنے پر تیوری بھی چڑھانے لگتے ہیں لیکن میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ چونکہ ہم اُردو بولتے ہیں اور اُردو میں ہم اِسے مَسلَہ کہتے ہیں تو ہمارے ہاں یہ مسلہ ہی رہے گا۔ پس اِنہی پیچیدہ مسائل کے سبب اُردو اور ہندی کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔
خیر یہ تو رہا زبان کا وہ تنازعہ جسے ہمارے ہاں کے ادیبوں نے بالخصوص اور ہمسایہ ادیبوں نے بالعموم خوب بڑھاوا دیا اور ہر ادیب نے اپنی اپنی رائے پیش کی جبکہ مجھے اس ضمن میں گیان چند جین کی رائے سب سے زیادہ معقول اور معتدل لگی۔ اس کے برعکس اُردو کو فرقہ پرستی اور اسے دائرۂ مذہب و ملت کے حوالے سے جانچنے کا کام فرمان فتح پوری نے کیا حالانکہ زبان کا مذہب سے کیا ربط۔
علاوہ ازیں اُردو ابتداء ہی سے عقیدت و تقلید اور تبلیغی روش میں محبوس رہی ہے۔ نثر میں تو ایک فلک بوس انبار لگا پڑا ہے اور بعض اوقات تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اُردو کا خاص احیاء اسی مقصد کے پیش نظر کیا گیا تھا کہ اس میں فرقہ پرستی اور تبلیغی روش کو پروان چڑھایا جائے۔ پس ’’توبۃ النصوح‘‘ (مصنفہ ڈپٹی نذیر احمد) سے لے کر ’’جنت کے پتے‘‘ (مصنفہ نمرہ احمد) تک وہی ایک مضمون ہے جو مختلف پیرایوں اور استعاروں میں بیان کیا جا رہا ہے یعنی ایک اچھا اور اخلاقی انسان بننے کیلئے آپ کو پہلے راسخ العقیدہ بننا پڑے گا۔
بلا شبہ یہ گھٹن اور پُر تکلف مبالغہ ہے جس کا زبان کی افزائش و ترویج سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
کلیشے تبلیغ اور گل و بلبل کی تکرار نثر و نظم کے خاص میدان ہیں اور یار لوگ ان میدانوں میں خوب سرگرداں رہے۔ پوری دنیا میں عقل و دانش تک رسائی اور تنقیدی روش کی نشو و نما کا سب سے مؤثر ذریعہ نظم رہا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نظم جن مذکورہ بالا بیڑیوں میں محبوس رہی اِس کا تذکرہ ایک الگ تحقیقی مقالہ کا متقاضی ہے۔ آج اُردو یا ہندی دنیا کی پانچ اہم ترین زبانوں میں شمار ہوتی اگر اِسے کوئی دس مزید ن۔ م راشد، مِیرا جی، مجید امجد، مخدوم محی الدین، اختر الایمان اور فیض احمد فیض مل جاتے۔
حسِ جمالیات کا اظہار اور لطائفِ فطرت کا بیان شعر کے اوصافِ حمیدہ ہیں۔ لیکن شعر کی بنیادی خوبی شعور ہے جیسا کہ یہ اصطلاح فی نفسہٖ تنقید و دانش سے مملو ہے۔ اُردو نظم میں آپ کو یہ روش کہ انسان فطرت کا مطیع و پِچھلگ ہے خال خال ہی نظر آئے گی۔ متقدم نے پیشرو کی اطاعت کی اور وہی کیا جو پہلے ہو چکا تھا۔ یوں کلیشے کے انبار لگ گئے۔ چنانچہ اُردو نظم میں مطلق تنقید، مزاحمت اور اطاعتِ فطرت ناپید ہی رہے حتیٰ کہ اس جدید تکنیکی ترقی کے زمانے میں بھی جہاں ہر فن اپنے اوجِ کمال کو چھو رہا ہے اُردو نظم اٹھارویں صدی میں ہی کہیں گھوم پھر رہی ہے۔ ثقافت اور زبان جب مذاہب و عقائد کی رہین بن جائیں تو جہاں ثقافت مسخ ہو جاتی ہے تو وہاں زبان بھی مشرف بہ تقلید ہو جاتی ہے۔ پس یہی ہوا اُردو اور چھ ہزار سال پرانی تہذیبِ ہند کے ساتھ۔ محبوب کے حُسن اور ناز و اَدا کی تعریف تو شعر کی خاص صفت بن گئی مگر اُسی محبوب سے فطرتی مراسم طبو ٹھہرے۔ پس یہ خاص قسم کا نفاق صرف اُردو ادب ہی کا تفاخر ہے ورنہ دنیا کی کسی زبان میں بھی ایسی روش نہیں ملتی۔
شعر فی نفسہ المیہ کا اظہار ہے اگر شعر اپنی اس صفت سے گرتا ہے تو وہ محض شُغل بن جاتا ہے۔ پس شعر اور شُغل میں یہی بنیادی فرق ہے۔ اقبال کی شہادت ملاحظہ فرمائیں۔ ع
صد نالۂ شب گیرے صد صبح بلا خیزے
صد آہِ شرر ریزے یک شعر دل آویزے
ابلاغ کی سب سے عمدہ اور مستند صورت تو یہ ہے کہ اگر آپ میرے سامنے ہوتے تو میں آپ کو ہارمونیم پر راگ درباری کانہڑہ کے سُروں میں اپنے اشعار سنا دیتا کیونکہ سُر الفاظ سے کہیں زیادہ اثر رکھتے ہیں اور احساسات و جذبات ابلاغ کی سب سے جامع صورت ہیں۔ لیکن چونکہ لفظ دور رہ کر ابلاغ کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں اس لئے الفاظ کے بغیر چارہ نہیں حتیٰ کہ آپ سامنے بھی ہوتے تب بھی ابلاغ کی یہی ایک صورت یعنی الفاظ ہی کے ذریعے تخاطب ممکن ہوتا۔ علاوہ ازیں کوئی معتبر صورت نہیں۔ پس یہ ایک عالمگیر سماجی مسئلہ ہے۔ لفظ فی نفسہٖ ایک صورت ہے نہ کہ کوئی علامت گو کہ اب علامت بن چکا لیکن یہ بھی شدید مجبوری کے باعث ورنہ تصویروں کے اتنے گنجلک کو ذہن سمجھنے اور اس کی تفہیم حاصل کرنے سے قطعی عاجز آ جاتا۔ پس اگر آپ کسی کو سمجھانا چاہیں کہ ’’محبت‘‘ کیا ہے تو اِس کیلئے آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ لفظ محبت لکھ کر اس کی لفظوں ہی میں کچھ تعریف کر دیں گے۔ اِس سے زیادہ آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ممکن ہی نہیں ہے۔ ہر مخاطب آپ کو یہ اجازت تھوڑی دے گا کہ آپ اُس سے لپٹ کر ہی اُسے سمجھا دیں کہ یہ لو اب محسوس کرو۔ یہ ہوتی ہے محبت۔
لفظ ابلاغ کی سب سے ناقص صورت ہے لیکن کیا کریں علاوہ ازیں کوئی چارہ ہی نہیں۔ تصویر بھی زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ یہ ایک سطحی قسم کا نقش ذہن میں ترتیب دیدے گی۔ احساس کو منتقل کرنا تصویر سے بھی ممکن نہیں لیکن تصویریں ذہن میں نقوش ضرور ثبت کر سکتی ہیں۔ الفاظ تو اتنا بھی نہیں کرتے کہ ایک سطحی سا نقش ہی ذہن میں ترتیب دے ڈالیں بلکہ اُلٹا معاملہ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔
آپ لکھیں گے کچھ اور پڑھنے والا سمجھے گا کچھ اور پھر سمجھ جانے والا اُن الفاظ کی تفسیر کچھ اور بیان کر لے گا۔ یوں الفاظ کے چکروں میں لفظی جگلری جاری رہے گی جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا۔
مجھے آج تک یہ مسئلہ سمجھ نہ آ سکا کہ کوئی ایک ادیب کسی دوسرے ادیب کے کلام کی شرح کیسے کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی کسی کی تصنیف کا ملخص کیسے نکال سکتا ہے؟۔ یہ تو شرح سے بھی کوئی بہت گیا گزرا کام ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ ایک مصنف کی تصنیف کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کر سکتے ہیں لیکن اس میں بھی قوی احتمال ہے کہ مصنف کے مطالب اپنی اصل سے اِدھر اُدھر نہ لڑھک جائیں چونکہ ترجمہ ابلاغ کی ایک دیرینہ اور مستقل مجبوری ہے اس لئے اس سے اغماض برتنا بعید از عقل نہیں۔
انتخابِ الفاظ (Diction)، مصطلحات (Terminologies) اور تصوراتی دنیا (Fictional Universe) ہر مصنف کی ذاتی ملکیت ہوتے ہیں۔ اس لئے کسی بھی مصنف یا مترجم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے مصنف کی تصنیف یا تالیف کی تشریح یا تلخیص کرتا پھرے۔ کیا کسی کے لفظ کے خول میں پوشیدہ احساس کو اس طرح لفظ پر ایک نظر ڈالنے سے حاصل کیا جا سکتا ہے؟، چہ جائیکہ ان الفاظ کی اپنے تئیں تفسیر کی جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں مگر لوگ ایسا کر تو رہے ہیں۔ کہیں دور جانے کی ضرورت ہی نہیں صرف اُردو ادب میں ہی دیکھ لیں۔ گزشتہ صدی میں سب سے زیادہ تفسیر کا کام غالب اور اقبال پر ہوا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ صرف ایک غالب کی شروح کی تعداد دیکھ لیں، ہزاروں میں ہیں۔ حالی سے لے کر شمس الرحمان فاروقی تک کونسا ایسا معتبر ادیب ہے جس نے غالب کے کلام کی شرح پر قلم نہ اُٹھایا ہو، لیکن حاصل کیا ہوا؟۔
در حقیقت کچھ بھی نہیں۔ صورت تو یہ ہے کہ بعض اوقات خود لکھاری بھی اپنے احساسات بیان کرنے کیلئے موزوں الفاظ سے محروم رہ جاتا ہے اور وہ جو الفاظ رقم کر لیتا ہے وہ الفاظ بھی اس کے دروں کی کماحقہ عکاسی نہیں کر پاتے چہ جائیکہ کوئی اور صاحبِ کلام اُن الفاظ کی شرح پر کمر کَس لے۔ شعر کوئی انوکھا کام نہیں کرتا یہ بھی ابلاغ ہی کی ایک صورت ہے لیکن ایک عمدہ صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریر کی ایجاد کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ ابلاغ اشعار ہی میں ہوا ہے پھر چاہے وہ دنیا کی سب سے قدیم تحریری دستاویز رزمیۂ گلگامش ہو یا پھر تہذیبِ ہند کی مذہبی دستاویز سام وید۔ علومِ ابلاغ میں شعر کی حیثیت نہ صرف مسلم الثبوت ہے بلکہ معتبر اور خوشگوار بھی ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب میں اس کا اثر ثابت ہو چکا ہے۔ لفظ انسان کی ایک جدید ایجاد ہے گو کہ یہ ناقص ہے لیکن فی الحال یہی ایک صورت مروج ہے اور یہی دنیا کی ہر منظم اور غیر منظم زبان کا تخمِ اعلیٰ ہے۔
تحریر کی ایجاد سے لے کر اب تک ابلاغ کا سب سے مؤثر وسیلہ ادب رہا ہے۔ آپ گلگامش کی رزمیہ پڑھیں، ہومر کی ایلیاڈ، ارسطو کی بوطیقا، چاسر اور شیکسپیئر کی نظمیں، اِمراؤ القیس کے قصائد اور الاعشیٰ قیس کے اَبیات، رودکی کی غزلیں اور عمر خیام کی رباعیات، لی بائی کی نظمیں اور سو شی کے گیت، باشو اور بوسن کی ہائیکو، کالی داس کی مختصر نظمیں، رائے داس، کبیر داس، دادو دیال اور مِیرا بائی کے دوہے، غالب اور اقبال کی غزلیں جبکہ ن۔ م۔ راشد، مِیرا جی اور فیض احمد فیض کی جدید نظمیں پڑھیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ ابلاغ کا سب سے معتبر وسیلہ آج بھی ادب ہی ہے۔ البتہ اب دیکھنا یہ ہے کہ اب تک جو ادب تخلیق کیا گیا ہے وہ ادب برائے ادب تھا یا ادب برائے زندگی جبکہ جدید زمانے میں تو ادب برائے ادب کا کافی غلغلہ مچا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ادب کو لوگ ادب تک ہی محدود کر لیں۔
آخر لکھنا تو انسان ہی نے ہے پھر یہ ادب کسی بھی صورت ادب برائے ادب تک محدود نہیں ہو پائے گا اور نہ ہی ہوا ہے۔ بالکل سیدھی اور دو ٹوک بات یہ ہے کہ زندگی کے دکھ درد پریشانیوں اور بے ثباتی کا باقاعدہ اظہار ادب ہے۔
شعر کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ پڑھنے والا صرف حظ لے جبکہ یہ خاص ضرورت موسیقی اور مصوری آرام سے پوری کرتی رہی ہے۔ موسیقی میں صرف مستی ہی کی گنجائش ہے جبکہ شعر کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ شعر مکمل انسانی زندگی کو محیط ہے۔ اِس میں سکھ بھی ہے۔ درد بھی ہے۔ بے بسی اور آزادی بھی ہے۔ مطلق جہالت تو ہے ہی دانشمندی اور راست بازی بھی ہے۔ پس انسانی زندگی سے جڑا ہر معاملہ شعر سے براہ راست متعلق ہے ورنہ محض ذوق کی تسکین کیلئے موسیقی سے عمدہ کوئی وسیلۂ اظہار نہیں۔
شعر کی صفتِ عالیہ ردھم ہے جسے موسیقی کی اصطلاح میں تال کہتے ہیں۔ الفاظ تال کے بغیر جس قدر بھی لطیف و گداز کیوں نہ ہوں انشاء ہی ہیں۔ چنانچہ نثری نظم، انشائے لطیف یا ادبِ لطیف جیسی کوئی شے نہیں ہے۔ شعر عروض یا تال کے بغیر شعر نہیں نثر ہے۔ یہ انتہائی اہم اور جوہری فرق شعر اور نثر کے درمیان ہمیشہ قائم رہے گا جبکہ شعر اور نثر میں یہی حدِ فاصل بھی ہے۔ شعر نظم کی اکائی ہے اور شعر میں ردھم الفاظ کے تسلسل کو توڑتا ہے نہ کہ فکر جب کہ اس کے برعکس نثر میں فکر کا سکتہ ہی جملے کی تکمیل کا کام دے دیتا ہے۔ اِس لطیف فرق کو نہ سمجھنے کے سبب فی زمانہ نثر نما شاعری نے شعر اور نثر میں جوہری اور نہایت واضح تضاد کو خلط ملط کر دیا ہے۔ شعر گیت ہے اور نثر تہذیب چنانچہ مصرع، بیت، ثلاثی، رباعی، قطعہ، مسدس، غزل، نظم، نغمہ، قصیدہ، ہجو، واسوخت، شہرِ آشوب وغیرہ در حقیقت گیت کی مختلف اقسام ہیں جبکہ اس کے برعکس انشاء، مضمون، قصہ، کہانی، افسانہ، ناول، ڈراما وغیرہ تہذیب کی مختلف اقسام ہیں۔ گیت گایا جاتا ہے اِس میں ردھم ہوتا ہے اور تہذیب برتی جاتی ہے۔ پس گیت آپ کو متحرک کرتا ہے۔ مست و بے خود کرتا ہے۔ آپ بے ساختہ ناچنے لگتے ہیں۔ عرب کی ثقافت میں دورانِ جنگ سپاہیوں کو متحرک رکھنے کیلئے شعر کی ایک صنف رجز با آوازِ بلند ترنم میں پڑھی جاتی تھی تاکہ سپاہی مست و بے خود ہو کر دیوانہ وار لڑتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں ر۔ ج۔ ز کا مادہ پیہم تحریک کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
اُردو شاعری میں شعر کا سفر Lyrics یعنی گیت سے شروع ہوا تھا۔ پھر قابل اور قادر الکلام شعراء نے گیت کو عوامی ذوق کے کھاتے میں ڈال کر غزل کی طرف توجہ دی جبکہ غزل بنیادی طور پر فارسی شاعری کی ادبی مشق تھی۔ خیر اُردو میں بھی اس نے اپنا سکہ خوب منوایا۔ پابند نظم کا مزاج بھی اُردو ادب میں بہت تیز رہا۔ بڑے عمدہ فن پارے ایجاد ہوئے۔ حالی تک آتے آتے غزل اور پابند نظم اپنی طبعی عمریں پوری کر چکی تھیں۔ اقبال، فیض اور ناصر کاظمی نے تو بس پرانی روایت میں دو چار نئے پیوند لگانے کی کوشش کی جو غالب اور میر کا اثر زائل نہ کر سکے اور یوں غزل اور پابند نظم واصل بحق ہوئیں۔ اس کے بعد معریٰ نظم پر چند روزہ بہار آئی لیکن وہ نگوڑی بھی عین جوانی میں انتقال کر گئی۔ ایک اکلوتی اب آزاد نظم ہی جوان تھی۔ بلا شبہ اُردو ادب میں آزاد نظم کی جوانی قیامت خیز تھی۔ راشد اور مخدوم جیسے پالنہار جو مل گئے تھے۔ خیر اب تو آزاد نظم بھی اپنی طبعی عمر پوری کر کے رخصت ہو چکی لیکن اِس کا غم ابھی تازہ ہے۔ پس اس کے ساتھ ہی اُردو ادب میں شعر اپنا فطرتی دور پورا کر چکا۔ چنانچہ آنے والے وقتوں میں عروض صرف گیت تک ہی محدود ہو جائے گا بلکہ صورتحال تو اب بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ آزادانہ اظہار کا کلی دار و مدار صرف ’’منثور کلام‘‘ پر ہی آ دھمکا۔ پس یہی فطرت ہوتی ہے ادب کی۔
وہ وقت بھی دور نہیں اب جب اُردو میں بہت عمدہ لکھنے والے بھی عروض سے نابلد ہو جائیں گے۔ لیکن اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ارتقاء کو کون روک پایا۔
ٹھمک رے نرتکی
میرے گیت میں کوئی لَے ہی نہیں
تُو رک کیوں گئی
سَم تھوڑی تھا
لیکن منثور کلام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہونے والا ہے کہ اب اس میں منطق کا خوب اور بہتیرا پرچار ہو پائے گا۔ قافیہ اور ردیف کی سکہ بند اور انتہائی دقیق بندشوں نے غزل کے مزاج سے تیکھا پن اور دو ٹوکیت معدوم کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غزل میں ایہام اور ابہام کا خوب چلن رہا۔ پابند نظم ردیف سے تو آزاد ہو گئی مگر قافیہ پیمائی کی زحمت سے آزاد نہ ہو سکی گو کہ یہ زحمت فطرتی معلوم ہوتی ہے مگر پھر بھی دقت فطرتی ہو یا مصنوعی بہرحال دقت ہی ہوتی ہے۔ بالآخر قافیہ پیمائی بھی تمام ہوئی اور لوگ صرف ردھم کی بنیاد پر اظہارِ خیال کرنے لگے۔ دریں اثناء حالی نے اِس روش کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
خیر اب ردھم بھی گیا۔ اظہار سرے سے گیت کے علاقہ سے ہی باہر آ نکلا۔ اب محض خیال آفرینی ہی منثور کلام کا تخم ٹھہرا۔ پس اس سے کم تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ فی الحال ادب میں اظہار کی یہ مطلق آزادی ہے۔ اگر ہم گیت کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گیت تہذیب سے پہلے کی ایجاد ہے۔ اس کے بعد تہذیب ہے جو انسانی وجود کو مہذب کرتی ہے۔ تعقل و تدبر پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ڈراما اور ناول نے انسانی کردار پر گہرے اثر ات مرتب کئے۔
پس آج بھی تہذیب کے جدید خط و خال تک رسائی کیلئے ہم ڈراما یا فلم کے ڈائیلاگ کا سہارا لیتے ہیں۔ خلطِ مبحث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اگر آپ شعر اور نثر کی ثقافتی اور فکری وضع جان لیتے ہیں۔
مضمون آفرینی، قافیہ اور ردیف شعر کے ظاہری محاسن ہیں بشرطیکہ شعر عدم ترسیل (Complexity) اور ابہام (Ambiguity) جیسے معائب سے منزہ ہو۔ اس کے علاوہ بھی آپ مختلف اوصاف سے شعر کی تزئین کر سکتے ہیں جیسے صنائع و بدائع، فصاحت و بلاغت وغیرہ لیکن شعر کا گیت ہونا اس کا غیر متبدل مقدر ہے جس سے مفر کسی طور ممکن نہیں۔
اس کے برعکس نثر میں کچھ لطیف اور فصیح منقطع جملے لکھ لینے سے وہ نظم نہیں بن جاتی۔ زیادہ سے زیادہ اسے ’’منثور کلام‘‘ ہی کہا جائے گا اور ایسی نثر لکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ بھی اظہار کی ایک مطلق آزاد صورت ہے جیسا کہ ہم عرض کر چکے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ نثر ہی کی کوئی صورت ہو سکتی ہے۔ بے شک نام کوئی بھی رکھ لیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اگر مختصر افسانے میں لطافت و فصاحت پیدا ہو سکتی ہے تو اسی طرح ایسی انشاء کیوں نہیں لکھی جا سکتی جس میں جملے منقطع لیکن لطافت و جاذبیت سے لبریز ہوں۔ پس ایسی لطیف و شستہ نثر لکھی جا سکتی ہے لیکن نہ تو ایسی کوئی کاوش نظم میں شمار ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسے ’’نثری شاعری‘‘ جیسی انتہائی مبہم اور فکری اُلجھن پیدا کرنے والی اصطلاح سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ المختصر نثر میں بلا کی فصاحت، بدعت، ندرت، چاشنی، لطافت، نزاکت، لفظی، صوتی اور معنوی آہنگ کیوں نہ پیدا کر لیں یہ جدید اظہار نثر ہی رہے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدید اظہار اپنے ظہور ہی سے اُردو ادب میں گوناگوں تنازعات و تمحیصات کا مؤجب بنا رہا اور یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب علامہ نیاز فتح پوری نے 1914ء میں رابندر ناتھ ٹیگور کے بنگالی گیتوں ’’گیتانجلی‘‘ کا اُردو میں نثری ترجمہ بعنوان ’’عرضِ نغمہ‘‘ کیا تو اس جدید اسلوب کو آپ نے انشائے لطیف کا نام دے دیا یا بعد میں دیگر نقادوں نے یہ اصطلاح وضع کر لی ہر دو صورتوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ اس جدید قسم کی نثر یا پھر شاعری نما نثر کو کیا نام دیا جائے۔ پس نظم تو یہ تھی نہیں جبکہ اِس کی لطافت کے سبب اِسے مطلق نثر کہنے میں بھی مضائقہ محسوس ہوا تب کسی نے کہا کہ یہ نثری شاعری ہے تو کسی نے کہا کہ یہ نثری نظم وغیرہ وغیرہ۔
مجھے محسوس ہوا کہ اس نثری نظم کو اگر بغیر کسی ہیئتی انقطاع کے اگر بالکل مربوط جملوں میں تسلسل سے لکھ دیا جائے تو تب انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن ہے کہ اس کی نظمیہ صورت سامنے آئے۔ چنانچہ ردھم تو اِس میں ہے نہیں جو تالی اور خالی کے اُصول کے مطابق اِس میں وقفہ اور تسلسل کے تحت زبان سکتے میں آئے فی الہذا چار و ناچار یہ مطلق نثر یا انشاء ہی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اگر ہم یہاں پر نثری نظم کیلئے انگریزی زبان کے الفاظ کا Stress (نامیاتی تناؤ) کی دلیل قائم کریں تو یہ اُردو زبان میں اِس لئے ممکن نہیں کہ اُردو میں انگریزی زبان کے الفاظ کی طرح سٹریس نہیں ہوتا جبکہ انگریزی زبان کا ہر لفظ دو، تین، چار، پانچ یا اس سے زائد Syllables (اجزائے آہنگ) لئے ہوتا ہے جیسا کہ لفظ Sufficient (کافی) میں تین اجزائے آہنگ ہیں۔ سَ، فِش، اِینٹ جبکہ سٹریس پہلے ایف پر ہے۔ چنانچہ انگریزی زبان میں جب Prose Poetry (نثری شاعری) لکھی جاتی ہے تو اُس میں یہی نامیاتی تناؤ یعنی Stress ایک لطیف ردھم کی فضاء قائم کر دیتا ہے۔ اُردو زبان کے الفاظ میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں۔ بے شک الفاظ کے وسیلے سے فصاحت و بلاغت کے دریا کیوں نہ بہا دیئے جائیں اور مضمون آفرینی اپنے اوج پر کیوں نہ پہنچ جائے جب تک جملوں میں انقطاع نہیں ہو گا یہ جملے مطلق نثر ہی رہیں گے۔ اِس کے برعکس بالکل یہی صورت پابند، معریٰ اور آزاد نظم میں بھی پیدا ہو سکتی ہے لیکن ایسے اسلوب میں ردھم ہی خود ساختہ انقطاع ہے جیسے تال میں تالی اور خالی کا اُصول ہوتا ہے مثلاً غالب کا یہ شعر۔ ع
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
اِس کو اب ہم بغیر انقطاع کے لکھتے ہیں۔
’’یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا‘‘۔ اگر آپ کو کلامِ موزوں کی ذرا سی بھی شدھ بدھ ہے تو آپ نے قدرتی طور پر رک جانا ہے پس یہی شعر کی وہ فطری صفت ہے جس کا ذکر ہم درج بالا سطور میں کر چکے ہیں۔ ’’ہوتا‘ کے بعد وقفِ تام ہے جو کلامِ موزوں کی بنیادی صفت ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس نثر نما نظم یا ’’منثور کلام‘‘ میں ایسا کوئی التزام نہیں ہوتا۔ احمد جاوید کی ایک نثر نما نظم ’’مایوس سورما کا خطاب‘‘ کی اوّلیں چار سطریں ملاحظہ ہوں۔ پہلے منقطع صورت میں۔
میں نے وہ رات دیکھ لی تھی
جو سورج نگل جاتی ہے
سیاروں پر کالک کی طرح لپی ہوئی نحوست
یا ستاروں کو پیس دینے والا بگولا
اب مربوط صورت میں ملاحظہ ہو۔۔۔۔
’’میں نے وہ رات دیکھ لی تھی جو سورج نگل جاتی ہے سیاروں پر کالک کی طرح لپی ہوئی نحوست یا ستاروں کو پیس دینے والا بگولا‘‘۔ بھلے اب آپ کہنہ مشق عروضیا کیوں نہ ہوں اپنی زبان میں سکتہ پیدا کر کے دکھا دیں؟۔ دس بار تو پڑھ لیں وقف کا شائبہ تک محسوس نہیں کریں گے۔ پس شعر سے تال نکال دیں تو وہ انشاء بن جاتی ہے جبکہ مضمون آفرینی نکال دیں تو وہ شُغل بن جاتا ہے اور شُغل سے مراد یہاں مزاح نہیں بلکہ ناقص، لچر اور کلیشے مضمون کو شعر میں لا کر صرف تال اور قافیہ کا سہارا لینا ادبی اصطلاح میں شُغل کہلاتا ہے۔
شعر فی نفسہٖ محض منطق ہے نہ ہی عروض یعنی تال بلکہ ان دونوں مبادیات کا مرقع ہے۔ چنانچہ عمدہ نثر میں حلاوت و جاذبیت پیدا کی جا سکتی ہے۔ ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام انشاء پرداز ایسا فن پارہ تخلیق کر سکتا ہے جسے پڑھ کر ذہن بے ساختہ شعریت کی جانب چل پڑے لیکن اس خاص کیفیت کے وقوع سے نثر پارہ شعر نہیں بن جائے گا۔ شعر میں اُس کی صفتِ عالیہ یعنی ردھم کی موجودگی لابدی ہے ورنہ آنے والے وقتوں میں منظوم اور منثور کلام کے درمیان تمیز جاتی رہے گی اور پھر نثر کو شعر سے الگ کرنا قریباً نا ممکن ہو جائے گا۔ پس یہ شعر کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ قافیہ اور ردیف کے ساتھ کسی خاص موضوع کو ردھم میں بیان کرنا چاہتے ہیں تو پابند نظم لکھیں۔ نپے تُلے ردھم میں لیکن قافیہ اور ردیف سے کنارہ کر کے کسی خاص موضوع کو بیان چاہ رہے ہیں تو معریٰ نظم لکھیں۔ ردھم کے زیر و بم کے ساتھ لیکن قافیہ اور ردیف کے بغیر کسی خاص موضوع کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو آزاد نظم لکھیں۔ موضوع متعین کئے بغیر اگر آپ ردھم میں اظہار کرنا چاہ رہے ہیں تو غزل کی صنف منتظر ہے آپ کی۔ دکھائیں اپنے جوہر۔ موضوع متعین کر لیا ہے لیکن ردھم پلے نہیں پڑ رہا تو لکھیں پھر نثریا انشاء۔ کوئی پابندی نہیں ہے۔
اب آخری صورت یہ ہے کہ آپ لکھنا تو نظم چاہتے ہیں لیکن ردھم، قافیہ، ردیف گویا شعر کی تمام بنیادی صفات سے آزاد ہو کر لکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے علاوہ کوئی صورت ممکن نہیں کہ آپ ’’منثور کلام‘‘ لکھیں لیکن تب آپ نثر کے آنگن سے باہر نہیں جا پائیں گے کیونکہ شعر صرف بنیادی تین صفات ہی سے شعر بنتا ہے۔ صفتِ عالیہ ’’ردھم‘‘ (تال یا بحر)۔ صفتِ قائمہ ’’مضمون آفرینی‘‘ (ندرت و نیرنگی)۔ صفتِ بیانیہ ’’ ڈکشن‘‘ (انتخابِ الفاظ)۔
نثری نظم پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور پچھلی چند دہائیوں سے اس میں اچھی خاصی ریاضت بھی ہو رہی ہے یعنی آپ خود اندازہ لگا لیں کہ فی زمانہ جب امجد اسلام امجد جیسے سکہ بند اور احمد جاوید جیسے صاحبِ نظر شاعر نثری نظم میں اظہار کر رہے ہیں تو یقیناً اس صنف پر اب مزید تنقید کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اِس وقت میرے سامنے احمد جاوید کے دو مجموعے ’’آندھی کا رجز‘‘ اور ’’ مناجات‘‘ پڑے ہیں اور دونوں میں نوے فیصد کلام اسی نثر نما نظم کی لا ہیئت میں مزین ہے۔ نثر نما نظم کی قدیم دستاویز جناب سجاد ظہیر کا منثور کلام ’’پگھلا نیلم‘‘ جو غالباً 1964 ء میں شائع ہوا اور پھر ن۔ م۔ راشد اور مِیرا جی کی چند نثر نما نظمیں، احمد ہمیش، قمر جمیل، مخدوم منور، انیس ناگی، افضال احمد سید، رئیس فروغ، سلیم آغا، ثروت حسین، نصیر احمد ناصر، فرحت عباس شاہ، سارا شگفتہ، کشور ناہید اور فاطمہ حسن کی نثرنما شاعری بھی اس جدید لاہیئتی صنف کی آبیاری میں ایک نمایاں کردار کی حامل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کیلئے نہ تو میں نے اُردو زبان کا انتخاب کیا اور نہ ہی اس کیلئے میں نے معریٰ یا آزاد نظم کی ہیئت کو ترجیح دی۔ یہ سب بس خود ہی ہوتا رہا حتیٰ کہ بہت بعد میں بنیادیں نکھر کر سامنے آئیں۔ چنانچہ اب مجھے لگتا ہے کہ آزادانہ اظہار کیلئے معقول اور مناسب ہیئت آزاد نظم ہی ہو سکتی ہے۔ البتہ کسی حد تک اس اصول میں قطعہ کو بھی ہم شامل کر سکتے ہیں۔ میرے بس میں ہوتا تو میں سرائیکی کے بزرگ صوفی شاعر علی حیدر ملتانی کی طرح سرائیکی میں ہی متصوفانہ رنگ میں کچھ لکھ لیتا لیکن شاید یہ بچپن کی تربیت ہی کا اثر ہے کہ اُردو سے دور جا کر بھی جو زبان منہ میں پڑ جاتی ہے وہ اُردو ہی ہوتی ہے۔ پس یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچپن کی تربیت در اصل آپ کی شخصیت کے وہ فطرتی پہلو تراش لیتی ہے جو بعد میں کسی بھی صورت نہیں بدلتے۔ شاید طبیعت کی کروٹ ہی اِس کا مداوا ہو۔
’’سوزِ نہاں‘‘ میں اظہار کی ترجیحی ہیئت معریٰ اور آزاد نظم ہی ہے گو کہ ساتھ میں کچھ غزلیں اورایک خاصی تعداد قطعات کی بھی شامل کر لی گئی ہے تاکہ یہ موزوں مواد بھی اپنی جگہ بنا لے۔ شاید پہلی بار ایسا ہو کہ ایک شاعر خود ہی اپنی شاعری کمپوز کر کے ساتھ اُس کی دھن بھی اپنے شعری مجموعہ میں شامل کر رہا ہو۔ اگر اِس سے قبل ایسا ہو چکا ہے تو پھر میرے علم میں نہیں لیکن میں نے یہ کوشش کی کہ جو نظمیں اور غزلیں میں نے کمپوز کر رکھی تھیں اُن کے ساتھ ہی اُن کی راگ کا اثر، سکیل اور تال درج کر دی ہے جبکہ ساتھ کیو آر کوڈ بھی شامل کر دیا ہے تاکہ قاری جو نظم پڑھ رہا ہے چاہے تو اُس کی دھن بھی سماعت فرما لے۔ پھر عرض کروں گا کہ شاید یہ کوئی نیا تجربہ ہو لیکن ایسا نہ بھی ہو تو اِس بار یہ کافی دلچسپ ہے۔ علاوہ ازیں ادیب اور اُس کے ادب کا معاملہ گائے اور اُس کے دودھ سے بننے والے گھی کی مثل ہے جو دس کلو دودھ دیتی ہے پھر جب اُس دودھ کو اُبال دیا جاتا ہے تو باقی نو کلو بچ جاتا ہے۔ اُبال دینے کے بعد اُسے جاگ لگائی جاتی ہے اور دہی بننے کے بعد اُسے جب بلوتے ہیں تو صرف ایک کلو مکھن نکلتا ہے۔ پھر اُسی ایک کلو مکھن کو جب پگھارا جاتا ہے تو اُس سے صرف تین پاؤ گھی نکل آتا ہے پس یہی تین پاؤ ہی در اصل ایک ادیب کا اصل کام ہوتا ہے۔ ’’سوزِ نہاں ‘‘ میں اپنی ظاہری ہیئت اور فکری لحاظ سے بہت کچھ نیا ہے۔ لیکن کیا نیا ہے اِس کی کھوج قارئین ہی کے ذمہ۔ پس ’’سوزِ نہاں ‘‘ پڑھیں اور غور کریں کہ اِس میں کیا نیا ہے۔
نعمان نیئر کلاچوی
28 جنوری 2022
٭٭٭
اس برقی کتاب میں دیوناگری رسم الخط کا مواد شامل نہیں کیا گیا ہے اور نہ موسیقی کے کیو ۔ آر۔ کوڈ
ناشر