مشہور مزاح نگار یوسف ناظم نے ودربھ کے ایک مزاح نگار کی کتاب کے پیش لفظ میں سنہ ۱۹۹۰ میں یہ تاریخی جملہ لکھا تھا:
’’ودربھ نے ادھر مزاح کے میدان میں اتنے کھلاڑی پیدا کئے ہیں جتنے کہ کیرالہ اور کر ناٹک نے تیز دوڑنے والے پیدا کئے ہیں۔‘‘ 1
نثر میں اس قبیل کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ ودربھ میں ۱۹۸۱ سے شروع ہوا تھا۔ 2۔ یہ ہنسی ابھی رکی نہیں ہے۔ اب جب کہ اس کاغذی کھلکھلاہٹ کو چالیس برس ہونے کو آئے، وہیں ’، زندہ دلانِ ودربھ‘، کا بورڈ آویزاں کئے بغیر وہی زندہ دلی بر قرار ہے، برسوں کی اس چلہ کشی کے دوران تقریباً ڈیڑھ درجن نثر نگار اور لگ بھگ اتنے ہی شاعر اپنی بغلوں میں ہنستی مسکراتی کتابیں دابے میدانِ ظرافت میں قارئین کو گد گدا رہے ہیں۔ بے کتابے طنز و مزاح نگاروں کی تعداد بھی ان سے کچھ کم نہیں ہیں جو گاہے بگاہے رسائل اور اخبارات میں گل کھلاتے ہیں جنھیں پڑھ کر قارئین کھلکھلاتے رہتے ہیں۔ اس کتاب میں ان تمام کی نمائندگی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی تین ٹولیاں بنتی ہیں۔
*باب اول۔ صاحبِ کتاب ظریفانہ نثر نگار۔
*باب دوم۔ بے کتاب ظریفانہ نثر نگار۔
*باب سوم۔ طنز و مزاح نگار شعرا۔
قبل اس کے کہ ہم اس دیوارِ قہقہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں، ذرا دیکھ تو لیں علاقۂ ودربھ کا محلِ وقوع کیا ہے۔
علاقۂ ودربھ۔ ایک تعارفی نوٹ
مہاراشٹر اسٹیٹ کو سرکاری انتظام کے تحت ممبئی، پونا، اورنگ آباد اور ناگپور ڈیویژن کے نام سے چار حصّوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ موجودہ ودربھ گیارہ اضلاع پر مشتمل ہے۔ اس کا مشرقی علاقہ برار کہلاتا ہے جس میں امراؤتی، ایوت محل، آکولہ، بلڈانہ اور واشم اضلاع شامل ہیں۔ مغربی حصّے میں ناگپور، بھنڈارہ، گوندیا، چندرپور، گڑچرولی، وردھا ضلعے ہیں یہ علاقہ گونڈوانہ کے نام سے مشہور تھا۔ علاقۂ ودربھ میں علمی اور ادبی سرگرمیاں عہدِ قدیم ہی سے جاری و ساری رہی ہیں۔ گونڈوانہ کی بہ نسبت سابق صوبہ متوسط برار میں علمی و ادبی شخصیات کے کارنامے یہاں کی علمی فضا کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوئے۔
تاریخ امجدی (چراغ برار) میں مورخِ جناب امجد حسین خطیب رقم طرار ہیں:
’’ایسا لکھا ہے کہ اصل نام صوبہ برار کا وردھا تٹ یعنی وردھا کا کنارا اور وردھا برار کی مشہور نہروں میں سے ہے اور تٹ کنارہ کو کہتے ہیں۔ چونکہ یہ خطہ اس ندی کے کناروں پر واقع ہے اس واسطے اس کا اصل نام وردھا تٹ ہے۔ بہرحال خطہ برار حسبِ اقوال خلاصۃ التاریخ وغیرہ کے مابین دو پہاڑوں کے ہے ایک کوہِ بندیاچل اور سینہاچل عبارت انہیں پہاڑوں سے ہے۔‘‘
ڈاکٹر شرف الدین ساحل نے اس علاقہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’دورِ آصفیہ میں یہ علاقہ ’ملک مانی حیدر آباد‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس وقت اس میں چھ اضلاع شامل تھے۔ لیکن ستمبر ۱۹۰۵ء میں جب برار کا الحاق صوبہ متوسط سے ہو گیا تو ایلچپور و امراؤتی اور باسم کو اکولہ میں ملا کر چار اضلاع بنائے گئے۔ یہ چاروں اضلاع یکم مئی ۱۹۶۰ء کو اس نئی ریاست میں شامل کر لئے گئے جو ریاستِ مہاراشٹر کہلاتی ہے۔ برار میں مسلم تہذیبی و تمدّنی تاریخ کا باقاعدہ آغاز ۱۲۹۴ء میں دیو گری پر علاو الدین خلجی کے حملے سے ہوتا ہے۔ لیکن شاہ دولہا رحمن غازی کے مشہور و معروف واقعۂ جہاد سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس حملے سے تقریباً ۲۹۰سال پہلے مسلمانوں نے اس علاقہ میں اپنا قدم جما لیا تھا۔
برار میں سب سے پہلے جن نثری تصنیفات کا تذکرہ ملتا ہے وہ ان سندھی علماء کی تصانیف ہیں جو بہمنی دور میں صفدر خاں سیستانی ناظم صوبۂ برار کے قائم کردہ مدرسہ میں تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیتے تھے۔ یہ ۱۳۴۹ء کا زمانہ تھا۔ منشی حیات خاں مظہر، سیّد مبین الرحمن، خواجہ لطیف احمد، حبیب الرحمن صدیقی راشد اللہ انعامدار اور میر غلام احمد حسن کے نام اس علاقہ کے نثرنگاروں میں لئے جاتے ہیں۔(۳)
ودربھ میں آزادی کے بعد ہی تخلیقی نثر کو فروغ حاصل ہوا اور بیشتر نو جوان مختلف اصناف کی جانب مائل ہوئے ان میں طنز و مزاح اور منی افسانے کے علاوہ افسانوں کی تخلیق کا سلسلہ شروع ہوا۔ برار کی بہ نسبت ناگپور اور کامٹی میں افسانہ نگاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد مو جود تھی یہ وہی زمانہ تھا جب اس علاقہ سے اردو اخبارات شائع ہونے لگے تھے۔ ناگپور میں ۱۸۵۷ء میں اردو صحافت کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ ’’ترجمان‘‘ ناگپور (۱۸۸۴ء) صوبۂ متوسط برار کا پہلا قابلِ ذکر اخبار تھا۔
عبد الستار فاروقی جنھوں نے ۱۹۳۱ء میں کامٹی سے ہفتہ وار ’’امّید‘‘جاری کیا تھا۔ اپنے مضامین میں افسانوی طرزِ اظہار کو بروئے کار لا کر افسانہ نگاری کے لئے ابتدائی نقوش ثبت کئے انھیں ودربھ کے اوّلین افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے، برار میں سیّد حبیب الرزّاق کی تحریروں میں چند مضامین ملتے ہیں جن میں واقعات کو شگفتہ انداز میں بیان کیا گیا۔
ودربھ میں مزاح نگاری
طنز و مزاح کے سلسلے میں سید عبد الرزّاق کے دو مضامین قابلِ ذکر ہیں ’’سائیکل میں ریڈیو‘‘ اور ’’ماڈل گرل‘‘ جو ناگپور کے رسائل میں شائع ہوئے تھے۔ ودربھ میں ۱۹۷۰ کی دہائی میں کئی نوجوان لکھنے والے سامنے آئے جنھوں نے اس نئے میدان میں قدم رکھا اور ظرافت نگاری ایک ادبی وبا کی شکل اختیار کر گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان ہی جراثیم سے متاثرہ مضامین اور کتابیں منظرِ عام پر آنے لگیں۔ اسی دوران شہر اکولہ میں اسی موضوع پر سیمینار بھی منعقد ہوا جس میں اردو کی مشہور ادبی شخصیات یوسف ناظم، ظ انصاری، خواجہ عبد الغفور، ڈاکٹر صفدر، ڈاکٹر محبوب راہی، شکیل اعجاز اور شیخ رحمٰن اکولوی موجود تھے۔ جن ادیبوں نے ودربھ میں ظرافت کو اپنے ادبی اظہار کا وسیلہ بنایا یا منھ کا مزہ بدلنے کے لئے چند مضامین سپردِ قلم کئے ان میں سے چند نام درج ذیل ہیں۔
نثر نگار
سیّد صفدر، شکیل اعجاز، شیخ رحمن اکولوی، بانو سرتاج، محمّد اسد اللہ، بابو آر کے، رفیق شاکر، انصاری اصغر جمیل، ایس ایس علی، محمد خورشید نادر، ڈاکٹر جاہل ناگپوری، صوفی غلام حیدری، حیدر بیابانی، ڈاکٹر رام پر کاش سکسینہ، ثریا صولت حسین، عمر حنیف، طارق کھولا پوری، ڈاکٹر اشفاق احمد، آر یو خان، سعید احمد خان، سمیع بن سعد، رحمت اللہ مالوی، ایم آئی ساجد، شکیل شاہجہاں، نثار اختر انصاری، اظہر حیات، شاہد رشید، یحییٰ جمیل، ڈاکٹر اظہر ابرار، محمد رفیع الدین مجاہد، محمد توحید الحق، خان حسنین عاقب، محمد ایوب، اسد تابش وغیرہ۔
شعرا
حافظ محمد ولایت اللہ، عبد الصمد جاوید (علامہ گنبد)، فیاض افسوس، ناظم انصاری، جمال الدین جملوا انصاری، سرفراز کاتب، فنی ایوت محلی، عبد الحفیظ لقب عمران (اچلپور)، فوجی جلگانوی، رفیق شاکر کھامگانوی، انوار احمد قریشی نشتر (اکولہ) منہ پھٹ ناگپوری، مسعود احمد جھانپڑ (ناگپور)، مفلس قارونی، خواجہ زین العابدین۔۔ نایاب، غنی اعجاز (اکولہ)، حیدر بیابانی، متین اچلپوری، فصیح اللہ نقیب (اکولہ) ،ح خ جھنجھٹ اکولوی، ریاض الدین کاملؔ، محمد توحید الحق (کامٹی)، نادر بالاپوری، انیس احمد شوق، وحیدؔ شیخ (ناگپور)، التمش شمس اکولوی، عقیل ساحر، بشیر بشر، بدنیرہ، ڈاکٹر عمران علی خاں عمران (اکولہ)، آصف نعیم (منگرول پیر)، شاداب انجم (کامٹی)، جمیل انصاری وغیرہ۔
احتساب
زیرِ نظر کتاب ودربھ کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور شاعروں کی تخلیقات کا ایک انتخاب ہے۔ ودربھ میں شائع ہونے والے اس قسم کے انتخابات میں شاعری میں غزلستانِ برار (۲۰۱۵) کو خاص طور اہمیت حاصل ہے۔ اس کتاب کے ذریعے شاعروں کی ایک کثیر تعداد کو پہلی مرتبہ نمونۂ کلام سمیت متعارف کروایا گیا تھا۔ ڈاکٹر شرف الدین ساحل نے اپنی کتاب ’’ناگپور میں اردو‘‘ (۱۹۹۳) میں ناگپور کے کئی ایسے ادیبوں اور شاعروں کا تعارف مع کلام پیش کیا ہے جن کے ہاں ظرافت جزو تحریر ہے۔ ماہنامہ شگوفہ نے معروف مزاح نگار اور مصور شکیل اعجاز کے تعاون سے جولائی ۱۹۹۴ میں ’’گوشۂ ودربھ‘‘ شائع کیا تھا جس میں ظریفانہ رنگ میں موجود شعری و نثری تخلیقات شائع کی گئی تھیں۔ ڈاکٹر آغا غیاث الرحمٰن کی کتاب ’برار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء‘ (۲۰۱۱)، ’شخصیاتِ ودربھ‘ (۲۰۱۵)، ’ادبیات ودربھ‘ (۲۰۱۳) میں بھی ودربھ کے کئی فنکاروں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر عبد الوحید نظامی کی کتاب ’’برار میں طنز و مزاح‘‘ (۲۱۰۸) میں پندرہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین شامل ہیں۔ راقم الحروف کی کتاب ’’پیکر اور پر چھائیاں‘‘ (۲۰۱۲) میں شامل تین مضامین میں ان ظرافت نگاروں کی ادبی کاوشوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی تھی۔
’زعفران زار۔ ودربھ کی منتخب نگارشات‘ میں شاعروں اور نثر نگاروں کی منتخب تخلیقات پیش کی جا رہی ہیں تاکہ اس سے اندازہ ہو سکے کہ ظرافت کی تخلیق کے معروف مراکز میں ودربھ بھی ایک اہم علاقہ ہے جہاں اس مخصوص ادبی طرزِ اظہار کی آبیاری کرنے والے فنکاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد موجود ہے۔
ودربھ کے چند اہم مزاح نگاروں کا تعارف ذیل کی سطور میں پیش کیا جار ہا ہے۔
شفیقہ فرحت
شفیقہ فرحت کا تعلق شہر ناگپور سے تھا اور وہ ملازمت کے سلسلے میں بھوپال منتقل ہوئیں تو اسی شہر کو اپنا وطن ثانی بنا لیا تھا۔ ڈاکٹر صفدر نے ان کے متعلق لکھا تھا: شفیقہ فرحت جس قدر طنز و مزاح میں بسی ہوئی ہیں، اسی قدر بھوپال میں بس گئی ہیں مگر بیٹی کہیں بھی رہے پرائی نہیں ہوتی۔ شفیقہ فرحت مہاراشٹر کی بیٹی ہیں۔
شفیقہ فرحت نے قیام ناگپور کے زمانے میں بچوں کے رسائل ماہنامہ ’’چاند‘‘ اور ’’کرنیں‘‘ شائع کئے تھے۔ ادب میں اب کی پہچان ایک طنز و مزاح نگار کے طور پر مستحکم ہوئی تھی۔ خواتین مزاح نگاروں کی اس زمانے میں بھی کمی تھی اور یہ قلت اب بھی برقرار ہے۔ شفیقہ فرحت کا مزاح ان کے اسلوب سے پھوٹتا ہے اور زندگی کے ان گوشوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جن میں آس پاس کی رنگا رنگی اور خوشیاں کبھی ہمیں مسکرانے پر آمادہ کرتی ہیں اور کبھی ہم بے اختیار ہنس پڑتے ہیں۔
’’لوگ جب ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہیں یعنی ریٹائر ہو جاتے ہیں تو خواہ صدر جمہوریہ کے عہدے سے ہوں یا چپراسی کے، تو انھیں فرصت ہی فرصت ہوتی ہے۔ پنشن اور مختلف فنڈس کے ساتھ ایک ’’چین‘‘ کی بنسی ملتی ہے جسے وہ بجاتے رہتے ہیں۔ اب اس ’’چین‘‘ کی بنسی والی کہاوت سے یہ راز نہیں کھلتا کہ بنسی ملک چین سے برآمد کی جاتی ہے یا بذات خود چین نامی کسی دھات یا لکڑی کی ہوتی ہے یا سیدھی سادی عام قسم کی بانسری کو چین سے بیٹھ کر چین اور اطمینان کے تال کے سروں میں بجایا جاتا ہے۔ اس کے بجانے کی ٹریننگ لی جاتی ہے یا رٹائر ہونے کے ساتھ ہی الہامی طور پر اس فن پر عبور حاصل ہوتا ہے۔‘‘
(بعد سبک دوشی)
بانو سر تاج
بانو سر تاج بحیثیت افسانہ نگار اردو ادب میں ایک مشہور نام ہے۔ ان کے متعدد مضامین مزاحیہ رنگ و آہنگ لئے ہوئے چند رسائل میں شائع ہوئے۔ ان کی ظریفانہ تحریروں میں افسانوی انداز غالب ہے۔ ارد گرد بکھری زندگی کی ناہمواریوں کو وہ شگفتہ انداز میں بیان کرتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں واقعات سے مزاح پیدا کرنے کی کوششیں نمایاں ہیں۔
ظریفانہ رنگ میں ان کی دو کتابیں ہیں۔ ترا ممنون ہوں (۲۰۰۴) اور خطرے کا الارم
(۲۰۱۰)۔ ماہنامہ شگوفہ نے ان کی طنزیہ و مزاحیہ تخلیقات اور تعارفی مضامین پر مشتمل گوشہ شائع کر کے ان کی خدمات کو نمایاں کیا ہے۔ ان کے ایک مزاحیہ مضمون کا اقتباس ملاحظہ
فرمائیں:
’’دوسرے روز میدان میں تشریف لے آئیں بہت دیر تک نہایت دلچسپی سے ہماری جد و جہد ملاحظہ فرماتی رہیں پھر گویا ہوئیں۔ اگر آپ کو سائیکل پر بٹھا کر ایک شیر آپ کے پیچھے چھوڑ دیا جائے تو یا یقیناً آپ سائیکل لے کر بھاگ نکلیں گی۔ ہمیں بہت شرم آئی اور ایک گھنٹے کے اندر ہم سیٹ پر بیٹھنا اور سائیکل آگے بڑھانا سیکھ گئے۔‘‘
(ہم نے سائیکل سیکھی، خطرے کا الارم۔ ص ۱۲۱)
ثریا صولت حسین
ثریا صولت حسین نے افسانہ نگاری اور شاعری میں اپنی پہچان بنائی تھی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ مدو جزر ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا تھا جس میں ۱۸؍ افسانے اور پانچ مزاحیہ مضامین اور خاکے ہیں جن کے عنوانات درج ذیل ہیں۔ نیند پری، یور آنر، اندھے عقیدے، رنگِ بہار اور ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے۔
ڈاکٹر صفدر
ایک صاحبِ نظر ناقد اور جدید شاعر کی حیثیت سے ڈاکٹر صفدر کی شخصیت اردو ادب میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ ان کی ناقدانہ تحریروں میں بھی ظریفانہ اندازِ نگارش وارث علوی کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن اس قبیل کے بیان کے لئے جو وسعت چاہئے یہاں دستیاب نہیں، شاید اسی اظہار کی تشنگی نے ان سے مزاحیہ مضامین لکھوائے۔ ان کی خالص مزاحیہ تحریروں میں ان کے اندر چھپے ظرافت نگار کی شوخ مزاجی، اور طنز کی سفاکی اور ایک انشائیہ نگار کی تخیل پروازی نمایاں ہے۔ ڈاکٹر صفدر نے اخباروں کے لئے کالم بھی لکھے جن میں ادب، سماج اور انسانی زندگی کے ایسے گوشوں کو نمایاں کیا گیا ہے جن کی عجیب و غریب کیفیت کو ہم بے چینی کے ساتھ محسوس تو کرتے ہیں لیکن مزاح نگار کے قلم سے وہ معرضِ اظہار میں آتے ہیں تو ہم مسکرائے بغیر نہیں رہ پاتے۔ ان کے مضامین: پوسٹ مین، مچھروں کی مدافعت میں اور کرسی نامہ، ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوئے۔ ان کے مزاحیہ مضامین اور کالموں کا مجموعہ ’’آئینۂ خنداں‘‘ (۲۰۱۹) منظرِ عام پر آ چکا ہے اور خاکوں کا مجموعہ ’’ذکرِ شہر یاراں‘‘ زیرِ طبع ہے۔ مورخہ ۲۶؍ مارچ ۲۰۲۱ کو ان کا انتقال ہو گیا۔
کرسی نامہ میں لکھتے ہیں:
’’کرسی کے چار پانو ہوتے ہیں مگر یہ چوپایہ نہیں کہلاتی۔ اس لئے کہ چوپایہ جان دار ہوتا ہے اور کرسی بے جان۔ جب اس پر کوئی شخص اپنے دو پانو کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے تو کرسی میں جان پڑ جاتی ہے اور یوں چھ پانو والی ہو کر چوپایوں سے زیادہ حیوان ہو جاتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ کرسی چوپائے سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ یہ چوپائے سے زیادہ خطرناک اور بے قابو ہوتی ہے۔ یہ چوپائے سے زیادہ دودھ دیتی ہے، اگر دودھ دینے والی ہو۔ اور چوپائے سے زیادہ خونخوار ہوتی ہے اگر خون پینے والی ہو۔‘‘ (کرسی نامہ۔ صفدر۔ آئینۂ خنداں)
شیخ رحمن اکولوی
شیخ رحمٰن اکولوی کی کتاب ’’بلا عنوان‘‘ (۱۹۸۱) کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ودربھ میں شائع ہونے والا طنزیہ و مزاحیہ ادب کا پہلا مجموعہ تھا۔ اس سے قبل ثریا صولت کا افسانوی مجموعی مد و جزر (۱۹۸۶) منظرِ عام پر آیا تھا جس میں افسانوں کے ساتھ پانچ مزاحیہ مضامین بھی شامل تھے۔
شیخ رحمٰن اکولوی نے ابتدا منی کہانیوں سے کی تھی عکس ریز (منی کہانیوں کا مجموعہ)کی اشاعت کے بعد سیدھے مزاح کے بڑے پردے پر آ گئے۔
عصری زندگی کی نا ہمواریوں کو گہری نظر سے دیکھا اور پھر ان کے مضامین میں طنز کے بھر پور وار اور مزاح کی پھوار نے ایک خوشگوار فضا کا احساس دلایا۔ ان کے اندر کا مزاح نگار ’’الف سے قطب مینار‘‘ اور ’’ناٹ آوٹ‘‘ کی اشاعت کے بعد کھل کر سامنے آ گیا۔
مضمون مونچھیں میں لکھتے ہیں۔
’’شہید بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد کو ان مونچھوں سے دلی لگاؤ تھا۔ اسی لئے اپنی مشہور زمانہ تصویروں میں وہ مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ رعیت ہونے کے ناطے ان کا مونچھوں پر بار بار تاؤ دے کر حکومت کے خلاف باتیں کرنا انگریزوں کو بہت کھٹکتا تھا۔‘‘ (مونچھیں۔ بلا عنوان)
شکیل اعجاز
شکیل اعجاز بنیادی طور پر مصوّر ہیں ان کی مزاح نگاری بھی مصوری کا اعجاز ہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ ’’در اصل‘‘ شائع ہوا تو مزاح نگاری کے بھر پور امکانات سے لبریز تحریروں نے سبھی کو چونکا دیا۔ نثر کا عمدہ نمونہ اور کرداروں کے مزاحیہ خد و خال کو فنکارانہ انداز میں جزو تحریر بنانے کا ہنر، زبردست قوتِ مشاہدہ اور مزاح نگاری کی جس روش کا انتخاب انھوں نے کیا، ذرا الگ تھا، یہ انداز تھا نامور مزاح نگار مشتاق یوسفی کا جس کے قائل تو سب ہیں مگر اس کے اسلوبِ نگارش کا اتّباع ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ شکیل اعجاز نے اس مشکل زمین میں اپنی راہ نکالی اور اپنی انفرادیت کا لوہا منوا لیا۔ ان کی دوسری کتاب ’’چھٹی حس‘‘ میں یہ انداز اور نکھر کر سامنے آیا۔ اس میں خاکے، رپورتاژ، کہانیاں ہیں۔ حس مزاح کا بھر پور استعمال ان کی تحریروں کو دلچسپ اور قابلِ مطالعہ بناتا ہے:
’’ہر شخص اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق کسی چیز کا استعمال کرتا ہے اس لئے ایک ہی چیز کے کئی استعمالات ہوتے ہیں۔ کتاب کو لے لیجئے۔ بظاہر یہ علم حاصل کرنے کا وسیلہ ہے ہزاروں میں تین چار ایسے بھی نکل آئیں گے جو واقعی اس سے علم حاصل کرتے ہوں گے لیکن عموماً یہ کثیر الاستعمال پائی جاتی ہے۔ امّی اسے ادھر ادھر پھینک کر غصّے کا اظہار کرتی ہیں بچّے ورق ورق الگ کر کے شرارتوں کی ابتدا کرتے ہیں۔ دکاندار اس میں شکر دال نمک وغیرہ باندھ کر پیسہ کماتے ہیں۔ اور تو اور بلّی اپنے بچّوں کو شکار کرنے اور جھپٹنے کی تربیت دینے کے لئے بھی اس کو تختہ مشق بناتی ہے۔ (۔ ر ریڈیو، شکیل اعجاز، مطبوعہ دو ماہی الفاظ، دسمبر ۱۹۸۴ء)
محمّد اسد اللہ
محمّد اسد اللہ بنیادی طور پر انشائیہ نگار ہیں۔ مزاحیہ مضامین اور ریڈیو ٹاکس کے مجموعے ’’پر پرزے‘‘ (۱۹۹۲)، ’ہوائیاں‘ (۱۹۹۸) اور ’’ڈبل رول‘‘ (۲۰۱۵) کے علاوہ مراٹھی مزاحیہ ادب کے تراجم پر مبنی کتابیں ’’جمالِ ہم نشیں‘‘ اور ’’دانت ہمارے ہونٹ تمہارے‘‘ بھی منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ’’بوڑھے کے رول میں‘‘ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ مزاحیہ مضمون ’’پنگھٹ‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’اس دور میں چور کو سزا تک پہنچنے کے لئے پکڑے جانے سے پہلے چوری کا ثابت ہونا اور چوری ثابت ہونے کے بعد پکڑا جانا ضروری ہے۔ ان مراحل کے بغیر قانون کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ ہمارا قانون دن بہ دن شریف ہوتا جا رہا ہے صرف شریفوں سے واسطہ رکھتا ہے جرائم پیشہ عناصر اس کے لئے نا محرم کا درجہ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔‘‘ (پنگھٹ۔ پر پرزے)
رفیق شاکر
مرزا رفیق شاکر کا تعلق کھام گاؤں سے تھا۔ ان کے شعری مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ مزاحیہ مضامین کے دو مجموعے ’’سیکنڈ ہینڈ‘‘ اور ’’بنئے کا دھنیا‘‘ (۱۹۹۴) بحیثیت مزاح نگار ان کے ادبی شناخت نامے ہیں۔ ظریفانہ رنگ میں ان کا کلام ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوتا رہتا ہے۔ ان کے مضامین علمی و ادبی ذوق اور حس مزاح کے سبب عمدہ تخلیقی نثر کی مثالیں ہیں۔ افراد اور اشیاء سے ان کا رابطہ استوار ہوتے ہی فضا میں قہقہے بکھرنے لگتے ہیں:
’’دوسرے ہی ہفتے شبّیر خاں صاحب ہمارا فوٹو لئے ہمارے گھر پہنچ گئے۔ ہم نے کہا کیوں بھائی! اسے تو آپ نے بچّوں کو ڈرانے کے لئے کھنچوایا تھا۔ ظالم نے جواب دیا، ہاں بات تو یہی تھی، لیکن اسے دیکھ کر بڑے بڑے بھی ڈر رہے ہیں۔ کچھ خواتین تو نیند میں سے چیختی چلاتی ہوئی گھبرا کر اٹھ جاتی ہیں۔ اور جدھر راستہ ملے ادھر بھاگنے لگتی ہیں۔ ہم انھیں پکڑنے لئے کب تک پولس کی مدد لیتے رہیں پرسوں ہماری خالہ جان پر یہی کیفیت طاری ہوئی۔ ڈاکٹر سے علاج کروایا پھر عامل صاحب کو بتایا کچھ فائدہ نہ ہوا آخر ننھے پیر صاحب نے کہا۔ گھر میں کسی آسیب کی تصویر ہے اسے ہٹا دو اسی لئے ہم یہ تصویر واپس کرنے آئے ہیں‘‘ ۔ (مجھ زود پشیماں کا پشیماں ہونا، رفیق شاکر، مطبوعہ بنئے کا دھنیا، اکولہ، جون ۱۹۹۴ء ، ص ۲۱)
غلام صوفی حیدری
غلام صوفی حیدری کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ بکواس (۱۹۸۳) منظرِ عام پر آیا جس میں زبان کا چٹخارہ اور روز مرہ زندگی کے واقعات کو مصنّف نے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے مضامین کی زبان اور مزاحیہ طرزِ تحریر کو کتاب میں شامل پیش لفظ میں عصمت چغتائی نے سراہا ہے۔ نمونہ تحریر:
’’اکثر دیکھا گیا ہے اور پرکھا بھی گیا ہے کہ شریر بچّے ذہین ہوتے ہیں۔ خاکسار عالی وقار پر یہ مثال سو فیصد صادق آتی تھی۔ ہمیں سال کے سال پاس ہونے کے سوا دوسرا کام ہی نہ تھا۔ ہمارے ٹیچر کو ہر سال یہ حسرت رہ جاتی کہ کاش یہ لڑکا ہماری کلاس میں دو سال ہی رہتا کہ اس کی چھاؤں دوسرے بچّوں پر پڑتی۔‘‘ (بکواس، اکولہ ۱۹۸۳ ، ص ۵۹)
ڈاکٹر جاہل ناگپوری
ڈاکٹر جاہل ناگپوری نے چند ادبی کالم تحریر کئے تھے جو اردو اخبارات میں اور بعد میں ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوئے۔ ان کا مخصوص اسلوب ہے جو بڑی بے باکی کے ساتھ دو ٹوک انداز میں افراد کی بے اعتدالیوں اور سماج کی کمزوریوں کو طشت از بام کرتا ہے۔ وہ ایک کامیاب طنز نگار کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ ان کا مضمون ’’تو یہ ہیں ہمارے چچا‘‘ ایک ایسے شاعر کا خاکہ ہے جس کے لئے ادب جلبِ منفعت کا ذریعہ ہے۔
’’بچپن میں ہم نے ایک فلم دیکھی تھی جس کا ہیرو ایک شطرنجی بردار تھا۔ وہ شطرنجی اسے کیا زمین کیا آسمان اور کیا خلا ہر جگہ کی سیر کراتی تھی، ہمارے چچا یہی کام شاعری سے لیتے ہیں۔ ان کی شاعری بھی کسی طلسمی شطرنجی سے کم نہیں جس پر بیٹھ کر وہ جہاں جی چاہے ہو آتے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، مشاعرہ، سیمینار، یونیورسٹی، کنوینشن، اجلاس، سیمپوزیم، انجمن، اکاڈیمی، غرض کوئی گوشہ ہو ان کی شطرنجی، (معاف کیجئے شاعری) انھیں چاروں کھونٹ گھماتی ہے۔‘‘ (ماہنامہ شگوفہ، ستمبر ۱۹۸۷)
بابو آر کے
بابو آر کے مزاح نگاروں کی اس مجلس میں ذرا دیر میں آئے اور پہلی صف کا ثواب لوٹنے لگے۔ ان کی دو کتابیں: ’’خطا معاف‘‘ (۱۹۹۱) اور ہو بہو (۱۹۹۱) زبردست حسِ مزاح، زبان و بیان کی لذّت اور عصری زندگی کی تصویر کشی کے لئے یاد رکھی جائیں گی۔ برار اور خاص طور پر اچلپور کے اطراف کا ماحول، رسم و رواج اور کلچر اپنی مقامی آوازوں سمیت اس براری بابو کی تحریروں میں منعکس ہوا ہے۔ دوسروں کی بہ نسبت ان کی جڑیں اپنی زمیں میں زیادہ گہری ہیں۔ ان کی یہ علاقائیت جہاں ان کی طاقت ہے وہیں کمزوری بھی ہے کہ اس کے سبب ان تحریروں کی آفاقیت ختم ہو جاتی ہے۔
’’سب نے ایک زبان ہو کر تحکمانہ لہجے میں کہا بیٹھ جاؤ۔ ہم سعادت مندی سے بیٹھ گئے۔ اس وقت ہمیں محسوس ہوا جیسے ہم ہٹلر، چنگیز، ہلاکو اور تیمور جیسے تاریخ کے تمام ظالموں کے نرغے میں آ پھنسے ہیں۔ اسی بیچ انٹرویو لینے والے پینل میں سے ایک صاحب نے اپنی پوٹلی نما پگڑی کا پٹارا میز پر رکھا۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے صاحب نے اپنے ہاتھ کا موٹا سا چم چم کرتا ڈنڈا میز پر لٹا دیا تیسرے صاحب تمباکو کی ڈبّی جیب سے نکال کر ہتھیلی پر چونا تمباکو اور اپنی ہتھیلی کا میل، تینوں چیزیں رگڑ نے لگے۔ اس طرح سوائے ایک صاحب کے باقی سب اپنے اپنے کر تب دکھانے میں مشغول ہو گے۔
تھوڑے وقفے کے بعد موضوع سے میل کھاتا ایک اور سوال اچھالا گیا۔ بولے بندر ہمیشہ کیوں کھجاتے ہیں۔ اور پھر یہ صاحب بندر کی طرح کھجا کر اپنے سوال کی وضاحت بھی کرنے لگے۔ ہم اس سوال پر سٹپٹا گئے پھر بھی ہم نے کہا: دیکھئے بندروں کے پاس کھانے اور کھجانے کو ہوتا ہے اس لئے وہ کھجاتے ہیں۔‘‘
(ہمارا پہلا انٹرویو، با بو آر کے، ہو بہو، ص: ۲۴)
حیدر بیا بانی
ادبِ اطفال کا ایک اہم نام حیدر بیا بانی ہے۔ اچلپور ان کا وطن، اپنی دلچسپ نظموں اور خاص طور پر بچّوں کے لئے لکھی گئی تخلیقات کے لئے مشہور ہیں۔ نثر میں ان کی کتاب(۱۹۹۰) چشم دید اس حقیقت کی ضامن ہے کہ وہ نثر اور نظم ہر دو اصناف میں ظرافت کو عمدگی سے برتنے پر قادر ہیں۔ ان کی زبان رواں دواں اور اندازِ تحریر دلچسپ ہے۔ مذکورہ کتاب میں چند مضامین کے عنوانات درج ذیل ہیں: باکمال شوہر، بد زبان بیویاں، نمک کی چمک، ٹر کی اہمیت، ہم صاحبِ کتاب ہوئے۔ نمونہ تحریر درج ذیل ہے:
’’زمانے کے ساتھ بیوی کے رہنے سہنے، پہننے اوڑھنے حتیٰ کہ سوچنے سمجھنے کے انداز میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ پچھے دنوں اگر شوہر پردیس گیا ہوتا تو بیچا ری بیوی برہن بنی ہوئی دن رین برہ کی آگ میں جلتی رہتی تھی لیکن آج کی بیوی ایسی کچھ نہیں ہے شوہر دورے پر گئے ہیں بیوی سوچتی ہے، ادھر بنارسی ساریاں سستی اور اچھّی ملتی ہیں دیکھیں انھیں لانا یاد رہتا بھی ہے یا نہیں یا پھر پہلی تاریخ ہے، تنخواہ کا دن بیوی راہ میں آنکھیں بچھائے راہ نہارتے نہارتے گھبرا اٹھتی ہے۔ ہائے اللہ شام ہو گئی نہ جانے کب آئیں گے؟ کب بازار جائیں گے، کب سودا سلف آئے گا، کہیں پیسہ ادھر ادھر نہ کر دیں مہینہ بھر تنگی رہے گی۔
موجودہ دور ملاوٹ کا دور ہے بیوی بھی خالص نہیں ملتی۔ اب نہ شام کی جوگنین ہیں نہ پر دیسی کی برہنیں، نہ ہجرت کا لطف ہے نہ وصل کی لذّتیں، زمانے کے الٹ پھیر نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔‘‘ (داستانِ بیوی، چشم دید، حیدر بیابانی، امراؤتی، ۱۹۹۰ء ، ص: ۳۴)
انصاری اصغر جمیل
انصاری اصغر جمیل ناگپور کے ایک اہم مزاح نگار ہیں ’ مزاح نامہ‘ نامی ایک رسالہ جاری کیا تھا۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ لگی منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ سماجی زندگی میں پھیلی ہوئی بدعنوانیاں، سیاسی شعبدے بازیاں، انجمنوں میں چلنے والی کاروائیاں ان کے طنز کا ہدف رہے ہیں۔ روایتی مزاح نگاروں کی طرح بیوی ان کا پسندیدہ موضوع ہے نگاہ موضوع پر ہو تب بھی ان کا نشانہ کہیں اور ہوتا ہے یہ نیک فال ہے بشرطیکہ وہ بیوی یعنی اس موضوع کو کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دیں انھوں نے ناگپور کے چند ادیبوں اور شاعروں کو کامیابی کے ساتھ اپنے خاکوں کے شیشے میں اتارا ہے:
’’آہا کتنا پیارا لفظ ہے خادمِ قوم، خادمِ قوم یعنی قوم کے خادم قوم کی خدمت کرنے والے کو خادمِ قوم کہا جاتا ہے۔ یوں تو قوم کی خدمت کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ جیسے کہ تن من اور دھن سے لیکن عقل اگر کام کر جائے تو اس سے بھی قوم کی خدمت کی جا سکتی ہے جس میں نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔‘‘ (ہم ہیں خادمِ قوم، انصاری اصغر جمیل، مطبوعہ شگوفہ حیدرآباد، فروری ۱۹۸۳ء)
محمد طارق کھولاپوری
محمد طارق بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار ہے۔ اس کا اثر ان کی تحریروں پر بھی نظر آتا ہے۔ وہ معاشرے کے ان اندھیرے گوشوں پر اپنی نگارشات کی بنیاد رکھتے ہیں جو منٹو کا موضوع رہے ہیں۔ وہ لوگوں کی ریا کاری اور دہرے معیار کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہی خوبی ان کے ان طنزیہ و مزاحیہ مضامین میں بھی موجود ہے جو ’’چوزے کی حمایت میں‘‘ شامل ہیں۔
خورشید نادر کامٹوی
خورشید نادر کامٹوی کے مزاحیہ مضامین شگوفہ میں شائع ہو چکے ہیں ان کی فارسی آمیز زبان اور مزاح کا اعلیٰ معیار، خوش ذوق قارئین کو متاثر کرتا ہے۔ نادر کامٹوی کے کئی مضامین طنز و مزاح اور صنف انشائیہ کے متعلق شائع ہوئے ہیں جن میں مختلف اصنافِ میں ظریفانہ ادب کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ان کے مضمون والدین کا ایک اقتباس:
بعض والدین عجیب الوضع ہوتے ہیں۔ بعض غریب القطع، بعض شاخِ بے ثمر کی طرح ہوتے، بعض کثیر ایصال اور قلیل الغذا۔ کچھ قِران السعدین کے نمونے ہوتے ہیں، کچھ اجتماع ضدّین کے، بعض میں موزونیت پائی جاتی ہے بعض میں شتر گربگی۔ بسا اوقات ماں ٹینی ہوتی ہے باپ کلنگ اور بچے رنگ رنگ۔ بعض عجیب الخلقت مجموعوں کو دیکھ کر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ان کی جلد سازی میں یقیناً دستِ قدرت کا دخل ہے۔ لیکن قدرت ایسے ماڈل تفریح طبع کے لیے نہیں، دیدۂ عبرت نگاہ کے معائنہ کے لیے فراہم کرتی ہے، بقیہ معاملات میں خود حضرتِ انسان کی کاوش و انتخاب کا دخل ہوتا ہے۔ بعض مضحکہ خیز جوڑے شرارت یا دانستہ چشم پوشی کے باعث بھی وجود میں آتے ہیں۔
شکیل شاہجہاں
شکیل شاہجہاں کا تعلق کامٹی سے ہے۔ ان کے یک بابی ڈراموں کا مجموعہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کافی مقبول ہوا۔ انھوں نے اپنے کئی مزاحیہ ڈرامے اسٹیج کیے اور انعامات سے بھی نوازے گئے۔ ان کی جو تحریریں ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوا کرتی تھیں ان میں مزاح قدرے زیادہ تھا۔
’’جب بیوی بہت زیادہ پیار جتائے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی جیب کی خیر نہیں، یعنی کوئی فرمائش ہونے والی ہے۔ ایک دن ہماری بیگم بہت خوش نظر آئیں۔ ہم سمجھ گئے کہ کوئی ’’مانگ‘‘ ہے۔ کیونکہ مانگ بھرنے کے بعد مانگوں کو پوری کرنے کی زحمت شوہر کو تا عمر اٹھانی پڑتی ہے۔‘‘
اظہر حیات
ناگپور کے مزاح نگاروں میں اظہر حیات اپنے چند مضامین کے ذریعے متعارف ہوئے۔ مختلف اخباروں میں شائع ہونے والے ان کے کالموں میں بھی طنز کی نشتریت محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’’بس کچھ نہ پوچھئے‘‘ زیرِ ترتیب ہے اپنے مضمون ’’بس کچھ نہ پوچھئے‘‘ میں انھوں نے تنخواہ دار ملازمین کی زندگی میں گزر بسر کے مسائل کو دلچسپ انداز سے پیش کیا ہے۔
’’مہینے کے آخری دنوں میں آپ اسکوٹر گھر میں رکھ کر صحت بنانے کے لیے پیدل چل سکتے ہیں اس طرح سے آپ گلی کوچوں کی راہ سے گھر بھی پہنچ سکتے ہیں جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دکاندار کی نظر سے بچ جاتے ہیں۔ یہ سب اور بہت کچھ آپ کوکر سکتے ہیں لیکن مہمان سے بچنا ذرا مشکل ہی ہے۔ مگر بڑے تجربہ کاروں نے اس کے بھی راستے نکال لیے ہیں۔ آسان ترکیب بتائی ہے کہ آپ خود کسی کے گھر مہمان بن کر چلے جائیں اور گھر پر ذرا بڑا سا تالا ڈال جائیں۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے۔ آپ نے دیر کی اور کوئی مہمان آپ کے گھر آ دھمکا۔‘‘
سمیع بن سعد
سمیع بن سعد کے کئی مضامین ماہنامہ شگوفہ، حیدر آباد اور روزنامہ اردو ٹائمز، ممبئی میں شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر سمیع اللہ نے جن کا تعلق امراوتی سے ہے، مزاح نگاری کے لئے اس نام کا انتخاب کیا اور چند دلچسپ مضامین تحریر کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ انداز شگفتہ اور تاریخی واقعات کو استعمال کر کے نئے مفاہیم پیدا کرنے کا سلیقہ ان کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ ان کا ایک دلچسپ مضمون تزکِ چغدی ہے:
’’لا پر اعتراض ہوا کائنات کی تخلیق ہوئی، زمیں کی ویرانی پر اعتراض ہوا باوا آدم کی تخلیق ہوئی، فرشتوں کو آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا جو اس لفظ سے واقف نہیں تھے بے چوں و چرا جھک گئے لیکن حضرتِ ابلیس جو واقف تھے، سجدے پر اعتراض کیا کہ یہ خاک کا میں آگ کا، بھلا میری اس کی برابری، سجدہ نہیں کیا۔ اسی اعتراض کی وجہ سے حضرت ابلیس اور آدم کی اولاد میں وہ دشمنی ہوئی جو جہنّم کی آبادی کا باعث بنی خدا نے حضرتِ آدم کو شجرِ ممنوعہ کے قریب جانے سے منع کیا، بھلا ابلیس جو اس لفظ سے واقف تھا کہاں چوکتا اسے آدم کے خدا کا حکم ماننے پر اعتراض ہوا اور اس نے یہ لفظ بی بی حوّا کے کان میں پھونک دیا۔ ان دونوں نے اعتراض کو اپنا حق مانتے ہوئے ثمرِ ممنوعہ نہ کھانے پر اعتراض کیا۔ اور اسے کھایا پھر ان کا سفر کرہ ارض کی آبادی کا سبب بنا۔ اب آپ ہی بتائیے، دنیا کی آبادی کا باعث کون؟ اعتراض اب آپ کو کوئی اعتراض ہے؟‘‘(اعتراض، سمیع بن سعد، مطبوعہ ماہنامہ شگوفہ، حیدر آباد، فروری، ص۸۳)
ایس ایس علی
ایس ایس علی نے ابتدا میں انگریزی کالم لکھے اور ان کے اردو مضامین میں طنز کی تلخی نمایاں ہوئی۔ اپنے آس پاس پھیلی بد عنوانیوں اور شخصیات کی ناہمواریوں کو انھوں نے بیان کیا ہے۔ ایس ایس علی نے ظریفانہ انداز میں چند خاکے بھی قلمبند کئے ہیں۔ معروف مزاح نگار اور آرٹسٹ شکیل اعجاز کے خاکے میں لکھتے ہیں:
’’ٹائم ٹیبل کی جو نقل ان کو دی جاتی ہے رکھ کر بھول جاتے ہیں۔ پھر سال بھر اندازے سے پیریڈ لیتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم تو نہیں رہتا کہ میرا آف پیریڈ کون سا ہے اور بتائے بھی کون؟ اس لئے ایک پیریڈ لینے کے بعد ساری کلاسوں میں جھانکتے ہیں جہاں کلاس خالی نظر آئی وہاں اپنا پیریڈ سمجھ کر پڑھانے لگتے ہیں۔ اس کلاس کا ٹیچر جب دور سے دیکھ لیتا ہے کہ شکیل صاحب میری کلاس میں چلے گئے تو وہ مسرور ہو کر کینٹین یا ٹیچرس روم کی آرام کر سی کا رخ کرتا ہے۔‘‘ (بابو بھولے بھولے، ایس ایس علی، مطبوعہ ماہنامہ شگوفہ، جولائی۱۹۹۴ء ، ص۴۳)
سعید احمد خاں
سعید احمد خاں کا تعلق اکولہ سے ہے۔ بید براری کے نام سے ماہنامہ شگوفہ میں مزاحیہ مضامین لکھتے رہے۔ انھوں نے چند جا سوسی ناول بھی شائع کر وائے جو پسند کئے گئے۔ ان کے مضمون موکھے میں سے کا ایک اقتباس:
اس سال بھی رمضان شریف کچھ یوں ہی بے کیف گزر رہے تھے کہ ہمارا ایک بچپن کا دوست آ گیا۔ جس کے ساتھ ہم تھیٹر میں افطار کیا کرتے تھے۔ کہنے لگا منوج کمار کی کلرک لگی ہے، سکنڈ شو چلیں گے۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس بھری دنیا میں کوئی تو ہمارا ہوا۔ میں نے کہا: سکنڈ شو ہی کیوں، میٹنی شو کیوں نہیں؟
کچھ نمازیں قضا ہو جاتی ہیں یار۔ اس نے شرما کر بتایا۔
(موکھے میں سے، سعید خاں، مطبوعہ ماہنامہ شگوفہ، جو لائی ۱۹۹۴ء)
رحمت اللہ مالوی
رحمت اللہ مالوی بھی مزاح نگاروں کے اس قافلے میں شامل رہے ان کی کئی شگفتہ تحریریں منظرِ عام پر آئیں۔ ان کے ہاں حسِ مزاح زبردست تھی جو ان کے مضامین کی انفرادی خوبی ہے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ کتاب نا شناسی شائع ہو چکا ہے۔ مدت ہوئی ظرافت نگاری کا سلسلہ بند ہے۔ ان کے ایک مضمون کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
ریلوں اور بسوں کے قاعدے ہی کچھ ایسے ہیں کہ کبھی تو مسافر بے بس ہو جاتے ہیں اور کبھی محکمہ کی بے بسی عمر کے ہاتھوں قابلِ دید ہوتی ہے۔ بارہ برس سے پندرہ برس والی عمر کے بچّے اچانک چھوٹے ہو کر آٹھ یا دس کی حدود میں آ کر آدھی ٹکٹ کے مزے لوٹتے ہیں۔ اور پانچ یا چھے برس کی عمر اچھل کر ماں باپ کی گود میں براجمان ہو جاتی ہے۔ یہ کھیل اس وقت شروع ہوتا ہے جب رِنگ ماسٹرT.C. رِنگ میں آتا ہے۔
(عمر تماشا یا تماشائی، رحمت اللہ مالوی، ماہنامہ شگوفہ، جو لائی، ص۹۳)
مزاح نگاروں کے اس کارواں میں یقیناً ایسے لوگ بھی تھے جن کی تحریروں کو پڑھ کر بے ساختہ ایک واہ زبان پر آ جاتی تھی، افسوس اب ان میں سے اکثر کا ذکر آتا ہے اور اس خبر کے ساتھ کہ وہ تھک کر بیٹھ گئے، مزاح نگاری تو کب کی طاقِ نسیاں ہو چکی، تو ہم ایک آہ کھینچ کر رہ جاتے ہیں۔
ودربھ کے لکھنے والوں کے اس ہر اول دستہ کے بعد نئے لکھنے والے بھر پور صلاحیتوں اور قہقہہ بار قلم کے ساتھ سامنے آئے ان میں سے چند نام درج ذیل ہیں۔
محمد یحییٰ جمیل
ودربھ کے نئے ابھرنے والے مزاح نگاروں میں۔ یحییٰ جمیل نے بہت کم مدت میں اپنی فطری صلاحیتوں کو ظریفانہ تحریروں کے ذریعے منظر عام پر لا کر اپنی پہچان بنائی ہے وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ یحییٰ جمیل کی بیشتر ظریفانہ تحریریں خاکوں پر مشتمل ہیں جن میں ان کے آس پاس موجود کوئی شخص طنز کے نشانے پر نظر آتا ہے۔
’’پھر ہر دوچار روز بعد ایک سر جھاڑ منھ پھاڑ غزل بنا کر لے آتے کہ ایک نظر دیکھ لیجیے۔ حکومت اگر بے وزن شاعری پر چالان شروع کر دے تو کروڑوں روپئے سرکاری خزانہ میں جمع ہو سکتے ہیں اور ہم اس کارِ نیک کے لیے مخبری جیسا پوچ کام کرنے کو بھی تیار ہیں۔ خیر، غازہ مسی سے کیا کام بنتا، سرجری کرنی پڑتی اور ہم جونہی غزل کی پلاسٹک سرجری سے فارغ ہوتے، وہ فوراً اسے دوسرے کاغذ پر نقل کرتے اور تصحیح شدہ پرچہ پرزہ پرزہ کر کے پھینک دیتے۔ (فنا فی الشعر۔۔ محمد یحییٰ جمیل)
محمد توحید الحق
محمد توحید الحق نے نظم اور نثر دونوں میں ظرافت کو بخوبی برتا ہے۔ سماجی برائیوں اور انسانوں کی فطری کمزوریوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور انھیں مبالغے کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ گٹکے اور کھرّے پر سر کار کی جانب سے پابندی عائد کرنے کے بعد ایک اسکول ٹیچر پر کیا گزری ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔
’’پچھلے دنوں اسکول میں اچانک کسی ٹیچر کے غش کھا کر گرنے کی خبر آئی، ساتھی اساتذہ بہت پریشان ہوئے۔ کسی نے پیاز سنگھانے کی تجویز پیش کی تو کسی نے چپل۔ کسی نے زور زور سے پانی کے چھینٹے مارنے شروع کر دیے۔ ایک صاحب تو بار بار دل کی دھڑکن ہی دیکھ رہے تھے کہ اچانک کسی ٹیچر کی جیب سے کھرّے کی پڑیا گر پڑی۔ اس کی موجودگی سے ہی غش کھائے ٹیچر کو تھوڑا ہوش آ گیا۔ فوراً فرسٹ ایڈ کے طور پر انھیں کھرّا پیش کیا گیا۔ اور وہ ذرا دیر میں نارمل ہو گئے۔ انھوں نے بتایا کہ در اصل کھرّا کھائے کافی دیر ہو گئی تھی اس لیے انھیں چکر آ گیا۔‘‘ (ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں)
حسنین عاقب
حسنین عاقب نے شاعری اور تنقید کے علاوہ میدانِ ظرافت میں بھی اپنے پر بہار قلم سے سے گل کاریاں کی ہیں۔ ان کی تحریر یں ان گوشوں کو دلچسپ انداز میں نمایاں کرتی ہیں جن میں انسانی نفسیات کے انوکھے پہلو ان کے مشاہدے میں آئے ہیں۔ اپنے مزاحیہ مضمون مکان کی چھت میں چھت کو گھر کی حفاظت کا ایک اہم حصہ سمجھنے کے ساتھ ہی وہ اس سے متعلق پوشیدہ حقائق کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔
’’عشق کی ابتداء ہی چھتوں سے ہوتی تھی۔ معشوق چھت پر کپڑے سُکھانے آئی ہے۔ پڑوس کی چھت پر کھڑا مُنڈا اُسے تاک رہا ہے۔ اُس زمانے میں اتنی شرافت تو تھی کہ چوری چھُپے تاکا جاتا تھا۔ لیکن معشوقہ بھی کم ہوشیار نہ ہوتی تھی۔ وہ بھی سمجھ جاتی تھی کہ کوئی چالاک سیار ہے جو اس کی تاک میں ہے۔ لہٰذا وہ بھی معاملے کے ابتدائی مرحلے میں ناراضی کا اظہار کرتی تھی اور چھت سے پاؤں پٹکتے ہوئے سیڑھیاں اُتر جاتی تھی۔ اُتر نہیں جاتی تھی بلکہ صرف ڈھونگ کرتی تھی اور وہیں چھُپ کر یہ دیکھنے کے لئے رُک جاتی تھی کہ مُنڈا اُچک اُچک کر اِدھر ہی دیکھ رہا ہے یا اس کی طرح وہ بھی نیچے اُتر گیا۔ بس یہی سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ پھر رضامندی کی منزل آتی تھی۔ آگے چل کر عشق پختہ ہو جاتا اور بات چٹھی چپاٹی تک پہنچ جاتی۔‘‘ (مکان کی چھت)
ظریفانہ شاعری
.ودربھ کے قدیم شعرا کے کلام میں بھی طنز و مزاح کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ ان میں وہ ہجویات اور شہر آشوب بھی شامل ہیں جن پر سودا اور نظیر کا رنگ نمایاں ہے۔ قدیم شاعر نواب محمد نامدار خاں پنّی(پیدائش ۱۷۹۰ء)جو اپنے والد کے انتقال کے بعد ۱۸۲۵ء کو برار کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ جنرل آرتھر ولیزلی نے انھیں ’ جنرل ڈیوک ‘کے خطاب سے نوازا تھا، وہ جرنیل کو بطور تخلص استعمال کرتے تھے ان کا تعلق اچلپور سے تھا ان کے متعلق ڈاکٹر آغا غیاث الرحمٰن لکھتے ہیں۔ جن خوبیوں کی وجہ سے نظیر اکبر آبادی کو ہندوستانی عوامی شاعر کہا جاتا ہے کم و بیش وہی خوبیاں ان کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔ جرنیل کی ہجویات کا باب کافی طویل ہے جس میں انھوں نے ایسے نازیبا الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے جن کا احاطۂ تحریر میں لانا مناسب نہیں ہے۔ ان کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
نواب محمد نامدار خاں پنّی
رکھتا ہوں ایک جان جو حاضر ہے آپ پاس
منظور ہو تو لیجئے تکرار مت کرو
یہ نہ معلوم تھا آخر کہ تو اس طور ستی
الفتیں غیر سے اور ہم سے کرے گا پرواز
ہجویات کے اشعار
جب مچھو میاں گھر سے کھا پان نکلتے ہیں
اور جورو کے ہاتھ سے حیران نکلتے ہیں
مونچھوں کے تئیں اپنے یوں تان نکلتے ہیں
گویا کہ دلوں کے سب ارمان نکلتے ہیں
شیخ حجرے میں آتا ہے نظر جر نیلؔ مجھے
گھونسلے میں جس طرح بیٹھے دبک الو سفید 4
شیخ محمد احسن سرکار نواب صلابت خاں میں ملازم تھے تاریخِ امجدی میں ان کی دو غزلیں اور شہر آشوب شامل کئے گئے ہیں۔ شہر آشوب کے چند اشعار:
شیخ محمد احسن
کر سان اس عصر میں ہوئے ہیں گے سب غنی
اس دہر میں جو دیکھو دہریوں کی ہے بنی
ملتا نہ تھا جنوں کے تئیں نان بیسنی
کیا اس کے تئین کہیں جو کوئی ہوئے ہر فنی
بریانی کھاتے ہیں وہ بہت ناک کو چڑھا
جو لوگ تھے خفی تو ہوئے ہیں گے اب جلی
مچھر نما جو تھے سو ہوئے ہیں گے اب بلی
دہقانی فارسی کو جو پڑھتے ہیں ہر گلی
کیا کام بر خلاف زمانے کا ہے پڑا
نو سو چوہوں کو کھا کے بلی حج کو ہے چلی5
حافظ محمد ولایت اللہ
حافظ محمد ولایت اللہ (۴؍ ستمبر ۱۸۷۳۔ ۱۲؍ نومبر ۱۹۴۹)، ہندوستان کے سابق نائب صدر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد ہدایت اللہ کے والد تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے، سوز و گداز(۱۹۴۱) اور تعمیر حیات (۱۹۴۹) شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے کلام کا غالب رنگ طنز و مزاح ہی تھا۔ اس علاقے میں وہ ’اکبرِ ثانی‘ کے نام سے مشہور تھے۔ (بحوالہ ناگپور میں اردو ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ ۔ ۱۹۹۳ص ۷۳)
ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
چلتے ہیں سارے کام چندوں سے
صرف ان کا حساب ہے غائب
رہ گئیں دیکھنے کی بس آنکھیں
نظرِ انتخاب ہے غائب
ہے سہارا خضاب کا ان کو
گر چہ عمرِ شباب ہے غائب
لیڈروں کی زبان پر ہے درد
قلب سے اضطراب ہے غائب
ان کی اسکیم ایک خیمہ ہے
جس کی ہر اک طناب ہے غائب
ودربھ میں مزاح نگاری کا باقاعدہ آغاز نئی نسل کے با صلاحیت فنکاروں کی آمد کے بعد ہی ہوا جن میں سے چند اردو ادب میں پہلے ہی اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ ان اولین مزاح نگاروں میں سے بیشتر کا تعلق علاقہ برار سے رہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ لسانی، تہذیبی اور جغرافیائی اعتبار سے برار حیدر آباد سے قریب رہا ہے۔ آج بھی برار میں بولی جا نے والی زبان اور سماجی زندگی پر حیدر آباد کے لسانی اثرات نظر آتے ہیں حیدر آباد کے مزاح نگاروں نے دکنی کو تخلیقی بنیادیں فراہم کیں ان کی یہ کوششیں آل انڈیا مشاعروں میں خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں اسی طرح ودربھ کے فنکاروں نے بھی مقامی اور براری زبان میں گل کھلانے کی کوشش کی، دکنی زبان کی شوخی کو کاغذی پیرہن بھی نصیب ہوا لیکن براری مزاحیہ شاعری مشاعروں کی واہ واہ کے دائرے سے باہر نہ آ سکی۔
سر فراز کاتب مرحوم نے اپنا مجموعہ گاورانی کلام مرتب کر لیا تھا لیکن وہ نقشِ فریادی تا ہنوز زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہو پایا۔ ان کا کلام بظاہر ایک ایسی بولی میں ہے جو اپنی ضعیف العمری کے سبب اشاعت کی سر زمیں پر اپنے قدموں کی لڑکھڑاہٹ کے ساتھ چلنے سے بھی قاصر رہی اور اندھیرے مستقبل کے سبب آنکھوں کے آگے کوئی منظر بھی نہیں ہے۔ اس وقت شاعر سر فراز کاتب نے گویا شرون کمار کا رول ادا کرنے کی کوشش کی اور اپنی اس زبان کو بوڑھے ماں باپ کی طرح اپنے کاندھے پر سوار کر کے لے کر چلے تو تھے مگر اجل کے تیر سے گھائل ہو کر اس سفر کا اختتام ثابت ہوئے۔ براری بولی میں ان کا مرتبہ مزاحیہ شاعری کا مجموعہ اب بھی اشاعت کا منتظر ہے۔ حالانکہ مشاعروں کے سامعین ان کے اکثر اشعار دہراتے ہوئے سنے جاتے ہیں۔
سر فراز کاتب
نیلے پیانٹ پہ پیلا کرتا، اودی ٹوپی، جوتے لال
کالے خاں پیغام کو جاریا، لاتا آپھت
باپ کی قبر کاں پر ہے تو مالوم نئیں
غیبی شا کا عرس بھرا ریا، کرتا واندہ
جھوڑپے کھانا میرا، باوا کے، بھایوں کے تیرے
اور ہلدی میں تیرا آنسو ملانا یاد ہے
اپنے پوٹٹے کو لائے میارٹ میں
کیسا گھپلا کیا ہو ماسٹر صاب
سال بھر تو پڑھائے تھے تم نے
پھر کیوں پھرنا پڑا ہو ماسٹر صاب
ایک نظم شادی کارڈ کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
اپنی بائی کی جڑ گئی شادی
دن ہے اتوار کا مئی چوبیس
سن کونتا آتا کیا معلوم
اردو تاریخ تم نے لکھ لینا
نام نوشہ کا کالے خاں لکھنا
عرف ببو ذرا بڑا لکھنا
پوٹٹی دسویں میں خط نہیں پڑھتی
پوٹٹا میٹرک ہے کچھ نہیں آتا
اس سلسلے کے ایک اور اہم شاعر ہیں صوبیدار فوجی ان کی بعض ہزلیں براری الفاظ کا چٹخارہ لئے ہوئے ماہنامہ شگوفہ حیدر باد، میں شائع ہوئی تھیں۔
صوبیدار فوجی
وہ اپنی کھڑکی میں آ کے بھونڈے سُروں میں اک گیت گا رہی ہے
تو کھت کی گاڑی پہ بیٹھے ہم بھی گھمیلا پُھٹکا بجا رہے ہیں
ساقیا کس نے کہہ دیا تجھ سے کہ تیرے باعث کھلے ہیں میخانے
ساری رونق ہمارے دم سے ہے، ورنہ اوندھے پڑے تھے پیمانے
ہر ایک ویکتی میں یہ ہمّت نہیں ہے
محبّت ہے، کوئی گمّت نہیں ہے
عشق کی اپنے اُلنگ واڑی ہوئی
حسن کا اس کے بھی سروا ہو گیا
ہے لانا ضروری نئی سرمے دانی
بہت مرگیا ان کی آنکھوں کا پانی
یہی انداز رفیق شاکر کی اس غزل میں بھی نمایاں ہے:
رفیق شاکر
چاندنی سے چٹک گئے پُھپّا
بس کے پیچھے لٹک گئے پُھپّا
پُھپّی بی اے بھی ہو گئیں لیکن
پانچویں میں لٹک گئے پُھپّا
فنّی ایوت محلی کے یہاں بھی اس قسم کے اشعار ملتے ہیں:
فنّی ایوت محلی
مکھّی بن کر پچھتاؤ گے
چیونٹی بن کر پیڑے کھا لو
بات پتے کی کہہ دیتا ہوں
ایڑے بن کر پیڑے کھالو
اس قبیل کی شاعری کو ادب کا ہر قاری سمجھ نہیں سکتا کیونکہ اس میں علاقائی الفاظ کا استعمال تفہیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تعلیم اور بدلتی ہوئی سماجی صورتِ حال کے سبب بیشتر الفاظ ان علاقوں میں بھی نا مانوس ہوتے جا رہے ہیں۔ ناظم انصاری کے مجموعہ ’’گوبھی کے پھول‘‘ (۱۹۸۰) میں عصری زندگی کی جھلکیاں اور عشقیہ مضامین ظریفانہ رنگ لئے ہوئے ہیں۔
ناظم انصاری
دیوانہ اس نے کر دیا اک بار دیکھ کر
ہم کر سکے نہ کچھ بھی لگا تار دیکھ کر
مرے بڑھاپے میں پھر سے بہار لانے کو
سنا ہے ایک بڑی بی مری تلاش میں ہے
فیلڈ ہو کوئی کلر اپنا جمائے رکھئے
ٹانگ ٹوٹی ہی سہی پھر بھی اڑائے رکھئے
معروف شاعر محبوب راہی نے جہاں دیگر اصنافِ ادب میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے، ان کے قلم سے ظریفانہ رنگ میں بھی خواہ نظم ہو یا نثر، بے شمار چیزیں متنوع انداز میں منظرِ عام پر آئیں ہیں۔ انھوں نے مفلس قارونی کے نام سے مزاحیہ شاعری بھی شائع کی اور اپنے حقیقی نام محبوب راہی کے بینر تلے بھی طنز و مزاح پیش کیا۔ ان کی منظومات میں عصری زندگی کی جھلکیاں اور تلخیاں دونوں نمایاں ہیں۔
محبوب راہی
راتوں کو ڈر کے مارے گھر سے نہیں نکلتے
سڑکوں پہ دن اجالے ہم تیس مار خاں ہیں
پھرتے ہیں لے کے پھندے،
کرتے ہیں کھوٹے دھندے
کھاتے ہیں تر نوالے ہم تیس مار خاں ہیں
دئے دن میں جلانا چاہتے ہیں
مجھے گھر سے بھگانا چاہتے ہیں
گدھے تو ہیں مزے میں، کس لئے ہم
انھیں انساں بنانا چاہتے ہیں
محبوب راہی کے علاوہ اس دیار میں ظریفانہ شاعری کا ایک اہم نام فیاض افسوس ہے ان کا مجموعہ کلام ’کفِ افسوس‘ زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکا ہے۔
فیاض افسوس
کیوں نہ ہوں لختِ جگر سر کے ہوئے
جب کہ ہیں مادر پدر سر کے ہوئے
جنگ رکتی ہی نہیں سسرال میں
کچھ ادھر ہیں کچھ ادھر سر کے ہوئے
یہ زمیں یہ رشکِ جنّت چھوڑ کر
جا رہے ہیں چاند پر سر کے ہوئے
ودربھ کے کئی شاعروں نے اپنے آپ کو ظریفانہ شاعری تک محدود رکھا اور اپنی پہچان بنائی اس قسم کے چند شعرا کا کلام یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
عبد الصمد جا وید، گنبدؔ
فائر انجن کو خبر کیجئے فوراً آئے
کپڑا بازار میں کچھ شعلہ بدن جاتے ہیں
منحنی لاغر بدن باریک ململ کی فراک
بیٹیاں حوا کی بنتی جا رہی ہیں ہولناک
ودربھ کے مختلف شعراء گاہے بگاہے ظرافت کو شاعری کے سانچے میں ڈھالتے رہے۔ ظاہر ہے یہ ان کی پہچان نہیں البتّہ ان کے کلام کا ایک رخ یہ بھی ہے۔ ان میں سے چند شعراء کا کلام جو ہمیں دستیاب ہو سکا اس کے نمونے یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔
فصیح اللہ نقیب:
لگا کر چلم کا جو دم دیکھتے ہیں نظر جو نہ آئے وہ ہم دیکھتے ہیں
کہ سوکھے ہوئے کو بھی نم دیکھتے ہیں جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
خواجہ سعید الدین سرخابؔ اکولوی
وقت کی زد میں تخلص بھی ہمارا آ گیا
پہلے تھے نواب اب سر خابؔؔ ہو کر رہ گئے
آج کل مل جائیں گے فیشن کے مارے اس قدر
درزیوں نے جن کو مادر زاد ننگا کر دیا
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ودربھ کی آب و ہوا اشک آور نہیں بلکہ فضا کو زعفران زار بنانے کے لئے بڑی ساز گار ہے۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بڑی زر خیز ہے ساقی۔ اس کا ثبوت مراٹھی زبان میں مو جود مزاحیہ ادب ہے جو ڈرامے کے بعد اس زبان کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ مراٹھی میں مقامی وراہڑی بھاشا کو نہ صرف نظم بلکہ نثر میں بھی کتابی شکل میں پیش کیا گیا اور کئی کتابیں اس بولی کے مزاحیہ ادب کی مو جود ہیں۔ ودربھ کے دیگر ہزل گو شعرا کے اشعار بطور نمونہ یہاں درج کئے جا رہے ہیں۔
ح خ جھنجھٹ، اکولوی
چاند تارے جھانکتے رہتے ہیں ہر سوراخ سے
آسماں لگتا ہے میرے گھر کا چھپّر رات کو
بیوی مینیجر ہے میں چپراسی اور بچے کلرک
سب اکٹھا ہوتے ہیں بنتا ہے دفتر رات کو
لقب عمران
جب سے آئے ہیں وہ خیالوں میں
عمر کٹتی ہے ایڑے چالوں میں
قصیدے شان میں اس بت کی گائے ہیں یعنی
چنے کے جھاڑ پر اس کو چڑھا کے بیٹھ گئے ُ
احمد خاں جلگانوی۔ ثمرؔ
ذرا ان بجلیوں کو روک کر اے آسماں سمجھا
میں رکھ دوں گا ترے سر پر اٹھا کر آشیاں سمجھا
ہم سے کوئی بھلا کیا کھیٹے گا
ہم سرہانے پہاڑ رکھتے ہیں
نجیب چشتی۔قاضی فہیم الدین
قسمت سے جن کو بہنوئی بھوندو میاں ملے
یوں ان کو انگلیوں پہ نچاتی ہے سالیاں
میں بھی منھ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ ذائقہ کیا ہے
محمد ابرار ملکا پوری، لیڈ رؔ
جس کوچے میں گم ہو گیا بیگم کا پریچھم
اس کوچے کی ہم خاک ابھی چھان رہے ہیں
ہمارے باپ کی اب تم بہو بنو نہ بنو
تمہارے باپ کا داماد بن گیا ہوں میں
منھ پھٹ ناگپوری
اس دیش میں تو لوگ چرا لیں کفن کے پھول
آئے یہاں بہار، ارے جاؤ بھی میاں
ممکن نہیں ہے ایک کے نخرے کو جھیلنا
تم اور چار چار، ارے جاؤ بھی میاں
محمد طاہر کھام گانوی، فڑ توس
جوتیاں سارے زمانے کی اٹھا نے والا
آج پکڑا گیا مسجد میں چرانے والا
شعر بوگس ہیں تو فڑتوس تخلص ہے مرا
میں تو ہوں آپ کو بس غم میں ہنسانے والا
عبد الحفیظ پاگلؔ
میں یہ سمجھا کہ انھیں مجھ سے محبت ہو گی
وہ یہ سمجھے کہ میری جیب میں پیسہ ہو گا
جیب خالی جو نظر آئی تو ہنس کر بولے
تم ہی بولو نہ بھلا ایسے سے کیسا ہو گا
آج ہوٹل میں تری یاد جو آئی مجھ کو
چائے میں بھیگا ہوا میں نے بٹر چھوڑ دیا
سوامی کرشنانند سوختہ
کا کا کی حکومت میں بھتیجوں کے مزے ہیں
پیرس کی کریں سیر کہ انگلینڈ کو جائیں
لندن کی سیاحت کے یہ شوقین بھتیجے
دیہات کی دنیا میں بھی تشریف تو لائیں
علاقۂ ودربھ میں اردو کے تعلیمی اداروں کی کثیر تعداد اردو زبان کی ترویج و بقا کی ضامن ہے۔ ابتدا ہی سے یہاں بے شمار قلم کار اردو ادب کی مختلف اصناف میں پر ورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ یہاں سے متعدد اخبارات و رسائل اور کتابیں شائع ہوئیں۔ اس ادبی سفر کی روئیداد کئی ناقدین و محققین کے رشحات قلم سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ اس سلسلے میں جامعات میں ہونے والی تحقیق کے علاوہ بھی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ اسی طرح مختلف اصناف میں فنکاروں کی نمائندہ تخلیقات بھی شایع کی گئی ہیں۔
’’زعفران زار‘‘ میں شاعروں اور نثر نگاروں کی منتخب تخلیقات پیش کی جا رہی ہیں تاکہ اس سے اندازہ ہو سکے کہ ظرافت کی تخلیق کے معروف مراکز میں ودربھ بھی ایک اہم علاقہ ہے جہاں اس مخصوص ادبی طرزِ اظہار کی آبیاری کرنے والے فنکاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد موجود ہے۔
٭٭٭