اپنے کیبن میں داخل ہوتے جلیس کی نظر ٹھٹکی تھی ۔۔ہائیسم اپنی کنپٹی کو زور سے مسل رہا تھا ۔اپنے بھائی کی حالت پر اسے افسوس ہوا ۔۔۔
” کیا ہوا بھائی آپ اتنے پریشان کیوں ہورہے ہیں ۔۔جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہے یار ۔۔”
اس کے آفس جاکر بے بسی سے اپنی صفائی دی ۔۔
” میں نے تم سے کچھ پوچھا تو نہیں ہے ۔۔میں جانتا ہوں اس سب میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے یہ تو مقدروں کے کھیل ہیں جس میں رلتا صرف دل ہے ۔۔”
اس کی آواز میں چھپے کرب پر جلیس کی آنکھیں جلی تھیں ۔۔
” سب کچھ اس کی طرف سے ہے بھائی ۔۔میں نا کل اس کے لیے کچھ محسوس کرتا تھا نا آج کرتا ہوں اور اب جب میں جانتا ہوں وہ میرے بڑے بھائی کی بچپن کی چاہت ہے میں مر کر بھی اس کی حوصلہ افضائی نہیں کروں گا ۔۔۔”
ہائیسم نے چونک کر دیکھا ۔۔اس کے سنجیدہ تاثرات میں کسی بھی قسم کی لچک نا تھی ۔۔۔
” تو اس میں اس کا کیا قصور ہے یار ۔۔اگر میں اس کو بچپن سے چاہتا ہوں تو وہ تمہیں بچپن سے چاہتی ہے ۔۔وہ بالکل بے ضر ہے میرے بھائی ۔۔”
جلیس نے طنزیہ آبرو اچکا کر مسکرا کر دیکھا ۔۔
” اس کا بھائی ہے نا اس کی فکر میں ہلکان ہونے کو ۔۔میرا کوئی واسطہ نہیں ہے ترتیل زکی سے ۔اس کو میرے پیچھے خود کو خوار کرنا ہے کرتی رہے ۔۔مگر میں بے غیرت نہیں ہوں اپنے ہی بڑے بھائی کے دل کی دنیا اجاڑوں ۔۔۔”
برہمی سے کہتا ۔۔جھٹکے سے اٹھ کر چلا گیا ۔۔ہائیسم پیپر ویٹ گماتے ہوئے صرف ترتیل کو سوچ رہا تھا ۔۔جس کو بچپن سے دل میں بسا رکھا تھا ۔۔اس بات سے سب ہی واقف تھے سوائے ان دو بہن بھائی کے ۔۔۔
“ہیلو ۔۔ایک کافی بھیجو جلدی ۔۔”
انٹر کام پر کافی آڈر کرکے سیٹ کی بیک سے سر ٹکا دیا ۔۔سر اب پھٹنے کو تھا اور جب تک وہ کافی نا پی لیتا سکون نہیں آنا تھا ۔۔۔
ترتیل جب پیدا پوئی تھی تو اس کی ماں ہائیسم کی تائی تب ہی سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے معذور بیٹی کی پیدائیش کے چند گنٹھوں بعد ہی جل بسی تھیں ۔۔۔زکی جوکہ فودیل اور ترتیل کے والد تھے اس ہی دن ہڑبڑی میں آتے ہوئے کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگئے۔۔۔
اس دن ترتیل کے لیے سب کی نظروں میں ہمدردی تھی مگر ہائیسم کی آنکھوں میں محبت تھی ۔۔چھ سال کا ہائیسم اس گڑیا جیسی بےبی پر اس ہی دن قربان ہوگیا تھا ۔۔مگر ترتیل کا دل تو جلیس کی وجاہت میں جھکا تھا ۔۔یہ جاننے کے باوجود بھی کہ جلیس نہ تو اس سے زیادہ بات کرنا پسند کرتا ہے نا ہی کبھی محبت کر سکتا ہے ۔۔۔۔
رمشا خوشی سے تمتمائے چہرے سے بیس ہزار کا چیک دیکھ رہی تھی ۔۔جو کہ کالج کی جانب سے روفہ کو بطور انعام دیا گیا تھا ۔۔۔وزیر تعلیم کی جانب سے بھی آج اس کو پچاس ہزار کا چیک ملنے والا تھا ۔۔۔
” اماں ابوجی کے ٹیسٹ کل کروا لینا ۔۔آج میرے ساتھ چیک لینے چلو نا ۔۔۔”
آس سے رمشا کو درخواست کی تھی ۔۔
” روفہ بچے تم چلی جاو ۔۔جانتی ہونا آج ٹیسٹ کروانے کتنے لازم ہیں ۔۔کچھ جو زیادہ ضروری ہیں وہ ان بیس ہزار سے ہو جائیں گے ۔۔باقی دوائیاں اور ویل چئیر تیرے پچاس ہزار والے انعام سے آجائے گا ۔۔۔”
ان کی بات پر روفہ نے ٹھنڈی آہ بھری ۔۔۔سیف کی پرانی ویل چیئر کا ایک ہینڈل بالکل ہی ناکارہ ہوچکا تھا
” اچھا ٹھیک ہے ۔۔اگر آپ میرے ساتھ انعام لینے جاتیں تو مجھے بہت خوشی ہونی تھی ۔۔مگر کوئی بات نہیں آج آپ مجھے ٹی وی پر دیکھنا ۔۔اور ہاں ابو جی کو آج ہسپتال رکشے کی بجائے ٹیکسی میں لے جانا ۔۔۔آج تو پیسے بھی ہیں اس لیے خوار ہونی کی ضرورت نہیں ہے ۔۔”
اپنی مخصوص سفید چادر سر پر اوڑھ کر تین سال پرانا بیگ جو رمشا اتوار بازار سے لے کر آئیں تھیں ۔۔کندھے پر ڈال کر ہاتھوں سے ہی قمیض کی شکنیں درست کرتی چلی گئی ۔۔
رمشا اس کے جانے پر دعائیں پڑھ کر پھونکتی ہوئی دروازے تک اس کے ساتھ ہی گئیں ۔۔۔
” ہدی ۔۔۔۔اوو ہدی اب آجا باہر نہیں تو میں نے چھوڑ کر چلے جانا ہے تجھے ۔۔۔”
وہ جیسے ہی باہر نکلی محلے کی ساری خواتیں اس کی آواز پر لپک لپک کر اس کو ایسے ملنی لگئیں جیسے اس نے وزیراعظم کی نشست جیت لی ہو ۔۔۔
” ارے باجی اپنے آٹے والے ہاتھ تو پرے ہی رکھو مجھ سے خامخواہ ہی میری دھلی چادر خراب کرو گی ۔۔چاو جاکر ناک صاف کرو اپنی ساتویں اولاد کی ۔۔”
سدرہ باجی اس کی ہمسائی تھی ۔۔اس کو دونوں ہاتھوں سے خود سے دور کرتی جھنجھلا کر بولی ۔۔
” روفہ بڑی جلدی رنگ بدلا ہے تو نے چار نمبر کیا لے لیے تیری تو آنکھیں ہی ماتھے پر آگئیں ۔۔”
اپنے آٹے سے بھرے ہاتھ کمر پر ٹکا کر دوسرا ہاتھ ہوا میں نچاتی بولی ۔۔روفہ کے ماتھے پر بل پڑے ۔۔
” نا میں نے کون سا تمہیں کہا ہے کہ مجھے مبارک باد دے کر تم اپنے نمبر بڑھاو۔۔۔چلو جاکر روٹیاں پکاو ابھی تمہاری کرکٹ ٹیم نے آکر گلی میں لیٹنا شروع کردینا ہے ۔۔۔اور تو کہاں مر گئی تھی ۔۔زرا کم سرخی لگا لیتی چل اب ۔۔ایک تو رکشہ بھی پل سراط جیسی گلی پار کرکے ملنا ہے ۔۔”
سدرہ کو ٹکا سا جواب دے کر ہدی کو کھینچتی ہوئی ناک کی سیدھ میں چل پڑی ۔۔۔البتہ ہدی بار بار ہونٹوں پر ادھار مانگ کر لگائی ہوئی لپس ٹیک کو بار بار ہونٹ آپس میں مسل کر درست کر رہی تھی ۔۔۔
عالم پریشانی سے فضا کو دیکھ رہے تھے جو ان کو باکل نظرانداز کرتی ہوئیں ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے بیٹھی تھیں ۔۔۔
” فضا اب بس کریں نا ۔۔اور کتنی ناراضگی دیکھانی ہے ۔۔”
کھسک کر ان کے قریب بیٹھ کر اپنا دائیاں بازو فضا کے کندھے پر پھیلایا ۔۔۔
” ہاں میں جانتی ہوں میری ناراضگی ۔۔غصے سے کچھ نہیں ہونے والا ۔۔جو آپ مجھ سے چھین چکے ہیں ۔۔وہ اب مجھے کبھی نہیں مل سکتا ۔۔۔”
بھرائی آواز میں ہزاوں شکوے نپہاں تھے ۔۔۔عالم کو دل کے کچھ ہوا ۔۔۔فضا ان کی چھبیس سالہ محبت تھی ۔۔اس عورت کی محبت میں وہ اپنا سب کچھ دان کرنے کو تیار رہتے تھے ۔۔مگر ان سے وہ کچھ چھین لیا تھا ۔۔جس کا مداوہ شاید زندگی بھر نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔
” معاف نہیں کرسکتیں ۔۔جانتا ہوں ۔۔ہوگئی مجھ سے خطا ۔۔مگر آپ یوں خود کو تلکیف دے کر مجھے اذیت تو مت دیں ۔۔۔اپنے بیٹوں کی طرف بھی تو دیکھیں نا ۔۔دو جوان بیٹے ہیں آپ کے ۔۔اور پھر فودیل اور ترتیل بھی تو آپ کے ہی بچے ہیں نا ۔۔”
اپنے ہاتھوں سے ان کے رخسا پر بہتے اشکوں کو صاف کرتے محبت بھری فکر سے بولے ۔۔مگر فضا نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔
” جی تو اب آتے ہیں کچھ دوسری خبروں کی طرف ۔۔اندرونے لاہور سے تعلق رکھنے والی روفہ نامی ایک غریب خاندان کی بچی نے کیا انٹر لاہور بورڈ میں ٹاپ ۔۔۔اور یہ ہی نہیں دن رات کی محنت سے سموسے بیچ کر گھر کا چولہہ بھی وہی چلاتی تھیں ۔۔۔ان کا کہنا ہے اس کامیابی کا صلہ صرف اور صرف رب تعالی کی ذات کے بعد ان کی والدہ کو جاتا ہے ۔۔۔
جی تو آصف اس بارے میں ہمیں کچھ بتائیں ۔۔۔۔
جی آمنہ جیسا کہ آپ دیکھ رہی ہیں میں اس وقت بلدیہ حال میں موجود ہوں ۔۔جہاں وزیر تعلیم نے لاہور بورڈ میں پوزیشن لینے والے طلبہ میں انعامات کے ساتھ ساتھ چیک بھی بانٹے ہیں ۔۔جیسا کہ فرسٹ پوزیشن لینے والی روفہ نامی طلبہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں ۔۔۔وہ خود ہی اپنی خاندان کی واحد کفیل ہیں ۔۔مگر جہاں کچھ کر دیکھانے کا جذبہ ہو تو وہاں راہیں خودبخود ہموار ہو جاتی ہیں ۔۔جس کی جیتی جاگتی مثال روفہ ہیں ۔۔۔۔
کمیرہ مین جبران کے ساتھ تلاش نیوز لاہور ۔۔۔۔”
پورے لاونج میں موت سا سناٹا چھا گیا تھا ۔۔اینکر اور بھی کچھ بول رہی تھی مگر گھر میں داخل ہوتے فودیل اور ہائیسم کی نظریں عالم اور فضا کے ساتھ ٹی وی سکریں پر ساکت سی جمی تھیں ۔۔۔۔
یہ نیوز فودیل کے نانا کے چینل سے ہی بریک ہوئی تھی جس کا سی ای او فودیل ہی تھا ۔۔۔
” بہت بہت مبارک ہو۔۔۔عالم ملک آج آپ میرے دل کو تباہ کرنے میں پوری طرح کامیاب ٹھہرے ۔۔دیہاں سے دیکھیں آنکھیں کھول کر دیکھیں ۔۔میری گود اجاڑ کر جس کی گود آپ نے بھری تھی ۔۔اس نے میری ریشم سے بھی نازک بچی کا کیا حال کر دیا ۔۔۔بہت بہت مبارک ہو۔۔۔”
فضا کی چینخ ہائیسم اور عالم کے کانوں میں صور کی طرح گونجی تھی ۔۔۔
” میری بیٹی عالم اس گھر کی مالک ۔ہماری اکلوتی بیٹی در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ۔۔صرف اور صرف آپ کے انیس سال پہلے مہان بننے کی وجہ سے ۔۔مجھے آج آپ نے ختم کردیا ۔۔۔میں کس منہ سے اپنے دل کے ٹکرے کا سامنا کروں گی ۔۔۔”
لاوج میں صرف فضا کے چلانے کی آواز تھی ۔۔ترتیل چھوٹی ماما کو روتے دیکھ کر خود بھی دیوار کا سہارا لے کر رونے لگی تھی ۔۔۔
اپنی ماں کی حالت پر ہائیسم کا دل خون ہو رہا تھا ۔۔
جبکہ فودیل اور عالم کے چہرے پر نا فہم سے تاثرات تھے ۔۔