رباعی ۱
بیدل کلف سیاه پوشی نشوی
تشویش گلوی نوحه کوشی نشوی
در خاک بمیر و همچنان رو برباد
مرگت سبک است بار دوشی نشوی
بیدل
ترجمہ
اے بیدل تُو کسی نوحہ خواں کے ماتمی لباس کا کلف یعنی سیاہ رنگ مت ہونا ۔۔
کسی نوحہ خواں کے پیاسے گلے کی تشویش یا خشکی بھی مت ہونا
(بہتر یہی ہے کہ ) تو مر کر مٹی میں مل جا اور (دھول بن کر ) ہوا میں اڑ جا۔۔ (کیونکہ ) تیری موت معمولی (واقعہ) اور ہلکی (شے) ہے اس لئے کسی کے کندھے کا بوجھ مت ہونا۔
تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ بیدل کی وفات کے بعد یہ رباعی انکے بستر سے ملی تھی ۔ اس رباعی میں کو انکو انکا آخری کلام ہونے کا شرف ہے پال سمتھ نے بھی اپنی تحقیق میں اس واقعہ کی تائید کی ہے اس طرح یہ رباعی بیدل کی روح کی لافانی اور لامحدود آواز ہے جو ہر حساس قاری اور سامع پر قیامت کا سا لرزہ طاری کرتی رہے گی ۔ بیدل زندگی کے ہر موڑ اور ہر قدم پر ہر قسم کی رسمیات اور تکلفات سے دور رہے انہوں نے اپنا آخری پیغام بھی نہایت خوبصورت استعاروں کے ذریعہ اس رباعی میں پیش کیا ہے یہ رباعی بیدل کی عمر بھر کے مشاہدے اور ریاضت کا حاصل ہے۔ اور سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ انکی بداعت جدت طرازیاں اور بدیع الاسلوبی انکے لفظ لفظ سے عیاں ہے ۔
رباعی ۲
.بیدل! اسرار کبریایی دریاب
رمز به حقیقت آشنایی دریاب
غافل ز حقی به علت صحبت خلق
یکدم تنها شو و خدایی دریاب
بیدل دهلوی
بیدل ( تجھ پر لازم ہے کہ) تو ذات کبریا کے اسرار دریافت کر اور اور انکے ذریعے اسکی آشنائی حاصل کر
تُو تو مخلوق جتنا بھی اس کا لحاظ نہیں رکھتا اور نہ اس کے دھیان کا حق ادا کرتا ہے۔ ایک لحظہ کے لئے علائق سے الگ ہوکر اس کی خدائی کو پا لے۔
رباعی
بیدل رقم خفی جلی میخواہی
اسرار نبی و رمز ولی میخواہی
خلق آئینہ است نور احمد دریاب
حق فہم اگر فہم علی میخواہی
بیدل اگر تو نبی و ولی کے اسرار جاننا چاہتا ہے تو خفی کو جلی رقم کرنا، آیینۂ خلق میں نور محمدی ہے اور علی حقیقت تک پہچنے علی کا وسیلہ ہے ۔
ای طالب معنی اگر ایمان داری
باید با ادای حق نباشد عاری
میخواہ بعاریت کتاب از ہمہ کس
زین شرط کے میراث پدر نہ شماری
اے طالب علم ایمان کی بات یہ ہے اور سچی بات سننے اور ماننے میں کوئی شرم و عار نہ محسوس کرنی چاہے
تم کسی سے کتاب ادھاری لو مگر اسے اپنے باپ کی وارثت سمجھ کر ہڑپ نہیں کر لینا۔ یعنی ادھار لی گئی کتاب واپس دینا ضروری ہے۔
آن تخم حقیقت کہ نبوت شجر است
پیش جمعی کہ دین شان معتبر است
ابو بکرش ریشۂ شاخ و برگست عمر
تخم حقیقت سے نبوت کا شجر پیدا ہو سب کے نزدیک انکے دین کی قدر کی جاتی ہے ابوبکر شجر نبوت کا کا ریشہ ہے، عمر شاخ ، عثمان شگوفہ اور علی ثمر کے مترادف ہے۔
بیدل سودای اجتہادم شان نیست
شوق ظرف کمال با نقصان نیست
بر پست و بلند شعرم ایراد مگیر
آخر سخن شافعی و نعمان نیست
میری شعر گوئی میرا اجتہاد ہے میرے کمال کے ساتھ کئی نقصان بھی ملحق ہیں میرے بلند و پست اشعار پر اعتراض مت کرنا آخر یہ امام شافعی یا امام نعمان یعنی ابوحنیفہ کے قول نہیں ہیں ۔