غزل 1
موج خونم هر قدر توفان نما خواهد شدن
حق شمشیر تو رنگینتر ادا خواهد شدن
میرے خون کی لہر بہت طوفانی ہوجائے گی، تیری تلوار رنگین تر ہوجائے گی یعنی اس کا حق ادا ہوجائے گا۔
عمرها شد در تمنای خرامت مرده
خاک من آیینهٔ آب بقا خواهد شدن
تیرے طرزِ خرام کی تمنا میں مر چکا ہوں۔ میری خاک، آب حیات کی آئینہ دار ہوجائے گی۔
دردم مردن مرا بر زندگی افسوس نیست
حیف دامانت که از دستم رها خواهد شدن
مجھے مرنے کا کوئی غم نہیں افسوس کہ تیرا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ جائے گا
در کمین شعلهٔ هر شمع داغی خفته است
هر کجا تاجیست آخر نقش پا خواهد شدن
ہر شعلہ کی کمین گاہ میں داغ یعنی سیاہی چھپی ہوئی ہے جہاں کہیں زرتاج گل ہوتا ہے وہ آخر نقش پا یعنی پامال ہوجاتا ہے۔ شعلہ کی مناسبت سے تاج استعمال کیا ہے
بیتلافی نیست شوقم در تک و پوی وصال
دست اگر کوتاه شد آهم رسا خواهد شدن
وصال کی کوشش میں میراشوق، تلافی کے بغیر نہیں رہے گا یعنی اس سلسلہ میں تلافی مافات ہوگی اگر میرا ہاتھ چھوٹا رہ جائے گا تو آہ لمبی ہوجائے گی
قدر مشتاقان بدان ای ساده رو کز جوش خط
بینیازیها زبان التجا خواهد شدن
تُو اپنے مشتاقوں کی قدر کر، اے سادہ رو محبوب، انکے خط وخال کا جوش کہیں زبانِ التجاسے بے نیاز نہ کردے ۔یعنی انکا احوال ہی زبان و اظہار بن جائے گا۔
از تغافل چند بندی پرده بر روی بهار
چشم وا کن غنچهٔ بادام وا خواهد شدن
تیرے تغافل نے روئے بہار کی پردہ بندی کردی ہے، اپنی آنکھ اٹھا کر دیکھو بادام کے غنچے کھل اٹھیں گے آنکھ کی نسبت اور رعایت سے بادام استعمال کیا ہے۔ یعنی تمارے نظر اٹھاکر دیکھنے کی دیر ہے انکے اثر سے کلیاں چٹخ جائیں گی۔
نشئهٔ آب و گل و شوخی بنای وحشتیم
دامنی گر بشکنی تعمیر ما خواهد شدن
آب و گل کا نشہ اور اس کی شوخی، ہماری وحشت ٭ کی بنیاد اور نیو ہے اگر میرے دامن کو پھاڑو اور توڑو گے تو میری تعمیر ہوگی ، یعنی میرے آب وگِل کے نشے اور شوخی سے میری نمود و نمائش ہے اور جس کے باعث مجھے تکلیف جھیلنی پڑی ہے اس نمود ونمائش کے مٹنے میں ہی میں میری تعمیر اور ایک طرح کی خیر مضمر ہے ۔ دامن شکنی خلاف روزہ مرہ ہے بہر حال مطلب واضح ہے۔
یا وحشت*Panic
غالب نے تعمیر کا مضمون غالب سے مستعار لیا ہے اور مزید اسے وسعت دی ہے
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولا برق خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
غالب
یعنی برق خرمن کا ہیولا دہقان کا خونِ گرم ہے اگر دہقان محنت نہ کرتا اور خرمن وجود میں نہ آتا تو اس خرابی کی نوبت نہ آتی۔ میری تعمیر ہی نے یہ مصیبت مجھ پر ڈھائی ہے
غزل ۲
نه با صحرا سری دارم نه باگلزار سودایی
به هرجا میروم از خویش میبالد تماشایی
نہ مجھے صحرا کا خیال آتا ہے نہ ہی گلزار کی دھن ہے میں جہاں بھی جاؤں میرا منظر خود سے نموپاتا ہے
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
غالب
ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئےدہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
غالب
چهگل چیند دماغ آرزو از نشئهٔ تمکین
من وصدبزم مخموری ،دل ویک غنچه مینایی
میرے خیالِ آرزو نے تمکین و تسلیم کے نشہ سے بہت پھول چُنے ہیں یعنی مرادیں پائی ہیں، میں ہوں اور بزمِ مخموری کی محفلییں ہیں، دل ہے اور ایک روغنی غنچہ۔Enamel Bud
در اول گام خواهد مفتگردون پی سپرگشتن
سجود آستانش از جبینم میکشد پایی
پہلے قدم پر سپر کی تلاش میں گھومنا ہوگا (گردون و گردان ایک ہی قبیل کے الفاظ ہیں ) اسکے آستانہ کا سجدہ میری جبین سے پاوں نکالتا ہے۔ یعنی میری جبین نیاز سجدہ کے لئے بیچین ہے اور سجدہ ہی میری ڈھال ہے
اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباس مجاز میں ،
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مِری جبین نیاز میں
اقبال
یہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اقبال
عنانگیر غبار کس مباد، افسون خودداری
وگرنه ساحل ما نیز دارد جوش دریایی
اے افسونِ خود داری کی غبار! کسی کی لگام پکڑ مت کر،ورنہ ہمارے ساحل یعنی خشکی /زمین میں جوش دریائی موجود ہے یعنی دریا ہونے کی تمامتر صلاحیت اس میں موجود ہے۔ اقبال نے کم وبیش یہی مضمون یوں پیش کیا ہے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہویہ مٹی تو بہت زرخیرہے ساقی
اقبال
تعلق میفروشد عشوهٔ مستقبل و ماضی
توگر امروز بیرون آیی از خود نیست فردایی
تعلق ہی ماضی کی عشوہ گری کو فروغ دے رہاہے، تو اگر تمام تعلقات کوچھوڑ کر “آج” اپنے آپ سے باہر آجائے تو کل پھر کل نہیں رہے گااپنے آپ سے باہر یعنی ہر مادّی خارجی اور باطنی و شعوری علاقہ مندی یا یوں کہئے کہ تمام علائق کے کٹنے سےزمان و مکان کی تحدید بھی مٹ جائے گی اور تعینات کے پردے اٹھ جائیں گے۔
الآن کماکان کی شان ہے یہ
محمد رفیع سودا نے اسی خیال کو یوں پیش کیا ہے
پردے کو تعین کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا
محمد رفیع سودا
به زندانم مخواه افسردهٔ تکلیف آسودن
غبارم را همان دامن فشانیهاست صحرایی
قید میں میری صعوبت وتکلیف سے خواہ مخواہ رنجیدہ خاطر نہ ہو، صحرا میری خاک پر دامن فشانی کرے گا ۔یعنی اپنے دامن میں مجھے ڈھانپ لے گا بقول شاعر
تو دامن بہ خاکم فشانی ولی من،
شوَم خاک دستت زدامان ندارم
رم هر ذره مهمیزیست بهر وحشی غافل
مرا بیدار سازد هرکه بر راحت زند پایی
ار او غافل ،ہر ذرے کا “رَم” یعنی ڈر کر بھاگنا، وحشی کے لئے مہمیز کاکام کرتا ہے یعنی وحشت میں اضافہ کرتا ہے ارے جو بھی میرے راحت کو پامال کرتا ہے وہ دراصل غفلت کی نیند سے بیدار کرتا ہے
درین صحرای نومیدی که میخواهد سراغ من
که از هر نقش پایم تا عدم خفتهست عنقایی
اس ناامیدی کے صحرا میں کون میرا نشان ڈھونڈتا پھرتاہے ؟ میرے ہر نقش قدم سے عدم تک میراعنقا پر سمیٹے بیٹھا ہے۔ (سویا ہوا ہے کا یہاں یہی معنی نکلتا ہے)
تاملهای کمظرفی فشرد اجزای من بیدل
دو روزی پیش ازینم قطرگیها بود دریابی
کم ظرفی کے تامّل و تغافل نے میرے اجزا کو پریشان کردیا اس سے دو روز پہلے یہ میرے چھوٹے چھوٹے قطرات دریا کا حصہ تھے یعنی میں دریا تھا۔
غالب نے اسی خیال کو یوں اردو قالب میں ڈھالا ہے
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
غالب
غزل ۳
بر طپيدنهاي دل هم ديده ئي واکردنيست
رقص بسمل عالمي دارد تماشا کردنيست
تم نے دل کے تڑپنے پر نظر ہی نہیں ڈالی یعنی اسے دیکھا ہی نہیں۔ اس نیم مذبوح کا رقص دنیا کےدیکھنے کے لائق ہے
يا بخود آتش توان زد يا دلي بايد گداخت
گر دماغ عشق باشد اينقدر هاکردنيست
یا تو خود اپنے آپ کو پور آگ میں ڈالا ہوتا یا دل ہی کو کچھ گداز کیا ہوتا اگر تمہیں شعورِ عشق ہوتا تو اتنا تو ہُوا ہوتا بقول غالب
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسدؔ
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
از ورق گرداني شام و سحر غافل مباش
زير گردون آنچه امروز است فردا کردنيست
شام و سحر کی ورق گردانی یعنی گردش سے غافل نہ رہنا، یہ آسمان کے نیچے کے ہر “آج ” کو کل کردیتا ہے۔ یعنی آج پھر نہیں ملنے والا۔مطلب ہوا وقت کا پیہہ اگلی طرف ہی گھومتا ہے۔
هر کف خاکي بجوش صد گداز آماده است
يکقلم اجزاي اين ميخانه صهبا کردنيست
ہر مشتِ خاک شدید گداز رکھتا ہے اس میخانہ کی عمارت کے تمام تر اجزا صہبا گری کرتے ہیں
خاک ما خون گشت و خونها آب گرديد و هنوز
عشق مي داند که بي رويت چه با ما کردنيست
میری خاک خون ہوگئی اور سب خون پانی ہوگیا اور ابھی عشق ہی جانتا ہے کہ جدائی نے میرے ساتھ کیا کِیاہے؟۔ بی رویت یعنی عدم وصال کی کیفیت یا جدائی و ہجر کی حالت
بي نشاني ميزند موج از طلسم کائنات
گر همه رنگست هم پرواز عنقا کردنيست
کائیات کے طلسم سے نیستی موج ماررہی ہے ہر رنگ آمادہ بہ پرواز عنقا ہے ۔یعنی معدوم ہونے والا ہے
حيرتي دادم خبر از پرده زنگار جسم
شايد اين آئينه دل باشد مصفا کردنيست
پردۂ زنگارِ جسم نے حیرت میں ڈال دیا ہے شاید یہی دل کے آئینہ کو مصفا کرنے کی صورت ہے
زنگار کا خیال غالب نے بیدل سے مستعار لیا ہے اور اس خیال کو دوسرے انداز میں یوں باندھا ہے بقول غالب
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتا
چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا
غالب
مشرب درد تو دارم سير عالم کرده ام
گر همه يکقطره خونست دل جاکردنيست
تیرا درد میرا مشرب ہے میں نے عالم کی سیر کی ہے اگر وہ سب خون کا ایک قطرہ ہے تو وہ دل میں ہی جا گزین ہے یعنی سب کچھ دل و دماغ کے اندر ہے۔
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
آتش
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
غالب
قامت خم گشته ميگويند آغوش فناست
ناخني گل کرده ام اين عقده هم وا کردنیست
میری قامت جھک گئی ہے یعنی میں بوڑھا ہوگیا ہوں کہتے ہیں یہی آغوش فنا ہے
میرےناخن گھسے اور کٹے ہوئے ہیں اور یہ گانٹھ ابھی کھولنا باقی ہے
شخص تصويريم (بيدل) از کمال ما مپرس
حرف ما ناگفتني و کار ما ناکردنيست
بیدل میں تصویری شخص ہوچکا ہوں میرے کمال کے بارہ میں نہ پوچھ
میرا کہنا نہ کہنا ہے اور میرا کرنا نہ کرنا ہے۔
غزل ۴
به وحشت نگاهی چه خو کردهای
که خود را به پیش خود او کردهای
آنکھوں سے وحشت برسانا یہ کیا عادت بنالی ہے تو نے، خود کو خود کے آگے “وہ “کردیا ہے تونے ، سیدھا اور صاف معنی ہے کہ تو نے اپنی آنکھیں پھیر لی ہیں اور آشنائی ترک کر دی اور مجھ سے ناآشنا ہو گیا ہے ۔ پہلے تو ” میرا خاص معشوق” تھا اب اجنبی ہوگئے ہو۔
چو صبح از نفس پر گریبان مدر
که ناموس چاک رفو کردهای
ہر روز صبح کی طرح پُر نفس، گریبان نہ پھاڑ کر تو نے چاکِ رفو کی آبرو رکھ لی ۔
یمین و یسار و پس و پیش چیست
تو یکسوبی و چارسو کردهای
دائیں بائیں پیچھے آگے کیا ہوا؟ تو ایک ہی ایک ہے لیکن چاروں طرف چہرہ کئے ہوئے ہے
نه باغیست اینجا نه گل نه بهار
خیالی در آیینه بو کردهای
نہ باغ ہے یہاں نہ گل نہ بہار، سب خیالی ہے تونے آئینہ میں خوشبو سونگھی ہے مطلب یہ جہاں محض توہم کا کارخانہ ہے۔
میر نے یہی خیال دوسرے انداز میں استعمال کیا ہے
یہ توہم کا کار خانہ ہے ،
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
میر
کجا نشئه،کو باده، ای بیخبر
چو مستان عبث های و هو کردهای
کہاں کا نشہ، کونسی شراب، اے غافل تو نے پاگلوں کی طرح یونہی ہا و ہو کیا ہے
عدم از تو مرهون صد قدرت است
بدی هم که کردی نکو کردهای
عدم تجھ سے سو قدرت کی مرہون منت ہے یعنی تو وہاں کوئی کام نہیں کر سکے گا تو نے اگر برائی کی وہ بھی نیکی ہے۔ یعنی عدم میں نیکی و بدی کا تصور محال ہے۔
اگر صد سحر از فلک بگذری
همان در نفس جستجو کردهای
اگر تو سو بار بھی فلک کے پارگزرا تو بھی جو تیرےسینے میں ہے اسی کی جستجو کرتا ہوا ملا۔
اپنا ہی عکس پیش نظر دیکھتے رہے
آئینہ رو برو تھا جدھر دیکھتے رہے
جگر مراد آبادی
ننالیدهای جز به کنج دلت
اگر نیستان در گلو کرده ای
اگرچہ نیستان بھی تیرے گلو گیر ہوا تو نے مگر دل کے گوشہ میں نالہ و گریہ زاری کی۔ یعنی لب وا نہ کئے۔
بشر راز دلی کہہ کر ذلیل و خوار ہوتا ہے
نکل جاتی ہے جب خوشبو تو گل بیکار ہوتا ہے
به انداز نخلت کسی پی نبرد
که پر میزنی یا نمو کردهای
جس کسی نے بھی یہاں بال و پر نکالے یا نموپزیز ہوا ۔۔۔وہ تیرے نخل اقامت کو کو نہیں پا سکا۔
ز هستی ندیدی به غیر از عدم
مگر سر به جیبت فرو کردهای
جب بھی تم سر بگریباں ہوئے تم نے ہستی سے نیسی (عدم) کے علاوہ کچھ نہیں پایا۔
نفس وار مقصود سعی تو چیست
که عمریست بر دل غلو کردهای
سانس کی طرح پیہم تیری کوشش کا کیا مقصد ہے عمر بھر تونے دل پر زیادتی کی ہے۔
سخنهای تحقیق پر نازک است
میان گفته و فهم مو کردهای
تحقیق کی باتیں بہت نازم مسئلہ ہے تو نے کہنے اور سمجھنے کے درمیاں بال یعنی دراڑ ڈال دی ہے۔
شیشہ میں بال آنا، یعنی دراڑ پڑجانا۔
بشو دست و زین خاکدان پاک شو
تیمم بهل گر وضو کردهای
ہاتھ دھو اور اس خاک دان سے پاک ہوجا اگر تو نے وضو کرلیا ہے تو تیمم پر تُف ہو
جهانی نظر بر رخت دوختهست
تو ای گل به سوی که رو کردهای
ایک عالَم نے تیری چہرہ پر نظر گاڑی ہوئی ہے، اے شاہ گُل تو اپنا رُخ کس کی طرف کئے ہوئے ہے۔
چوبیدل چه میخواهی از هست ونیست
که هیچی و هیچ آرزوکردهای
بیدل کی طرح تو ہست و نیست سے کیا چاہتا ہے،
کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے ور اس نے کوئی آرزو نہیں کی ۔
غزل ۵
فرصتی داری زگرد اضطراب دل برآ
همچوخون پیش ازفسردن از رگبسمل برآ
اگر فرصت ملے تو دل کی بے چینی کی گرد سے باہر آجا اس سے پہلے کے لہو کی طرح نچڑے ، رگِ بسمل سے آپ باہر آجا
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟
غالب
ریشهٔ الفت ندارد دانهٔ آزادیات
ای شرر نشو و نما زینکشت بیحاصلبرآ
محبت کے رگ و ریشے میں تیری آزادی کا بیج نہیں، اس لئے اے نشو و نما کی شرر، کشت بے حاصل سے باہر آجا۔
قلزم تشویش هستی عافیت امواج نیست
مشتخاکی جوش زن سرتا قدمساحلبرآ
ہستی کے تشویش ناک دریا میں ، موجوں کو شکست و ریخت سے فرصت نہیں ۔ اے مٹھی بھر خاک تو جوش پیدا کر اور سراپا ساحل آجا۔
نه فلک آغوش شوق انتظار آماده است
کای نهال باغ بیرنگی زآب وگل برآ
نو آسمان، اپنی جھولی پھیلائے تیرے منتظر ہیں اے بیرنگی کے نو نہال تو آب و گل سے باہر آ۔
درخور اظهار باید اعتباری پیش برد
اوکریم آمد برون باری تو هم سایل برآ
در خورِ اظہار ہونا شرط ہے تیرا یہ اعتبار تجھے اس کے حضور میں لے جائےگا اس نے کرم سے پہل کی تو بھی تُو سایل بن کر آ
شوخی معنی برون از پردههای لفظ نیست
من خراب محملمگولیلی از محمل برآ
معنی کی شوخی لفظ کے پردہ سے باہر نہیں میں محمل کے شوق میں تباہ ہوچکا ہوں کوئی کہے؛ لیلی ، اب تو
محمل سے باہر آ
حالی کا شعر
ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے
یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا
حالی
خلقی آفتخرمن استاینجا بهقدر احتیاط
عافیتمیخواهی ازخود اندکیغافل برآ
خلقت کی صحبت یہاں تیرے خرمن کے لئے آفت ہے ، اگر عافیت چاہتا ہے تو اپنے آپ سے ہی باہر آجا۔
کلفت دل دانه را از خاک بیرون میکشد
هرقدر بر خویشتن تنگی ازین منرل برآ
دانہ کے دل کو جب تنگی کا احساس ہوتا ہے تو خاک کا پردہ پھاڑ کر باہر آجاتا ہے۔
نقشکارآسمان عاریست ز رنگ ثبات
گررگ سنگتکند چون بویگلزایل برآ
آسمان کی نقش گری، ثبات کے رنگ سے عاری ہے یعنی رو بہ زوال ہے اگر تو پتھر کی رگ ہے تو بھی خوشبو کی طرح نیستی کے شوق سے باہر آ
از تکلف در فشار قعر نتوان زیستن
چون نفس دل هم اگرتنگی کند از دل برآ
تکلف سے اس گرادب کے انتشار میں جینا محال ہے سانس کی طرح اگر سینے میں تنگی محسوس ہو تو دل سے باہر آ جا
فشار قعر یعنی انتہائی دباؤ کی حالت میں جینا ناممکن ہو جاتا ہے۔
تا دو عالم مرکز پرگارتحقیقت شود
چوننفس یک پر زدن بیدل بهگرد دل برآ
تیری پرکارِ تحقیق کا مرکز دو جہان ہو جائیں گے
سانس کی طرح اپنے بال و پر ہلا اور غبارِ دل سمیت باہر آجا
غزل ۶
حضور وحدتم جز در دلِ محرم نمی گنجم
مئے مینائی تحقیقم بظرف کم نمی گنجم
میں وحدت کے حضور پہنچ چکا ہوں دل محرم کے سوا نہیں سماسکتا.
چہ سامان داشت یارب دستگاہبے سرو پائی
کہ من در ملک دل ہمچو نفس یکدم نمی گنجم
یارب میری دستگاہ کی بے سروسامانی کا یہ حال ہے؟
میں سانس کی طرح اہنے ملکِ دل میں نہیں سماسکتا
باین وحشت کہ دارد گرد تمثال جنون من
بہشتم گر شود آئینہ چون آدم نمی گنجم
میرا جنون اسقدر وحشت زدہ ہے کہ اگر میں بہشت میں جاوں تو آدم کی وہاں میں ٹھہر نہیں پاتا
گہے صد آسمان در چشم موری می کنم جولان
گہے در صد محیط آغوش یک شبنم نمی گنجم
کبھی چیونٹی کی آنکھ میں سو آسمان گردش میں لاتا ہوں۔ کبھی میں شبنم کی آغوش میں نہیں سماسکتا۔
گہے زان رنگ میکاہم کہ سر در ذرہ می زدم
گہے زان شوق می بالم کہ در خود ہم نمی گنجم
کبھی میں خود کو اس طرح گھٹاتا ہوں کہ ذرے میں سر چھپاتا ہوں اور کبھی اس شوق سے ایسی بالیدگی پاتا ہوں کہ خود اپنی دنیا میں نہیں سما سکتا۔
چو گوہر وقت طبعم بروں افگندہ زین دریا
بخود گنجیدہ ام چندانکہ در عالم نمی گنجم
جسطرح دریا موتی کو باہر پھینک دیتا ہے میری طبیعت کی دقت مجھے عالمِ ہستی سے باہر لے آئی۔ میں اپنے آپ میں سمایا ہوں عالم میں نہیں سما سکتا