حدیث میں وارد ہوا ہے کہ بہت سے اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں بی شک بیدل کے کلام میں ایسے نفیس موتیوں کی بہتات ہے ۔ حکمت و دانش بیدل کے اشعار کا بنیادی عنصر ہے۔ وہ عام تجربہ کو اپنے شعر میں نہایت پر لطف طریقے سے ڈھالتے ہیں مثلا گیلی زمین پر نقش پا کے مرتب ہونے کی حسن تحلیل ، عمدہ بیان ملاحظہ کریں۔
ہر کہ رفت از دیدہ داغی بر دل ما تازہ کرد۔
در زمین نرم نقش پا نمایان می شود
نظروں سے اوجھل ہونے والے نے میرے دل کی گیلی زمین پر تازہ نشان چھوڑ دیے ہیں۔
شوخی معنی برون از پردہ ہای لفظ نیست
من خراب محملم گو لیلی از محمل بر آ
بیدل
ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے
یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا
حالی
اگر مردی در تخفیف اسباب تعلق زن.
کز انگشتِ دگر، انگشتِ نر یک بند کم دارد
بیدل
ترجمہ
اگر مرد ہے اسباب تعلق کے دروازے کو تعلقات پر بند کردے انگشتِ نر یعنی انگوٹھے کا دوسری انگلیوں سے ایک بند کم ہوتا ہے۔
انگلیوں کے مقابلے میں انگوٹھے کا ایک بند کم ہونا، اسباب تعلق میں کمی کا استعارہ ہے ۔ لیکن یہاں انگوٹھے کی فضیلت بھی ثابت ہے۔
ہاتھ کی انگلیاں سوچاجائے تو ایک ہی رخ میں پوری طاقت سے کام کرتی ہیں جبکہ انگوٹھے کا ایک بند کم ہوتاہے لیکن وہ opposeable یعنی مخالف سمت میں ہر انگلی سے الگ الگ وقت اور بیک وقت ہر دوطرح مل کر گرفت بناتا ہے۔ یہ انسان کی فضیلت کا باعث ہے اورانسان اس انگوٹھے کے اس نقیضی عمل کے باعث بے شمار اشغال سر انجام دیتا ہے۔جو کام کوئی دوسری مخلوق نہیں کر سکتی۔ اسی طرح مضبوط گردن(Choroid plexus) ، اسکی منتصبہ وضع ( erect posture )برجستہ نظر(Stereoscopic vision)، اور قوی مقبس ییعنی
قوی مقبس(Strong Socket) نے اپنے حامل یعنی انسان کو دنیا کے کارزار میں کامیاب تریں مخلوق ثابت کیا مزید برایں اس کی کشادہ پیشانی ، سوچنے سمجھنے کےنظام نے واقعی انسان کو ہر جانور پر فوقیت دی ۔۔ اور تسخیر جہانی کا عَلم اس کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ حیرت کی بات ہے۔ڈارون سے سوسوا سو سال پہلے بیدل نے بوزینہ کو انسان کا ہیولا کہہ کر اپنی علمی فضیلت ثابت کی۔ اسی طرح بیدل نے انسان کی ساخت کو بھی غیر معمولی طور پر پڑھا ہے اور اس سے علمی نکات واقعی حیرت انگیز ہیں ۔
ہیچ شکلی بی ہیولا قابل صورت نشد
آدمی پیش ازان کادم شود بوزینہ بود؟
کوئی بھی شکل بغیر ہکسی پہلے ست موجود ہیولا یا کسی شبہ یا تصور
کے ظہور میں نہیں آتی ۔ انسان بھی انسانی شکل میں ظہور سے پہلے بوزنہ(Ape) تھا؟ یہ استفہامیہ لہجہ ہے ۔
ارتقائی سفر پر کہا گیا یہ یہ شعر بیدل کے فکری بلندی کا پتہ دیتا ہے یاد رہے یہ شعر بیدل نے ڈارون سے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ بیدل اپنے زمانے کا افلاطون تھا۔ اسی نوعیت کا ایک اور شعر دیکھیں ۔
تمثال بغیر از اثَرِ شخص چہ دارد ؟
خوش باش کہ خود را تُو نمودی ہُنَرِاوست
ہر تمثال اپنے خالق کی ذاتی صفات کی آئینہ بردار ہوتی ہے اے انسان خوش ہو جا! کہ تو اپنے خالق کے ہنر یعنی Art کا نمونہ ہے۔۔ سبحان اللہ یہ ہی احسن تقویم کی شرح ہے۔
ہیچ کس نیست زبان دان خیالم بیدل
نغمۂ پردۂ دل از ہمہ آہنگ جدا است
بیدل
کوئی زباداں اور ہم زباں ہے ہی نہیں جو میرے خیال کوسمجھے (کیونکہ) میرے ساز دل سے پیدا ہونے والے نغمے کا آہنگ کچھ اور ہے۔
غالباً حالی نے اسس خیال سے یوں استفادہ کیا ہے :
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
به حرف ناملایم زحمت دلها مشو بیدل
که هرجا جنس سنگی هست باشد دشمن مینا
بیدل
بیدل تلخ کلامی سے دوسروں کو تکلیف نہ دے (ویسے دیکھا جائے تو ) جنسِ سنگ جہاں بھی ہوتی ہے وہ شیشے کی دشمن ہی ہوتی ہے
چہ خوش است راز گفتن بہ حریف نکتہ سنجی
کہ سخن نگفتہ باشی بہ سخن رسیدہ باشد
نکتہ سنج حریف کو اچھا شعر سنانا بہتر ہے اس کے نہ سنانے سے یعنی شعر کسی سخن شناس کو سنانا اراصل اس کا ادا کرنا ہے۔
زیر گردون پردۂ شغل محو باید زیستن
غیر طفلی نیست بیدل مرشد ان خانقاہ
بازیچۂ اطفال ہے دنیامرے آگے
ہوتا ہےشب و روز تماشا مرے آگے
غالب
در طرہق نفع خود کس نیست محتاج دلیل
بے عصا را دہن معلوم باشد کور را
اپنے نفع میں کوئی دلیل کا محتاج نہیں ہوتا
عصا کی رہنمائی کے بغیر اندھے کےہاتھ کو منہ کا اندازہ ہوتا ہے کہ کہاں ہے۔
زندگی محروم تکرارست و بس
چون شرر این جلوه یک بارست و بس
زندگی شرر کی طرح تکرار کے بغیر ہے
دولت گر رسد ناداں نبیند روی آسائش نشاط
جامہء نو طفل را بی بى خواب میسازد
بیدل
جسطرح بچے کی نئے جامہ کی خوشی میں نیند اڑجاتی ہے ٹھیک اسی طرح
نو دولتیے کا سکون و آرام چھن جاتا ہے۔
قابل بارِ امانتها مگو آسان شدیم
سرکشیها خاک شد تا صورتِ انسان شدیم
بیدل
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میر تقی میر
شبنم درین بهار دلیل نشاط نیست
صبحیست کز وداع چمن گریه میکند
شبنم اس بہار کی خوشی کی دلیل نہیں ۔ بلکہ یہ صبح گاہ میں چمن کی گریہ زاری ہے۔
گویند بهشت است همان راحت جاوید
جاییکه به داغی نتپد دل چه مقام است
کہتے ہیں بہشت راحت جاوید کا مقام ہے جہاں داغ یعنی درد سے دل نہیں تڑپتا وہ کیسا مقام ہے۔
نارسایی جادهٔ سر منزل جمعیت است
از شکست بال میبالد حضور آشیان
بیدل
کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے
اصغر گونڈوی
در دَمِ مُردن مَرا بَر زندگی افسوس نیست
حیف دامانت که از دستم رِها خواهد شُدن
بیدل
ترجمہ
مجھے مرنے کا کوئی غم نہیں افسوس کہ تیرا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ جائے گا
بر ہمیں آبلہ ختم است رہ کعبہ و دیر
کاش می کرد کسے سیر مقام دل ما
بیدل
اسی ایک آبلہ یعنی دل پر دیر و کعبہ کا راستہ ختم ہوجاتا ہے کاش کوئی ہمارے دل کے مقام کی سیر کرتا۔
میر نے بتے دھڑک یہی خیال اپنے نام کر لیا
دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا
ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا
میر تقی میر
نزاکت ہا در آغوش مینا خانۂ حیرت
مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگ تماشا را
مینا خانۂ حیرت کی آغوش میں کئی نزاکتیں ہیں آنکھیں کے جھپکنے سے تماشا کا رنگ ٹوٹنے کا احتمال ہے۔
کعبہ و بتخانہ نقش مرکز تحقیق نیست
ہر کجا گم گشت رہ سر منزلی آراستند
تحقیق کا راستہ کعبہ یا بت خانہ تک پہنچ کر ختم نہیں ہوتا
بلکہ سفر تحقیق کے مسافر کی درماندگی یانارسائی ہی ان منزل کا تعین کرتی ہے۔
یہ بجا کہ دِیر و حرم میں ہیں، تیری عظمتوں کی علامتیں،
میرے دل کو اپنا یقیں دلا مجھے اعتبارِ نظر نہیں،
یہ مراقبے، یہ مکاشفے، یہ مجاہدے یہ مجادلے،
تیری منزلیں ہیں یہ واقعی؟ یامجھے شعورِ سفر نہیں
احسان دانش
کس کو کہتے ہیں نہیں میں جانتا اسلام وکفر
دیر ہو یا کعبہ مطلب مجھ کو تیرے در سے ہے
میر تقی میر
حائلے نیست بجولانگاہ معنی ہشدار
خواب پا در رہ ما سنگ نشان می باشد
خواب پا یاحرکت مقیدہ (benummed foot) نشان راہ کا کام کرتی ہے، جنون کی جولانگاہ میں کوئی چیز حائل نہیں ۔
غالب نے بیدل سے یوں استفادہ کیا ہے ۔
دیر و حرم آئینہء تکرارِ تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب
وحدت از خود داری ما تہمت دویی است
عکس در آب است اگر استادہ ای بیرون آب
بیدل
دوئی صرف نظر کا قصور ہے ۔ یہ اشیا پانی میں پیدا ہونے والے عکس کی طرح ہیں ۔
پڑے گا یار کا جیسے ھی عکس پانی میں
کرے گا دیکھنا پانی بھی رقص پانی میں
روح حیات یا روح کائنات برگساں نے Elan Vitale کہا تھا اسی کے یہ سب کھیل ہیں ۔ وہ کنارے کھڑا ہے اور آب ایستادہ Statnding Water میں اس کا عکس پڑ رہا ہے ۔ دراصل خدا ہے محرک اول و محرک کل یا فاعل حقیقی ہے۔ حقیقی حرکت ازلسے زندہ ہے اور ہر چیز کا قیام اسی سے قائم ہے۔ حرکت حی بھی ہے اور قیوم بھی ۔
نشاطِ این بہارم بی گلِ رویت چکار آید
تو گر آیی طرب آید بہشت آید بہار آید
بیدل
اے محبوب تیرے دیدار کے بغیر اس باغ و بہار کی خوشی میرے کس کام آئے گی؟
تیرے آنے سے خوشی آئے گی بہشت آئے گی بہار آئے گی۔ طرب، بہشت اور بہار ، کا آنا ایک تمہارے آنے پر موقوف ہے۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کارو بار چلے
فیض احمد فیض
عزم چون افتاد صادق راہ مقصد بستہ نیست
اشک در بیدست و پاییہا بہ سر غلطیدن و رفت
عزم سچا ہو تو راستہ خود بخود کھل جاتا ہے ۔آنسو بے دست و پا ہوتے ہوئے بھی لیکن سر کے بل چل کر اپنا سفر طے کر لیتا ہے۔
دل را نفریبی به فسونها ی یقین
آرائش این آئینهٔ تمثال نباشد
پردے کو تعین کے در دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا
محمد رفیع سودا
معنی بلند من فہم تند می خواہد
سیر فکرم آسان نیست کوہم و کتل دارم
بیدل
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
میری بلندی فکر کا احاطہ کرنا آسان نہیں اس کے لئے فکر رسا چاہئے۔ میں میں پہاڑ ہوں اور کوتلیں رکھتا ہوں یعنی مجھ تک رسائی ناممکن نہیں تو بھی سخت دشوار ہے