صفدر مرزا پوری اپنی کتاب “مشاطۂ سخن” میں لکھتے ہیں کہ منشی امیر اللہ تسلیم کے مشہور شاگرد عرش گیاوی (مصنف “حیات مومن” اور “حیات تسلیم”) کا شعر تھا ؎
ہوں سرخ رو جہان میں وہ دن خدا کرے
میرا ازل سے دانت ہے انگیا کے پان پر
انگیا کے دو کپڑے جن میں چھاتیاں کسی جاتی ہیں، کٹوری کہلاتے ہیں۔ ہر کٹوری خود دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے، بڑے ٹکڑے کو بنگلہ یا دوال اور چھوٹے کو پان کہتے ہیں۔ تسلیم نے شعر کاٹ کر نیچے لکھا:
کیا چھاتیاں کاٹ کھاؤ گے؟
استاد کامل اسے کہتے ہیں۔ عرش کا ایک اور شعر تھا ؎
غضب کا حسن ہے خال لب جاں بخش دلبر میں
کوئی کشتی رواں ہے موج بحر آتش تر میں
اس پر استاد نے لکھا:”خال مشبہ ہے، کشتی مشبہ بہ۔ ان دونوں میں وجہ تشبیہ کیا ہے؟صرف الفاظ جمع کر دینے سے کیا فائدہ؟ شعر نکال دو۔ ” کاش کہ جوش صاحب وغیرہ نے یہ سبق سیکھا ہوتا۔
تسلیم لکھنوی (1819تا1911) بادشاہان اودھ کے یہاں نوکر رہے، اودھ پر آفت ٹوٹی تو رامپور چلے گئے۔ وہاں کبھی آرام سے گذری، کبھی تنگی سے۔ فارسی کی استعداد بہت اچھی تھی۔ خوشنویس بھی تھے۔ شاعری میں سینکڑوں شاگرد بنائے جن میں حسرت موہانی کا نام سب جانتے ہیں۔ تسلیم بالکل آخر عمر میں آنکھ کے عملیے کے لیے لکھنؤ آئے لیکن بقول حسرت موہانی، “نشتر گہرا لگ گیا۔”اور چند ہی دن کے بعد اللہ کو پیارے ہوئے۔ رامپور کی ملازمت کے دوسرے دور میں تسلیم نے نواب حامد علی خان کا سفر نامہ مثنوی کی شکل میں لکھا۔ کوئی پچیس چھبیس ہزار شعر کی مثنوی دفتر سرکار میں جمع ہوئی، پھر داخل دفتر ہی رہ گئی، کسی نے اسے غائب کر دیا۔ تسلیم جو صلۂ شعر کی امید چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے تھے، جب دوبارہ رامپور آئے اور مثنوی کا حال انھیں معلوم ہوا تو انھوں نے کہا، “آج سے پیسے روز تیل کا صرف اور سہی۔۔۔۔” پھر معمول یہ کر لیا کہ روز بعد نماز مغرب قلم کاغذ لے کر بیٹھ جاتے اور عشا تک سفر نامہ نظم کرتے۔ جب یہ دفتر لاثانی تیار ہوا تو پہلے سے بہتر کہلایا۔ حامد علی خان نے قدردانی کا اظہار کیا اور تسلیم کو پہلے سے بھی زیادہ مشاہرے پر بحال کر دیا۔ یہ واقعہ بقول حسرت موہانی 1907 کا ہے۔ یعنی اس وقت تسلیم کی عمر بارہ کم سو برس کی تھی۔
حکیم مومن خان مومن دہلوی کے شاگرد نواب اصغر علی خان نسیم دہلوی، ان کے شاگرد منشی امیر اللہ تسلیم، ان کے شاگرد سید فضل الحسن حسرت موہانی۔ مومن اور حسرت بیحد مشہور ہیں، نسیم دہلوی کا نام صرف خواص جانتے ہیں۔ تسلیم کو خواص میں بھی چند ہی لوگ جانتے ہیں ع
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے
امیر اللہ تسلیم آخری شاعر تھے جنھیں قصیدہ، مثنوی، اور غزل پر یکساں اور غیر معمولی قدرت تھی۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر جوش صاحب، فراقط صاحب وغیرہ نے امیر مینائی، جلال لکھنوی، تسلیم لکھنوی کے قصائد پڑھے ہوتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ مربوط، پر زور، اور مغز سے مملو شعر کیسے کہتے ہیں۔
تسلیم کا شعر ہے ؎
میں تو ہوں تسلیم شاگرد نسیم دہلوی
مجھ کو طرز شاعران لکھنؤ سے کیا غرض
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نسیم خود اسی طرز کے شاعر تھے جسے “طرز لکھنؤ” کہہ کر بدنام کیا گیا، ورنہ غالب، ناسخ، ذوق، سب اسی رنگ کے شاعر تھے جسے خیال بندی کہتے ہیں۔ چنانچہ نسیم کا شعر ہے ؎
مضمون کے بھی شعر اگر ہوں تو خوب ہیں
کچھ ہو نہیں گئی غزل عاشقانہ فرض
اور ان کے شاگرد منشی امیر اللہ تسلیم بھی اکثر اسی رنگ میں شعر کہتے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ بعد میں انھوں نے خیال بندی سے کچھ گریز بھی کیا۔ ممکن ہے تسلیم کا اشارہ اس طرف رہا ہو کہ ‘طرز ناسخ’ یا ‘طرز لکھنؤ’ کوئی لکھنؤوالوں کی ایجاد نہیں۔ شاہ نصیر نے اسے بکثرت برتا اور ان کے پہلے بقا اکبر آبادی بھی خیال بند شاعر تھے۔ میر سوز کے یہاں بھی بہت شعر خیال بندی کے ہیں۔ بہر حال، خیال بندی کا کمال دیکھنا ہو تو تسلیم کی یہ غزل ان کے دوسرے دیوان “نظم ارجمند” (1872) سے نقل کرتا ہوں ؎
چاندنی رہتی ہے شب بھر زیر پا بالائے سر
ہائے میں اور ایک چادر زیر پا بالائے سر
خار ہائے دشت غربت داغ سوداے جنوں
کچھ نہ کچھ رکھتا ہوں اکثر زیر پا بالائے سر
بھاگ کر جاؤں کہاں پست و بلند دہر سے
ہیں زمین و چرخ گھر گھر زیر پا بالائے سر
کون ہے بالین تربت آج سر گرم خرام
وجد میں ہے شور محشر زیر پا بالائے سر
بے تکلف کیابسر ہوتی ہے کنج گور میں
خاک بستر خاک چادر زیر پا بالائے سر
اوڑھ کر آب رواں کا گر ڈوپٹا تم چلو
موج زن ہو اک سمند زیر پا بالائے سر
کچھ اڑا کر شوخیوں سے وہ ستارے بزم میں
کہتے ہیں دیکھ لو اختر زیر پا بالائے سر
جادہ و موج ہوا بے تیرے دونوں دشت میں
کر رہے ہیں کار خنجر زیر پا بالائے سر
جز خراش خار یا خاک مذلت قیس کو
اور کیا دیتا مقدر زیر پا بالائے سر
جیتے جی سب شان تھی مر کر بجائے تخت و تاج
خاک رکھتا ہے سکندر زیر پا بالائے سر
سایہ ہوں کیا اوج میرا کیا مری افتادگی
ایک عالم ہے برابر زیر پا بالائے سر
مردے ہیں پامال مشتاق نظارہ ہیں مسیح
دیکھتا چل او ستم گر زیر پا بالائے سر
جسم و جاں دونوں زمین و آسماں کے ہیں مکیں
ایک میں رکھتا ہوں دو گھر زیر پا بالائے سر
ہو نہیں سکتا کبھی خاصان حق کو کچھ حجاب
ایک تھا پیش پیمبر زیر پا بالائے سر
دعوی تشنہ سے اے تسلیم لکھی یہ غزل
ورنہ مہمل ہے سراسرزیر پا بالائے سر
ذرا دیکھئے، ایک بھی شعر ایسا نہیں جس میں ردیف پوری طرح ثابت نہ ہو۔ ہر شعر میں کوئی تازہ بات ہے۔ گھر کا قافیہ دو بار لکھا اور دونوں بار الگ طرح سے، اور پوری طرح ثابت بھی کر دیا۔ ستم گر کے کڈھب قافیے کے ساتھ حضرت مسیح پیغمبر کو باندھ لانا کمال نہیں اور کیا ہے۔ سمندر بالائے سر بھی بہت خوب ہے۔ بظاہر یہ غزل کسی شاعر تشنہ کی چنوتی پر، یا ان کی دی ہوئی زمین میں کہی گئی تھی۔ تشنہ صاحب کے حالات معلوم کرنے کی ضرورت فی الحال نہیں ہے۔ یہ غزل بعض الفاظ کے تغیر اور بعض شعروں کی کمی کے ساتھ داستان “ہرمز نامہ” میں بھی ملتی ہے۔ داستان گو (شیخ تصدق حسین) نے بھی داستان گوئی کے قاعدے سے انحراف کر کے کہہ ہی دیا:
شاہ طلسم نے اس نازنین سے مخاطب ہو کر کہا، کیا خوب یہ غزل تم نے گائی ہے۔ اس کی زمین سخت ہے، ردیف مشکل ہے۔ زیر پا بالائے سر کا ثبوت مشکل ہے۔ تسلیم، جن کی یہ غزل ہے، انھوں نے بڑی فکر سے یہ غزل کہی ہو گی (ص947)۔
آج کل ہم لوگ، اور پاکستان میں خاص کر کے، نعت گوئی پر بہت مہربان ہیں۔ ڈھیر کی ڈھیر نعتیں ہر گھر سے بن کر نکل رہی ہیں، لیکن مضمون کی جدت، یعنی جناب رسالت مآب کی توصیف میں کوئی نئی بات، ہمائے مضامین کی طرح عنقا ہے۔ عسکری صاحب نے محسن کاکوروی کے قصیدۂ لامیہ کی بہت تعریف کی ہے، لیکن یہ بھی لکھا ہے کہ خیال بندی کے باعث محسن کاکوروی حقیقت محمدیہ تک نہ پہنچ سکے، خیالی باتیں کہتے رہے۔ انھوں نے حالی پر بھی اعتراض کیا ہے کہ وہ بھی حقیقت محمد یہ سے دور رہے اور انھوں نے پیغمبر کو سماج سدھار کے میدان کا آدمی بنا کر رکھ دیا۔ عسکری صاحب کی بات بڑی حد تک ٹھیک تھی، اگر چہ اختلاف کی گنجائشیں ہیں۔ لیکن عسکری صاحب یہ غور کر لیتے کہ خیال بندی کے بغیر وصف رسول کے لئے نئے مضمون ہاتھ نہ آتے۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی شاید ہی ایسا ہو جس کا عشق رسول پکا ہو اور جسے شعر گوئی بھی آتی ہو۔ ایسے کو خیال بندی کی ضرورت نہیں۔ ورنہ تسلیم کا یہ ایک نعتیہ شعر صرف خیال بندی کی بدولت آج کی ہزاروں نعتوں پر بھاری ہے ؎
ہو نہیں سکتا کبھی خاصان حق کو کچھ حجاب
ایک تھا پیش پیمبر زیر پا بالائے سر
زبان کی صفائی اور شعر کی روانی اس پر مستزاد۔ پوری ہی غزل روانی کا شاہکار ہے۔
تسلیم نے کئی دیوان لکھے۔ ایک تو 1857 کے ہنگامے میں ضائع ہوا، تین شائع ہوئے۔ دو میرے پاس ہیں، ان میں “نظم دل افروز”، نامی پریس لکھنؤسے اپریل 1903میں شائع ہوا۔ میرا نسخہ ناقص الاول و الآخر تھا۔ میں اپنے بھائی اور نامور مورخ نعیم الرحمٰن فاروقی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی لائبریری سے یہ دیوان مجھے لا دیا۔ وہاں بھی صرف یہی ایک دیوان مل سکا۔ اس کا مختصر انتخاب حاضر کرتا ہوں۔ دوسرے دیوان “کلیات امیر اللہ تسلیم، معروف بہ اسم تاریخی نظم ارجمند” کی اشاعت نول کشور پریس لکھنؤ سے1289 مطابق1872 میں ہوئی۔ (کتاب میں شامل کئی تاریخیں ہیں جن سے1872ظاہر ہوتا ہے۔ ) اس کے ساتھ ہی تسلیم کی دو مثنویاں “نالۂ تسلیم” اور “شام غریباں ” بھی ہیں، الگ سر ورق کے ساتھ، لیکن یقین ہے تینوں یکجا شائع کی گئی ہوں۔ کئی لوگوں کی لکھی ہوئی تاریخیں شامل اشاعت ہیں، لیکن مرزا مچھو بیگ ستم ظریف نے کچھ حرفوں سے اور تسلیم کے ہم تخلص انوار حسین تسلیم نے کچھ الفاظ کے ذریعہ بطریق معما تاریخ نکالی ہے۔ مرزا مچھو بیگ کی تاریخ سے مختلف سنین، مثلاًسمبت، سکندری، فصلی، وغیرہ میں بھی تاریخ نکلتی ہے۔ انوار حسین تسلیم کی تاریخ سے ہجری اور عیسوی سنہ کئی طرز سے نکلتے ہیں۔ دونوں تاریخیں بشکل دائرہ ہیں۔ افسوس کہ میں انھیں مطلق نہ سمجھ سکا۔
انتخاب نظم دل افروز
(1)
شوق نظارہ نے گھر غیر کو کرنے نہ دیا
آگیا اشک جو آنکھوں میں ٹھہرنے نہ دیا
ہم قدم سد رہ منزل مقصد نکلے
راستہ مجھ کو مری گرد سفر نے نہ دیا
رو سیہ سے نہ رکھ امید برو مندی کی
ایک بھی پھل کبھی گل ہائے سپر نے نہ دیا
کچھ تو اس دل کی لگی بجھتی جو پی جاتے اشک
بوند بھر پانی مجھے دیدۂ تر نے نہ دیا
بد گماں سمجھا کہ سمجھے گا نشانی میری
داغ دل بھی مجھے اس رشک قمر نے نہ دیا
٭
مطلع کتنے لطف سے کسی قدر پیچیدہ کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ آنکھوں میں آنسو بھرے ہوں گے تو کچھ دکھائی نہ دے گا۔ اور معشوق کو آنکھوں میں بساتے بھی ہیں۔ اس کو یوں کہا کہ اشک مانع نظارہ ہوتے، اور وہ غیر بھی ہیں، اس لئے میں نے انھیں آنکھوں میں ٹھہرنے نہ دیا۔ تیسرے شعر مین نکتہ یہ ہے کہ سپر کالی ہوتی ہے، اور اس پر جو نقش و نگار بنے ہوتے ہیں انھیں ڈھال کا پھول کہتے ہیں۔ پھول کے بعد پھل آتے ہیں، لیکن سپر کے پھولوں سے کوئی پھل نہیں ملتا۔
(2)
ان کو پیارا ہے جبیں سے مری پتھر اپنا
کہتے ہیں پھوڑ لے سر اور کے در پر اپنا
سخت جاں وہ ہوں کہ رکتا ہے گلے پر چل کر
دم چراتا ہے مرے قتل سے خنجر اپنا
جوش وحشت میں یہ دھن وادی غربت کی بندھی
دے دیا خانہ خرابی کو یوں ہی گھر اپنا
٭
مطلعے میں کئی نکتے ہیں۔ (1) سر اس زور سے ٹکرائیں گے کہ سنگ در ہی ٹوٹ جائے گا۔ (2) سر پھوڑنے کی اجازت ہے، لیکن کہیں اور۔ یعنی عاشق تو ہمارے ہی رہو، پریشان کسی اور کو کرو۔ (3) معاملہ بندی بہت خوب ہے۔ دوسرے شعر میں رعایتیں مزے دار ہیں : خنجر کا رکنا بمعنی خنجر کی دھار کا تیز نہ ہو نا۔ دم، بمعنی خنجر کی دھار، لیکن یہاں دم چرانا بمعنی جی چرانا ہے۔ دم بمعنی لچک بھی کار آمد ہے۔ یہ زمین میر کی ہے، میر نے بارہ (12) شعر کہے ہیں، تسلیم نے اٹھارہ (18)۔ میر کا ایک شعر تو ایسا ہے کہ بس وجد کیجئے اور سر دھنئے ؎
دل بہت کھینچتی ہے یار کے کوچے کی زمیں
لوہو اس خاک پہ گرنا ہے مقرر اپنا
(3)
اس سراپا نور نے لکھا جو مجھ کو حال دل
خط صحیفہ ہو گیا قاصد پیمبر ہو گیا
ڈھونڈتی ہے مرگ مجھ کو میں نظر آتا نہیں
رفتہ رفتہ ضعف سے تن تار بستر ہو گیا
بے حجاب اس کو کیا شوخی نے میری وصل میں
ایک بات ایسی کہی جامے سے باہر ہو گیا
٭
پہلا شعر پڑھئے اور اس زمانے کے لوگوں کی آزاد خیالی پر غور کیجئے۔ آج ایسا شعر کوئی کہے توواجب القتل ٹھہرے۔ دوسرے شعر کے آگے ناسخ کا مشہور شعر رکھئے اور خیال بندی کا ایک اور کمال دیکھئے ؎
انتہائے لاغری سے جب نظر آیا نہ میں
ہنس کے وہ کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیئے
ناسخ نے لاغری کا ثبوت نہیں لکھا تھا، کیوں کہ ضعف کا مضمون تو مسلمات میں ہے۔ لیکن تسلیم نے دوہرا ثبوت فراہم کر دیا، ایک تو یہی مسلمات شعر میں سے، کہ عاشق تو لاغر ہوتا ہی ہے، اور دوسرا مشاہدے سے، کہ ضعف رفتہ رفتہ بڑھتا گیا۔ اور مزید لطافت یہ کہ خود موت بھی مجھے نہ ڈھونڈ پائی کیونکہ میں تو بستر کا ایک تار بن گیا تھا۔ الگ سے میرا کوئی وجود باقی ہی نہ رہا تھا۔ تیسرے شعر کے آگے میر کا شعر رکھئے تو خیال بندی اور عاشقانہ مضمون کا فرق معلوم ہو جائے گا۔ میر کا شعر ہے ؎
مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں
کپڑے اتارے ان نے سر کھینچے ہم کفن میں
خیال بندی میں شوخی اور طبیعت کی تیزی زیادہ ہوتی ہے، جیساکہ تسلیم کے شعر سے ظاہر ہے۔
(4)
پردۂ خم سے جو نکلی آ کے مینا میں چھپی
رندوں سے اب تک وہی ہے دختر رز کا حجاب
دفن ہوتا ہے چھپا کر منھ بشر زیر کفن
خاک سے کرتا ہے کیا کیا خاک کا پتلا حجاب
جسم ہے پنہاں کفن میں گور میں پنہاں کفن
موت کے آتے ہی کیا کیا بڑھ گیا اپنا حجاب
٭
پہلے شعر کے ساتھ اقبال کا شعر ذہن میں لائیے ؎
کس قدر اے مے تجھے رسم حجاب آئی پسند
پردۂ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی
اقبال کا شعر زیادہ مکمل ہے، لیکن اولیت تسلیم کو ہے اور حجاب کا ثبوت بہتر ہے، کیوں کہ حجاب رندوں سے ہے۔
(5)
نہ سوز دل نے چھینٹیں پڑنے دیں قاتل کے دامن پر
برنگ شمع کشتہ جل گیا خون اپنی گردن پر
عبث ڈرتے ہو محشر سے کرو بھی وار دشمن پر
اگر پوچھے خدا یہ خون ناحق میری گردن پر
خبر گیری رفیق راہ کی ہے ختم سوزن پر
چلی جاتی ہے لیکن آنکھ ہے رشتے کی الجھن پر
شریروں کی شرارت اہل رفعت سے نہیں چلتی
کبھی گرتے نہ دیکھی ہم نے بجلی مہ کے خرمن پر
جلائی آج رو رو کر حنائی ہاتھ سے کس نے
چراغ طور پروانہ ہے میری شمع مدفن پر
خط مشکیں نہیں ہے گرد گورے گورے گالوں کے
چڑھائی کی ہے یہ فوج حبش نے شہر لندن پر
٭
یہ کہنے کی ضرورت شاید نہ ہو کہ یہ زمین غالب کی ہے۔ تسلیم کی غزل میں انتیس (29) شعر ہیں۔ غالب کی غزل میں نو (9)، لیکن ظاہر ہے کہ غالب کے یہاں شاہکار شعروں کا تناسب زیادہ ہے۔ تسلیم کے آخری شعر میں مضمون آفرینی بہت عمدہ ہے۔ عام طور پر خط اور عارض کو شب اور سحر، کفر اور اسلام، چیونٹی اور شکر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ تسلیم نے بالکل نئی بات پیدا کی ہے۔ رشتے کی الجھن والا شعر بھی خیال بندی کا شاہکار ہے۔ شمع مدفن والے شعر کی نزاکت خیال پر مومن بھی وجد کرتے۔
(6)
گرم جولاں آج فرش گور پر کس کا ہے رخش
شاد ہو کر کر رہا ہے ہر شرار سنگ رقص
٭
اس شعر کے سامنے غالب کا شعر رکھئے۔ دونوں ایک سے بڑھ کر ایک مضمون آفریں ہیں ؎
شو ر جولاں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج
گرد ساحل ہے بہ زخم موجۂ دریا نمک
غالب کے یہاں رعایتیں اور مناسبتیں بکثرت اور خوبصورت ہیں، اور مضمون ایسا ہے کہ اس کا جواب غیر ممکن معلوم ہوتا ہے۔ لیکن تسلیم نے کئی باتیں پیدا کر دیں۔ پتھر میں شرر ہوتا ہے اور جب گھوڑا تیز دوڑتا ہے تو اس کے نعلوں سے چنگاری بھی پیدا ہوتی ہے۔ معشوق گھوڑے پر سوار عاشق کے مزار کو پامال کر رہا ہے، یہ مضمون بالکل درست ہے۔ سنگ کا قافیہ رقص کے ساتھ بے انتہا مشکل تھا، تسلیم نے خوب نبھایا۔
(7)
کی تھی دم کن یار سے آغوش ذرا گرم
اب تک مرے سینے سے نکلتی ہے ہوا گرم
اک روز تو آ کر مری آغوش میں بیٹھو
ٹھنڈا دل پر سوز ہو پہلو ہو ذرا گرم
پانی کو بنا دیتی ہے الفت کی ہوا آگ
آنسو مری آنکھوں سے نکلتے ہیں بلا گرم
کیونکر کف نازک کو بنا دیتی ہے شعلہ
مشہور ہے رکھتی نہیں تاثیر حنا گرم
تسلیم جگر سوختۂ عشق ہوں اس کا
جس ماہ کا بستر شب اسریٰ میں رہا گرم
٭
مطلع میں تلمیح قرآنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام خلقت سے روز تخلیق پر سوال کیا کہ الست بربکم (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟)، اس پر سب نے کہا، بلیٰ (ہاں )۔ اسی اعتبار سے تخلیق کے پہلے دن کو روز الست بھی کہتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ صوفیہ کی رو سے تمام انسانی روحیں واپس ملائے اعلیٰ کو جانے کے لئے بیچین رہتی ہیں۔ تسلیم نے دو لمبے مضامین کو چند لفظوں میں بیان کر دیا، روانی اس پر مستزاد۔ تیسرے شعر کے ساتھ غالب کا شعر یاد آنا لازمی ہے۔ تسلیم نے الگ ہٹ کر وہی مضمون بیان کیا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ غالب کے یہاں ضعف کی بات ہے اور تسلیم کے یہاں شعلۂ عشق کی۔ مقطع ہر پہلو سے شاہکار ہے۔ تلمیح بالکل درست اور مناسبتیں (جگر سوختہ، ماہ، عشق، شب، بستر) مستزاد۔ نعت کا شعر ہو تو ایسا ہو، کہ عاشقانہ بھی ہے اور نعتیہ بھی۔ ایسا امتزاج بڑے بڑوں کے بس میں نہیں۔ سبحان اللہ۔
(8)
کیا کہوں کیا گذری دل پر سینۂ پامال میں
خون کے دھبے ہیں بدلے اشک کے رومال میں
ناتواں وہ تھے کہ آخر انتہائے ضعف سے
رفتہ رفتہ پس گئے عمر رواں کی چال میں
جیتے جی سب ذلت و عزت تھی مر جانے کے بعد
لاش لپٹی ہے نہ کملی میں نہ پنہاں شال میں
٭
مطلعے کا مصرع ثانی کیفیت اور پیکر کے لحاظ سے خوب ہے۔ رومال کا مضمون ولی نے بہت عمدہ باندھا ہے، میر نے وہیں سے لیا ؎
نہ پوچھو عشق میں جوش و خروش دل کی ماہیت
برنگ ابر دریا بار ہے رومال عاشق کا
دوسرے شعر کا مضمون، اور پیکر دونوں غضب کے ہیں۔
(9)
ایسی ہے کچھ حنا کو ستم گر لگی ہوئی
پس کر بھی ہے قدم سے برابر لگی ہوئی
دیتی ہے بوسے کیوں جو نہیں واسطہ کوئی
گلگیر سے ہے شمع مقرر لگی ہوئی
آیا تھا کون خواب میں رنگیں ادا یہاں
مہندی ہے جا بجا سر بستر لگی ہوئی
لائے گی ایک دن خبر زندگی ضرور
پیچھے گئی ہے عمر برابر لگی ہوئی
٭
ذوق کی غزل اس زمین میں بجا طور پر مشہور ہے۔ ردیف میں امکانات تھے اور دونوں نے انھیں خوب برتا ہے۔ لگتا ہے تسلیم نے ذوق کا مطلع سامنے رکھا ہے ؎
ہے کان اس کے زلف معنبر لگی ہوئی
چھوڑے گی یہ نہ بال برابر لگی ہوئی
تسلیم کے مطلعے میں ردیف دو الگ الگ معنی میں آئی ہے۔ وہی حال ذوق کا بھی ہے، لیکن تسلیم کے یہاں معنی بہتر ہیں۔ ذوق نے بستر کا قافیہ ترک کیا ہے اور تسلیم نے اسے اس قدر عمدگی سے برتا ہے اور جنسی اشارے بھی کیا عمدہ ہیں۔ آخری شعر کا ابہام اور باریکی خیال بھی آپ اپنا جواب ہیں۔ زندگی گذرتی ہے تو عمر بھی گذرتی ہے، گویا عمر گذرتی نہیں بلکہ زندگی کے تعاقب میں جاتی ہے۔ عمر اور زندگی کا نازک فرق خوب نمایاں کیا ہے۔
(10)
ا ے فلک تجھ سے مجھے عشرت نہ راحت چاہیئے
رات دن میں دو گھڑی رونے کی فرصت چاہیئے
جیتے جی اسباب دنیا سے مفر ممکن کہاں
ایک چادر مر کے بھی بالائے تربت چاہیئے
کم سے کم اے چرخ اس عمر دو روزہ میں مجھے
ایک تو خورشید سیما ماہ طلعت چاہیئے
دیدۂ ظاہر سے کیا آئے نظر زاہد تجھے
ان بتوں کی دید کو چشم حقیقت چاہیئے
گوہر مقصد کا طالب ہے تو مانند صدف
گوشۂ دریائے ہستی میں قناعت چاہیئے
رہ گیا ہے سینے میں اک یاد گار گل یہی
دل سے اے دل تجھ کو پاس خار حسرت چاہیئے
ایک بوسہ بھی نہیں دیتا کبھی تسلیم کو
کس توقع پر تجھے اے بے مروت چاہیئے
٭
یہ غزل میر کی زمین میں ہے۔ میر کے اس شعر کا جواب تو تسلیم سے نہ ہو سکا ؎
عشق میں وصل و جدائی سے نہیں کچھ گفتگو
قرب و بعد اس جا برابر ہے محبت چاہیئے
اور خود میر نے اسی غزل میں بنکار کر کہا بھی تھا ؎
ہو طرف مجھ پہلواں شاعر کا کب عاجز سخن
سامنے ہونے کو صاحب فن کے قدرت چاہیئے
لیکن حق یہ ہے کہ تسلیم کے جو شعر میں نے انتخاب کئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ پہلوان شاعر بھی داد دینے پر مجبور ہو جاتا۔ بتوں کی دید کا مضمون، حسرت کا قافیہ، اور مقطع میں ردیف کا لاجواب ہنر مندی سے استعمال، یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ تسلیم کو وہ قدرت حاصل تھی جس کے بغیر بقول میر، صاحب فن کے سامنے ہونا غیر ممکن ہے۔
٭
حیرت ہے کہ یہ دونوں دیوان تسلیم کی رباعیات سے خالی ہیں۔ اس قدر قدرت کلام اور پر گوئی کے باوجود انھوں شاید رباعی نہیں کہی۔
ضرور تھا کہ “نظم ارجمند” سے بھی انتخاب کرتا، لیکن سردی کی سختی اور جگہ کی تنگی کے باعث تسلیم کے ان شعروں کے ساتھ ( یہ شعر”نظم ارجمند”میں شامل ہیں )، ختم کلام کرتا ہوں ؎
سرد اعضا ہو چکے لب پر وہی ہے آہ گرم
آگ قسمت میں لکھی ہے چلتی لو جاڑے میں ہے
تھرتھراتا ہے جگر تسلیم پڑھئے شعر کیا
سخت مشکل دم کا آنا تا گلو جاڑے میں ہے