“یہ لو منی۔۔۔یہ ساری تمہاری لیے ہیں!” ریان نے چاکلیٹس کا شاپر اسکے ہاتھ میں پکڑایا تھا اور وہ خوشی سے جھومتی رہی-
“اسلام علیکم داجی!! ریان نے داجی کو آگے بڑھ کر سہارا دیا تھا-
“جیتا رہ پتر۔۔۔۔حسن کیوں نہیں آیا؟” منی داجی کو چاکلیٹس دکھا رہی تھی-
“اسکو ضروری کام تھا تو میں اکیلے آگیا۔۔!!” تین سال گزرنے کے بعد اب داجی کو اس پہ بھروسہ تھا اسی لیے وہ پریشان نہیں تھیں۔۔
“شاہ بھیا آج ہم کھیلیں باہر!” ریان اسکی بات پہ مسکرایا۔۔۔اس دن اسی نے منی کو شاہ بولنا سکھایا تھا-
“منی تم مجھے شاہ بھیا بول لیا کرو ٹھیک ہے؟؟ اور منی اسکی بات سمجھ کر سر اثبات میں ہلا گئی تھی۔۔اسکے بعد سے منی نے شاہ بھیا بلانا شروع کردیا تھا اسے اپنا یہ نام اسکے منہ سے سن کر بہت اچھا لگتا تھا-
“چلیں نا۔۔۔اندھیرا ہوجائے گا! وہ اسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے اسے اٹھا رہی تھی۔۔
“میں جیت گئی نا شاہ بھیا؟ وہ جیتی نہیں تھی بلکہ ریان نے اسکا دل رکھنے کیلئے اسے جتا دیا تھا اور اب وہ معصوم سی شکل بناتےاس سے پوچھ رہی تھی۔۔۔!!
“ہاں! منی تو زبردست کھیلتی ہے۔۔۔” وہ باقاعدہ تالیاں بجا رہا تھا اور لوگ دیکھ کے ہنس رہے تھے کہ اتنا بڑا آدمی بچی کے ساتھ کھیل رہا ہے-
“اب اندر چلتے ہیں قرآن بھی یاد کرکے سنانا ہے ورنہ داجی کھانا نہیں دیں گی۔۔۔” وہ کبھی بھی بھوکی نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“منی تمہارا سپارہ ختم ہوگیا ہے اب ہم دونوں ایک ساتھ پڑھیں گے۔۔ٹھیک ہے؟” وہ منی سے پوچھ رہا تھا اور وہ سر اثبات میں ہلا گئی-
ریان قرآن حفظ کر رہا تھا اور حسن ناظرہ پڑھنے آتا تھا۔۔۔۔ریان نے بچپن میں 3 سپارے حفظ کرلیے تھے اور اب وہ ان تینوں کو دہرا رہا تھا تاکہ منی کے ساتھ آگے کے پارے شروع کرسکے اب منی بھی اس تک پہنچ گئی تھی- دونوں روز ایک دوسرے کو سبق سناتے تھے اور پچھلے پارے دہراتے رہتے تھے-
“آج آپکی باری ہے۔۔پہلے آپ سنائیں گے-” منی کو آج سبق کچا تھا اسی لیے پہلے اسے سنانے کو بولا اور ریان اب اپنا سبق سنا کر اسکا سننے لگا تھا-
“بہت غلطیاں آرہی ہیں آج تمہاری۔۔ابھی بیٹھ کے یاد کرو ورنہ چاکلییٹس ساری میری ہوئیں-”
منی کی شکل رونے والے ہوگئی تھی پر اسکے ساتھ ایسا کرنا ضروری تھا ورنہ وہ سبق یاد ہی نا کرتی۔۔!!
“سنیں اب! میں پکا یاد کرچکی۔۔۔۔ اب کی بار اسکی کوئی غلطی نہیں آئی تھی-”
“ریان پتر۔۔ادھر آ۔۔” ریان گھر سے نکل رہا تھا جب داجی نے پکار لیا-
“جی داجی۔۔۔کیا ہوا؟ وہ داجی کے پاس بیٹھ گیا تھا-
“پتر تجھے برا تو نہیں لگتا کہ میں تجھے منی کا سپارہ سننے کو بولتی ہوں؟نہیں داجی آپ نے ایسا کیوں سوچا۔۔۔کیا آپ مجھے اپنا بیٹا نہیں سمجھتیں؟” ریان خفگی ظاہر کرتے ہوئے بولا-
“نہیں نہیں پتر ایسی کوئی بات نہیں۔۔بس تجھ سے ایسے ہی پوچھ بیٹھی۔۔۔!!”
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
تین سالوں میں ریان اور منی نے قرآن حفظ کرلیا تھا- کل انکی آمین تھی- منی حسن اور ریان کے ساتھ بزار آئی تھی-
“یہ دیکھو منی! کتنا پیارا ہے۔۔”ریان اسے ایک پنک فراک دکھا رہا تھا-
“نہیں میکو دلہن جیسے کپڑے چاہیے جو نینی آپی نے پہنے تھے-” وہ اپنے ساتھ گھر والی لڑکی کی شادی کے جوڑے کا ﺫکر کرہی تھی-
“اچھا اچھا وہ بھی لے لینا ایک یہ لے لو میری پسند کا۔” آخر کار مشکل سے وہ مان گئی وہ بھی اس وعدے پر کہ اسے دلہن والے کپڑے لے دیں گے-
“شاہ بھیا، حسن بھیا یہ دیکھیں دلہن والے کپڑے-” وہ اچھل اچھل کر انکو بتا رہی تھی- اور ان دونوں کی کھی کھی شروع ہوچکی تھی-
“منی یہ بہت بڑا ہے آپکو پورا بھی نہیں آئیگا-” ریان اسکے گالوں پہ پیار کرتے ہوئے بولا۔۔
“نہیں مجھے یہی چاہیے ورنہ میں آپ دونوں والی فراک نہیں پہنوں گی-” اب وہ ضد پہ اتر آئی تھی۔۔۔آخر کار ایک جگہ سے دلہن والا جوڑا مل گیا تھا جو تب بھی منی کو بڑا ہورہا تھا پر اسنے ضد کرکے آمین میں وہی پہنا تھا۔۔
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“منی دلہن بن گئی اب دلہا کہاں سے لاؤگی-” ریان اسے پیار کرتے ہوئے بولا تھا- اور حسن کا ہنس ہنس کے برا حال ہوچکا تھا-
“آپ دونوں ہیں نا میرے دلہا۔۔!! وہ چہک چہک کر بول رہی تھی-
“دونوں نہیں ہم میں سے ایک بتاؤ۔۔” اب کے حسن بمشکل ہنسی روکے سوال کر رہا تھا-
“شاہ بھیا۔۔ کیونکہ وہ آپ سے زیادہ پیارے ہیں۔۔!! منی منہ چڑاتے ہوئے بولی اور ریان کا قہقہ سب سے اونچا تھا-
“میں نہیں بولتا تم سے منی۔۔۔۔نہ اب میں تمہیں چاکلیٹس دوں گا-” حسن خفگی دکھاتے ہوئے بولا۔۔!
“کوئی بات نہیں میں دے دوں گا عشو کو چاکلیٹس۔۔۔ٹھیک ہے نا عشو؟” ریان اب اسے عشو بولتا تھا کیونکہ وہ اسے شاہ بھیا بولتی جو اسے کوئی نہیں کہتا تھا اور عشال کو کوئی عشو نہیں کہتا تھا تو اسنے اسے عشو کہنا شروع کردیا تھا اور عشال کو بھی اپنا یہ والا نام بہت پسند آیا تھا-
“ٹھیک ہے۔۔۔!! وہ اتنی معصومیت سے بولی تھی کہ ریان کا دل کر رہا تھا اسے بھینچ کہ بس پیار ہی کرتا رہے-
“چلو اب جلدی سے۔۔ بیچاری داجی اکیلی باہر ہیں-”
حسن منی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے باہر نکلا تو وہ بھی اسکے پیچھے چل دیا-
باہر کے سارے انتظامات حسن اور ریان نے ہی کیے تھے اور مائیک بھی لگوایا تھا ان تینوں نے مل کر نعتیں بھی پڑھی تھیں-
“عشال اور ریان نے قرآن کی تلاوت بھی کی تھی۔۔۔گاؤں کے لوگ حیران ہورہے تھے کہ اتنے بڑے لڑکے نے اب قرآن حفظ کیا تھا پر ریان کو کوئی شرمندگی نہیں ہوئی۔۔۔کیوں وہ شرمندہ ہوتا۔۔۔قرآن پاک تو اللہ کی کتاب ہے جو 80 سال کا مرد بھی حفظ کرسکتا ہے۔۔۔اللہ جب چاہے جسکو چاہے ہدایت دے سکتا ہے۔۔۔اسے بھی اللہ کی طرف سے ہدایت ملی تھی تو کیوں وہ شرمندہ ہوتا بلکہ سب کو فخر سے بتا رہا تھا کہ میں نے اس بچی کے ساتھ قرآن پاک حفظ کیا ہے-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“میں نے اسکو پہلی دفعہ وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔۔وہ آٹھ سال کی بچی اتنے اچھے طریقے سے وضو کر رہی تھی کہ میں شرمندہ ہوگیا۔۔پھر میں نے اسکے ساتھ مل کر قرآن بھی حفظ کیا تھا- تم لوگ جانتے ہو کہ میں چاچو کہ جانے کے بعد کبھی مسکرایا نہیں تھا پر اس بچی نے مجھے ہنسنا سکھایا اور آج میں ہنستا ہوں تو صرف اسکی وجہ سے جو اندر بیٹھی ہے۔۔!!
مہک، عافيہ ،احمد اور زین خاموشی سے اسکو سن رہے تھے اور خوش ہورہے تھے کہ ہمارا بھائی بھی اب ہنسنا سیکھ گیا ہے-
لالہ آپ نے بتایا نہیں کہ آپکی شادی کیسے ہوئی؟ مہک کو جو سوال چبھ رہا تھا آخر زبان پہ لے آئی!!
“ہماری شادی نہی نکاح ہوا ہے۔۔۔۔داجی بہت بیمار تھیں انھی کا یہ فیصلہ تھا اور میں کیسے انکی بات نہ مانتا انکی وجہ سے میں آج اللہ کے سامنے کھڑے رہنے کے قابل ہوا ہوں۔۔۔آغاجان جن کے ہر فیصلوں کو مانتا آیا تو اس عورت کو کیسے منع کرسکتا تھا جس نے میری آخرت سدھاری ہے-
ریان کی آنکھوں میں داجی کے ﺫکر سے نمی اتر آئی تھی-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“عشو کیا ہوا؟ ایسے کیوں بیٹھی ہو۔۔۔داجی کہاں ہیں؟ریان آج کافی عرصے بعد آیا تھا اسے اداس بیٹھے دیکھا تو پوچھا-
“شاہ بھیا؟ آپ کب آئے۔۔۔”عشال آنسو صاف کرتے ہوئے بولی-
“میں ابھی آیا ہوں عشو۔۔تم بتاؤ کیوں رو رہی تھی اور داجی کہاں ہیں؟
“وہ داجی کی بہت زیادہ طبیعت خراب ہوگئی تھی نینی آپی کے پاپا ماما ان کو لے کر گئے ہیں صبح سے اور اب اندھیرا ہونے والا ہے اب تک نہیں آئے۔۔- وہ روتے ہوئے اسے ساری صورتحال بتا رہی۔۔۔ریان کو اس بچی پہ بہت ترس آیا جس کے ماں باپ بھی نہیں تھے اور اب داجی بھی بیمار رہنی لگی تھیں
“آجائیں گے عشو۔۔۔آپ تو بہادر ہونا- چلو اندر چل کے بیٹھو۔۔۔۔”ریان اسکا ہاتھ پکر کے اسے اٹھا رہا تھا-
“نہیں میں یہی انتظار کروں گی۔۔اکیلے اندر ﮈر لگتا ہے-” اسکے آنسو واپس بہنے لگے تھے-
“میں ہوں نا یہیں پر۔۔جب تک وہ لوگ نہیں آجاتے ہم کھانا بنالیتے ہیں۔۔تاکہ داجی آکر کھانا کھا سکیں-” وہ اسکے بال سنوارتے ہوئے اسے سمجھا رہا تھا اور وہ فوراً اٹھ گئی تھی-
ریان اسکے ساتھ کچن میں آگیا اور سب چیزیں دیکھنے لگا۔۔سب کچھ موجود تھا
“عشو کیا کھاؤگی؟ وہ اس سے اسکی فرمائش پوچھ رہا تھا-
“آلو پراٹھا۔۔وہ بھی پورے دو کھاؤں گے-” وہ خوشی خوشی بتانے لگی-
“ارے واہ عشو۔۔۔ مجھے بھی بہت پسند آلو پراٹھا اور یہی سب سے اچھا بناتا ہوں-”
ریان ایک دیکچی میں سوپ داجی کیلئے۔۔۔ اور دوسری طرف پراٹھے بنا رہا تھا-
“آپکو کس نے سکھائے بنانا؟” عشال اسکے پاس کھڑی پوچھ رہی تھی-
“میرے چاچو بہت شوق سے کھاتے تھے میں 4 سال کا تھا جب انہوں نے مجھے ایک کاغذ پہ ترکیب لکھ کر دی تھی اور اب تک میں اسی ترکیب سے بناتا ہوں-”
“مجھے بھی سکھائیں گے بنانا۔۔۔۔میں بھی آپکو ایک دن بناکر کھلاؤں گی-”
اسی وقت درازہ بجا تھا-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“داجی۔۔داجی کیسی ہیں؟” داجی کو دیکھتے ہی اسکی آنکھوں میں چمک آگئی تھی جو داجی کے جانے سے غائب ہوگئی تھی-
“چندا۔۔میں ٹھیک ہوں-” داجی کا سانس پھولا وا تھا اسی لیے وہ مشکل سے بول رہیں تھیں-
“عشو جاؤ۔۔داجی کیلئے پانی لے کر آؤ۔۔۔”ریان کے کہنے پر وہ فوراً بھاگ گئی تھی۔۔اسنے داجی کی رپورٹس کھولیں تو اسے دھچکا لگا- انکے دل میں سراخ تھے-
“پتر میرے جینے میں کتنے دن رہ گئے ہیں؟”
“داجی ایسی باتیں نہ کریں۔۔۔عشو کیلئے آپکو جینا پڑے گا۔۔۔۔اسکا کیا ہوگا؟” ریان کو انکی حالت پہ افسوس ہورہا تھا-
“دیکھ رہا ہے پتر اوپر۔۔۔۔وہ سب کچھ کرنے والا ہے- اس بچی کی بھی وہی حفاظت کرنے والا ہے۔۔!! داجی آسمان کی طرف اشارہ کرکے بول رہیں تھیں-
“منی ادھر آؤ۔۔۔۔”داجی اسے اپنے پاس بلا رہیں تھیں- وہ سب سمجھ گئی تھی-
“داجی اب آپ بھی مجھے چھوڑ جائیں گی جیسے ماں بابا چھوڑ گئے؟” وہ رو کے ان سے سوال کر رہی تھی۔۔ریان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے اسے بھی وہ دن یاد آرہا تھا جب چاچو اسے چھوڑ گئے تھے پر اسکے پاس تو ماں باپ تھے ، کزنز تھے اور اس بچی کے پاس کون تھا؟ ایک اللہ تھا۔۔۔تب بھی اسکی داجی پر سکون تھیں-
کتنا بڑا ہے اللہ۔۔۔۔کتنی صفاتوں والا ہے۔۔۔ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے وہ تو۔۔۔اسی لیے اسکی داجی پر سکون تھیں کہ اللہ اس چھوٹی سی بچی کی حفاظت کرسکتا ہے۔۔۔۔!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...