پہلا سوال: منکرین حدیث نے اللہ تعالیٰ کے اس قول یعنی:
مَا کَانَ لِبَشَرٍاَن یُّؤتِیَہُ اللّٰہُ الکِتٰبَ وَالحُکمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُوا عِبَادًا لِّی مِن دُونِ اللّٰہِ وَلٰکِن کُونُوا رَبّٰنِیّٖنَ
(سورت ال عمران 3 آیت 79)
کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ’کسی انسان کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ اس کو کتاب اور حکومت اور نبوت دے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میری محکومی اختیار کرو۔ اسے یہی کہنا چاہئے کہ تم سب ربانی بن جاؤ۔ سوال یہ ہے کہ یہ معنی صحیح ہیں یا غلط ہیں؟
جواب: یہ معنی غلط ہیں، یعنی ’حُکمَ‘ کے معنی ’حکومت‘ کے اور کُونُوا عِبَادًا لِّی‘ کے معنی ’میری محکومی اختیار کرو‘ کے غلط ہیں، مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہاں ’حُکمَ‘ کے معنی فہم کے ہیں۔ اور نیز اگر ’حکم‘ کے معنی ’حکومت‘ کے ہوں گے تو آیت:
وَآتَینَاہُ الحُکمَ صَبِیًّا
(سورت مریم 19 آیت 12)
میں حکم کے معنی اگر حکومت کے ہوں گے تو آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ’ہم نے یحییٰ کو بچپن میں حکومت دی تھی‘ اور یہ بالکل غلط ہے۔ اور جن بندوں کو حکم اور نبوت ملی ہے ان میں اکثر صاحبِ حکم اور نبوت کو حکومت نہیں ملی۔ اگر حکم کے معنی حکومت کے ہوں تو ہر شخص جس کو حکم و نبوت ملے وہ صاحبِ حکومت ہو، حالانکہ بیشتر انبیاء صاحبِ حکومت نہ تھے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر نبی صاحبِ حکم ہے اور صاحبِ حکومت نہیں ہے۔ اب اگر حکم اور حکومت ایک ہی چیز ہو تو ہر نبی صاحبِ حکومت ہو، حالانکہ ہر نبی صاحبِ حکومت نہیں ہے۔ کیونکہ اکثر انبیاء کو تکلیفیں دی گئیں اور قتل بھی کئے گئے، اگر صاحبِ حکومت ہوتے تو تکلیف زدہ نہ ہوتے اور نہ مقتول ہوتے۔ لہذا یہاں ’حکم‘ کے معنی حکومت کے نہیں ہیں۔
دوسری غلطی اس ترجمہ میں یہ ہے کہ ’کُونُوا عِبَادًا لِّی‘ کے معنی ’میری محکومی اختیار کرو‘ کے نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ ’میرے بندے ہو جاؤ۔‘ ’عِبَاد‘ کے معنی بندے کے ہیں۔ عِبَاد کے معنی محکومی کے نہیں ہیں۔ اس لئے کہ ’عِبَاد‘ کا لفظ جس طرح انسانوں کے لئے آیا ہے اسی طرح قرآن شریف میں غیر انسانوں کے لئے بھی آیا ہے، جیسے:
اِنَّ الَّذِینَ تَدعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمثَالُکُم
(سورت الاعراف 7 آیت 194)
’بیشک اللہ کو چھوڑ کر جن کو تم پکارتے ہو وہ تم ہی جیسے بندے ہیں۔‘
یہاں بتوں کو اللہ تعالیٰ نے عِبَاد سے تعبیر کیا ہے۔ فرشتوں کے متعلق فرمایا:
بَل عِبَادٌ مُّکرَمُونَ
(سورت الانبیاء 21 آیت 26)
’بلکہ وہ معزز بندے ہیں۔‘
اَفَحَسِبَ الَّذِینَ کَفَرُوۤا اَن یَّتَّخِذُوا عِبَادِی مِن دُونِیۤ اَولِیَآءَ
(سورت الکہف 18 آیت 102)
’کیا پھر بھی کافر اس خیال میں ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا حمایتی بنائیں۔‘
اور جن بندوں کو ان کافروں نے حمایتی اور اولیاء اپنا بنایا ہے وہ بت ہیں، شمس و کواکب ہیں، جن ہیں، ملائکہ ہیں، مسیح علیہ السلام ہیں۔ غرض یہ کہ ’عِبَاد‘ کا لفظ مخلوق کے لئے مستعمل ہے اور جگہ جگہ قرآن میں ’عِبَاد‘ کا لفظ مخلوق ہی کے معنی میں آیا ہے محکوم کے معنی میں نہیں آیا۔ اور ظاہر ہے کہ مخلوق کی ان مشرکوں نے عبادت تو کی ہے مگر محکومی اور اطاعت نہیں کی ہے۔ اس لئے کہ نہ ملائکہ نے، نہ جنوں نے، نہ شمس و کواکب نے، نہ مسیح نے، نہ بتوں نے ان کوحکم دیا کہ ہماری عبادت کرو۔ یعنی یہ بغیر ان کے حکم کے ان کی عبادت کر رہے ہیں، تو یہ مشرک ان کی عبادت تو کر رہے مگر ان کی اطاعت اور محکومی نہیں کر رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ عبادت اور چیز ہے، اطاعت اور محکومی اور چیز ہے۔ تو یہ معبودان باطل تو ہیں لیکن مطاع اور حاکم نہیں ہیں۔
تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اصنام اور جن وغیرہ معبود ہیں اور اصنام و جن وغیرہ مطاع نہیں ہیں، نتیجہ صاف برآمد ہوا کہ معبود مطاع نہیں ہے۔ اور جب معبود نہیں ہے تو عبادت اطاعت نہیں رہی۔ اور جب عبادت و اطاعت نہیں تو عباد، مطیع، فرمانبردار، محکوم نہ ہوئے۔ تو ’کُونُوا عِبَادًا لِّی‘ کے یہ معنی کہ میرے فرمان بردار، مطیع، محکوم ہو جاؤ، غلط ہوئے اور یہی ہم کو ثابت کرنا تھا۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ نبی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تمہارا خالق ہوں، تم میری مخلوق ہو، میں تمہارا معبود ہوں، تم میرے عابد ہو اور میری پوجا کرو اور میری پرستش کرو۔ بلکہ وہ یہ کہے گا کہ رب پرست ہو جاؤ، ربانی ہو جاؤ۔
میں کہتا ہوں کہ اطاعت کے معنی امتشالِ امر کے ہیں، یعنی حکم کی تعمیل اور امر و حکم کے مطابق کام کرنا۔ تو اطاعت کے لئے یہ ضروری ہے کہ اطاعت کرانے والا، امر کرنے والا ہو۔ اور ان معبودانِ باطل نے کوئی حکم نہیں دیا، کوئی امر نہیں کیا تاکہ ان کے حکم کی تعمیل ان کی اطاعت سمجھی جاتی، لہذا یہاں اطاعت قطعاً متحقق نہیں ہے اور عبادت قطعاً متحقق ہے۔ تو معلوم ہو گیا کہ عبادت اطاعت نہیں ہے، عبادت حکم نہیں ہے تاکہ عباد اور عابدین مطیع اور محکوم کہلاتے۔ غور کرو۔
دوسرا سوال: منکرینِ حدیث نے اپنے رسالہ ’اطاعتِ رسول‘ میں کہا ہے کہ اطاعت صرف اللہ کی ہے، یہ صحیح ہے کہ غلط؟
جواب: یہ غلط ہے۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی ہے، حتی کہ ایمان بھی غیر اللہ یعنی انبیاء اور رُسل اور ملائکہ پر لانا فرض ہے لیکن عبادت انبیاء و ملائکہ اور رُسل کی حرام ہے۔ عبادت صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے اور اطاعت اللہ کے لئے مخصوص نہیں ہے، جس طرح ایمان اللہ کے لئے مخصوص نہیں ہے فرمایا:
اٰمِنُوا بِی وَبِرَسُولِی
(المائدۃ111)
’مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ۔‘
اَطِیعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُولَ
(سورت اٰل عمران 3 آیت 32)
’اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔‘ اطاعت میں اشتراک اور ایمان میں اشتراک واجب ہے، عبادت میں اشتراک حرام ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ ایمان بھی عبادت سے الگ چیز ہے اور اطاعت بھی عبادت سے الگ چیز ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...