پہلا سوال: یہ ثابت ہو چکا ہے کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول حجت ہے۔ تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی قول نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قرآن کے خلاف ہو یعنی قرآن سے کسی چیز کا جواز نکلے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قول سے عدم جواز یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول قرآن سے زائد ہو یعنی قرآن میں اختصار ہو اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قول میں تفصیل ہو یا قرآن میں موجود ہی نہ ہو صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قول میں مذکور ہو، تو ایسی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول حجت ہے یا نہیں؟
جواب: ہر صورت میں نبی کا قول حجت ہے، نبی کا قول مستقل حجت ہے، غیر مشروط حجت ہے۔ نبی کے قول کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قرآن کے مطابق ہو تب تو حجت رہے، اگر مطابق نہ ہو تو حجت نہ رہے۔ یہ شرط غیر نبی کے لئے ہے کہ اگر غیر نبی کا قول قرآن کے مطابق ہے تو بیشک ہر غیر نبی کا قول بھی حجت ہے، اگر مطابق نہیں ہے تو ہر غیر نبی کا قول حجت نہیں ہے۔ بلکہ جس طرح قرآن کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہماری عقل کے مطابق ہو تو حجت ہو اور ہماری عقل کے مطابق نہ ہو تو حجت نہ ہو۔ اسی طرح نبی کے قول کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قرآن مطابق ہو تو حجت ہو اور قرآن کے مطابق نہ ہو تو حجت نہ ہو۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن کا حجت ہونا اس بنا پر ہے کہ وہ من جانب اللہ ہے، صرف من جانب اللہ ہونا قرآن کے حجت ہونے کی وجہ ہے۔ بالکل اسی طرح نبی من جانب اللہ ہے، کیونکہ اس کی تصدیق معجزہ کرتا ہے اور معجزہ من جانب اللہ ہوتا ہے، لہذا نبی اور نبی کا قول بھی معجزہ کے بعد من جانب اللہ ہو گیا اور من جانب اللہ ہونا ہی حجت ہے، لہذا نبی کا قول اور نبی مستقل حجت ہے۔
اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی اور قولِ نبی من جانب اللہ ہے اور ہر وہ شئے جو من جانب اللہ ہے قابلِ قبول اور حجتِ عمل ہے، لہذا نبی اور قولِ نبی حجتِ عمل ہے۔ نبی کا قول قولِ الٰہی ہے اور من جانب اللہ ہے، اس آیات سے بھی ثابت ہے:
قُل مَا یَکُونُ لِی أَن أُبَدِّلَہُ مِن تِلقَاءِ نَفسِی إِن أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوحَىٰ إِلَیَّ
(سورت یونس 10 آیت 15)
’کہہ دے کہ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اپنی طرف سے تبدیل کر دوں، میں تو صرف وحی کا پیرو ہوں۔‘
صاف ظاہر ہو گیا کہ نبی کا قول وحی ہے، قول الٰہی ہے، من جانب اللہ ہے۔
اس بات کا ثبوت کہ قرآن من جانب اللہ ہونے کی حیثیت سے حجت ہے، نہ کہ قرآن اور کتاب ہونے کی حیثیت سے۔ یہ ہے کہ متشابہات قرآن ہیں اور حجت نہیں ہیں، متشابہات پر عمل کو زیغ سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:
فَاَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم زَیغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشٰبَہَ مِنہُ
(سورت اٰل عمران 3 آیت 7)
’جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں۔‘
غرضیکہ قران کا وہ حصہ جو متشابہات ہیں باوجود قرآن ہونے کے حجتِ عمل نہیں ہے اور قرآن کا حجت ہونا صرف من جانب اللہ ہونے کی حیثیت سے ہے، لہذا عِلتِ حجت من اللہ ہونا ہے۔ اور فرمایا:
وَلَا تَعجَل بِالقُراٰنِ مِن قَبلِ اَن یُّقضٰٓى اِلَیکَ وَحیُہُ
(سورت طہ 20 آیت 114)
’قرآن کو جب تک اس کے متعلق پوری وحی تمہارے پاس نہ آ جائے جلدی نہ بیان کرو۔‘
یعنی خالی قرآن نازل ہوتے ہی مت بیان کرو، جب تک اس قرآن کے متعلق تمام وحی تم پر نازل نہ ہو جائے، یہ وہی وحی ہے جو غیر قرآن ہے۔ قرآن کی تفصیل اور اس کے متعلقات اس وحی کے ذریعے بتائے جاتے ہیں اور اس وحی میں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ قرآن محکم ہے اور حجت ہے اور یہ قرآن متشابہ ہے اور حجت نہیں ہے۔ اس بیان سے صاف ظاہر ہو گیا کہ نبی من جانب اللہ ہے اور نبی کا قول من جانب اللہ ہے، لہذا یہ دونوں مستقل حجتیں ہیں۔
اب اگر کوئی کہے کہ متشابہ من جانب اللہ ہے اور من جانب اللہ ہونا، بقول تمہارے قابلِ قبول اور حجتِ عمل ہے، تو چاہیئے کہ متشابہ بھی قابلِ قبول اور حجتِ عمل ہو؟
اس کا حل یہ ہے کہ متشابہ قابلِ قبول اور قابلِ ایمان ضرور ہے لیکن قابلِ عمل نہیں ہے۔ دوسری آیات نے متشابہات پر عمل کرنے کی ممانعت کر دی ہے اور وہ یہ آیت ہے:
فَاَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم زَیغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشٰبَہَ مِنہُ
(سورت اٰل عمران 3 آیت 7)
’جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کتاب کے متشابہات پر عمل کرتے ہیں۔‘
اس آیت کی بنا پر متشابہات ناقابل عمل ہو گئے۔ رہی یہ بات کہ قول رسول قرآن کے خلاف ہو تو وہ بھی حجت ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہے:
کُتِبَ عَلَیکُم اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ المَوتُ اِن تَرَکَ خَیرَا الوَصِیَّۃُ لِلوٰلِدَینِ
(سورت البقرۃ 2 آیت 180)
’تمہارے اُوپر والدین کے لئے وصیت فرض ہے، اگر کسی نے مال چھوڑا ہے جب کہ اسے موت آئے۔‘
رسول نے فرمایا: لَاوَصِیَّۃَ لِلوَّارِث ’وارث کے لئے وصیت نہیں ہے۔‘ اور تواتر سے ثابت ہے کہ عمل اسی حدیث پر رہا ہے۔ یعنی وارث کے لئے وصیت نا جائز قرار دی گئی۔ حدیث نے قرآن کی آیت کو منسوخ کر دیا اور قولِ رسول قرآن کی آیت کے خلافِ حجت اور موجبِ عمل رہا اور اس حدیث کا موجبِ عمل اور حجت ہونا تواتر سے ثابت ہے۔ نیز اکثر دینی مسائل کا ثبوت قرآن سے نہیں حدیث سے ہے، لہذا قولِ رسول حجت مستقلہ اور غیر مشروط حجت ہے، علیٰ ہذا اجماع بھی غیر مشروط حجت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وَاُولِی الاَمرِ کا عطف رسول پر ہے،
وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُولِی الاَمرِ مِنکُم
(سورت النساء 4 آیت 59)
اب اگر کہا جائے کہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ رسول کا کوئی قول قرآن کے خلاف ہو اور رسول کا قول قرآن کو نسخ کر دے؟
تو پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ رسول کا قول اس کا اپنا قول نہیں ہوتا، وہ در حقیقت خدا کا قول ہوتا ہے۔ جس طرح قرآن خدا کا قول ہے اسی طرح رسول کا قول بھی خدا کا قول ہے، اور جس طرح قرآن کی ایک آیت قرآن کی دوسری آیت کو منسوخ کر دیتی ہے اسی طرح خدا کا ایک قول یعنی قولِ رسول دوسرے قول یعنی قرآن کو منسوخ کر دیتا ہے۔ استعجاب کا باعث صرف یہ ہے کہ رسول کے قول کو رسول کا قول سمجھا جا رہا ہے، رسول کے قول کو بشر کا قول سمجھا جا رہا ہے۔
یاد رکھو رسول کا قول خدا ہی کا قول ہوتا ہے:
وَمَا یَنطِقُ عَنِ الہَوَىٰ (3) إِن ہُوَ إِلَّا وَحیٌ یُوحَىٰ (4)
(سورت النجم 53 آیات 3،4)
’وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ اس کا بولنا صرف وہ وحی ہے جو اس پرکی گئی ہے۔‘
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ نبی کا قول ہر قول وحی ہے۔ اس کی وضاحت یوں بھی ہو سکتی ہے کہ نبی کا یا تو ہر قول وحی ہے یا کوئی قول وحی نہیں ہے یا بعض قول وحی ہیں اور بعض قول وحی نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ نبی کا کوئی بھی قول وحی نہیں ہے، تو شروع مسئلہ میں ہم نے اس خیال کو باطل کر دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ قرآن کے علاوہ نبی پر وحی ہوئی، لہذا یہ کہنا کہ نبی کا کوئی قول وحی نہیں، قطعی غلط ہے۔
اب دوسری صورت نبی کے بعض قول وحی ہیں اور بعض قول وحی نہیں ہیں، تو یہ بھی باطل ہے، اس لئے کہ بعض اقوال کا وحی ہونا اور بعض کا وحی نہ ہونا تخصیص بلا مخصص ہے یہ محال اور باطل ہے۔ بعض اقوال کا وحی ہونا آخر کسی قول سے معلوم ہوا؟ اگر نبی کے ایسے قول سے معلوم ہوا جو وحی ہے، تو یہ قول انہی بعض میں شامل ہے۔ اگر ایسے قول سے معلوم ہوا جو وحی نہیں ہے، تو نبی کا ایسا قول جو وحی نہیں ہے ایسے قول پر حجت ہو گیا جو وحی ہے اور تم غیر وحی کو حجت ہی نہیں مانتے، لہذا یہ شِق بھی باطل ہو گئی۔ اور جب دونوں شِقیں باطل ہو گئیں یعنی نبی کا قول وحی نہیں ہے اوریہ بھی باطل ہو گیا کہ نبی کے بعض قول وحی ہیں اور بعض قول وحی نہیں ہیں، تو لامحالہ یہ تیسری شِق ثابت ہو گئی کہ نبی کا ہر قول وحی ہیں۔ اور جب ہر قول وحی ہے تو نبی کا ہر قول حجت ہے اور قابلِ قبول ہے۔ بولو کیا کہتے ہو؟ جب نبی نے پہلی بار کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں، میرا کہا مانو، اور ابھی کتاب نازل نہیں ہوئی یا نازل ہوئی تو ایک دو آیتیں جس میں نبی کی پیروی کا ذکر نہیں ہے، اس وقت اس کا قول ماننے کے قابل ہے یا نہیں؟ اگر کہو کہ ماننے کے قابل نہیں ہے، تو قطعی کافر ہو گئے۔ اور اگر کہو کہ ماننے کے قابل ہے، تو قطعاً نبی کا قول مطلقاً قطع نظر کتاب کے حجت ہو گیا۔ اگر نبی کا قول بغیر کتاب کے حجت نہ تھا تو گویا فرعون کو بے حجت عذاب دیا گیا، حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتّیٰ نَبعَثَ رَسُولًا
(سورت بنی اسرائیل 17 آیت 15)
’ہم جب تک رسول نہیں بھیج لیتے اس وقت تک عذاب نہیں کرتے۔‘
یہ نہیں کہا کہ ہم جب تک کتاب نہیں بھیج لیتے اس وقت تک عذاب نہیں کرتے، اس سے ثابت ہو گیا کہ نبی کا قول کتاب سے قطع نظر کر کے حجت ہے۔
دوسرا سوال: نبی کی طرف بے حیائی کی نسبت، جھوٹ کی نسبت غیر معقولیت کی نسبت، ناواقفیت کی نسبت جن احادیث سے ظاہر ہو ان احادیث کو ان نقائص کی بنا پر حدیث رسول سے خارج کر دینا چاہئے یا نہیں؟ جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم ایک ظرف میں غسل کرتے تھے اور جیسا کہ بعض احادیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے تین جھوٹ بولے اور جیسا کہ مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ملک الموت کے تھپڑ مارا اور جیسا کہ کھجور کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ زیادہ پھل آئے گا اور زیادہ نہیں آیا۔ ان احادیث سے بے حیائی، جھوٹ، نامعقولیت اور ناواقفیت نبی کی طرف منسوب ہوتی ہے؟
جواب: محض ان نسبتوں سے حدیث ناقابلِ قبول نہیں ہوتی۔ مثلاً بے حیائی کی جو نسبت کی گئی ہے وہ محض نسبت کرنے والے کا خیال ہے۔ میاں بیوی کی برہنگی سے بے حیائی مقصود ہو تو نظامِ نسل باطل ہو جائے گا، بے حیائی تو وہ ہے جسے نبی بے حیائی بتائے۔ نبی نے کہیں میاں بیوی کے غسل کو بے حیائی نہیں بتایا، نہ کتاب اللہ نے اس فعل کو بے حیائی بتایا۔ اور اگر اس قسم کی باتوں کو بے حیائی سے تعبیر کیا جائے گا تو اللہ نے جو کَوَاعِبَ (سورت النباء 78 آیت 33) کا لفظ عورتوں کی تعریف میں فرمایا ہے یہ بے حیائی ہو گی۔ ’کَوَاعِبَ‘ کَاعِب کی جمع ہے اور کَاعِب اس عورت کو کہتے ہیں جس کے پستان اُبھرے ہوئے ہوں۔ اگر عورت کے پستان کی تعریف بے حیائی ہے تو اس کو بھی قرآن سے خارج کر دینا چاہیئے، اور اگر بے حیائی نہیں ہے تو عورت مرد یعنی میاں بیوی کا باہم غسل بھی بے حیائی نہیں ہے۔
ابراہیم خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہے اس نسبت سے بھی حدیث کو حدیث ہونے سے خارج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر اس نسبت سے حدیث کو خارج کیا جائے گا تو قرآن کو بھی خارج کیا جائے گا فرمایا:
جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِی رَحلِ اَخِیہِ
(سورت یوسف 12 آیت 70)
’یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کے سامان میں پانی پینے کا برتن رکھ دیا۔‘
اور پھر یہ کہلوا دیا کہ تم چور ہو، ظاہر میں یہ فعل جھوٹ سے بھی بد تر ہے۔ اور فرمایا:
کَذٰلِکَ کِدنَا لِیُوسُفَ
(سورت یوسف 12 آیت 76)
’ہم نے یوسف کو یہ تدبیر سکھائی۔‘
بہرحال قرآن میں یہ نقص نبی کی طرف منسوب ہے تو چاہیئے کی اس آیت کو قرآن سے نکال دیا جائے۔
حضرت موسیٰ نے ملک الموت کے تھپڑ مارا، یہ بھی خلاف عقل اور غیر معقول نہیں ہے کہ جب انسان کی فرشتہ سے ہمکلامی مان لی جو بظاہر غیر معقول ہے تو پھر ہاتھا پائی ماننے میں کیا غیر معقولیت ہے، دونوں ایک ہی درجہ کی باتیں ہیں، یعنی جو شخص کسی سے بات چیت کر سکتا ہے وہ اس کے تھپڑ بھی مار سکتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُّقتَلُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ اَموٰتٌ بَل اَحیَآءٌ وَّلٰکِن لَّا تَشعُرُونَ
(سورت البقرۃ 2 آیت 154)
’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں ان کو مُردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم کو شعور نہیں۔‘
شہید کو زندہ کہنا عقل ہی کے خلاف نہیں حِس کے بھی خلاف ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کہا اور مزید تاکید کر دی کہ تم بے حِس ہو، بے شعور ہو، تم کو پتہ نہیں۔ شہید کی زندگی قطعی عقل میں نہیں آتی۔ تو اگر حدیث کا خلافِ عقل ہونا حدیث کو خارج کر دیتا ہے تو قرآن کا خلافِ عقل ہونا قرآن کو خارج کر دیتا ہے۔ یعنی جو اعتراض حدیث پر ہے بالکل وہی اعتراض قرآن پر ہے اور جس طرح قرآن پر اعتراض قرآن کو قرآن ہونے سے خارج نہیں کرتا اسی طرح حدیث پر اعتراض حدیث کو حدیث ہونے سے خارج نہیں کرتا۔
اور کھجور کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا ویسا نہیں ہوا تو یہ بالکل قرآن کے مطابق ہے:
وَلَا تَقُولَنَّ لِشَایءٍ اِنِّی فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا
(سورت الکہف 18 آیت 23)
’اور کسی کے کام کے بارے میں یہ نہ کہا کرو کہ کَل اس کو کروں گا۔‘
جیسا روح اور ذو القرنین اور اصحابِ کہف کے سوال کے موقع پر حضور نے کہہ دیا تھا کہ کَل جواب دوں گا اور پھر کَل جواب نہیں دیا۔ اس آیت سے وہی بات ظاہر ہو رہی ہے جو حدیث سے ظاہر ہو رہی ہے۔ اور جس طرح یہاں یہ بات نبوت کے منافی نہیں ہے اسی طرح وہاں بھی نبوت کے منافی نہیں ہے۔
اس سارے بیان کا حاصل یہ ہیں کہ حدیث پر جتنے اعتراضات ہے اسی نوعیت کے اعتراضات قرآن پر وارد ہوتے ہیں۔ تو جس طرح قرآن کو قرآن ہونے سے ان اعتراضات کی بنا پر خارج نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ان اعتراضات کی بنا پر حدیث کو حدیث ہونے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ تم کہتے ہو حدیث میں یہ بات ہے اس بات کی وجہ سے ہم نہیں مانتے۔ ہم کہتے ہیں یہی بات قرآن کی آیت میں بھی ہے تو چاہیے کہ اس کو بھی نہ مانو اور یہ بیان تمام اعتراضات حدیث کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ حدیث کو اس وقت نہیں مانا جائے گا جب خبرِ واحد کو قبول کرنے کے شرائط مفقود ہو جائیں۔ قرآن کو اس وقت نہیں مانا جائے گا جب خبرِ متواتر کے شرائط مفقود ہو جائیں۔ خبر کے صحیح ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ فی نفسہٖ مستحسن ہو، اچھی ہو، معقول ہو۔ بلکہ خبر کے صحیح ہونے کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ جس کی طرف سے خبر دی جا رہی ہے اس تک اسے ثابت کر دیا جائے، خبر کی ذمہ داری قائل پر ہے۔ جو شخص نقل کر رہا ہے اس کی ذمہ داری صرف نقل کی صحت پر ہے اور نقل کی صحت پر بارہ سو سالہ اجماع بالکل کافی اور وافی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک بات فی نفسہٖ حُسن ہے، اچھی ہے، واقعہ کے مطابق ہے، حق ہے لیکن جس شخص کی طرف سے اس کو نقل کیا جا رہا ہے در حقیقت اس کا قول نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک بات ہماری عقل میں معقول ہو اور قائل کا قول نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک بات ہماری عقل میں نہ آئے اور وہ قائل کا قول ہو۔ تو یہ کہنا کہ جو حدیث قرآن کے مطابق ہے اسے مانیں گے اور قرآن کے مطابق نہیں ہے اسے نہیں مانیں گے، غلط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو حدیث قرآن کے مطابق ہے وہ فرمانِ رسول صل اللہ علیہ و سلم نہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ جو حدیث قرآن کے مطابق نہ ہو وہ قولِ رسول ہو۔
تیسرا سوال: جب کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قولِ رسول حجت ہے اور احادیث شرعاً حجت ہیں اور دین یا دین کا جُز ہیں تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس طرح قرآن کو لکھوا کر قوم کو دے دیا اسی طرح احادیث کے مجموعے کو بھی لکھوا کر دینا چاہیے تھا، لکھوا کر کیوں نہیں دیا؟
جواب: حدیث کے مجموعے کو اس لیے نہیں لکھوا کر دیا کہ احادیث کا مجموعہ وحی غیر کتاب ہے، کسی زمانے کے نبی نے وحی غیر کتاب کو لکھ کر نہیں دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی طرف وحی کی:
وَاُوحِیَ اِلیٰ نُوحٍ
(سورت ھود 11 آیت 36)
اور اس وحی کے متعلق تمام واقعات بیان کرنے کے بعد فرمایا:
مَا کُنتَ تَعلَمُہَا أَنتَ وَلَا قَومُکَ مِن قَبلِ ہَذَا
(سورت ھود 11 آیت 49)
’تُو اور تیری قوم اس سے پہلے ان واقعات کو نہیں جانتی تھی۔‘
نبی کی قوم سارا عالَم ہے اور جب کہ سارا عالَم حضرت نوح والی وحی سے ناواقف ہے، تو ضرور بالضرور وہ وحیاں جو غیر کتاب تھیں وہ لکھی نہیں گئیں۔ اگر لکھی جاتیں تو یہود یا نصاریٰ کوئی نہ کوئی قوم ان لکھی ہوئی وحیوں پر مطلع ہوتی۔
اس کے بعد میں کہتا ہوں کہ احادیث میں زیادہ تر اعمال کا ذکر ہے، اعمال ایسی چیز ہے کہ وہ پڑھنے پڑھانے سے زیادہ تعلق نہیں رکھتے۔ اعمال تو کرنے کی چیز ہیں اس لئے عمل کو نہیں لکھوایا، بلکہ عمل کی پریکٹس (مشق) کرا دی۔ عمل کو یاد کرانا، یا پڑھوانا، یا لکھوانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ عمل کو تو کرانا مقصود ہوتا ہے، اس لئے حدیث پر عمل کرایا اور اس کی مشق کرا دی فرمایا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ نے:
صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی أُصَلِّ
’جس طرح میں نماز پڑھتا ہوں اسی طرح تم بھی نماز پڑھو۔‘
یعنی عمل کی مشق کرائی، یہ نہیں کہا کہ اس حدیث کو یاد کر کے لکھو۔ لیکن بعد میں زمانہ ایسا آیا کہ بد عملی بڑھی تو نصیحت کی باتیں جن لوگوں کو یاد تھیں انہوں نے لکھ لیں تاکہ نصائح مفقود نہ ہو جائیں۔ اور قرآن میں قصص اوّلین اور جملہ عقائد ہیں وہ یاد نہیں رہ سکتے تھے، اس لئے ان کو لکھنے کا حکم دیا۔
اس کے علاوہ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کو لکھوا کر دیا، تو یہ لکھ کر دینے کا حکم کہیں قرآن میں نہیں ہے، جہاں ہے:
اُتلُ مَاۤ اُوحِیَ
(ھود 46)
’پڑھ جو وحی کی گئی۔‘
وَاِذَا قُرِئَ القُراٰنُ فَاستَمِعُوا لَہٗ
(سورت الاعراف 7 آیت 204)
’جب قرآن پڑھا جائے تو سُنو۔‘
کہیں یہ نہیں کہ قرآن لکھو۔ پھر جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کو لکھوا کر دیا یہ کس وجہ سے دیا؟ یا تو وحی کے ذریعہ ان کو حکم ہوا کہ قرآن لکھوا دو۔ اگر ایسا ہے تو وحی غیر قرآن اور وحی غیر متلو ثابت ہو گئی، اور اگر بغیر وحی کے کیا تو ان کی رائے حجت ہو گئی، لہذا ان کی رائے سے قرآن لکھا گیا اور ان ہی کی رائے سے حدیث نہیں لکھی گئی، دونوں جگہ ایک ہی چیز کار فرما ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ وحی ہوئی کہ قرآن لکھوا دو، اسی طرح یہ وحی ہوئی کہ حدیث نہ لکھواؤ۔ اور اگر ذاتی رائے یہ ہوئی کہ قرآن لکھواؤ تو بیشک ذاتی رائے یہ بھی ہوئی کہ حدیث نہ لکھواؤ۔
چوتھا سوال: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُونَ
(سورت الحجر 15 آیت 9)
’ہم نے نصیحت نازل کی اور ہم ہی اس کے نگہبان اور محافظ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور حدیث محفوظ نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے، بس وہی چیز دین ہے اور وہ چیز محفوظ ہے۔ اور حدیث چونکہ محفوظ نہیں ہے اس لئے نہ خدا اس کا محافظ ہے نہ ذکر ہے نہ دین؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے ذکر یعنی نصیحت کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے اور اس کا وعدہ سچا ہے وہ ذکر اور نصیحت کا محافظ ہے اور ذکر اور نصیحت قرآن اور حدیث دونوں میں ہے لہذا دونوں محفوظ ہیں، قرآن بھی محفوظ اور حدیث بھی محفوظ ہے۔ بلکہ قرآن کے محافظ تو ایک فی صدی مشکل سے ملیں گے اور حدیث کے معانی کے حافظ ساری قوم ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ مسواک سُنت ہے، عید کے دن روزہ حرام ہے، زنا کی سزا رجم ہے، صبح کی نماز کی دو سُنتیں ہیں، ظہر کی چھ سُنتیں ہیں، قبر میں نکیرین سے سوال جواب ہو گا، عذابِ قبر، ثوابِ قبر حق ہے۔ غرض یہ کہ معاملات اور عبادات کے جو طریقے حدیث نے بتائے ہیں وہ ہر عالِم اور جاہل کے حافظے میں محفوظ ہیں۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اس نے دین کو محفوظ کر دیا ہے، ہر شخص حافظِ سُنت ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ حدیث غیر محفوظ ہے، بالکل غلط ہے، حدیث عملاً محفوظ ہے، قرآن تلاوتاً محفوظ ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...