(Last Updated On: )
آہنی نظریے کی کمیں گاہ سے چھپ کے حملہ کرو
اور معصومیت کی سزا دو مجھے
اپنے دانتوں سے کھودو مرے جسم میں خون کی تہہ تک
بربریت کا گہرا کنواں
ہاں مگر آنکھ کے طاق میں نظم کا دیپ رکھے ہوئے
آؤں گا میں در آسماں کے بڑے چوک سے
اگلی رت میں شہیدوں کے تہوار پر
عہد کے سرخ پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
اپنے رنگوں کے چھینٹے اڑاتے ہوئے
شعر کے لفظ بن جائیں گی
آسماں کی طرح یہ کشادہ زمیں
اپنے سینے میں ا۔ ترے ہوئے، کوہ کی میخ کو
کھینچ کر پھینک دے گی پر
اور پھر نظریے کی کمانی سے چلتی ہوئی سانس کا قاعدہ
پانیوں کے ہرے معجزوں کے نمو میں
بدل جائے گا
٭٭٭