(Last Updated On: )
متواتر بجنے والی ڈور بیل اس وقت صور اسرافیل سے مشابہ تھی ۔ اس غضب کی سردی میں گرم گرم کمبل چھوڑ کر نکلنا کس قدر تکلیف دہ اور ناخوشگوار عمل تھا ، یہ کوئی اس وقت رازی فاروقی سے پوچھتا ۔
اس نے دو تین دفعہ پیروں کی طرف کمبل میں لیٹے احراز کو جھنجھوڑا مگر کوئی جنبش نہ ہوئی اور دائیں طرف لیٹے بابر سے اٹھنے کی توقع رکھنا عبث تھا ۔وہ تو جاگ ھی جاتا تو غنیمت تھا کجا کہ اتنی سردی میں صبح سویرے بیرونی گیٹ تک جانا۔رازی بڑبڑاتے ہوئے اٹھا ۔ کمبل پرے پھینکا ۔ اگر معمولات میں سے ہوتا تو بات اور تھی اب جبکہ وہ رات کو بارہ بجے گھر پہنچا تھا ، احراز اور بابر سے باتوں میں تین بج گئے اور ابھی نیند بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ صبح سات بجے بیل بجنا شروع ہوگئی۔
اسنے رسٹ واچ آنکھوں کے قریب کر کے ٹائم دیکھا ، پھر ان دونوں بے خبروں کو گھور کر دیکھا اور سلیپرز پہن کر باھر نکلا ۔ باھر موسم نے مزید موڈ خراب کر دیا ۔ دھند اس وقت دبیز تھی کہ دن بمشکل دکھائی دے رھا تھا ۔اس نے دانت بھینچ لیے ۔
وہ کوفت ذدہ سا گیٹ کی طرف بڑھا اور جھٹکے سے گیٹ کا دروازہ کھولا ۔
“اسلام و علیکم، زرا جلدی سے ایک انڈہ دے دیں ” نسوانی آواز ، بے تکلف مگر عجلت آمیز لہجہ ۔
رازی کا تو دماغ بھک سے اڑ گیا ۔صبح سویرے اتنی سخت سردی میں کوئی اس قدر فضول فرمائش کرے تو کیا حال ہو سکتا ھے ! اس کی مندی ہوئی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں’ خاصی ناگواری سے سامنے موجود نسوانی پیکر کو گھورا ۔
“کیا بکواس ھے یہ ؟” وہ سرد لہجے میں بولا تو وہ چونکی۔
“ارے ! انڈہ ھی مانگا ھے نا ، جلدی سے دے دیں ” وہ جیسے اسے چغد سمجھ رھی تھی ۔
” میں نہ تو مرغی ہوں اور نہ ھی میرا اس عہدے پر تفویض ہونے کا کوئی ارادہ ھے ” وہ سخت غصیلے لہجے میں بولا تو عنبر نے مشکوک ۔نظروں سے اسے دیکھا ، کل تو یہ شکل یہاں موجود نہیں تھی ۔
“اس عہدے کی آس بھی مت رکھئیے گا کیونکہ آپ مرغی کا مذکر تو ہو سکتے ہیں مگر مرغی نہیں” وہ اسے چڑاتے ہوئے بھاگنے کے انداز میں پلٹ گئی۔رازی اس اجنبی لڑکی کی اس قدر بے تکلفی اور بدتمیزی پر ہکا بکا کھڑا تھا، یکدم ہوش میں آیا۔
“اسٹوپڈ..” وہ زوردار انداز میں گیٹ بند کر کے اندر کی طرف بڑھا ۔ ساری نیند رفو چکر ہو گئی تھی ۔اس قدر فضول اور بدتہذیب لڑکی ۔ پھر سے ہیٹر لگے کمرے میں میں پہنچ کر دماغ کو مزید گرمائی ملی ۔ وہ فوراً ھی بیڈ پر دوبارہ لیٹ گیا اور کمبل لپیٹ کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگا۔
“یار ! مجھ سے یہ سوکھی ڈبل روٹی نہیں کھائی جاتی ” رازی نے بابر کے بنائے ہوئے ناشتے کی پلیٹ کو ناگواری سے پرے کھسکا کر کہا تو وہ دھپ سے کرسی پر بیٹھ گیا ۔
“بھائی!!! میں آپکا چھوٹا بھائی ہوں آپکی نصفِ بہتر نہیں ہوں جو آپ کو مزے مزے کے پراٹھے بنا کر کھلاؤں”
وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
” نصفِ بہتر نہیں نصفِ بدتر ، یعنی نصفِ بہتر کم از کم پراٹھا تو بنا ھی لیتی ھے ناں مگر جس کے بنائے ہوئے ناشتے کو حقارت سے ٹھکرا دیا جائے وہ تو نصفِ بدتر ھی کہلائے گا ناں !!”” احراز اطمینان بھری شرارت سے بولا تو بابر تلملا اٹھا۔
“شٹ اپ۔۔۔”
” یو شٹ اپ۔۔۔” وہ بھی اسی کی ٹون میں بولا تو مجبوراً بیزار بیٹھے ہوئے رازی کو دخل اندازی کرنا پڑی۔
“دونوں بکواس بند کرو”
“بھائی آپ اسے تو کچھ کہتے نہیں ہیں …” بابر نے چڑ کر احراز کو گھورا ۔
” یہ تو اپنی اپنی لک ھے ،کیوں بگ برادر!!!” احراز اسے مزید چڑانے کے لیے ہنسا تو رازی غصے سے اسے دیکھنے لگا۔
” تم لوگ اپنی اسٹڈیز پر بھی دھیان دے رھے ہو یا بس ان لطیفوں پر ھی گزارہ کر رھے ھو؟” وہ سنجیدگی سے بولا۔
دونوں نے معنی خیز انداز میں ایک دوسرے کو دیکھا۔
(وہ دونوں ٹوئنز تھے، دونوں میں بےحد دوستی بھی تھی مگر لڑتے بھی اتنا ہی تھے ۔ رازی ان سے دو سال بڑا ہونے کے سبب ان پر خوب رعب جماتا تھا ۔وہ طبیعت کے لحاظ سے خاصا ریزروڈ تھا۔ اس کی یہی سخت گیری ان دونوں کو تھوڑا سا قابو میں رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی تھی ۔مگر بعض اوقات وہ اسکی اس سختی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔)
“واہ بگ برادر ! اسکول سے لیکر کالج تک کون فرسٹ آتا رھا ھے !!” بابر تو تڑپ اٹھا تھا اس قدر مشکوک سوال پر۔
” ہاہ__ فرسٹ ” احراز استہزائیہ انداز میں بولا اور رازی کی طرف متوجہ ہوا۔
” بابر کے کہنے کا مطلب یہ ھے بھائی کہ یہ ہمیشہ اسکول اور کالج میں فرسٹ آتا تھا یعنی اسکول کا ٹائم آٹھ بجے کا ہوتا تو یہ ایک گھنٹہ پہلے وہاں پہنچ جاتے تھے ، کالج میں بھی انکی یہی تھی ” وہ شریر مسکراہٹ کے ساتھ بتا رھا تھا۔
“احراز کے بچے___” بابر نے دانت پیسے تو رازی ہنس دیا۔
“کمال ھے یار ، میں تو تمہاری تعریف کر رھا ہوں” وہ بدستور شرارت کے موڈ میں تھا۔
اور تم ! اپنا بھی تو بتاؤ کہ تم لیٹ نائٹ آتے ہو” بابر نے بھی حساب کتاب پورا کیا اور اسکا بھانڈا پھوڑا۔
“کیوں !” رازی نے گھورتے ہوئے احراز کی طرف دیکھا ۔
” وہ __ اصل میں بھائی__ میں وہ ریسرچ کر رھا تھا ” اس سے فلحال یہی جواب بن پایا ۔
” مائرہ خان اور مہوش حیات پر” بابر نے باقی کے مرچ مصالحے بھی لگائے تو احراز نے نگاہیں جھکا لیں ۔
“وھاٹ !!!” رازی کو دھچکا لگا۔ بے یقینی سے احراز کو دیکھا تو وہ سٹپٹا گیا۔
“بھائی بس دو دفعہ سنیما گیا ہوں وہ بھی دوستوں کے اصرار پر” اس نے فوراً ھی صفائی پیش کی تو وہ گہری سانس لیکر رہ گیا۔
“خیر اب میں آگیا ہوں تو تم دونوں کو درست کردوں گا”
“یوں کہیں ناں کہ ہمارا سارا سیٹ اپ،اپ سیٹ کرنے آئے ہیں” بابر منہ ھی منہ میں بڑبڑا کر اپنی پلیٹ پر جھک گیا۔
“ویسے بھائی آپ تو ڈنمارک سے سیدھا اسلام آباد اترے تھے تو دادو کو ساتھ کیوں نہیں لائے ؟” احراز نے رازی سے پوچھا ۔
” آپی بشریٰ کہاں آنے دیں گی انہیں ابھی” رازی نے اپنی چچازاد بہن کا نام لیا ۔
” کمال ھے کہاں تو دادو آپکے آنے کے دن گنتی تھی اور کہاں یہ کہ آپ آگئے اور آپکو اکیلے بھیج دیا” بابر حیرانگی سے بولا۔
” بس ہفتہ ھی رہیں گی وہاں ۔۔۔ اور احراز اٹھو اور جلدی سے میرے لیے پراٹھا بنا کر لاؤ شاباش” اس نے بات ختم کرتے ہوئے احراز پر حکم جمایا تو وہ بدک گیا۔
“ہیلو !” اسی لمحے دلکش نسوانی آواز پر تینوں کی گردن جھٹکے سے مڑی تھی۔
“اوہ ۔۔۔ یار کیا کمال کی ٹائمنگ ھے آپکی” بابر فوراً اٹھ کر اس کی طرف بڑھا۔
“اب جلدی سے ایک خوبصورت سا پراٹھا بنا لائیں “
“وہ تو میں لے آؤں گی مگر کھائے گا کون ؟” عنبر اطمینان سے بولی۔
رازی اچھنبے سے ان کی بے تکلف گفتگو سن اور دیکھ رھا تھا۔
“بھئ آپکو اس سے کیا !” احراز اس بار تھوڑا خفگی سے بولا تھا۔
“اگر میرے ہاتھ کا بنا پراٹھا کھانے کا اعزاز ‘ یہ صاحب ‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سوری ” اس نے رازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صاف گوئی کا عظیم الشان مظاہرہ کیا تو وہ تپ سا گیا ۔
“عنبر !” وہ دونوں احتجاجاً بول اٹھے تھے۔
“کیوں ! اپنی دفعہ بھول گئے انہوں نے کیا کیا تھا ، ایک انڈہ ھی تو مانگا تھا ۔۔۔ انہوں نے تو صاف کہہ دیا کہ میں مرغی نہیں ہوں” وہ چمک کر بولی تو رازی فوراً سمجھ گیا کہ یہ وہی لڑکی ھے ۔
“یہ تو بلکل سچ کہا تھا بھائی نے “
“ہاں میرا بھی یہی خیال ھے کیونکہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو ہمارے علم میں ضرور ہوتی ، کیوں بگ برادر!” احراز بہت معصومیت سے رازی کی طرف دیکھ رھا تھا ۔
وہ دانت کچکچانے لگا ، ایک دم سے اسے شدید غصہ آیا اور وہ کرسی دھکیلتا کھڑا ہوگیا ۔
“شٹ اپ ، اور تم فوراً یہاں سے دفعہ ہو جاؤ” رازی نے ان دونوں کو خاموش کروایا اور عنبر کو باھر کا راستہ
دکھایا ۔
” کیوں جی ! آپ دو دن میں ھی یہاں قبضہ جمانے لگے ، جبکہ میں پچھلے دو سال سے یہاں آ رھی ہوں ” وہ تنک کر بولی۔
رازی کو رتی بھر بھی شبہ نہیں تھا کہ وہ بولے گی ۔وہ تپ گیا۔
“وہ اس لیے کہ میں یہاں نہیں تھا ، اب میں آگیا ہوں تو اس گھر میں فضول لوگوں کا آنا جانا بند ہو جائے گا ” وہ سرد لہجے میں بولا ۔
“چچ چچ ۔۔۔ پھر آپ کہاں جائیں گے !!!” عنبر نے نہایت معصومیت سے سوال کیا تو احراز اور بابر کو ہنسی آگئی مگر چونکہ فلحال ہنسنا خطرے سے خالی نہیں تھا تو سر جھکا لیے۔
“دیکھیے! آپ کے لیئے اچھا ہوگا کہ یہاں سے چلی جائیں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ” رازی نے بمشکل خود پر قابو پا کر کہا ورنہ اسکا بس نہیں چل رھا تھا کہ اس منہ پھٹ اور بدتمیز لڑکی کے منہ پر کم از کم ایک تھپڑ تو مار ھی دے _
“آپ میرا اچھا سوچنے والے کون ہوتے ہیں ‘ میں اپنا اچھا برا خوب جانتی ہوں اور رہ گئی آپ کے برے ہونے کی بات تو اس سے میں بھی سو فیصد متفق ہوں” وہ رازی کو اس قدر اطمینان سے چڑا رھی تھی کہ حد نہیں۔
“دیکھیے، اب میں برداشت نہیں کروں گا ” رازی نے انگلی اٹھا کر وارننگ دینے والے انداز میں کہا ۔اس کی سیاہ آنکھیں غصے سے بھری تھیں ۔
“اس مرض کی دوا ڈاکٹر ھی دے سکتا ھے ، میرے بس میں نہیں ھے ” وہ تمسخرانہ انداز میں بولی تو رازی سے مزید برداشت نہیں ہوسکا ۔
“احراز اس سے کہو کہ جائے یہاں سے۔۔۔” وہ دانت پر دانت جما کر بولا ،احراز نے فوراً عنبر کے سامنے مظلوموں والی شکل بنائی۔
“جا رھی ہوں ۔۔۔” وہ گویا احسانءعظیم کرنے چلی تھی ۔پھر ایک جلانے والی نظر رازی پر ڈالی ۔
“مگر یہ نہ سمجھئیے گا کہ آپ کے ڈر سے جا رھی ہوں ” ۔
عنبر کے جانے کے احراز اور بابر ایک دوسرے سے الجھ پڑے کیونکہ یہ رازی کی ڈانٹ سے بچنے کا واحد راستہ تھا ۔ احراز نے بابر کو جھاڑنا شروع کردیا ۔
“کون ھے یہ لڑکی ؟” رازی نے خاصے غصے میں پوچھا ۔
“عنبر ” بابر نے نہایت سکون سے جواب دیا۔
” ھے کون ؟؟” وہ بمشکل ضبط کر رھا تھا ۔
“مسلمان ” اب کی بار احراز نے معصومانہ شکل بنا کے جواب دیا ۔ بابر بے ساختہ ہنس پڑا ۔جبکہ رازی مسلسل ان دونوں کو گھور تھا ۔
” بھائی وہ سامنے والے گھر میں رہتی ھے ، دادو کی ان لوگوں سے خاصی جان پہچان ھے اور عنبر سے بھی ہماری بہت اچھی فرینڈشپ ھے دو سال سے ۔۔۔” وہ روانی سے بتانے لگا ۔
“دادو کو اس قسم کے لوگوں سے دوستیاں کرنے کا بہت شوق ھے ” وہ چائے کپ میں انڈیلنے لگا ۔
بابر بہت محتاط انداز میں بولا ” ویسے بھائی اگر دادو کو کوئی آپ کے اس جملے کے متعلق بتا دے تو وہ اچھا خاصا مائنڈ کر سکتی ہیں “
جواباً رازی ابرو اچکا کر اسے گھورنے لگا ۔
” انہیں کون بتائے گا !!” وہ سٹپٹا گیا۔
” یہ __ یہ احراز بتا سکتا ھے ” بابر کو جلدی میں احراز کا نام ھی ملا ۔
“کیوں ؟ میں ایسے ھی !!! ” احراز تو تڑپ اٹھا تھا۔
“اچھا بس کرو اب ، خاموش ہو جاؤ دونوں ” رازی نے سختی سے کہا تو وہ دونوں سر جھکا کر ناشتے میں مصروف ہو گئے۔
“وہ لڑکی آئندہ مجھے یہاں نظر نہ آئے ” رازی کے دماغ میں شائد ابھی تک وہ گھوم رھی تھی ، تبھی ایک دم سے بول پڑا۔
” پھر تو بہت مشکل ہو جائے گی بھائی! وہ تو تقریباً سو چکر لگاتی ھے یہاں کے ، عادت بن چکی ھے ناں اسکی اب تو ۔۔۔ اور دادو کو بھی اسکی عادت ھے ۔”
“کیا !!! وہ ھر وقت ادھر ھی رہتی ھے ؟ اسے اپنے گھر میں کوئی کام وام نہیں ھے کیا ؟؟؟” وہ خاصا حیران ہوا۔
” جی __ وہ ایکچوئلی ، اس کی مام کی ڈیتھ ہو چکی ھے ، اور وہ اپنے چچا اور چچی کے ساتھ ھی رہتی ھے ، ڈیڈ اس کے باھر ہوتے ہیں ۔ دادو کے ساتھ اسکی اچھی خاصی دوستی ھے اس لئے زیادہ تر وہ دادو کے پاس ھی رہتی ھے ” نہایت تفصیل سے بابر نے اسے بتایا ۔
“ہوں !” وہ تفہیمی انداز میں بولا۔
البتہ چہرے کے ناگوار تاثرات صاف بتا رھے تھے کہ یہ باتیں اسے بلکل بھی نہیں بھائیں ۔