جس طرح اردو افسانوی ادب میں ۱۹۷۰ کے بعد ایک خاص تبدیلی آئی یعنی آٹھویں دہائی کے افسانہ نگاروں نے ایک نئی راہ اختیار کرتے ہوئے خود کو ترقی پسند تحریک اور جدید رجحان سے الگ کر کے اپنی شناخت قایم کی اسی طرح اس دور کے نوجوان شعرا نے بھی اپنی علاحدہ پہچان بنانے کی کوشش کی۔ فریاد آزر ان ہی نوجوانوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے تقریباً آٹھویں دہائی میں اپنی شاعری کی ابتدا کی اور بہت جلد اپنے منفرد موضوعات کی وجہ سے دہلی کے ادبی حلقوں میں مشہور ہو گئے۔ انہیں بے باک شخص، شاعر و نقاد پروفیسر عنوان چشتی کی ادبی سرپرستی بھی حاصل رہی جس کی وجہ سے ان کے لہجہ میں بے باکی پیدا ہو گئی۔ میں فریاد آزر کو ذاتی طور پر چار دہائیوں سے جانتا ہوں، ان کے یہاں ٹھہراؤ نہیں ہے، خوب سے خوب تر کی جستجو مسلسل جاری رہتی ہے، کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ہمیشہ رہتا ہے:
وہ جواں تھا تو بزرگوں کو سمجھتا تھا غلط
اب وہ بوڑھا ہے، جوانوں کو غلط کہتا ہے
فریاد آزر کے اندر جذبات و احساسات کے ابلتے لاوے نے ان کی شاعری میں ایسی تپش پیدا کر دی ہے جو مردہ احساسات کو گرماتی ہے، ان کے اشعار انسان کے اس کرب کی عکاسی کرتے ہیں جن سے آج کا انسان جوجھ رہا ہے:
بے بسی سے مری بے حس نہ سمجھ لینا مجھے
دل میں وہ لاوا ابلتا ہے کہ رب جانتا ہے
لوگ راون کے پنر جنم سے واقف ہی نہیں
کتنے معصوم اسے رام سمجھ بیٹھے ہیں
پھر بیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین
اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر
زہر پینا ہی پڑے گا ہمیں اپنا اپنا
اب کوئی دوسرا شنکر نہیں آنے والا
وہ امن و آشتی کا نام لے کر
جہاں میں اپنا ڈر پھیلا رہا ہے
لوگ یوں ہی نہیں بدنام سمجھ بیٹھے ہیں
ہم خرافات کو اسلام سمجھ بیٹھے ہیں
فریاد آزر جس دور سے گزر رہے ہیں یا گزر چکے ہیں وہ تاریخ کا ایسا دور ہے جس میں بظاہر انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہوا چاند پر پہنچ گیا ہے لیکن بباطن آج اکیسویں صدی میں آ کر بھی وحشیانہ زندگی جی رہا ہے۔ عراق، افغانستان، فلسطین، بوسنیا، چچنیا، لیبیا، شام اور مصر جیسے ممالک میں مظلوموں کی آہوں اور ظالموں کی بم باری نے تخلیقی فن کار کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس جھنجھلاہٹ کا اظہار فریاد آزر کی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے:
سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحنِ چمن میں زہر بونے کا
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا
درد صدیوں سے مرا نام ونسب جانتا ہے
یم بہ یم، صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا ہوا
آتشِ نمرود میں سارا جہاں جلتا ہوا
پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں
عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہا کے لہجے میں
میری تہذیب مرے نام پہ حملہ آور
وہ کبھی مصر، کبھی شام پہ حملہ آور
فریاد آزر کا بسیرا اس شہر میں ہے جہاں پورے ہندستان بلکہ عالم کی تصویر دکھائی دیتی ہے، اس لئے ان کے مشاہدات میں وسعت ہے، تجربات میں گہرائی ہے۔ وہ اپنے مشاہدات، مطالعات اور تجربات کی کی روشنی میں احساسات کو شعوری پیکر عطا کرتے ہیں۔ فریاد آزر کے موضوعات محدود نہیں ہیں، وہ ہر موضوع کو شعر کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ موضوعات کی پیش کش میں ان کے یہاں میر اور ناصر کاظمی کی سی سادگی ہے۔ وہ بڑی فن کاری سے تشبیہات و استعارات اور تلمیحات کو اپنی غزل کا حصہ بنا لیتے ہیں:
نوح کی امت ہے اپنے جسم کی کشتی میں اور
خواہشوں کا ایک بحرِ بے کراں جلتا ہوا
زمیں پہ آمدِ جبریل ختم ہو بھی چکی
ندائے صورِ سرافیل ہونے والی ہے
ہزاروں ابرہا لشکر سجا رہے ہیں تو کیا
ہوائے سبز ابابیل ہونے والی ہے
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
فریاد آزر کے یہاں ہندو تہذیب کا عکس بھی ملتا ہے اور اسلامی تاریخ کی جھلک بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ان کے وسیع مطالعہ اور مشاہدہ کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کی غزل غمِ دوراں اور غمِ جاناں کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے، وہ کہیں فریادی نظر آتے ہیں اور اپنے عہد کا دکھ بیان کرتے ہیں، کہیں آزر بن کر اپنے محبوب کا بت تراشتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ فریاد آزر اس عہد کے ایسے انوکھے شاعر ہیں جن کا ایک ایک شعر نئے موضوع پر مبنی ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو دہراتے نہیں، لیکن جو موضوع انھیں بہت زیادہ متاثر کرتا ہے ان پر مزید اشعار بے شک کہتے ہیں لیکن الگ انداز میں۔ ان کے دو مجموعے ان کی نوجوانی کے دور میں شائع ہوئے اور حیرت ہوتی ہے کہ جس عمر میں نوجوان عموماً حسن و عشق کی شاعری کی حدود سے باہر نہیں نکلتے، فریاد آزر ملکی اور عالمی پیمانہ پر ہو رہی ظلم و زیادتی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے نظر آتے ہیں، بارود اور ملوں کی چمنیوں سے نکلتے دھوئیں سے ان کا دم گھٹتا نظر آتا ہے اور وہ اس کے خلاف چیخ بھی بلند کرتے ہیں جو اردو غزل میں ناپید ہے، فضائی آلودگی، آبی آلودگی، زمینی آلودگی یہاں تک کہ امکانی خلائی آلودگی کے خلاف بھی وہ صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
اہلِ صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
بدن صبا کا بھی یکسر دھوئیں میں لپٹا ملا
نسیم بھی لئے گرد و غبار گزری ہے
اس قدر سبز درختوں کو نہ کاٹو کہ کہیں
سانس لینے کو ترس جائے ہوا بے چاری
کیسے آلودہ فضاؤں سے بچے بادِ نسیم
کیسے مسموم نہ ہو جائے صبا بے چاری
مجھے یقین ہے کہ فریاد آزر کی شاعری اردو شاعری کی تاریخ میں خود اپنا مقام متعین کرے گی اس لئے کہ ان کا لب و لہجہ، موضوعات اور ان کی پیش کش اپنے ہم عمروں اور ہم عصروں سے منفرد ہے۔
٭٭٭