خواجہ محمد عارف
اپنی یہ صورتِ حالات ہے میرے مولاؐ!
زیست ہجرت کی سی اک رات ہے میرے مولاؐ!
جہل و عصیاں کے قبیلوں نے مجھے گھیر لیا
دل ہے اور نرغۂ آفات ہے میرے مولاؐ!
جھونک دوں چشمِ عدو میں جو وہی خاک ملے
پر تہی اس سے مِرا ہاتھ ہے میرے مولاؐ!
امن کے شہر میں بھی کوئی نہیں جائے اماں
تجھ کو معلوم ہر اک بات ہے میرے مولاؐ!
ہم سفر کوئی بھی صدّیقؓ نہیں ہے اپنا
دل بہت حاملِ صدمات ہے میرے مولاؐ!
کوئی حیدرؓ سا جو مل جائے تو سونپوں اس کو
دوش پر بارِ امانات ہے میرے مولاؐ!
جب بھی جاؤں میں کسی غار میں ، کھلتا ہے یہی
یہ پنہ گاہ نہیں ، گھات ہے میرے مولاؐ!
غم کے تپتے ہوئے صحرا میں نہ سایہ ہے نہ آب
گرمی و گرد کی بہتات ہے میرے مولاؐ!
اپنی زنبیلِ عمل میں کوئی ستّو نہ کھجور
زادِ رہ کچھ نہیں ، اک نعت ہے میرے مولاؐ!
چند قطرے ہی سہی آنکھ کے مشکیزے میں
دل میں اک قلزمِ جذبات ہے میرے مولا!
ہے بہت دُور ابھی مجھ سے قبا کی منزل
آبلہ پائی مِرے ساتھ ہے میرے مولاؐ!
اور کوئی بھی نہیں راہ دکھانے والا
اک خدا ، ایک تِری ذات ہے میرے مولاؐ!
کیا خبر جا کے کہاں ناقۂ عارفؔ بیٹھے
باگ اس کی ہے ، تِرا ہاتھ ہے میرے مولاؐ!
عرضِ عارفؔ کی ہے تفصیل کا اجمال کہ وہ
طالبِ لطف و عنایات ہے میرے مولاؐ!