(Last Updated On: )
ٹیرس پر کافی پیتے ہوئے عادل ایک طرف سے دوسری طرف چکر لگا رہا تھا،
جب گھر کا مین گیٹ کھلنے کی آواز آئی،عادل نےاس پلٹ کر دیکھا تو یہ علی تھا جو نور کو ڈراپ کرنے آیا تھا۔
علی گاڑی اندر کیوں لایا ہے، اتنی رات کو اندر کیوں آرہا ہے اب تک تو سب سو چکے ہوں گے،
عادل یہی سوچتے ہوئے غیر ارادی طور پر نیچے کی جانب چل دیا۔۔
عادل کے نیچے آنے تک علی گاڑی کو گھر کی مین انٹرس تک لے آیا تھا عادل کو باہر آتا دیکھ کر علی گاڑی سے نکل آیا، اس سے پہلے عادل کچھ کہتا علی خود سے ہی اپنی گاڑی کو یہاں تک لانے کی وجہ بیان کرنے لگا۔
پاؤں کی موچ کا سن کر عادل کو ہنسی آگئی،وہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے گویا ہوا۔
عادل: علی اس نے آپ کے ساتھ بھی لانگ جمپ سٹارٹ کر دی ہے؟؟
(ایک نظر نور پر ڈالتے ہوئے علی سے سوال کیا)
علی:نہیں وہ اندھیرا تھا اور گھاس بھی بہت زیادہ تھی اس جگہ پر تو نور کا جوتا ٹوٹ گیا۔
(علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور نور کی سائڈ کا دروازہ کھولتے ہوئے باہر نکلنے میں مدد کرنے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا )
نور خود کو سنبھالتے ہوئے بنا مدد لیے باہر نکل آئی مگر زیادہ دیر کھڑی نہ ہو سکی۔ اس سے پہلے کہ نور گر جاتی نور کی دونوں بازوں کو مضبوط ہاتھوں نے تھام لیا تھا۔
دائیں جانب عادل اور بائیں بازو کو علی نے گرفت میں لے لیا تھا-
نور نے چونک کر عادل کی جانب دیکھا وہ حیران تھی اس بدلے ہوئے عادل کو دیکھ کر وہ ایک لمحہ میں نہ جانے کیا کچھ سوچ گئی تھی۔
علی: نور کیا کرتی ہو گر جاتی تو،
(علی نے پریشان ہوتے ہوے نور سے سوال کیا)
عادل:اسکو ایڈونچر کا بہت شوق ہے نا اس لیے ایسا کرتی ہیں میڈم فکر نہ کرو جلدی جان لو گے کہ یا کیا کچھ کرتی ہے
(نور کے بجائے عادل نے جواب دیتے ہوئے علی کے ہاتھ سے نور کی دوسری بازو بھی گرفت میں لے لی)
میں اسکو لے جاتا ہوں اندر آپ چاہو تو آجاو کافی پیتے ہیں۔
عادل نے محسوس کر لیا تھا کہ اسکی یہ حرکت علی کو ناگوار گزری ہے۔
اس لیے اچانک سے کافی پینے کی دعوت دے ڈالی۔
نہیں میں چلتا ہوں بہت تھک گیا ہوں پھر کبھی سہی علی نے عادل سے ہاتھ ملایا اور گاڑی کی ڈرئیونگ سیٹ کی جانب چل دیا۔
اس سب کے دوران نور عادل کے پہلو میں اس کے بازو کو تھام کے کھڑی ہو چکی تھی۔
وہ دونوں علی کو کھڑے ہو کر ہاتھ ہلاتے ہوئے خدا حافظ کرتے رہے جواب میں علی نے ایک بار ہاتھ باہر نکال کر اور اس کے بعد گاڑی کی پچھلی بتیاں جلا بجھا کر بائے کیا۔
آہستہ چلو عادل درد ہوتی ہے پلیز نا
نور نے آرام سے عادل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
کمرے کی طرف جاتے ہوئے عادل نے نور سے کوئی بات نہ کی ان دونوں کے پاس کرنے کو شاید کوئی بھی بات نہیں تھی وہ دونوں خاموش تھے اور اسی دوران نور کا کمرہ آگیا،
تم بیٹھو میں تمھارے لیے کوئی بام وغیرہ لاتا ہوں ہلنا نہیں یہاں سے میں ابھی آتا ہوں واپس، عادل جلدی سے پلٹ گیا باہر کی جانب اور نور اپنے بستر پر بیٹھ کر پاؤں کو بیڈ کے اوپر لانے کی خوشش کرنے لگی مگر درد کی شددت نے نور کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔
عادل گرم پٹی اور بام لے کر واپس آگیا اور بنا بولے ہی پاؤں کو اپنی گود میں رکھ کر بام لگانے لگا وہ ایسے کاموں میں مہارت رکھتا تھا فرسٹ ایڈ کی تربیت اسکول اور کالج کے زمانے میں ہی حاصل کر چکا تھا، وہ ایک بہت اچھا اسکاؤٹ بھی رہ چکا تھا ایسی چھوٹی موٹی چوٹ عادل کے لیے کوئی مشکل نہیں تھی، مگر نور کے لیے موچ بھی ایسی ہی تھی جیسے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی ہو ۔
نور رونا تو بند کرو عادل نے ناگواری سے نور کو دیکھا اور پٹی کرنے لگا، اس دوران نور نے اپنا چہرہ اپنے دوپٹے کے پلو میں چھپا لیا تھا۔
پٹی کرنے کے بعد عادل نور کو پینکلر دے کرعادل اپنے کمرے کی جانب چلا گیا وہ سونا چاہتا تھا اور کل کا دن اپنی ماں کے ساتھ رہ کر اچھے سے گزارنے کا خواہشمند تھا۔ ابھی وہ کمرے کے دروازہ کو کھولنے ہی والا تھا کہ اس کو ماں کی آواز سنائی دی جو عادل کو پکار رہی تھیں۔
عادل بیٹا سوئے نہیں کدھر سے آرہے ہو اس وقت بیٹا جی؟
زرینہ بیگم نے فکرمندی سے بیٹے کو دیکھتے ہوئے سوال کیا اور اشارہ سے اپنے پاس بیٹھنے کو بھی بولا،
بیٹا کھانا بھی اچھے سے نہیں کھایا تم نے اور اب اتنی رات کو جاگ رہے ہو۔۔
عادل: امی آپ بھی تو جاگ رہی ہیں نا ابھی تک تو میں کون سا دیر کر رہا ہوں بھلا،
(عادل ماں کے بیڈ کے پاس زمین پر بیٹھ گیا اور اپنا سر ماں کے قریب رکھ کر اور ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بوسہ لیتے ہوئے بولا)
زرینہ: بیٹا میری نیند تو بہت کم ہو گئی ہے رات رات بھر جاگتی رہتی ہوں تم بھی تو گھر سے اتنے دور ہوتے ہو میں کیسے سو سکتی ہوں،
( اپنے بیٹے کے سر میں ہاتھ گھوماتے ہوئے زرینہ بیگم نے جواب دیا)
عادل: امی آپ بھی نا کمال کرتی ہیں میں کوئی اب بچہ تھوڑا ہی ہوں، اوہ بچے سے یاد آیا آپکی چہیتی نور میڈم کے کمرے میں چھوڑ کر آرہا ہوں،(عادل نے آنکھیں بند کر لیں)۔۔
زرینہ بیگم: ہاں ہاں بہت بڑے ہو گے ہو نا مجھ سے بھی بڑے ہو نا ماں باپ تو اولاد کے لیے پاگل سے بڈھی بڈھا ہوتے ہیں نا، کیا ہوا ہے نور کو اور تم کمرے تک کیوں چھوڑنے گے وہ ٹھیک تو ہے نا
(زرینہ بیگم بیٹے کا کان کھنچتے ہوئے بولیں اور وہ نور
کے ذکر پر اچانک چونک گئی)۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو ہونے والے حادثہ نے صبح صبح اپنا اثر دیکھانا شروع کر دیا تھا، عادل ابھی سو کر نہیں اٹھا تھا کہ ماموں کے گرجنے کی آوازیں اس کو اپنے کمرے تک آتی سنائی دے رہی تھی۔
وقفہ وقفہ سے ممانی کی التجاوں بھری آواز سنائی دیتی تھی جو نور کی حمایت میں اٹھتی اور ساتھ ہی دب بھی جاتی تھی، عادل ابھی اٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے کمرے کے دروازے پہ دستک ہونے لگی۔
عادل اٹھو نور کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے پھپو بلا رہی ہیں جلدی سے آجاؤ، (بھابھی نے نہایت بےزاری سے زرینہ بیگم کا پیغام دیتے ہوئے درازے پر دستک دی)۔۔
صبیحہ بھابھی ایک نہایت توہم پرست اور وہمی عورت جن کو اپنے شوہر کے علاوہ گھر میں موجود ہر شخص سے خدا واسطے کا بیر تھا، نہ کسی سے ہنس کر بات کرتی نہ کسی بات کا سیدھے سے جواب دیتی تھی، گھر میں جس سے بھی بات کرتی اگلا انسان بات کے جلد ختم ہونے کی دعائیں ہی مانگتا رہتا تھا۔
بھابھی اپنی بھولی صورت سے خاور ماموں کے سامنے ہمیشہ ہی مظلوم بنی رہتی تھی۔
عادل بھابھی کے اچانک آنے سے بوکھلا گیا اور ایک دم سے بولا کہ جی بھابھی میں بس آرہا ہوں اور اٹھ کر بیٹھ گیا، بھابی کے ساتھ صبح سویرے بحث اور اس کے بعد دن بھر ان کا سامنا کرنے کی عادل میں کوئی ہمت نہیں تھی ۔
نور کا درد سے برا حال تھا لیکن اس سے زیادہ اس کو ابا کی ڈانٹ سن کر رونا آرہا تھا،
ابا میری کیا غلطی ہے ان کے گھر کی گھاس بھی اتنی بڑھی ہوئی تھی میں کیا کرتی،
(نور نے منمناتے ہوئے جواب دیا اور چور نظروں سے ابا کو دیکھنے لگی)۔
بیٹا تمھاری غلطی بھی ہے لیکن یہ علی اور عادل
،،،،،،،،،،
آنے دو ان دونوں کو میں خبر لیتا ہوں،
(بیٹی کے آنسو دیکھ کر خاور ملک بھی جیسے پگھل سے گئے تھے وہ اپنی بیٹی سے بے حد پیار کرتے مگر اس کا اظہار کرنا نہیں جانتے تھے ۔
اس دوران عادل بھی وہاں پہنچ چکا تھا اور اب خاور ملک کی
لفظی گولہ باری کا رخ عادل کی جانب تھا، مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم بھی ان دونوں کی طرح اتنے احمقوں والی حرکت کر سکتے ہو، علی کے تو کیا ہی کہنے وہ تو بس فوجی ہے، خیر فوجی تو میرے ابا بھی تھےمگر اب تو،
(بولتے بولتے وہ رک گئے وہ فوج کو کیا کہنے لگے تھےاس بات کے کرنے سے مرحوم ابا کی روح کانپ جائے گی)،
ہاں تو میں کہ رہا تھا کہ اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاو ویسے تو میں خود لے جاتا مگر ابھی میں اور منصور میٹنگ کے لیے جا رہے ہیں ۔
حکم نامہ جاری کر کے دونوں باپ اور بیٹا گھر سے چلے گئے اور ان کے جاتے ہی عادل نے سکھ کی سانس لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے ڈانٹ سنے کے بعد عادل اور نور دونوں ہی کے چہرے اترے ہوئے تھے وہ ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کروانے کے بعد گھر کی جانب رواں دواں تھے،
(نور کے ٹخنے میں ہیر لائن فریکچر ہو گیا تھا جس کو سب معمولی سی موچ سمجھ رہے تھے)
عادل دل ہی دل میں خود کو ملامت کر رہا تھا کہ وہ آخر آیا ہی کیوں تھا،
مجھے کشمالہ کی بات مان لینی چاہئے تھی یار۔
خیالوں میں ڈوبے ہوئے عادل کی آواز نہ جانے کب اتنی اونچی ہو گئی کہ وہ نور کے کانوں تک جا پہنچی،
نور: تو نہیں آتے نا کسی نے کہا تھا آئیں اوپر سے اتر کر اب آپ بھی باتیں سنا رہے ہو
(نور مکمل بات نہیں سن سکی تھی وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ عادل رات کو نیچے آنے اور اسے کمرے تک چھوڑنے کی بات کر رہا تھا)۔
عادل نے جنجہلاہٹ سے نور کی جانب دیکھا
(کیا ہو گیا ہے چوٹ پاؤں میں آئی ہے اور اثرات سر کی طرح سے سامنے آرہے ہیں)۔
نور عادل کے اس جواب پر ہکا بکا سی دیکھنے لگی وہ کہنا چاہتی تھی مگر خاموش رہی ایک تو پہلے سے ہی درد سے جان نکل رہی اوپر سے ان کے کوسنے بھی سنو، نور نے اپنا چہرہ باہر کی طرف کر لیا اور پاس سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کو دیکھنے لگی۔۔
گھر واپس آتے آتے دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا،
عادل نے یہ دیکھ کر سکھ کی سانس لی کے ابھی
تک ماموں واپس نہیں آئے تھے۔
کھانے کی ٹیبل پر آج سب چیزیں عادل کی پسند کی ہی بنی ہوئی نظر آرہی تھیں جنہیں دیکھتے ہی نور کا اترا ہوا چہرہ مزید لٹک گیا تھا،
نور کے دل کی حالت اس کی پھپو خوب جانتی تھیں اور وہ اس لیے صرف نور کے لیے اس کی پسند کا اچار گوشت بنا کر لائیں تھی مگر اب تک بھابھی نے وہ میز پر لا کر نہیں رکھا تھا۔
اچار گوشت جہاں نور کا من پسند تھا وہیں اچار کی مہک سے ہی عادل کا دل خراب ہونے لگتا تھا،
ان دونوں کو کھانے کی میز پر ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلانا ایسے ہی تھا جیسے شیر اور بکری ایک گھاٹ پہ پانی پینے آجائیں، اوپر سے ٹوٹا ہوا ٹخنہ نور کا پلس پوائنٹ بن گیا تھا وہ جو پسند کرے اس کو آج ملناہی تھا ۔۔
مامی آپکے ہاتھوں کا بنا ہوا کھانا ہوسٹل میں بہت یاد آتا ہے سچ میں، امی کا تو آتا ہی ہے نا یاد
(عادل نے ممانی کو تنگ کرتے ہوئے کہا)،
ہاں ممانی کا زیادہ آتا ہے ماں کا تو اچھا ہی نہیں لگتا نا تمھیں تب ہی آج میں نے اپنی نور کے لیے پکایا ہے کھانا میری بچی اچار گوشت کھائے گی نا،
زرینہ بیگم نے اشارے سے کھانا لانے کو بولا اور عادل کے بجائے نور کے پاس بیٹھتے ہوئی بولیں۔
امی یہ کیوں رکھ رہی ہیں آپکو معلوم تو ہے نا میں اچار سے،
عادل نے اپنے ناک کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور گھورتے ہوئےنور کو دیکھا،
نور کی جیسے فتح ہو رہی تھی مسکراتے ہوئے اس نے اپنی پھپو کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے کہا،
( تھینک یو پھپو ایک بس آپ کو ہی مجھ معصوم کی فکر ہوتی ہے میری تو امی کو بھی فرق نہیں پڑتا نا)،
آج نور پہلے والی نور بنی ہوئی تھی آج فرق تھا تو عادل کے مزاج کا جو برہم نہیں ہو رہا تھا بلکہ اس کےبرعکس وہ یہ سب آج انجوائے کر رہا تھا،
عادل میں آنے والی یہ تبدیلی دیکھ کر زرینہ بیگم بھی بہت خوش تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی میں واپس جا رہا ہوں میرا بیگ پیک کر دیں پلیز!
عادل نے اچانک سے ماں کو آواز دی۔
زرینہ بیگم: عادل کل چلے جانا ابھی شام ہو گئی ہے دیر ہو جائے گی پہنچتے ہوئے میں نہیں جانے دوں گی بیٹا اور یہ جو بلا رہے نا کال کر کرتے ہوئے بار بار زرا میری بات کروانا میں ٹھیک کرتی ہوں ان سب کو بھی،
(زرینہ بیگم نے غصہ اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا اور پھر سے گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئیں)
عادل: امی ضروری ہے نا جانا میرا وہ کشمالہ کی امی کی طبیعت خراب ہے نا
(عادل اچانک سے چپ ہو گیا اور سوچنے لگا یہ کیا بول بیٹھا میں)
زرینہ بیگم: کشمالہ کون ؟
(زرینہ بیگم کے تیزی سے چلتے ہوئے ہاتھ جیسے ایک دم سے رک گئے تھے وہ اپنے بیٹے کو حیرانگی سے دیکھنے لگیں)
عادل: امی میں بتانے ہی لگا تھا آپکو وقت ہی نہیں ملا مجھے بتانے کا وہ میری گروپ فیلو ہے نا اور امی مجھے وہ اچھی بھی لگتی ہے،
(عادل نے ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے کشمالہ اور اس کے خاندان کے بارے میں وہ سب معلومات دیں جو وہ جانتا تھا)۔
زرینہ بیگم کا دل جیسے ڈوبنے لگا تھا وہ آج تک یہی سمجھتی تھی کہ ان کا بیٹا اپنی بچپن کی منگیتر کو کسی اور کا ہونے نہیں دے گا،
وہ اسی امید کو لیۓ جی رہی تھی مگر آج اچانک سے کشمالہ کے ذکر نے جیسے زرینہ بیگم کی امیدوں کا خون کر دیا تھا،(اپنے آنسو چھپاتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور عادل کے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں جیسا تم چاہو بیٹا میں اسی میں خوش ہوں)
عادل: اماں میں جانتا تھا آپ میری بات مان لیں گی،
( عادل اٹھ کھڑا ہوا اور ماں سے لپٹ گیا، وہ اپنے جزبات کے اظہار میں کبھی بھی ایکسپریسیو نہیں تھا)
عادل کے واپس چلے جانے سے گھر بھر کی رونق پھر سے ماند پر گئی تھی اور نور بھی اب کہیں آتی جاتی نہیں تھی اس لیے گھر میں اور بھی خاموشی ہو گئی تھی۔
آج عادل پہلی مرتبہ کشمالہ کے گھر جا رہا تھا وہ سمجھ نہی پا رہا تھا کے تحفہ کے طور پر ساتھ لے کر کیا جائے ،
فیصل کے مفت مشورے کی اگر مکمل فہرست بنائی جاتی تو دین سے چار صفحات پر پوری آتی جبکہ راجا کا کہنا تھا ابھی جا ہی رہے ہو تو کوئی پھل اور پھول وغیرہ لیتے جاو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل کے سامنے اس وقت کشمالہ کے سب بھائی بیٹھے ہوئے تھے عادل کے ساتھ راجہ اور فیصل بھی آئے تھے،
عادل نہایت سنجیدگی سے سب کی باتوں کے متوازن اور بہت سلجھے ہوئے جواب دے رہا تھا،
سب کو عادل سے مل کر خوشی ہوئی تھی۔
کشمالہ کی امی سے بھی عادل ان کے کمرے میں جا کر مل آیا تھا،
یوں تو سب کچھ ٹھیک تھا لیکن کشمالہ کسی الجھن کا شکار دیکھائی دے رہی تھی جیسے وہ اندر سے خوش نہیں تھی ان کے آنے سے یا صرف عادل کا آنا ہی ناگوار گزر رہا تھا۔
یہ بات عادل کے بہت عجیب لگ رہی تھی مگر وہ خاموش رہا وہ کشمالہ سے اچانک کوئی بھی سوال نہیں کر سکتا تھا، رخصت ہوتے وقت بھی کشمالہ کے چہرہ کورے کاغذ کی طرح تھا جیسے دل میں کوئی جزبات ہی نہ ہوں،
ایسے کہ جیسے جسم میں خون کا قطرہ بھی نہیں بلکل سپاٹ چہرہ ۔
عادل نے راستے میں اس بات کے مطلق کسی کو کچھ نہیں کہا مگر جیسے ہی ہوسٹل کے کمرے میں واپس آئے،
راجہ: یار عادل مجھے لگتا ہے کشمالہ تم میں اتنی انٹرسٹڈ نہیں ہے جتنا تم اس کے لیے ہو،
( راجہ نے بوٹ اتارتے ہوئے عادل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی)
راجہ کی یہی خوبی تھی یا خامی بھی کہ سکتے وہ ہر بات صاف صاف کہ دیا کرتا تھا،
آج بھی وہ ایسا ہی کر رہا تھا۔
عادل نے کوئی جواب نہ دیا وہ چپ تھا وہ کشمالہ کی جگہ خود کو رکھ کر یہ اندازہ کرنا چاہتا تھا کہ وہ کون سی وجہ ہے جس نے کشمالہ کو ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
نور سے الگ ہونے کے بعد سے عادل میں بہت نمایاں تبدیلیاں رونما ہو چکی تھی،
عادل کے اچانک واپس چلے جانے سے زرینہ بیگم کچھ پریشان سی ہوگئیں تھی،
وہ نہیں چاہتی تھی کے ان کا بیٹا اپنا اصل مقصد پس ء پشت ڈال کر کسی اور منزل کی طرف قدم بڑھانے لگے۔
کشمالہ کی جانب سے مثبت اشارہ ملنے کے بعد عادل مطمئن ہو گیا تھا،
اس رات کو زرینہ بیگم کی فون کال نے عادل کو مزید الجھن کا شکار کر دیا۔
زرینہ بیگم نے صاف صاف لفظوں میں بیٹے کو بتا دیا تھا کہ اگر امتحان میں کامیابی نہ ہوئی تو وہ اپنی پسند سے شادی کے اس خیال کو دماغ سے ہمیشہ کے لیے نکال دے گا،
عادل نے بھی ماں سے وعدہ لیا تھا کہ اگر وہ کامیابی حاصل کر لے گا تو اس کی بات مانیں گی اور کوئی بھی وجہ نہیں ڈھونڈی جائے گی اس رشتے سے انکار کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رات کے حادثے کے بعد آج علی پہلی بار نور سے ملنے آرہا تھا ویسے تو نور کے فریکچر کے بارے میں علی کو معلوم ہو ہی چکا تھا مگر وہ کچھ اپنے ہونے والے سسر کے ڈر اور کچھ اپنی مصروفیت کے باعث ملنے نہیں آسکا تھا۔
آج بھی علی اپنی امی کو ساتھ لایا تھا کہ اگر کوئی بات ہو بھی جائے تو کم سے کم امی بات سنبھال تو لیں گی،
اور دوسری طرف اتنے دن سے گھر میں بند رہ رہ کر نور مزید چڑچڑی سی ہوتی جا رہی تھی۔
ایک تو اس کی پڑھائی کا حرج ہو رہا تھا دوسرا گھر میں اکیلے رہتے رہتے اکتاہٹ کا شکار ہوتی جارہی تھی،
اب بھی نور ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی پاؤں سامنے میز پر رکھ کر اور پاپ کارن سے منہ بھرا ہوا تھا نور دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ میں کتنے پاپ کارن کو ایک ساتھ کھا سکتی ہوں۔
تنہائی اوپر سے نور کا بچپنا دونوں کے مل جانے سے یہ سب ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی۔
علی: ہیلو نور کیسی ہو آپ
( علی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے نور سے کو مخاطب کیا)
نور: اوں مم اوں
( نور نے یک دم سے منہ کو ہاتھوں میں چھپا لیا اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے علی کو دیکھنے لگی،
نور کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ کہیں علی بھی عادل کی طرح سے اس کی ایسی شرارتوں کا اس کے بچپنے کا مذاق نہ بنائے)
علی نے ہنسی کو روکتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا کے کھا لو پہلے پھر بات کرنا اور خود منہ موڑ کر کھڑا ہو گیا اور اپنی ہنسی کو دبانے کی خوشش کرنے لگا۔
مہلت ملتے ہی فوراً سے پہلے نور نے پاپ کارن کو نگل لیا اور پاؤں کو بمشکل میز سے نیچے اتارا اور ٹھیک ہو کر بستر پر بیٹھ گئی، منمناتےہوئے بولی علی آپ دستک دے کر آتے نا ایسے کیسے آپ اندر آگئے ہو۔۔۔
میں وہ اچانک ہی سے آگیا آئی ایم سوری مجھے ایسے نہیں آنا چاہیئے تھا،
لیکن اگر نہ آتا تو آپکو اس اورجنل حالت میں کیسے دیکھتا؟؟؟
آپ بیٹھ تو جائیں اب ایسے دیوار کی طرف منہ کر کے کیوں کھڑے ہو گے گئے ہیں،
( نور کو علی کی یہ ادا بہت اچھی لگ رہی تھی اس کو محسوس ہو رہا تھا
جیسے علی کے اندر کا بچہ بھی ابھی تک زندہ ہے)
یوں نور اور علی کے درمیان دوستی کی شروعات ہونے لگی اب علی کی سزا کے طور پر یہ فیصلہ سنایا گیا کہ جب تک علی یہاں ہے تب تک نور کو یونیورسٹی لے کر جانے اور واپس لانے کی تمام ذمہ داری علی کی ہو گی۔
اور یہ سزا علی نے بخوشی قبول کر لی تھی کیوں کے وہ بھی یہاں دن بھر گھر میں بند رہ رہ کر تنگ آچکا تھا۔
کشمالہ اب عادل سے کچھ فاصلہ رکھنے لگی تھی اور عادل نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ امتحانات تک وہ خود کو روکے رکھے گا اور اپنی پڑھائی کو ایسے ہی بیکار نہیں جانے دے گا،
شزا نے باتوں باتوں میں کچھ ایسے اشارے دیے تھے عادل کو کہ جیسے کشمالہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے یا پھر وہ جو سمجھ رہا ہے ویسا کشمالہ کے دل و دماغ میں بھی نہیں ہے۔
“کبھی کبھار ہمیں جس چیز کی تلاش ہوتی ہے اسے ہم ایسے شخص کے اندر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں جو اس میں موجود ہی نہیں ہوتی، ہم لاکھ کوششوں سے بھی کسی کے اندر وہ جزبات وہ احساسات پیدا نہیں کر سکتے ہیں، پیار کا جزبہ کسی کے اندر پیدا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔
ہماری خواہش ہوتی ہے کے کوئی ایک ہو جس میں تمام خوبیاں ایک ساتھ مل جائیں مگر ایسا ہونا ممکن نہیں ہر انسان میں کچھ کمی پیشی ضرور ہوتی ہے اور ہمیں لوگوں کو اس کمی کے ساتھ ہی قبول کر لینا چاہئے، ایسا کرنے سے اور کچھ نہیں تو کم سے کم اتنا فرق ضرور ہو گا کہ ہم خود پرسکون ہو جائیں گے”۔
قبول نہ کر سکنے کی خامی عادل میں بھی تھی، وہ چلبلی نور کو برداشت نہیں کر سکتا تھا اسے یہ بات قبول نہیں تھی کہ وہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بھی بچوں جیسی حرکتیں کر کے خوش ہو، یہی معاملہ کشمالہ کے ساتھ بھی تھا وہ ایکسٹرا کیر میں پلی بڑھی تھی وہ اب بھی ایسے رہ سکتی تھی لیکن اس حد تک نہیں۔
جیسا کنٹرول یا کمانڈ عادل کی فطرت میں تھا وہ ہر کام ہر بات کو کرنے میں جنون کی حد تک پرفیکشنیسٹ تھا، گروپ میں اکثر اس بات پر تناؤ کی کیفیت بھی ہو جاتی تھی اور ایسے موقع پر عادل اور شزا جبکہ راجہ اور کشمالہ کی پارٹی بن جایا کرتی تھی جبکہ فیصل اس بحث کے دوران جج کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راجہ: عادل تم کس طرف جانا چاہتے ہو پاس ہونے کے بعد؟
فارن سروس میں یا کوئی خاص پلان بنا رکھا ہے، راجہ نے کافی دیر سے قائم خاموشی کو توڑتے ہوئے سوال کیا۔
عادل: پین کو انگلیوں میں گھوماتے ہوئے ایک دم سے اور پر اعتماد انداز میں بولا،
میں فارن آفس میں جانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا میں خود کو ڈپلومیٹ نہیں سمجھتا ہاں مگر ایک اچھا ایڈمنسٹیٹر بن سکتا ہوں۔
فیصل: ہاں بھائی تم کسی تھانے میں ہی لگ جانا مجرم کی دیکھتے ہی جان نکل جانی ہے قسم سے۔
کشمالہ:میں تو فارن آفس میں ہی جانا چاہتی ہوں اور دیکھ لینا میں کامیاب بھی ہو جاؤں گی،
کشمالہ خودکلامی کے انداز میں بولی۔
فیصل: پہلے پاس ہو لو میڈم ایسے ہی نہیں رکھ لینا انہوں نے،
فیصل نے عادت کے مطابق شرارت کرتے ہوئے جواب دیا۔
فیصل کے اس بھونڈے مذاق پر سب نے گھور کر فیصل کو دیکھا اور فیصل کے ہاتھوں میں تھاما ہوا چپس کا پیک گرتے گرتے بچا، میں تو بس ایسے ہی یار تم سب تو سنجیدہ ہی ہو جاتے ہو
،،،،،،،
اچھا بابا اب بس بھی کرو بچے کی جان لو گے کیا تم سب شزا تم تو سمجھاؤ ان سب کو۔
شزا: دیکھو مجھے تو لگتا ہے ہم سب میں سے فارن جاب کوئی کرے گا تو وہ بس راجہ ہی ہوگا جتنی محنت یہ کرتا ہے اس حساب سے ٹاپ ٹین میں نام تو لازمی آنا چاہئے۔
عادل: بس بس شزا رہنے دو ویسے کشمالہ تم کیوں فارن آفس میں جانا چاہتی ہو ؟
کشمالہ نے لمبی سانس لی اور گھڑی کی جانب نظر ڈالی اوہ مجھے دیر ہو گئی ہے میں اس سوال کا جواب لاسٹ ایگزیم کے بعد دے دوں گی اور اور وہ میں ایک ویک تک اب نہیں آسکوں گی گھر کی کچھ مصروفیت ہے، اب میں چلتی ہوں۔
رکو ہم چلتے ہیں ساتھ رات بہت ہو گئی ہے اکیلی نہ جاؤ اس وقت عادل اور فیصل ساتھ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے،
آہ ٹپیکل پاکستانی مرد، شزا نے لقمہ دیا۔
راجہ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا آو ماڈرن عورت تمھیں میں چھوڑ آتا ہوں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیپٹن علی رپورٹنگ میم”
علی نے دروازے میں کھڑے ہو کر فل فوجی انداز میں نور کا آکر صبح کا سلام کیا۔
میم آپکے ابا کر ڈر سے میں تین جگہ آلارم لگا کر سویا تھا اور آپ ہیں کہ ابھی تک تیار ہی نہیں ہوئی،
علی نے حیران ہوتے ہوئے سوال کیا۔
نور علی کے اس انداز پر مسکرائے بنا نہ رہ سکی اور آنکھوں سے اپنے پاؤں کی کی جانب اشارہ کر کے بولی،
کیپٹن صاحب اس کا کیا کروں گی میں چلوں گی کس طرح سے؟؟
علی آگے بڑھا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے بولا،
میڈم بندہ حاضر ہے حکم کریں کہاں تک لے کر جانا ہے؟؟
ویسے اس کا علاج میرے ہاتھ کے علاوہ یہ واکنگ سٹک بھی ہے آہ یہ رہی،
علی تیزی سے پلٹا اور دروازے کے باہر رکھی سٹک کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر نور کے سامنے پیش کرتے ہوئے ادب سے کھڑا ہوگیا۔
یہ یہ کہاں سے لائے ہو میں نہیں جا رہی اس کے ساتھ میں نہ بابا سب مذاق بنا لیں گے اور وہ بوائیز کلاس کے سب تنگ کریں گے مجھے، نور بچوں کی طرح روٹھتے ہوئے بولی۔
ارے ارے ایسے کیسے ہو سکتا ہے میرے ہوتے کوئی تنگ کرے نا نا سوچنا بھی مت،
یہ کام تومیرا ہے کوئی اور کیوں کرے بھلا،
علی کی آنکھوں سے شرارت عیاں تھی۔
نور نے علی کو گھوڑتے ہوئے دیکھا اور منہ موڑ لیا ناراضگی سے۔
علی میں ایسے نہیں جا سکتی سمجھیں نا میری بات کو۔
میڈم میں تو سمج لوں گا مگر یہ یونیورسٹی والے نہیں نا سمجھتے اور ویسے بھی کچھ ہی دنوں میں پیپرز سٹارٹ ہو جانے ہیں اور ویسے بھی پاک آرمی آپکے ساتھ ہے،
اس لیے پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے اب اٹھ جاو پلیز ورنہ میری کلاس ہو جانی ہے میں واپس آتا توتم تیار ملو چلو اب ،
“لو یہ سٹک اور ہاں سنبھال کر رکھنا فوجی بندہ ہوں کل کو مجھے بھی ضرورت پرسکتی ہے اس کی”۔۔
نور نے گھبرا کر علی کو دیکھا، پلیز علی ایسی بات مت کیا کریں نور نے آہستہ سے کہا،
اب جائیں بھی مجھے تیار ہونے دیں نا۔
کشمالہ یہ کیا ہر وقت چہرے پر بارہ بجائے رکھتی ہو تم کبھی مسکرا لیا کرو ہر وقت سنجیدہ رہ رہ کر تھکتی نہیں ہو؟
عادل نے ڈرائیو کرتے ہوئے پہلا سوال پوچھا اور کشمالہ کو دیکھنے لگا۔
کشمالہ: ارے بابا کوئی بات ہو تب نا اب بنا بات کوئی پاگل ہی ہنس سکتا ہے ویسے عادل تم مجھے اتنا نوٹ کیوں کرتے ہو بتاؤ نا مجھے بھی میں بھی تو دیکھوں آخر وجہ کیا ہے؟
عادل: میں نا اصل میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا اس مخلوق پر جس سے تمھارا تعلق ہے،
(عادل نے چڑانے کی غرض سے کہا)
کشمالہ: آہ اچھا جی تو پہلے نا خود کو دیکھ لو پتہ نہیں تمھارے گھر والے برداشت کیسے کرتے ہوں گے تمھیں،
ویسے تم نے بتایا نہیں کہ تمھارے گھر میں یہ سب نزلہ کس پر گرتا ہوتا تھا؟
عادل: یہ نزلہ ہے اچھا جی تو یہ اپنے بارے میں کیا خیال ہے جناب کا تمھارے تو گھر والے شکر کرتے ہوں گے جب باہر ہوتی ہو گی گھر سے۔
کشمالہ: جی جی میرے گھر والوں سے مل ہی چکے ہو اب بھی نہیں جانتے کہ کتنا پیار کرتے ہیں مجھ سے سب،
اچھا بات مت بدلا کرو چلو بتاؤ مجھے کس سے لڑائی کرتے تھے اور سب سے زیادہ کون دوست تھا تمھارا؟
عادل: میرے گھر میں میرا ہم عمر تو تھا کوئی نہیں اور تھا بھی اکلوتا اس لیے اماں نے گھر سے باہر جانے ہی کم دیا اور میرے سب سے زیادہ ظلم و ستم تمھارے مطابق،
میری کزن نور برداشت کرتی تھی ۔۔۔
کشمالہ: بس کزن یا پھر۔
عادل: نہ میری منگیتر بھی تھی مگر اب نہیں ہے میں اب سنگل ہوں۔
انہی باتوں کے دوران کشمالہ کا گھر آگیا اور عادل مزید کوئی سوال نہ پوچھ پایا
فیصل: عادل تمھاری سالگرہ کب ہے؟
عادل: کیوں؟
فیصل: کیک کھانے کا دل کر رہا ہے اس لیے۔
عادل: میں ایسے ہی کھلا دیتا ہوں تمھیں، میری سالگرہ بہت دور ہے اور ویسے بھی میں مناتا نہیں ہوں۔
فیصل: ایسے تو مزہ ہی نہیں آئے گا کھانے کا
(فیصل نے ناراض ہوتے ہوئے کہا)
عادل: اوں ہوں پھر ایسا کرو تم مجھے کھلا دو مجھے مزہ آئے گا۔
کشمالہ: شش چپ کرو تم دونوں کیا کھانے پینے کی باتیں کر رہے ہو لگتا آج پھر عزت افزائی کروانے کا پکا موڈ ہے۔
شزا: یہ فیصل ہی شروع کرتا ہے ہر بار الو کہیں کا۔
فیصل: آں ہاں الو سے یاد آیا میری آلو ولی کرسپی سی چپس کس کے بیگ میں ہے
(فیصل کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا)
کشمالہ نے خاموشی سے اپنا بیگ فیصل کے سامنے رکھ دیا اور چپ رہنے کا اشارہ بھی کیا۔
لائبریری میں آج انہیں چار روز بعد داخلے کی اجازت ملی تھی ان کی وجہ سے باقی لوگ پڑھائی نہیں کر پاتے تھے ان لوگوں کے شدید احتجاج پر ان سب کے داخلہ پر پابندی لگا دی تھی۔ آج بھی اجازت نہ ملتی اگر یہ سب تحریری طور پر حلف
نامہ جمع نہ کرواتے۔
عادل: امی دعا کیجیے گا پیپر ہے کل پہلا اس کے بعد ہم بوایئز نے گھومنے جانے کا پلان بنایا ہے اس کے بعد پھر واپس گھر لوٹ آوں گا امی۔
زرینہ بیگم: اچھا میرا بچہ میں ضرور دعا کروں گی اور گھر جلدی آنے کی کوشش کرنا یہ نہ ہو سیر سپاٹے میں ہی مہینے دو مہینے لگا دو، باقی سب بچوں کو بھی بیسٹ آف لک کہنا میری طرف سے۔
لو نور سے بات کرلو۔
( نہ جانے کن خیالوں میں ڈوبے ہوئے زرینہ بیگم نے موبائل فون نور کو تھما دیا)
نور حیرت سے کبھی فون کو دیکھ رہی تھی اور کبھی اپنی پھپو کو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اب کرے کیا،
یہی سوچتے ہوئے فون کان سے لگا کر ہیلو کہا۔
نور کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ پاس بیٹھی زرینہ بیگم بھی نہ سن سکیں اور نور کو دیکھنے لگی۔
نور کو جیسے پسینہ آنے لگا تھا وہ کبھی بھی عادل کو سامنے دیکھ کر بھی بات کی ہمت جمع نہ کر پائی تھی آج فون پر بات ہاءے اللہ جی بچا لیں۔۔۔
نور: عادل کیسے ہیں آپ اور بیسٹ آف لک اور یہ امی سے بات کریں
( نور نے ایک ہی سانس میں پوری بات کہ دی اور جواب سنے بغیر ہی موبائل ماں کے ہاتھ میں تھما دیا)
ممانی سے دعائیں لینے کے بعد عادل نے کال کاٹ دی اور خودکلامی کرتے ہوئے بولا
پاگل لڑکی کبھی بھی کانفیڈنٹ نہیں ہو سکتی یہ ۔
عادل خیالوں میں کھویا ہوا تھا وہ موازنہ کرنے لگا کشمالہ کا نور کے ساتھ وہ سوچ رہا تھا کہ کتنا فرق ہوتا ہے ماں باپ کے سپورٹنگ ہونے سے اور ماں باپ کے کنٹرولنگ ہونے میں، فرق صاف ظاہر ہے ایک کشمالہ دوسرا جواب نور ۔
عادل اس موقع پر یہ بات بھول رہا تھا کہ
” کچھ معاملے دلوں کے ہوتے ہیں جہاں انسان چاہتے ہوئے بھی بول نہیں پاتا یا شدید خواہش کے ہوتے ہوئے بھی زبان گنگ ہو جاتی ہے” ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔