(Last Updated On: )
عرش کی آنکھ صبح آٹھ بجے کھلی اور جلد فریش ہونے چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو اپنے کمرے کا حال دیکھ کر حیران رہ گیا،وہ اپنے پرفیوم اور گھڑیاں ڈریسنگ پر پھیلا کر رکھتا تھا وہ ایک طرف رکھے ہوئے تھے اور سائیڈ ٹیبل پر فائلز رکھی ہوا کرتی تھی وہ غائب تھیں۔ دروازے کے اوپر جو کپڑے لٹکاتا تھا وہ بھی نہیں تھے، اس کا کمرہ تو صاف تھا لیکن اس کے لئے یہ صاف کمرا دنیا کا سب سے خراب کمرا تھا۔ اسے لگا اس کے نہ ہونے کا موقع پا کر امی نے یہ سب کیا ہے۔
وہ الماری سے اپنے کپڑے نکال رہا تھا کہ نظر کچھ تصویروں پر گئی جو تھی تو اسکی لیکن اس پر کچھ الگ کام کیا ہوا تھا۔
ایک تصویر پر لال رنگ سے اسکے دو سنگ بنے ہوئے تھے اور دو دانت بہت لمبے بنے ہوئے تھے اور تصویر پر ڈریکولا لکھا تھا۔ وہ اس میں خوفناک لگ رہا تھا تصویر کو دیکھتے ہی اس کے منہ سے استغفار نکلا۔ دوسری تصویر میں اس کے بال کالے اور لمبی داڑھی اور لمبی مونچھیں تھی اور اس پر خوفناک لکھا ہوا تھا اور باقی تصویروں پر بھی نقوش اور نام لکھے ہوئے تھے۔ تھوری دیر کے لئے اسے انوشے کا کام لگا مگر جب نام پڑھے تو اس کے ذہن میں اس چوہیا کا چہرا آیا۔ غصے کی کیفیت میں اسے ڈھونڈنے لگ گیا مگر جب وہ نا ملی تو قدم چھت کی طرف بڑھ گئے۔
چھت پر وہ پتنگ اڑانے میں مصروف تھی۔ سب دیر رات تک فلم دیکھنے کی وجہ سے سو رہے تھے اور وہ اکیلی پتنگ اڑانے میں مصروف تھی۔ پنک شرٹ اور بلو ڈینیم جینز میں بے فکری سے اپنی پتنگ دیکھ رہی تھی۔
“ایک تو سب گدھے، گھوڑے، ہاتھی اور شیر بیچ کر سو رہے ہیں۔ ہاں ایک تو اس شیر، ڈریکولا کو بھی آج ہی آنا تھا۔ ویسے کتنا مزا آئے وہ سویا ہو اور میں اس کے گولڈن بال جو کہ عرش ریاض کی نظر میں بہت خوبصورت اور اصل میں ایلین جیسے ہیں کاٹ دوں تو۔ ایک بار کوشش تو کرنی چاہیے کوئی بات نہیں نمرہ حفیظ کسی سے ڈرنے والی تھوری ہے” ابھی اس نے یہ بات کہی ہی تھی کہ عرش نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا نمرہ کی تو جان ہی نکل گئی۔
“کیا ہوا کسی سے نہ ڈرنے والی نمرہ حفیظ” عرش کے چہرے پر وہی غصہ تھا۔
“اس گولڈن گھونسلے میں کون سے سینسر لگے ہوئے ہیں کہ ہر جگہ پہنچ جاتا ہے یہ شخص” نمرہ کے منہ سے غلطی سے نکلا کیونکہ اس کی عادت تھی ہر چیز منہ پر بولنے کی۔
عرش نے اس کی بات درگزر کی اور اس کے ہاتھ سے پتنگ لے کر مانجا ٹور دیا اور پتنگ ہوا میں اڑ گئی۔
“میری پتنگ” نمرہ ہوا میں یہ کہتی رہ گئی۔
عرش نے اس کے سامنے تصویر کی بات کی۔
“یہ کیا ہے” عرش نے کہا۔
نمرہ نے ہنسی روکنے کی کوشش کی مگر پھر بھی چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
“آپ کی تصویر”
“تو یہ تم نے کیا”
نمرہ کو اپنی حرکت یاد آئی مگر چپ رہی “نہیں”
“جھوٹ نہیں بولو یہ مارکر سے کس نے کیا ہے بولو”
“میں نے نہیں وہ مارکر سے ہوگیا ہوگا”
“اس نے خود کیا ہے کیا؟”
“ہوسکتا ہے”
“واہ مارکر کو مجھ سے کیا دشمنی تم نے ہی کیا ہے”
“آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں کیونکہ میں نے تو کلر سے کیا تھا” بعد میں احساس ہوا کہ اس نے کیا کہا۔
عرش نے پھر سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
“اوہ تو یہ کلر ہے اور تمہاری حرکت”
“وہ سچ مچ میں نے نہیں کیا۔۔وہ۔۔وہ۔۔ہاں میرے ہاتھ نے کیا ہے” نمرہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بول رہی ہے.
“اب اس ہاتھ نے کیا ہے لیکن سزا تو تمہیں ملے گی” عرش نے اس کا ہاتھ اور زور سے دباتے اور اوپر کرتے ہوئے کہا.
“میرا ہاتھ چھوڑیں پلز بہت درد ہو رہا ہے میرا ہاتھ”
“ابھی تو ہلکا سا پکڑا ہے”
” ہلکا سا ایسا لگ رہا ہے کہ کسی بھینسے نے میرا ہاتھ پکڑا ہے”
” تم نے مجھے بھینسا کہا”
“نہیں نہیں میری کیا مجال میں سچ کہوں” دوبارا منہ سے نکالا۔
“تم نے کیا کہا وضاحت دو”
“نہیں میرا مطلب تھا آپ ٹہرے اسی کلو والے وزن والے اور میں ٹہری نازک پری تو ہاتھ تو میرا درد ہوگا نا نہیں اس میں آپکی کوئی غلطی نہیں ہے” نمرہ نے بھی بات مکمل کی
“تمھارا کچھ نہیں ہو سکتا اب تمہیں سزا تو ملنی ہے اس لئے میرے لئے ناشتہ تم بناؤگی” عرش نے فیصلہ سنایا۔
“میں۔۔۔ناشتہ۔۔۔۔آپ مجھے بنانے کا کہہ رہے ہیں” نمرہ نے پریشانی سے پوچھا۔
“نہیں پروس والی جمیلا آنٹی کو”
“اوہ۔۔اچھا تو یوں کہیے پلیز ان سے کہیے گا کہ میرے لئے آلو کا پراٹھا بنادیں بہت بھوک لگی ہے وہ بہت مزے کا بناتی ہے”نمرہ نے ٹہر ٹہر کر لفظ ادا کئے۔
“حد ہے لڑکی”
“اچھا تو پھر جب آپ انہیں بولنے جائیں تو میرے لئے بریڈ لے کر آئیے گا”
نہیں تم مجھے بتاؤ میں کون ہوں؟”
“عرش ریاض آپ کو یہ بھی نہیں پتا” اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
“اس کے علاوہ”
“لڑکے”
“نہیں”
“کیا آپ لڑکے نہیں ہے” نمرہ نے تعجب سے پوچھا۔
عرش نے اس کا ہاتھ چھوڑ کر اپنے سر پر لاچاری سے ہاتھ مارا۔
“وہ تو میں ہوں اس کے ساتھ”
“آپ لڑکے کے ساتھ۔۔کیا لڑکی بھی۔۔۔”
“تمہیں میں کیا لگ رہا ہوں؟”
نمرہ نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔
“لگ تو لڑکے رہے ہیں لیکن یہ آپ کے بال۔۔۔۔”وہ کہتے کہتے رک گئی۔
“بیوقوف لڑکی چپ ہو جاؤ میرا مطلب ہے میں کیا تمھارا نوکر ہوں اور ہاں ناشتہ تم ہی بناؤ گی مجھے پانچ منٹ میں انڈا اور چائے چاہئیے” عرش نے اسے وارن کرتے ہوئے کہا۔
“آپ کچا انڈا کھا جاتے ہیں” نمرہ نے ازحد حیرانی سے پوچھا۔
“تمہیں میں ایسا لگتا ہوں”
“ہاں۔۔نہیں”
“میں نیچے جا رہا ہوں پانچ منٹ میں آملیٹ اور چائے دودہ، پتی اور زیادہ چینی والی لے کر آنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں” یہ کہتے کہتے مڑ گیا اور جانے لگا۔
“آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں”
“بلی” وہ نیچے جاتے جاتے زور سے کہتا اترا
“ڈریکولا۔۔۔ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں۔۔۔ہیں۔۔۔ نوکر سمجھ کر رکھا ہے کیا” وہ یہ خود سے کہتی پیر پٹخ کر نیچے اتر گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ صبح اپنے گھر آئی، سب سو رہے تھے اس لئے اپنے کمرے میں چلے گئی اور سب سے پہلے منہ دھویا۔ نیند اتنی تھی کہ چہرا بھی شیشے میں نہ دیکھا اور کمرے میں آگئی۔ جب سونے کے لئے بیڈ کی طرف آئی تو وہی روڈ والا بندر سویا ہوا تھا ۔
“یہ میرا پیچھا کرتے یہاں تک آگیا” “او ییلو او مسٹر اٹھو یہ میرے بستر پر کیوں سو رہا ہے” اس نے اسے اٹھانا چاہا مگر سعد دنیا سے بے خبر سو رہا تھا۔
آخر میں ہار مان کر وہ باتھ روم سے بڑی بالٹی بھر کر آئی اور آتے ہی پوری ساتھ کے منہ پر گرادی۔
“سیلاب سیلاب آگیا” کہتے کہتے وہ اٹھا۔ اور نظر اچانک رانیہ کہ چہرے پر گئی جس میں کاجل پوری آنکھوں میں پھیلا ہوا تھا اور آنکھیں کالی ہو رہی تھی۔
“سیلاب میں جن چڑیل یا بھوتنی” سعد چلایا۔
رانیہ نے آس پاس دیکھا سعد نے آنکھیں پوری کھولیں اور رانیہ کو دیکھا۔
“تم میرے کمرے میں کیسے آئے میرا پیچھا کیوں کر رہے ہو” رانیہ بولی
“شکل دیکھو آئینے میں بھوتنی میں اور تمہارا پیچھا”سعد بھی بولا۔
سعد کے چلانے کی وجہ سے نور کمرے میں آئی.
“امی یہ لڑکا میرے بستر پر سویا ہے اور ہمارے گھر میں کیسے آیا” رانیہ نے نور کو دیکھتے ہوئے کہا
“بیٹا یہ لڑکا نہیں” نور نے آرام سے کہا۔
“میں لڑکا نہیں” سعد نے حیرانی سے پوچھا۔
رانیہ کبھی امی کو دیکھے کبھی سعد کو،
“اوہ ہو میرا مطلب ہے یہ تمھارا کزن سعد ہے”نور بولی
“کیااااااا” رانیہ کامنہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
“یہ کیا انڈین ڈراموں والی ایکٹنگ لگا کر رکھی ہے” نور نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
“نہیں۔۔۔ لیکن یہ میرے بیڈ پر کیوں” رانیہ سمجھ گئی نور کو کچھ نہیں پتا۔
“دوسرے کمرے کا اے سی خراب ہے اور تمھارا سامان اوپر والے روم میں شفٹ کردیا ہے اور اب سے یہی اس کا کمرا ہے”نور نے رانیہ کے سر پر بم پھاڑا۔
“نہیں”
“ہاں اور اب اس معاملے میں کوئی بحث نہیں، آؤ میرے پیچھے” نور یہ کہتے ہوئے اس کمرے سے نکل گئی۔
“ہیلو مس رانیہ اپنا کمرا چاہئیے تو میرا ایک کام کرنا ہوگا” سعد اس کے سامنے آتے ہوئے بولا
“کیا”
“یہ لو میری شرٹ اسے دھو دو بالکل صاف طریقے سے، تو میں تمہیں تمھارا کمرا دے دوں گا” سعد نے اسے وہی شرٹ تھماتے ہوئے کہا۔
“تو پھر پانچ منٹ میں کمرا خالی کرو” وہ یہ کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئی اور سعد پھر سے لیٹ گیا۔
______
پندرہ منٹ بعد رانیہ شرٹ دھو کر کمرے میں آئی, سعد بیڈ پر سویا ہوا تھا۔ رانیہ نے اسے اٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی، پھر گیلی شرٹ اس پر جھاڑی پانی کی وجہ سے اس نے فوراً آنکھ کھولی اور زوردار چیخ ماری۔
“کیا مسئلہ ہے کیوں ایسے چیخ رہے ہو جیسے لڑکیاں کاکروچ کو دیکھ کر چیختی ہیں” رانیہ نے غصے سے کہا۔
“تم کاکروچ سے کم ہو”
“اس کا مطلب تم لڑکی ہو”
“تم بھوتنی کو دیکھ کر چیخ نکل جاتی ہے” سعد نے بھی اسی انداز میں کہا۔
“تم نے مجھے بھوتنی کہا”
“سچ کہا ہے خود کو ذرا آئینے میں دیکھو”
رانیہ کی نظر آئینے پر پری اور خود کو دیکھ کر چیخ ہی نکل گئی۔
“سچ کہا تھا نا میں نے، بھوتنی کی بڑی بہن” سعد بولا
“چپ ہو جاؤ اور کمرہ خالی کرو” رانیہ نے شرٹ اس پر پھینکتے ہوئے کہا۔
“پہلے اسے سوکھ تو جانے دو جب سوکھ جائے گی تو میں دیکھ کر کمرا خالی کروں گا” سعد نے اطمینان سے کہا۔
“ایسی کوئی کہانی نہیں تم ابھی نکلو میرے کمرے سے” رانیہ غصے سے بولی
“سوچ لو ایک تو تم پر مہربانی کر رہا ہوں ایسا نہ ہو بعد میں خیال بدل جائے” سعد بولا
“ٹھیک” رانیہ سوچ کر بولی۔
“اچھا اب یہ لے جاؤ اور اچھی طرح سکھا لینا اور جاؤ مجھے سونے دو
“سست کہیں کے” یہ کہتی وہ شرٹ لے کر چلی گئی۔
……………………..
نمرہ آدھے گھنٹے سے آملیٹ بنانے کی کوشش کر رہی تھی وہ اب تک تین انڈے خراب کر چکی تھی بالآخر اس نے آملیٹ بنا لیا اور ایسے ناچنے لگی جیسے کوئی قلع فتح کیا ہو۔ اب اس کا رخ دوسرے قلعے کی طرف ہوا۔ وہ گھبراہٹ میں چائے بنا رہی تھی اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ میٹھی زیادہ ہو۔
وہ ناشتہ لے کر اس کے کمرے میں آئی عرش جو لیٹ کر فون چلا رہا تھا اس کو دیکھ کر اٹھ بیٹھا۔
“کسی کے کمرے میں ناک کرکے آنا چاہئے” عرش نے فون رکھتے ہوئے بولا۔
“سوری آپ کا ناشتہ” نمرہ نے ٹرے رکھتے ہوئے کہا۔
“ویسے تمھارے پانچ منٹ بڑی جلدی ہوگئے”
نمرہ خاموش رہی اور عرش نے چائے کا کپ اٹھالیا وہ وہاں سے جانے ہی والی تھی کہ عرش کی زوردار آواز سنی۔
“یہ کیا ہے” عرش بولا
“چائے” اس نے بھی معصومیت سے جواب دیا۔
“یہ کیسی چائے ہے”
“آپ نے ہی تو زیادہ چینی کا کہا تھا”
“پر یہ میٹھی تو نہیں”
“ہیں۔۔۔۔۔آپ کی کرواہٹ کا اثر چائے پر بھی ہوگیا”اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔
“کیا۔۔۔؟”
“نہیں”
“یہ لو اسے پی کر دیکھو” اس نے نمرہ کو کپ تھماتے ہوئے کہا۔
“میں آپ کا جھوٹا نہیں پی سکتی”
“میں مسلمان ہوں”
“ہاں لیکن میرے اندر کڑوا انداز آگیا تو”
“چپ کرکے پیو”
نمرہ نے جیسے ہی کپ منہ سے لگایا اس کا منہ برا بن گیا اور اسی وقت منہ سے چائے نکالی مگر افسوس ساری چائے عرش کے کپڑوں پر لگ گئی۔
“بدتمیز لڑکی یہ کیا کیا” عرش چلا پرا۔
“وہ۔۔۔وہ۔۔۔غل۔۔۔غلطی سے۔۔۔” نمرہ کا منہ رونے جیسا ہوگیا
“اچھا اب رو مت جانا اب یقین آیا میرا چائے بہت بری ہے” عرش تھورا دھیمے لہجے میں بولا۔
“پتا نہیں کیسے میں نے تو چینی ڈالی تھی کہیں آپ نے چائے میں ہاتھ تو نہیں ڈالا تھا” نمرہ نے ہوا میں تیر لگایا۔
“کیا بکواس ہے”
“نہیں تو چینی کے ڈبے میں”
“چپ ہو جاؤ لڑکی میں چینج کرکے آرہا ہوں اور چائے دوبارہ بناؤ اور ایک منٹ تمھارے آملیٹ کو دیکھو کہیں اسے بھی دوبارہ بنانے کی نوبت نہ پیش آئے”
اس نے آملیٹ دیکھا تو ٹکروں میں تھا اور پانی چھوڑ رہا تھا کہیں کالا، کہیں سے لال اور اجیب رنگ کا تھا”
“یہ تم نے کون سا عجوبہ بنایا ہے تم تو ہمارا نام روشن کرواؤگی، اگر اسے امریکی حکومت کو دے دیا جائے تو وہ اس بات کا اعتراف کرلے گی کہ پاکستان میں بھی ایک عجوبہ پایا گیا ہے اور اگر شیریں آپا کو دیں تو اس ڈش کو ایک نیا نام مل جائے گا” عرش نے طنز مارا۔
“ہائے سچی” نمرہ معصوم اس کا طنز سمجھ نا پائی۔
عرش نے بے بسی سے اپنے سر پر ہاتھ مارا
“ویسے شیریں آپا کو میں اجازت دے دوں گی لیکن امریکی حکومت کو نہیں دونگی بلکہ اسے پاکستان کے میوزیم میں رکھواؤنگی تاکہ پاکستان میں سیاحوں کی تعداد بڑھے”نمرہ نے گرم جوشی سے کہا۔
“ملک سے محبت کا اظہار بعد میں کرنا اسے جا کے پھیکو میں اپنے لئے ناشتہ باہر سے لے کر آتا ہوں” عرش الماری سے کپڑے نکالتے ہوئے بولا۔
“پلیز میرے لئے بھی پراٹھے لے کر آنا میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا” نمرہ نے التجا بھرے انداز میں کہا۔
“بھول جاؤ پراٹھے اور اسے لے کر جاؤ اور چاہو تو یہی کھا لینا” عرش یہ کہتا چینج کرنے چلا گیا اور نمرہ ڈریکولا کہتی برتن اٹھانے لگی۔
عرش نے اپنا ناشتہ لیا اور پھر یہ سوچ کر کہ نمرہ نے بھی صبح سے کچھ نہیں کھایا اس لئے اس کے لئے پراٹھے لینے کا ارادہ کیا، دس بج چکے تھے اس لئے پراٹھے کہیں نہیں ملے بالآخر دو گھنٹے گھومنے کے بعد پراٹھے ملے۔ جب گھر پہنچا تو نمرہ کھانے کے ٹیبل پر بیٹھی اپنے آخری آلو کے پراٹھے کے نوالے کے ساتھ انصاف کررہی تھی، دل تو کیا کہ اس کا قتل کردے مگر کچھ کر نہ سکا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ نے غصے سے شرٹ رسی سے اتاری اور سعد کو دینے جا رہی تھی کہ کچھ سوچ کر رخ اپنے کمرے کی طرف موڑا اور الماری سے کھجلی کا پاؤڈر نکال کر شرٹ پر چھڑکا اور پھر اس پر استری کر لی اور سعد کو شرٹ دینے چلے گئی۔
“یہ لو بندر اپنی شرٹ” رانیہ نے شرٹ اسے دے دی۔
“او ہو استری کر کے دی ہے تھینکس اب جاؤ” سعد نے شرٹ لے کر دی۔
“او ییلو پہلے میرا کمرا تو دو”
“کونسا کمرا”
“جس پر تم حق جما کر بیٹھے ہو”
“تو اپنے کمرے پر حق کماؤں گا نا”
“پر یہ تو میرا کمرا ہے”
“جی نہیں خالہ نے کہا تھا کہ یہ میرا کمرا ہے”
“لیکن تم نے کہا تھا کہ تمھاری شرٹ دھو کر دونگی تو تم مجھے میرا کمرا دے دو گے” رانیہ نے غصے سے کہا۔
“اچھا میں نے ایسا کہا تھا” سعد نے سوچنے والے انداز میں کہا۔
“ہاں”
“تو چلو میں بول رہا کہ اب میں نہیں دونگا”
“مومن کی ایک زبان ہوتی ہے تم یہاں سے نکلو ورنہ میں دھکے مار کر نکالوں گی”
“اچھا تو پھر میں خالہ کو بتادوں گا کہ تم نے میری شرٹ میں کیچڑ اڑایا تھا” سعد نے اسے وارننگ دیتے ہوئے کہا۔
“تم ہو ہی اسی لائق، بھار میں جاؤ کمرا تو میں تم سے نکلوا کر رہوں گی” رانیہ کہتے کمرے سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر پور میں یہ طے ہوا کہ وہ لوگ اسی ہفتے کراچی واپس چلے جائیں گے اور پھوپھو بھی ان کے ساتھ جائے گی جبکہ عرش میرپور میں ہی ٹہرے گا جس سے نمرہ بہت خوش تھی۔
عرش سعد سے ملنا چاہتا تھا لیکن وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ عرش سعد کو پہلے سے ہی جانتا تھا لیکن جب عرش اپنی پڑھائی مکمل کرنے نیو یارک گیا تو ثمر کے یہاں ہی ٹہرا تھا اور اپنی پڑھائی سعد کے ساتھ ہی مکمل کی اور ایسے دونوں میں گہری دوستی ہوگئی کہ سب انھیں میاں بیوی کہتے تھے۔
“دیکھ تو دھوکا دے رہا ہے” سعد نے شکوہ کن انداز میں فون پر کہا۔
“یار کام ہے اس لئے نہیں آسکتا” عرش نے اطمینان سے کہا۔
“ہاں تو کہاں گئے تیرے وہ وعدے” سعد شوخی سے بولا۔
“کیسی بیوی ہے تو شوہر کی سچویشن ہی نہیں سمجھتا”
“تجھے بھی تو بیوی کا احساس ہونا چاہئیے کتنی چاہ سے تیرا انتظار کر رہا ہوں بے وفا”
“تجھے بیوی کیا بول دیا تیرے تو نخرے ہی بیوی والے ہوگئے ہیں”
“ہاں تو میرا حق ہے تجھے بیویوں کے حقوق نہیں پتا”
“تجھے بڑا پتا ہے کہیں چھپ کے شادی تو نہیں کرلی”
“بھروسہ نہیں ہے کر بھی لی ہو”
“اکیلے اکیلے”
“کیا مطلب اکیلے میں، میری بیوی اور ایک دو گواہوں کے ساتھ اکیلے تو نہیں کی”
“مطلب پہلے شوہر کو بلایا بھی نہیں میرے سوتن کو تو میں دیکھ لے تا”
“سوتن نہیں ہوتا”
“چھور جو بھی ہوتا ہے ویسے میں لٹ گیا، برباد ہوگیا میری بیوی نے دوسری شادی کرلی” عرش روتا ہوا بولا
“چل اب سیریس ہوجا اور بول تو آرہا ہے کہ نہیں”
“اگر میں منع کروں تو”
“تو میں بیوہ ہوجاؤں گا”
“چل اب تو آنا ہی پڑے گا”
“میں آپ کا انتظار کروں گی سرتاج” سعد نے شرمیلے انداز میں کہا۔
رات کو سعد صوفے پر ہی سوگیا۔ رانیہ جو آدھی رات کو پانی پینے آئی تھی اس کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔
“مجھے میرے کمرے سے نکال کر خود آرام سے سو رہا ہے۔ ایک تو بندر کی نیند بھی ایسی ہے بدلا تو میں اس سے لے کر ہی رہوں گی.”
کچھ سوچ کر کمرے میں گئی اور اپنی نئی میک اپ کٹ اٹھا کر لائی۔ اسے یہ تو پتا تھا کہ بچپن سے سعد کی نیند کتنی گہری تھی اس لئے اپنے تجربے شروع کردیے۔
“اچھا ہے اس کی کولیٹی چیک کرنے کے لئے اچھا موقع مل گیا” رانیہ نے سعد کے کلین شیو چہرے پر فاؤنڈیشن لگاتے ہوئے کہا۔
اور پھر کنسیلر پھر ازحد سرخ بلش اون لگایا، اس کے گال پر اور ناک پر لگاتے ہوئے اپنے میک اپ کی تعریف کی۔ آنکھوں میں اس نے پسندیدہ سموکی آئیز بنائی اور اب سعد، سعدیہ بن چکا تھا اور اب بھی ایسے سو رہا تھا جیسے پانچ چھ نیند کی گولیاں کھا کر سویا ہو۔ رانیہ نے اس کی کچھ تصویریں لی مختلف فلٹرز کے ساتھ اور اپنے فیس بک انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ اکاؤنٹ پر ڈالی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
صبح سعد کی آنکھ کھلی تو اپنے کمرے میں جاتے ہی فوراً اپنے بستر پر جا کر سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔