(Last Updated On: )
میری ساری تعلیم اردو میڈیم سے رہی۔ جیسا کہ کہا گیا کہ بی اے کے بعد یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم رہی۔ اللہ کی ذات سے یہی امید تھی کہ اچھی ملازمت مل جائے۔ میرے والد ایمپلائمنٹ آفیسر رہے۔ بڑے بھائی اور بھابھی بھی جونیر میڈیکل آفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر اور پروفیسر رہے۔ گزیٹیڈ عہدے پر والد اور بڑے بھائی صاحب اور بھابھی فائز تھیں۔ خاندان میں تجارت کا کوئی رجحان اور تجربہ نہیں تھا۔ میں نے بیرون ملک جانے کے لیے پاسپورٹ بنایا تھا کیوں کہ اس وقت بھی باہر جانے کا رجحان عام تھا لیکن میری دینی تعلیم اور بعد میں اردو سے تعلیم ہوئی تھی۔ کوشش یہی تھی کہ یہیں کچھ ملازمت کا بندوبست ہوجائے۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس وقت بشیر الدین بابو خان صاحب تلگو دیشم حکومت میںوزیر تعلیم تھے۔ میرے ماموں امتیاز علی کے دوست عبداللہ کوثر صاحب حال مقیم امریکہ بابو خان صاحب کے دوست تھے مجھے نظام آبادجانے اور ان سے ملاقات کرکے کچھ عارضی ملازمت کے حصول کی کوشش کرنے کے لیے گیا۔ وہاں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ نظام آباد کے انوار العلوم کالج میں بھی اردو لیکچرر کی درخواست دی کچھ نتیجہ نہیں نکلا۔حیدرآباد کے انوارالعلوم کالج میں بھی انور خان صاحب پرنسپل سے بات ہوئی کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ کچھ ٹیوشن اور عربی تدریس سے پٹرول کے اخراجات نکل جاتے تھے۔ جیسا کہ کہا گیا کہ ایم فل کے بعد میں نے اردو پنڈت ٹریننگ کی تھی اور ٹرینڈ امیدوار ڈی ایس سی کا انتظار کر رہے تھے۔ اسی دوران حکیم پیٹ میں جناب عبدالستار مجاہد صاحب کے اسکول میں کلرک کی نوکری ملی۔کام فیس وصول کرنا تھا اس کے لیے وہ آٹھ سو تا ہزار روپے دے رہے تھے۔ کچھ ماہ کام کرنے کے بعد جیسا کہ ذکر کیا گیا میرے رسم کے دوسرے دن مجھے گولکنڈے میں جناب جیلانی صاحب کے لیڈنگ اسکول میں اردو مدرس کی خانگی نوکری ملی۔ بارہ سو روپے تنخواہ تھی۔ لیکن جیلانی صاحب کے اسکول میں مجھے کام کرنے کا اچھا تجربہ حاصل ہوا۔ طلباء کو کیسے قابو میں رکھنا بورڈ کا استعمال الفاظ معنی طلبا کی بلند خوانی انہیں ہوم ورک دیناوغیرہ۔ لوناپر اسکول جایا کرتا تھا۔ انہی دنوں میں میری شادی ہوئی پندرہ نومبر ۱۹۹۶ء ۔لیڈنگ اسکول میں ملازمت اور شادی کے بعد مجھے شام کے اوقات میں پہلے ہمارا عوام اور بعد میں روزنامہ سیاست میں سب ایڈیٹر کی نوکری ملی۔اخبار میں کام کرنے کوئی خاص تجربہ نہیں تھا۔ لیکن ہمارے اردو کے دوست احباب سے پتہ چلا کہ جس کی انگریزی اور اردو اچھی ہے وہ سب ایڈیٹر کا کام کرسکتے ہیں اور جناب کے ایم عارف الدین صاحب مدینہ سنٹر نامپلی نے ایک نیا اخبار ہمارا عوام جاری کیا ہے وہاں سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے ایک دن وہاں انٹرویو دینے گیا۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی خبروں کا اردو ترجمہ کرنا ہوگا۔ دو چار پرنٹر سے نکلے سلپ دے کر مجھے ترجمہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ بچپن سے انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرنے ریڈیو پر کرکٹ کمنٹری سننے اور میگزینوں کا مطالعہ کرنے سے میری انگریزی دانی اچھی تھی ۔ سادہ انگریزی میں پریس کانفرنس کی تفصیلات کو اردو میں لکھا۔ چونکہ پی ایچ ڈی چل رہی تھی اردو لکھنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ چند ایک غلطیوں کے باوجود جب میں نے ترجمہ دکھایا تو انتظامیہ میرے کام سے مطمئن تھا وہاں ایک عبدالصمد صاحب مینیجر تھے انہوں نے کہا کہ آپ کو ایک مہینہ مفت میں کام کرنا ہوگا اگلے مہینے سے آپ کو بارہ سو تنخواہ دی جائے گی کام کے اوقات شام چار بجے سے رات دس بجے تک ہوں گے۔ میں نے حامی بھر لی کیوں کہ شادی کے بعد تقاضہ تھا کہ آمدنی بڑھے کیوں کہ لیڈنگ اسکول سے صرف بارہ سو ملتے تھے شام کے اوقات کا درست استعمال دیکھ کر میں نے ہمارا عوام میں کام کرنا شروع کردیا۔ وہاں ڈیسک پر اطہر معین‘احسن علی اکبر سے خبروں کی سرخیاںلگانے اور اختصار سے خبروں کی ترتیب اور ترجمہ کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ سینیر سب ایڈیٹر جناب زاہد علی خان اور یوسفی صاحب جمیل صاحب سے بھی سیکھنے کا موقع ملا۔چونکہ مجھے کرکٹ اور اسپورٹس سے دلچسپی تھی اس لئے میں اخبار کے لیے اسپورٹس کی خبریں ترجمہ کرنے لگا۔ دو تین مہینے کام کے بعد میرے استاد محترم ڈاکٹر محمد انور الدین صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ سیاست اخبار میں کئی صحافی اخبار چھوڑ کر منصف اخبار جارہے ہیں آپ کے لیے وہاں موقع ہوسکتا ہے جناب ظہیر الدین علی خان مینیجنگ ایڈیٹر سیاست سے انہوںنے میرا تعارف کرایا کہ میں ان کے زیر نگرانی ایم فل کرچکا ہوں اور ہمارا عوام میں کام کر رہا ہوں۔ظہیر صاحب نے پی ٹی آئی یو این آئی کی کچھ سلپ دے کر ترجمہ کرنے کے لیے کہا۔عوام اخبار میں ایک دو مہینے کام کے دوران ترجمے کی رفتار اور صفائی ہوگئی تھی۔ جب میں نے ترجمہ کیا تو میرے کام کی جانچ سینیر سب ایڈیٹر جناب شاہد عظیم صاحب نے کی اور انہوں نے میرے حق میں کہا کہ کام کرسکتے ہیں۔ چنانچہ مجھے ساڑھے تین ہزار ماہانہ کی تنخواہ پر رکھ لیا گیا۔ یہ میرے لیے مسرت کا لمحہ تھا کہ جس اخبار کو پڑھ کر زندگی میں کچھ قابلیت آئی تھی اسی اخبار میں سب ایڈیٹر کام کا موقع ملا۔ سیاست میں ۹۷ء تا۹۸ء کام کرنے کا موقع ملا۔جناب شاہد عظیم صاحب ‘ جناب خالد قادری صاحب‘جنا ب شوکت صاحب‘جناب احمد کمال اشرف اور نوجوان سب ایڈیٹروں میں عرفان جابری‘خلیل قادری‘مجاہد‘شجیع اللہ فراست اور دیگر کے ساتھ میں نے ڈیسک پر کام کیا۔مجھے صفحہ تین کی قومی اور عالمی خبریں اور اسپورٹس کی خبریں ترجمہ کرنے کا موقع ملا اس وقت اظہر الدین کے عروج کا زمانہ تھا اور میں اظہر الدین کی اچھی تصاویر منتخب کرکے کرکٹ میچوںکی رپورٹس تیار کیا کرتا تھا۔ اس وقت ہندوستان نے پوکھران جوہری دھماکہ کیا تھا۔ بوفورس رپورٹ اور جناب اے پی جے عبدالکلام کے دور صدارت کے مختلف اجلاسوں کی رپورٹ میں سلیس اردو میں لکھتا تو جناب معراج مرزا صاحب میرے ترجمے کو پڑھ کر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔ جناب زاہد علی خان صاحب جناب عامر علی خان صاحب اور جناب ظہیر الدین علی خان صاحب میرے کام سے خوش تھے۔اخبار میں اگر کوئی سب ایڈیٹر چھٹی پر ہو تو ان کی جگہ اوور ٹائم کام کرنے کا موقع ملتا تھا۔ اوور ٹائم کرنے والوں کو دوسرے دن نقد دو دن کی تنخواہ دی جاتی تھی۔ سیاست میں کام کرنے کے دوران جناب عامر علی خان صاحب کی شادی ہوئی سبھی ملازمین کو شیروانی کا کپڑا تحفے میں دیا گیا۔ اس وقت منصف کے چرچے بہت تھے شام میں چائے کے وقت یہی گفتگو رہتی تھی کہ منصف میں کون جارہا ہے اور وہاں کیا کچھ ہورہا ہے۔ ادھر میں نے اسپیشل ڈی ایس سی اردو پنڈت کا امتحان حیدرآباد سے نان لوکل لکھا تھا۔نیتجہ کا انتظار تھا۔ ایک مرتبہ مغرب کے بعد جناب معراج مرزا صاحب نے پرنٹر نے ایک خبر نکالی اور کہا کہ ڈی ایس سی کا نتیجہ آگیا ہے۔انہوں نے میرا رول نمبر پوچھا اور مبارکباد دی کہ میرا نمبر آگیا ہے۔ ڈی ایس سی امتحان کے بعد حیدرآباد کلکٹر آفس میں انٹرویو ہوا تھا۔ کلکٹر حیدرآباد مسٹر بھنور لال نے میری تعلیمی قابلیت دیکھ کر کہا کہ یو آر اوور کوالیفائیڈ فار دس پوسٹ یعنی آپ اردو پنڈت جائیداد کے لیے بہت زیادہ قابلیت رکھتے ہیں کیا نوکری ملنے پر نوکری کریں گے یا چھوڑ دیں گے میں نے کہا کہ ضرور کریں گے۔ چنانچہ کونسلنگ کے بعد مجھے گولکنڈہ ہائی اسکول پر اردو پنڈت پوسٹنگ دی گئی تھی اس وقت تک میں لیڈنگ اسکول میںہی ملازم تھا۔ جناب غلام جیلانی صاحب ڈائرکٹر لیڈنگ اسکول نے مجھے خوشی خوشی سرکاری ملازمت ملنے کی مبارکباد دیتے ہوئے اسکول چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ ۹۷ء میں میں نے گولکنڈہ ہائی اسکول میں اردو پنڈت ملازمت کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت اڈھاک کی بنیاد پر دو سال تک بارہ سو اور پندرہ سو ماہوار تنخواہ ہوا کرتی تھی ۔ لیکن سرکاری ملازمت اور وہ بھی حیدرآباد میں گھر سے چار کلو میٹر دور۔چنانچہ میں نے اپنی ملازمت شروع کی۔جناب اعظم صاحب اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ جناب شفیع اللہ خان صاحب جناب رفیع صاحب جناب ظہیر صاحب جناب ماجد صاحب شفیع خورشید صاحب اور دیگر اساتذہ نے خوشی کا اظہار کیا میں پی ایچ ڈی اسکالر ہوں اور شام کے اوقات میں سیاست اخبار میں کام بھی کرتا ہوں۔ اسی زمانے میں کالج سروس کمیشن کا جونیر لیکچرر کا اردو امتحان بھی ہوا تھا جیسا کہ کہا گیا شادی کے دن میں نے اس امتحان کا فارم بھرا تھا۔ شادی کے کچھ مہینوں بعد یہ امتحان ہوا تحریری امتحان تھا اور ایک ہزار امیدواروں نے امتحان لکھا تھا۔جونیر لیکچرر اردو کی چھ جائیدادیں تھیں اور میرے لیے خوشی کا لمحہ تھا کہ مجھے چھ جائیدادوں کے لیے اٹھارہ امیدواروں میں منتخب کیا گیا تھا یعنی ایک جائیداد کے لیے تین لوگوں کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا این ای ٹی کامیاب امیدوار بھی تھے۔ بہرحال ۹۷ء میں جمعہ کے دن دو بجے گرہا کلپا نامپلی کالج سروس کمیشن کی عمارت میں انٹرویو ہوا۔چیرمین کمیشن نے بذات خود انٹرویو لیا۔ ارد و ایکسپرٹ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید صاحب تھے۔یونیورسٹی آف حیدرآباد سے وہ مجھے جانتے تھے۔ انہوں نے میرے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تعلق سے سوالات کئے ۔ حیدرآباد کے کسی زندہ شاعر کا شعر سنانے کے لیے کہا۔میں نے کہا کہ میں نظام آباد کے شاعر تنویر واحدی کا شعر سنانا چاہتا ہوں چنانچہ انہوں نے سنانے کے لیے کہا تو میں نے یہ شعر پڑھا
پانی میں عکس دیکھ کے خوش ہورہا تھا میںپتھر کسی نے پھینکا تو منظر بکھر گیا
چیرمین کالج سروس کمیشن نے اس شعر کا انگریزی میں مطلب پوچھا اور بورڈ پر شعر لکھ کر انگریزی میں تشریح کرنے کے لیے کہا میں نے انگریزی میں اس شعر کا مفہوم سمجھایا۔ انہوں نے مجھے سے پوچھا کہ کیا اضلاع میں ملازمت دی جائے تو کریں گے میں نے کہا ہاں ضرور کروں گا۔ انٹرویو ہوگیا اور نتیجے کے انتظار میں ایک سال گزر گیا کہ کچھ کورٹ کیس ہوگیا تھا۔ ادھر گولکنڈہ میں صبح سے تین بجے تک ملازمت اور ادھر شام چار بجے سے رات دس بجے تک سیاست کی ملازمت۔ نئی شادی بھی تھی زندگی یوں ہی گزرنے لگی چھٹی ملتی تو خوشی ہوتی۔ لونا پر دو ملازمتوں پر وقت پر پہونچنے کا سلسلہ ایک سال تک جاری رہا۔ اگسٹ ۹۸ ء کی بات ہے۔ جب میں سیاست میں کام کر رہا تھا اسی وقت رات آٹھ بجے مجھے میرے دوست کلیم نے فون کیا کہ مبارکباد آپ جونیر لیکچرر اردو کے لیے سلیکٹ ہوچکے ہیں۔ورنگل جا کر پوسٹنگ آرڈر لا لیجئے۔میرے خسر جناب اکرام صاحب نے بھی مشورہ دیا کہ جو پہلے جوائن ہوگا اسے سینریاٹی میں فوقیت ملے گی۔ صبح صبح قاضی پیٹ روانہ ہوا وہاں سے ورنگل آر جے ڈی آفس جا کر ملازمت کا لیٹر لیا۔معلوم ہوا کہ میری پوسٹنگ ناگرکرنول ضلع محبوب نگر کی گئی۔ ایک طرف تو گزیٹیڈ عہدے پر ملازمت ملنے کی خوشی دوسری جانب حیدرآباد چھوٹنے کا غم۔ لیٹر لے کر شام گھر پہنچا سب احباب نے مبارکباد پیش کی۔ چاچا سے معلوم کیا کہ ناگرکرنول کدھر ہے۔کچھ اندازہ نہیں تھا سیاست کے ظہیر صاحب کو فون کیا کہ مجھے جونیر لیکچرر کی سرکاری ملازمت مل گئی ہے میں سیاست کی نوکری چھوڑ رہا ہوں انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور جانے کے لیے کہا۔ ادھر سرکاری اسکول گولکنڈہ میں بھی اطلاع مل گئی کہ مجھے جونیر لیکچرر کی نوکری مل گئی ہے۔ اور میں اسکول چھوڑ رہا ہوں۔مغرب کے بعد اخبار کے لیے نیوز تیار کی اور سیاست اخبار اور دیگر اخبارات کو شخصی طور پر نیوز دے کر آیا۔ سیاست میں سب ایڈیٹر جناب خالد قادری صاحب اور دیگر نے مبارکباد پیش کی اور کہا کہ آپ کی نوکری کی نیوز ہم رنگین تصویر کے ساتھ صفحہ آخر پر شائع کریں گے۔
۲۰ اگسٹ ۱۹۹۸ء کا دن تھا جب میں نے جونیر لیکچرر اردو کی گزیٹیڈ آفیسر والی نوکری رجوع کی۔ مختصر سی تیاری کے بعد ڈرتے ڈرتے املی بن بس اسٹیشن سے کولاپور کی بس میں سوار ہوا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ناگر کرنول جاتی ہے۔ ہمارا بس کا سفر اکثر نظام آباد حیدرآباد کے رخ پر ہوا کرتا تھا۔ اسی نیشنل ہائی وے پر جنوب کی جانب سفر شروع ہوا۔جڑچرلہ سے پچاس کلو میٹر بائیں جانب تین گھنٹے بس کے سفر کے بعد ناگر کرنول بس اسٹیشن پر پہنچا۔ نئی سرزمین پر اترتے ہی عافیت کی دعا مانگی کہ پتہ نہیں کتنے سال اس گائوں میں رہنا پڑے۔ بس اسٹیشن سے کالج کا پتہ پوچھ کر کالج پہنچا۔ والد صاحب نے پہلے ہی جوائننگ رپورٹ انگریزی میں لکھوا دی تھی۔ کالج میںپرنسپل کے چیمپر میں پرنسپل مسٹر وکرامارکا نے خیر مقدم کیا۔ جوائننگ رپورٹ دینے کے بعد رجسٹرمیں دستخط ہوئی۔ اس وقت تک اندازہ نہیں تھا کہ گرین پن استعمال کرنا ہے یا بلو پن۔ اسٹاف روم میں جیسے ہی پہنچا محترمہ ہاجرہ بیگم لیکچرر تاریخ تلگو میڈیم نے خیر مقدم کیا اور کہا کہ مولوی صاحب آج اخبار میں آپ کی تصویر شائع ہوئی ہے۔ مبارکباد۔ کالج کے دیگر لیکچررز جو تلگو میڈیم سے تھے انہوں نے خیر مقدم کیا۔ میرے ساتھ جناب اجمل خان صاحب متوطن بھینسہ مضمون تاریخ اردو میڈیم جناب محمود علی صاحب لیکچرر پولیٹیکل سائنس اور محترمہ غزالہ بیگم متوطن نظام آباد مضمون اکنامکس کو بھی اس کالج پر پوسٹنگ دی گئی تھی۔ ہم لوگوں کو نظام آباد سے اتنی دور پوسٹنگ دینے کی وجہہ بعد میں معلوم ہوئی کہ تلگو دیشم دور حکومت میں مقامی رکن اسمبلی اور وزیر صحت ڈاکٹر ناگم جناردھن ریڈی نے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ میں کہہ رکھا تھا کہ جب بھی لیکچررز کے تقررات ہوں ناگرکرنول میں ریگولر لیکچررز کو پوسٹنگ دی جائے۔ مضمون اردو کے لیے مقامی ابو چائوش عارضی لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ میرے وہاں آنے سے وہ کچھ مایوس لگے۔ صبح ملازمت پر رپورٹنگ کے بعد جب میں کالج کے سامنے موجود ایس ٹی ڈی بوتھ پر ہمارے خسر جناب اکرام صاحب کو فون کیا کہ میں ملازمت پرجوائن ہوچکا ہوں تو میری بات سن کر ایس ٹی ڈی بوتھ کا لڑکا فوراً کھڑے ہو کر سلام کرنے لگا کہ وہ بھی اس کالج کا اردو میڈیم کا طالب علم ہے۔ جب میں نے ظہر کی نماز کے لیے وقف کامپلکس مسجد کا رخ کیا تو ساتھ میں موجود ہوٹل میں جناب خلیل صاحب ابو چائوش اور دیگر مقامی مسلمانوں نے میرا خیر مقدم کیا اور کہا کہ آپ کے آنے سے پہلے سیاست اخبار کے ذریعے آپ کی آمد کی اطلاع مل چکی ہے۔ مقامی جونیر کالج میں اردو میڈیم کو پڑھانے والے ریگولر لیکچررز نہیں ہے آپ حضرات کے آنے سے کالج کے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ شام تک کام کرنے کے بعد مقامی نوجوانوں سے میں نے مقامی آبادی کے بارے میں پوچھا۔ بچوں نے کہا کہ یہاں ایک نیا محلہ راحت نگر ہے۔ وہاں نئی مسجد ہے اور مسجد میں کمرے ہیں۔ میں نے راحت نگر کالونی کی مسجد میں عصر اور مغرب کی نماز پڑھی۔میرے خسر جو تبلیغی جماعت کے اہم ذمے دار تھے انہون نے ناگرکرنول کے تبلیغی جماعت کے ذمے دار جناب برہان الدین صاحب کو فون کیا کہ ان کے داماد ملازمت کے سلسلے میںناگرکرنول آرہے ہیں۔ ان کے قیام کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ میرے لیے مسجد کے کمروں میں ایک کمرے کا انتظام کیا گیا۔ چونکہ ملازمت کا پہلا دن تھا اور میں صرف ایک بیگ کے ساتھ گھر واپس ہونے کے ارادے سے ناگرکرنول آیا تھا اس لیے رات میں نے ایک لاجنگ میں قیام کیا۔ ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد دوسرے دن جمعہ کی مناسبت سے راحت نگر کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔ جناب یوسف صاحب ہیڈ ماسٹر جناب کمال صاحب اسکول ٹیچر اور دیگر احباب سے تعارف ہوا سبھی نے خوشی کا اظہار کیا۔ میں نے شام میں گھر واپسی کی ۔ ہفتے کی رخصت لی۔ہفتے کے دن میری ملازمت کے پہلے اسکول قلعہ ہائی اسکول میں میری اردو پنڈت کی ملازمت سے استعفیٰ دیا۔ شام میں سیاست اخبار پہنچ کر سب کو مٹھائی کھلا کر وہاں کی ملازمت سے استعفیٰ دیا۔ اور اتوار تک ضروری پکوان کا سامان اور بستر تیار کیا اور پیر کو ایک مرتبہ پھر سامان کے ساتھ ناگرکرنول واپسی ہوئی۔ شادی کے بعد یہ پہلا سفر تھا جس میں خود پکوان کرنا تھا۔ چھوٹا گیس سلینڈر اور کچھ پکوان کا سامان۔ بہر حال ناگرکرنول کے جونیر کالج میں ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا کچھ لڑکے لڑکیاں انٹرمیڈیٹ ایچ ای سی گروپ میں پڑھا کرتے تھے میرے ذمہ داری اردو پڑھانے کی تھی چونکہ انگریزی لیکچرر نہیں تھے چنانچہ میں وہاں کے طلباء کو انگریزی بھی سمجھا دیا کرتا تھا جناب اجمل خان صاحب جو تاریخ کے لیکچرر تھے انہیں پرنسپل نے تلگو میڈیم طلباء کو انگریزی پڑھانے کے اضافی ذمہ داری دی۔ جناب محمود علی صاحب محبوب نگر سے آیا کرتے تھے۔ ابتدائی دن مشکل میں گزرے کے خود پکوان کرنا اور گھر سے دوری۔ اس وقت ایس ٹی ڈی فون کالنگ کی سہولت تھی۔پانچ تا دس روپے میں دو چار منٹ بات ہوتی تھی۔بہر حال گھر والوں سے رابطہ اسی فون سے رہا۔ ایک مہینہ گزرنے کے بعد پہلی تنخواہ پانچ ہزار ملی۔ مقامی کلرک نے کہا کہ آپ گزیٹڈ آفیسر ہیں۔گرین پن استعمال کیجئے۔ اسٹامپ بنا لیجئے۔بہت سے لوگوں کو دستخط کرنے میں سہولت ہوگی۔ چنانچہ اللہ کی نعمت کے شکریے کے طور پر میں نے فوری جونیر لیکچرر اردو کے عہدے کے ساتھ اسٹامپ تیار کرلیا اور لوگوں کی خدمت کرنے لگا۔ مقامی لوگوں نے دریافت کیا کہ جب آپ کی شادی ہوگئی ہے تو اکیلے کیوں رہ رہے ہو اپنی فیملی کو شفٹ کرلیجیے اور سکون سے یہاں رہئے۔ ناگرکرنول جانب اچم پیٹ سری سیلم ایک ٹائون ہے جو اب ضلع بن گیا ہے۔ وہاں نل کے میٹھے پانی کی قلت تھی۔ بورویل کا پانی پینا اور نہانا پڑتا تھا۔ اس وقت تک بوتل کے پانی کا نظام نہیں تھا۔ نل میں دس پندرہ منٹ پانی آتا تھا جو پینے کے لیے بھرا جاتا تھا۔ مسجد کا روم مختصر تھا۔مسجد کے امام جناب حافظ محبوب علی صاحب نوجوان تھے۔ اجمل خان صاحب بھی ایک کمرہ لے چکے تھے ہم لوگ کالج سے واپسی کے بعد مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے مسجد کے مصلیوں میں جناب شکور صاحب‘مولا پیراں صاحب‘طاہر صاحب‘نظام صاحب‘سرپنچ صاحب‘نصیر الدین صاحب معین صاحب ایم آر او اور دیگر سے ملاقاتیں رہتی تھیں۔ محلے کے ایک بزرگ عثمان صاحب نے میرے کمرے پہنچ کر مجھ سے بات کی اور کہا کہ سنا ہے آپ فیملی شفٹ کرنے والے ہیں ہمارا گھر کرایہ پر دینے کے لیے خالی ہے۔ چل کر دیکھ لیں۔ میرا ارادہ ابھی فیملی شفٹ کرنے کا نہیں تھا لیکن معلوم ہوگیا تھا کہ چار پانچ سال سے پہلے تبادلہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ چنانچہ میں نے گھر دیکھا دو دالان نما بڑے کمرے پیچھے آنگن اور حمام وغیرہ کی سہولت تھی۔ پانی نل کے گڑھے سے بھرنا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مقامی طور پر اچھا مکان کیا ہوتا ہے۔ مالک مکان نے کرایہ چار سو روپے کہا ۔ حیدرآباد جا کر گھر والوں سے بات کی۔ ہمارے پہلے فرزند اقدس فاروقی معاذ کی ولادت ہوچکی تھی اور ان کی عمر پانچ چھ مہینے تھی۔ میری اہلیہ میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار تھیں۔ والد صاحب اور والدہ نے کہا ٹھیک ہے ایک نیا گھر آباد ہوگا۔ ہمارے برادر نسبتی جناب جاوید بھائی نے جیب کا انتظام کیا۔ ضروری سامان لے کر والدہ کے ہمراہ میں نے کرایے کے گھر میں قدم رکھا۔ مسجد کے موذن ابراہیم صاحب کی بیٹیاں بڑے کام کی تھیں۔میں نے انہیں گھر بلایا اور ہماری فیملی سے تعارف کرایا۔ بچیوں نے گھر جاکر ان کی ماں سے کہا کہ مولوی صاحب کے ساتھ ایک جوان بچی ہے ۔ ان کا اشارہ ہماری اہلیہ کی جانب تھا جو ہمیشہ شرٹ شلوار پہنا کرتی تھیں اور شادی شدہ ہونے کا گمان نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال والدہ صاحبہ نے پہلے دن سے ہی پاس پڑوس کی خواتین سے شناسائی شروع کردی۔ دیہاتی ماحول تازہ ترکاری گوشت دودھ پھل وغیرہ کی دستیابی نے ہمارا ناگرکرنول میں دل لگا دیا۔ اور ہم اکثر چھٹیوں میں ناگرکرنول سے حیدرآباد جاتے پہلے ملے پلی میں سسرال میں رکتے پھر وہاں سے معراج کالونی کا سفر۔ ناگرکرنول میں شام کے اوقات میں فرصت رہتی تو میں تصنیف و تالیف میں لگ جاتا وہاں سے روزنامہ سیاست کے لیے کئی مضامین لکھے اور نام کے ساتھ ناگرکرنول لکھنے سے ہمارے علاقے کا چرچا بھی ہوتا گیا۔ ہمارے کالج کے کتب خانے میں قدیم بیش قیمت اردو کتابیں بھی ملیں۔جن میں ایک ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی شاہکار کتاب عہد نبوی کے میدان جنگ بھی تھی۔بمبئی کے ماموں جناب واحد علی صاحب کے ذریعے میں نے سن رکھا تھا کہ جناب حمید اللہ صاحب بین الاقوامی قانون کے ماہر عثمانیہ یونیورسٹی کے مشہور اسکالر تھے اور انہوں نے حیدرآباد ریاست کا مقدمہ اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا۔ اس کتاب کے مختلف ابواب کو تعارف کے ساتھ میں نے روزنامہ سیاست کے خصوصی ایڈیشن میں شائع کروایا۔ ناگرکرنول کی مسجد میں ہم نے تبلیغی جماعت کے کام کو آگے بڑھایا۔جناب برہان الدین صاحب جنہیں مقامی لوگ اڈوی راجا یعنی جنگل کا راجا کہا کرتے تھے وہ جماعت کے امیر تھے۔ اسی سال عمر تھی لیکن پابندی سے مسجد آتے ان کے ساتھ ان کے بھائی جناب نصیر الدین صاحب اور مجیب صاحب اور دیگر کے ساتھ مل کر ہم ہفتہ وار اجتماع کرتے۔ لوگوں سے ملاقات کرتے مسجد کی آبادی کی فکر کرتے۔ گدوال آتما کور‘اچم پیٹ‘کلواکرتی اور دیگر علاقوں تک ہم نے اجتماعات میں شرکت کی۔ رمضان میں نورانی ماحول ہوتا مصلیوں کی تعداد بڑھ جاتی۔ جاگنے کی راتوں میں خصوصی بیان ہوتا۔ ان تمام پروگراموں میں ہم لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے۔ ناگرکرنول میں ایک تالاب بھی تھا۔ جو موسم گرما میں سوکھ جائے تو اس میں تربوز کی فصل ہوتی۔ہم حیدرآباد سے آئے مہمانوں کے ساتھ وہاں تالاب کی سیر کو گئے۔ ہر سال سیتا پھل خوب جی بھر کر کھائے۔آم بھی کافی میٹھے ملتے تھے۔ ہماری تنخواہ کے اعتبار سے آمدنی اچھی تھی اس لیے کھانے پینے میں فراوانی رہی۔ دو سال کے بعد وہاںسینے میں درد کی شکایت پر حیدرآباد کر رخ کیا ۔ ڈاکٹر اومیش چندرا کو دکھانے پر اس نے دل کے عارضہ کا کہا۔ تین چار مہینے تک گولیاں چلتی رہیں پرہیز اور واکنگ سے وزن کم ہوا لیکن سینے میں درد کی شکایت کم نہیں ہوئی۔ ایک مرتبہ ڈاکٹر واصف اعظم کو دکھایا گیا انہوں نے ٹریڈ مل ٹیسٹ اور ایکو ٹسٹ کرنے کے بعد کہا کہ آپ کو دل کا عارضہ نہیں بلکہ گیس کی شکایت ہے انہوں نے ساری گولیاں روک کر ایسیڈیٹی کی گولیاں لکھیں ایک مہینے بعد افاقہ ہوا اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا گیا کہ اس نے کم عمری میں عارضہ قلب سے محفوظ رکھا۔ ناگرکرنول کے قیام کا ایک اہم کام یہ ہوا کہ راحت نگر کی مسجد میں ایک جانب کھلی جگہ تھی۔ مسجد کے اخراجات کی پابجائی کے لیے مشورہ ہوا کہ اس جگہ پر کرایے کے نئے کمرے بنادیئے جائیں۔ چنانچہ میں نے اپنے خسر صاحب سے کہا کہ اگر کوئی مسجد کی تعمیر میں پیسے لگانا چاہیں تو یہاں کام کا موقع ہے۔ اتفاق سے حیدرآباد میں ان کے گھر ایک خاتون پہنچیں اور انہوںنے ہمارے خسر کو ایک لاکھ روپے دے کر کہا اس رقم کو کسی مسجد کی تعمیر میں لگادیں۔ جناب اکرام صاحب نے مجھ سے کہا کہ کام کا اندازہ کیجئے۔ میں نے مقامی احباب سے مل کر بات کی اور ایک مستری کو گتے پر کام دیا پانچ کمرے بغیر کالم کے لوڈ بیرنگ آر سی سی چھت اور ہر کمرے میں باورچی خانہ اور نل کی سہولت کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار میں پانچ مضبوط کمرے بن کر تیار ہوگئے ان کمرووںکو کرایہ پر دیا گیا اور آج ہر کمرے کا کرایہ دو ہزار روپے ہے۔ اور آج بھی لوگ کمرہ بنانے والوں کو یاد کرتے ہیں۔ہم نے جناب حافظ محبوب علی صاحب سے کہا کہ فجر کے بعد مصلیوں کے لیے معارف القرآن کی تفسیر شروع کریں تو تفسیر شروع کی گئی۔ عشاء کے بعد فضائل اعمال کی تعلیم ہوا کرتی تھی۔ معارف الحدیث کا سیٹ میں نے حافظ محبوب علی کو تحفے میں دیا ۔ وہ جمعہ کے خطبے میں تقریر کے موقع پر مناسبت سے بیان کرنے لگے اور آج ایک اچھے خطیب ہوگئے۔میں اور اجمل خان صاحب نے انہیں مشورہ دے کر عثمانیہ یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیم مرکز سے انہیں ایم اے اردو کا امتحان دلایا۔ اس امتحان میں وہ کامیاب ہوئے کلواکرتی میں کئی سال کنٹریکٹ لیکچرر کے عہدے پر کام کیا اور حکومت تلنگانہ کی ایک اسکیم کے تحت وہ اب ریگولر لیکچرر ہوگئے۔وہاں جن طلباء کو ہم نے انٹرمیڈیٹ میں پڑھایا وہ اب لیکچرر اور ٹیچر ہیں۔ زبیر اکنامکس کے لیکچرر ہیں۔ عارفہ بیگم ایم وی ایس ڈگری کالج محبوب نگر میں تاریخ کی لیکچررہیں۔سہیل اور دیگر طلباء اسکول ٹیچر ہیں۔ ناگرکرنول میں تلگو دیشم حکومت میں ہر سال جنم بھومی پروگرام کے تحت مقامی گائوں کو جانے کا اتفاق ہوا۔ الیکشن کے زمانے میں کلواکرتی‘گدوال‘اچم پیٹ اور کولا پور کے علاقوں کو جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے دوران قیام ناگرکرنول وکراما مارکا کے بعد نارائن ریڈی صاحب کالج کے پرنسپل رہے بعد میں ایک مسلمان صاحب پرنسپل رہے۔ سات سال کا عرصہ گزرگیا۔ ہمارے تین لڑکے ہوگئے معاذ کے بعد فراز اور سعد۔ ہم لوگوں نے شکور صاحب کے مکان کی پہلی منزل پر کرایہ کا مکان حاصل کیا اور عثمان صاحب کا مکان چھوڑ دیا کیوں کہ شکور صاحب کے مکان میں بورویل تھا اور صفائی تھی۔ عثمان صاحب نے بھی بورویل دلایا تھا لیکن گھر کی صفائی دیکھ کر ہم نے شکور صاحب ٹیلی کام ڈپارٹمنٹ کے گھر میں رہائش اختیار کی۔اس عرصے میں ہماری والدہ‘ساس سسر اور دیگر رشتے دار چھٹیوں میں ناگرکرنول آجایا کرتے تھے۔ ناگرکرنول تا حیدرآباد نان اسٹاپ بس سے ہمارا اکثر سفر رہا کرتا تھا۔ ہم نے لینڈ لائن فون بھی لیا۔ غزالہ میڈیم کی ایک بیٹی نمرہ اور ایک بیٹا تھا اجمل خان صاحب کی بڑی بیٹی کا میری نظروں کے سامنے لاری کی ٹکر سے انتقال ہوا۔ جناب برہان الدین صاحب کا انتقال ہوا جناب عبید صاحب کا انتقال ہوا۔ہمارے کمشنر کافی سخت مزاج تھے کافی جدوجہد کے بعد ملازمین کے تبادلوں کا اعلان ہوا ہم لوگوں نے فوری تبادلے کی درخواست دی اور ۲۰۰۵ء میں پوسٹ آفس جا کر جب ہم نے تبادلوں کے کور لائے تو ہماری خوشی کہ انتہا نہ رہی کہ ناگرکرنول سے اب ہم جارہے ہیں میراا ور غزالہ کا تبادلہ سنگاریڈی ہوا جو ہمارے گھر سے پچاس کلومیٹر دور تھا۔جب کے اجمل خان صاحب کا بودھن نظام آباد ہوا تھا وہ بھینسہ اپنے وطن سے قریب چلے گئے تھے ایک ساتھ تین ریگولر لیکچررز کا تبادلہ ہونے سے مقامی لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا لیکن یہ بھی حقیقت رہی کہ سرکاری ملازمت میں تبادلے ہوتے رہتے ہیں۔ جب ہم لوگ نئے مقام پر جوائن ہوکر واپس ناگر کرنول آئے تو ہم نے گائوں والوں کی دعوت کی۔ شکیل صاحب سپلائنگ کمپنی میں کام کرنے والے رمیش نے پوٹلے کی بریانی اور میٹھا بنایا تقریباً سو افراد کی دعوت ہوئی۔ مقامی لوگوں نے ہمیں تحفے تحائف دئیے دوسرے دن غزالہ میڈم اور ہمارا سامان ایک بڑے ٹرک میں لادا گیا۔ سات سال قیام کے دوران ہمارے گھر فریج اسکوٹر الماری سمیت اچھا خاصا سامان جمع ہوگیا تھا۔ پہلے حصے میں غزالہ میڈم کا سامان اور دوسرے حصے میں ہمارا سامان لادا گیا جس کے لیے مسجد کے موذن صاحب نے کافی محنت کی وہ ٹرک کے ساتھ سنگاریڈی بھی آئے تاکہ سامان اتارا جائے۔ لاری میں ہی دونوں گھروں کی خواتین بچے اور میں ساتھ سنگاریڈی پہنچے۔ میں نے جلال باغ میں کرائے کا مکان لیا تھا جب کہ غزالہ میڈیم نے اوپر بازار میں واقع کالج کے قریب کرایہ کا مکان لیا۔ شکور صاحب اور دیگر سے فون پر بات ہوتی رہی اور ایل پی سی اور سروس بک لینے کے بعد ناگر کرنول سے ہمارا رابطہ ختم ہوگیا۔ بعد میں شکور صاحب کی بیٹی کی شادی میں میں نے اور اجمل خان صاحب نے شرکت کی۔ شکور صاحب کی اہلیہ جنہیں ہم آنٹی کہتے تھے گھر کے بزرگ کی طرح انہوں نے ہماری اہلیہ کا ساتھ دیا خاص طور سے چھوٹے بچوں فراز اور سعد کی دیکھ بھال اور بیماری کے موقع پر تسلی دینا وغیرہ معاملات میں ہمیں کبھی اجنبیت کا احساس ہونے نہیں دیا۔آج بھی ذریعہ فون شکور صاحب اور دیگر احباب سے بات ہوتی رہتی ہے۔ شکور صاحب اور شکیل بھائی ۲۰۰۸ء میں سفر حج کے موقع پر ہمارے ساتھ تھے اور بعد میں بھی حیدرآباد میں مختلف تقاریب میں ان سے ملاقاتیں رہیں۔ سنگاریڈی گرلز جونیر کالج میں میرا تبادلہ ہوا تھا وہاں ایک سال ملازمت کرنے کے بعد ۲۰۰۶ء میں میرا ڈگری کالج کے لیکچرر کے طور پر ظہیر آباد تبادلہ ہوا۔ سنگاریڈی میں جلال باغ میں کچھ عرصہ پہلی منزل پر قیام کے بعد میں نے مکان تبدیل کیا اور بس اسٹینڈ سے قریب شانتی نگر محبوبیہ مسجد سے متصل جناب عابد حسین صاحب کے مکان میں ہم لوگ منتقل ہوگئے۔ ماربل کے فرش کے ساتھ ان کا مکان نچلی منزل پر صاف ستھرا تھا گھر کے سامنے بڑا میدان گھر سے متصل مسجد اور گھر میں پانی کی اچھی سہولت۔ جناب عابد حسین صاحب کے گھر میں تقریباً چھ سال کا عرصہ گزرا۔ سنگاریڈی سے جب میرا تبادلہ ظہیر آباد ہوا تو سنگاریڈی سے ظہیر آباد کا فاصلہ پچاس کلومیٹر تھا۔بچوں کو مقامی اسکول میں داخلہ دلایا گیا تھا سنگاریڈی حیدرآبادسے قریب تھا اس لیے مشورہ ہوا کہ میں روزانہ بس سے ظہیر آباد جا کر واپس آتا رہوں ایک گھنٹے کا بس کا سفر تھا یہ میرے لیے نیا تجربہ تھا کہ ملازمت کہیں اور فیملی کہیں اور لیکن یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سنگاریڈی چوراہا پر اسکوٹر رکھ کر میں کرناٹک کی بس میں سوار ایک گھنٹے میں ظہیر آباد پہنچ جاتا تھا۔ ظہیر آباد کی لال مٹی جسے حنائی سرزمین کہا جاتا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مٹی ایک دفعہ کسی کے پیر کو لگ جائے تو پیچھا نہیں چھوڑتی یعنی ملازمت کا عرصہ طویل ہوتا ہے تبادلہ نہیں ہوتا۔ سنگاریڈی میں بھی ہمارا قیام خوشگوار رہا عابد بھائی اور ان کی فیملی نے ہمارے بچوں کا اچھا خیال رکھا اور دن تیزی سے گزرتے رہے۔ظہیر آباد میں گیتا لکشمی پٹنائک ہماری پرنسپل تھیں جناب عبدالحئی صاحب سینیر لیکچرر نے مجھے سے کہا کہ یہاں اردو کے علاوہ بچوں کو بی اے میں ایک مضمون ماڈرن لینگویج اردو کا ہے جس کے لیے الگ سے لیکچرر نہیں ہے آپ ہی کو یہ مضمون پڑھانا ہوگا میں نے حامی بھری کیوں کہ یہ اردو ادب سے متعلق مضامین تھے۔میں نے عثمانیہ یونیورسٹی جاکر وہاں سے فاصلاتی تعلیم کی کتابیں لائیں۔ اور طلباء کو ماڈرن لینگویج اردو بھی پڑھایا جناب امجد صاحب جونیر کالج کے لیکچرر بچوں کو سیاسیات پڑھایا کرتے تھے کالج میں جناب عیسٰی ہاشمی صاحب فزیکل ڈائرکٹر اور محترمہ صبیحہ شریف صاحبہ کامرس کی لیکچرر تھیں۔ ظہیر آباد میں اردو میڈیم پڑھنے والے طلباء کی تعداد زیاد ہے کالج میں لڑکیاں اور لڑکے ساتھ پڑھتے تھے لڑکیوں کو مکمل پردہ کرنے اور برقع پہننے کی پابندی تھی لڑکے بھی ڈسپلن میں رہ کر پڑھا کرتے تھے۔ کالج میں فریشر پارٹی سالانہ فیرویل وداعی پارٹی اور مختلف تقاریب ہوا کرتی تھیں۔ گیتا پٹنائک کے تبادلے کے بعد تین پرنسپل اور آئے ۔سیاسیات کے لیکچرر کے طور پر صفیہ محمدی اور سمیرہ میڈم کا تبادلہ بھی اس کالج پر ہوا۔ طلباء کو میں نے کمپیوٹر پر نوٹس فراہم کئے ۔لائبریری کے لیے اردو کی کتابیں خریدیں۔ اسی کالج میں ملازمت کے دوران ۲۰۰۸ء میں مجھے اہلیہ کے ساتھ حج بیت اللہ کے سفر کا موقع ملا۔چھ سال کی تکمیل کے بعد میرا تبادلہ ظہیر آباد سے اپنے وطن نظام آباد ہوا۔ توایک مرتبہ پھر بیوی بچوں کے ہمراہ سامان ٹرک میں ڈالے نظام آباد کا سفر ہوا۔ ہمارے مکان دار جناب عابد حسین صاحب اور ان کی اہلیہ مغموم تھیں کہ ہمارا ساتھ چھوٹ رہا ہے۔ اس گھر میں رہتے ہوئے ۲۰۰۹ء میں میں نے کمپیوٹر خریدا تھا اور ٹیلی فون لائن سے انٹرنیٹ کنکشن لیا گیا۔ اس وقت انٹرنیٹ کی اسپیڈ بہت کم ہوا کرتی تھی ویڈیو ڈائون لوڈ کرکے دیکھنا پڑتا تھا ای میل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کافی کار آمد تھا اسی زمانے میںمیں نے فیس بک اکائونٹ شروع کیا۔ لوگوں سے رابطہ بڑھا۔ اردو میں ان پیج ٹائپ کرنا سیکھا اور یونی کوڈ میں اردو ٹائپ کرنا سیکھا۔ نظام آباد میں سید اسد کے اخبار آج کا تلنگانہ کے لیے میں نے سنگاریڈی سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباسو سے ذائد اردو مضامین لکھ کر بھیجے جو آج کا تلنگانہ کے دوسرے صفحے پرروزانہ شائع ہوتے تھے اور شام میں فیس بک پر یہ مضامین سلسلہ وار لگ جاتے تھے۔ سنگاریڈی میں مسجد نعمانیہ سے تعلق رہا۔ امیر صوفی صاحب کے فرزندان مفتی عمران فاروق حال مقیم کناڈا اور مولانا اسلم قاسمی سے ملاقاتیں رہیں۔ رمضان میں تراویح مسجد نعمانیہ میں ہوا کرتی تھی حجاج کرام کے تربیتی اجلاسوں اور متبرک راتوں میں مساجد میں تقریر کا موقع ملا۔ سنگاریڈی میں جناب عارف صاحب انچارج اردو اکیڈیمی مرکز سے استفادے کا موقع ملا انہو ں نے میرے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کی ان پیج کمپوزنگ کی تھی۔سنگاریڈی میں قیام کے دوران ہی میرے پی ایچ ڈی مقالے کی تکمیل ہوئی۔اور ۲۰۰۶ء میں مجھے ڈگری ملی۔ ظہیر آباد میں میرے ہر دلعزیز شاگرد محمد محبوب رہے جو زمانہ طالب علمی سے ہی اخبارات میں مضامین لکھ رہے تھے میری رہبری میں انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے کے بعد یونیورسٹی آف حیدرآباد سے بے ہوش محبوب نگری کی نعت گوئی پر ایم فل کیا اور اب وہ میرے زیر نگرانی اورینٹل اردو عثمانیہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ان کے مقالے کا عنوان متحدہ آندھراپردیش اردو اکیڈیمی کی ادبی خدمات ہے۔ سنگاریڈی میں چھ سال کا عرصہ گزارنے کے بعد میں اپنی فیملی کے ساتھ نظام آباد منتقل ہوا۔ ظہیر آباد سے میرا تبادلہ گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد ہوا تھا۔ یہ ایک خود مختار کالج ہے جہاں چار ہزار طلباء پڑھتے ہیں۔ اور پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد سو سے زائد ہے۔ نظام آباد تبادلے کی اطلاع پا کر نظام آباد کے احباب خوش ہوئے کہ جس ضلع سے ایس ایس سی پڑھ کر میں آگے بڑھا تھا اب لیکچرر بن کر اسی ضلع کی خدمت کے لیے وطن آرہا ہوں۔ آج کاتلنگانہ میں میرے مضامین پڑھ کر وہاں جماعت اسلامی کے سینیر کارکن جناب عبدالغفار صاحب کے فرزند جناب عزیز سہیل نے مجھ سے رابطہ کیا اور نظام آباد کے احوال بیان کیئے۔ ایک ریسرچ اسکالر مریم فاطمہ جو تلنگانہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں انہوں نے بھی بچوں کے اسکول میں داخلوں کے سلسلے میں رہنمائی کی۔ نظام آباد پہنچنے پر گری راج کالج کے کامرس کے لیکچرر اور ہمارے محلہ پھولانگ کی ایک قابل شخصیت جناب عابد نثار نے اسٹیشن کی مسجد سے مجھے کالج لے جا کر مجھے جوائن کرانے میں رہبری کی۔اس وقت کالج کی پرنسپل مسز موریا یونس تھیں جو انگریزی کی لیکچرر رہ چکی تھیں۔گری راج کالج میں مجھ سے قبل ڈاکٹر ناظم علی صدر شعبہ تھے انہوں نے بھی کالج کے احوال بیان کئے۔ جناب عابد نثار صاحب نے محفل ہوٹل میں لنچ کرایا۔میرے بچپن کے دوست اسلم لوہیا ایڈوکیٹ رضی الدین اسلم محمد عبدالبصیر سے ملاقات رہی۔ اسلم لوہیا نے اپنا نیا خریدا گیا مکان مجھے کرایہ پر دینے کے لیے رضامندی ظاہر کی۔ہمارے آغا خان اسکول کے ہیڈ ماسٹرجناب یعقوب صاحب کے فرزند مجیب صاحب نظام آباد میں نالج پارک اور کریسنٹ اسکول جیسے تعلیمی ادارے چلا رہے تھے سنگاریڈی میں کرسچین اسکول میں پڑھانے کے بعد نظام آباد میں مسلم مینجمنٹ ادارے میں بچوں کو پڑھانا چاہ رہا تھا۔ نظام آباد سے سنگاریڈی واپس آکر ایک مرتبہ پھر رخت سفر نظام آباد کی جانب باندھنا پڑا۔ عابد حسین صاحب کی بیٹی عفیرہ بیٹے اشفاق اور ان کے بھانجے امتیاز نے ہمیں وداع کیا۔ عابد حسین صاحب اور ان کی اہلیہ کو ہماری چھوٹی بیٹی امیمہ سے کافی لگائو تھا جس کی عمر ابھی دو تین سال ہی تھی۔ بہرحال نظام آباد پہنچ کر چاچا اظہر فاروقی کے گھر رات میں قیام کیا اور مقامی احباب کے تعاون سے گیس کنکشن اور اسکول میں داخلے اور دیگر مراحل طے ہوتے گئے۔ گری راج کالج میں میری صلاحیتوں کو پیش کرنے کا موقع ملا۔ کالج میں میٹنگ میں پوچھا گیا کہ آپ کے شعبے کے لیے کیا چاہئے تو میں نے ایک لیپ ٹاپ کی فرمائش کی۔ میرے علاوہ دیگر دس شعبہ جات کو پرنسپل لمبا گوڑ نے منظوری دی۔میرے گری راج کالج آنے کے کچھ دن بعد ہی موریا یونس کا حیدرآباد کمشنر آفس تبادلہ ہوگیا تھا۔ اور کالج کے سابق لیکچرر پروفیسر لمباگوڑ جو تلنگانہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے وہ واپس گری راج کالج پرنسپل بن کر آگئے۔ ان کے دور پرنسپل شپ میں نے کالج میں دو ورکشاپ تین نیشنل سمینار کرائے مجھے انگریزی شعبہ کا صدر بنایا گیا۔ گری راج کالج کو کالج وتھ پوٹینشیل فار اکسلینس کا مقام حاصل تھا یوجی سی کی جانب سے پچہتر لاکھ روپے کی گرانٹ تھی پرنسپل نے کہا کہ تمام شعبہ جات کو نیشنل سمینار کرانا چاہئے میں نے بھی ساتھیوں سے مشورہ کیا اور نیشنل سمینار کی منظوری حاصل کی۔ پرنسپل صاحب نے پچہتر ہزار روپے منظور کئے اور کہا کہ سمینار کے موضوع کے انتخاب کے بعد مہمانوں کی آمد سے متعلق کام کیا جائے سمینار کا بروشر تیار کرایا جائے اور قومی سطح پر اسکالرس کو مدعو کیا جائے۔ ہمارے ساتھی ڈاکٹر فضل اللہ مکرم اور دیگر سے مشورے کے بعد سمینار کا موضوع’’اکیسویں صدی اردو ادب چیلنجز اور ان کا حل‘‘ طے ہوا۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد سے پروفیسر مظفر شہ میری‘پروفیسر محمد انور الدین‘پروفیسر نسیم الدین فریس ‘ کے علاوہ ڈاکٹر مجید بیدار‘ ڈاکٹر فضل اللہ مکرم‘ڈاکٹر شیخ سلیم ‘ڈاکٹر اطہر سلطانہ’ڈاکٹر گل رعنا‘ڈاکٹر موسیٰ اقبال‘ڈاکٹر محمد عبدالقوی‘ڈاکٹر شجاعت علی‘ مصطفی علی سروری‘ڈاکٹر سلمان عابد‘ڈاکٹر عتیق اقبال‘ڈاکٹر نثار‘ڈاکٹر طیب خرادی‘ ڈاکٹر عبد القدوس اور دیگر اسکالرس نے نیشنل سمینار میں شرکت کی ۔ڈاکٹر محمد ناظم علی ‘ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل نے دو روزہ سمینار کے انصرام میں کافی تعاون کیا۔ہمارے کالج سے جناب عابد صاحب‘ حسیب الرحمٰن کامرس لیکچرر‘محمد مبین الدین لیکچرر تاریخ‘ڈاکٹر محمد عبدالرفیق کمسٹری لیکچرر‘ محمد عبدالرحمٰن دائودی‘محمد عبدالبصیر جونیر لیکچرر اردو اور دیگر نے تعاون کیا۔ جناب نصیر صاحب سابق صدر شعبہ تاریخ کے مشورے سے تبسم فریدی‘ مقامی صحافیوں اور گری راج کالج میں شعبہ اردو اور اردو میڈیم کے قیام کے لیے کام کرنے والوں کو مدعو کیا گیا۔ حیدرآباد سے ایک دن قبل مہمان آگئے تھے جنہیں مقامی گیسٹ ہائوز میں رکھا گیا۔ سمینار کی صبح پرنسپل کے چیمپر نے مہمانوںکا خیر مقدم کیا گیا۔ ابتدائی سیشن کامیاب رہا ۔ پروفیسر محمد انور الدین نے کہا کہ انہوں نے زندگی میں تیس سے زائد قومی سمیناروں میں حصہ لیا لیکن گری راج کالج کے اردو سمینار میں شرکاء کی اس قدر تعداد کہیں نہیں دیکھی۔پروفیسر مظفر علی شہ میری نے کلیدی خطبہ دیا اور کہا کہ اردو کے حروف تہجی باون ہوسکتے ہیں انہوں نے اردو کے چیلنجز اور ان کے حل کی جانب توجہ دلائی۔ سمینار کے پہلے دن کے اختتام کے بعد رات میں ڈاکٹر مجید بیدار کی صدارت میں مشاعرہ منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر محسن جلگانوی اور مقامی شعرا نے کلام سنایا۔ دوسرے دن ڈاکٹر مجید بیدار ڈاکٹر فضل اللہ مکرم اور ڈاکٹر شیخ سلیم نے اجلاس کی صدارت کی۔ تمام مقالہ نگاروں کو سند اور مومنٹو دیا گیا۔مہمانوں کو خصوصی مومنٹو اور شال پیش کی گئی۔ دونوں دن اخبارات میں سمینار کی کاروائی کو پیش کیا گیا ۔ اس سمینار میں پڑھے گئے مقالوں کو کتابی شکل دی گئی اور اس کی اشاعت میں جناب مجیب صاحب ڈائرکٹر نالج پارک انٹرنیشل اسکول نے مالی تعاون کیا۔ اسی طرح سمینار کے شرکا جو بیگ دئیے گئے وہ سلطان برادرس کلاتھ شوروم کے مالی تعاون سے دیے گئے۔ نظام آباد کے محبان اردو کا یہ تاثر تھا کہ نظام آباد کی تاریخ میں اس قد ر شاندار پیمانے پر اردو سمینار منعقد نہیں ہوا۔ اس سمینار کا رپورتاژ محمد محبوب اور ڈاکٹر عزیز سہیل نے لکھا جو انٹرنیٹ پر پڑھا جاسکتا ہے۔
شعبہ اردو گری راج کالج سے ایک اور سمینار ۲۰۱۳ء میں منعقد ہوا۔یہ سمینار قومی کونسل برائے فروغ اردو دہلی کے مالی تعاون سے منعقد ہوا تھا۔ اس سمینار کے لیے چالیس ہزار منظورہوئے لیکن پہلی قسط بیس ہزار ہی مل سکی۔سمینار کا موضوع تھا اردو ادب تہذیبی قدریں ماضی حال اور مستقبل۔ اس سمینار کی خاص بات یہ رہی کہ مشہور ماہر اقبالیات و ماہر انیس ڈاکٹر تقی عابدی نے کناڈا سے براہ راست لیکچر دیا اس کے لیے اسکائپ ویڈیو کالنگ کی مدد لی گئی۔ کسی بھی یونیورسٹی اور کالج میں انٹرنیشنل لائیو لیکچر کرنے کا یہ پہلا موقع تھا رات دو بجے ڈاکٹر تقی عابدی نے کناڈا سے ایک گھنٹہ بغیر کسی رکاوٹ کے بات کی واضح رہے کہ اس وقت تھری جی انٹرنیٹ تھا اور ڈونگل کو تین سو روپے دے کر دو جی بی یا چار جی بی ریجارج کرانا پڑتا تھا۔ یہ ایک کامیاب لیکچر تھا جس پر کالج کے پرنسپل نے مبارکباد دی اس کے بعد اسکائپ پر ہی عذرا بانو نے لکھنو سے اکنامکس لیکچر دیا اور میں نے ایم وی ایس کالج میں لیکچر دیا۔ اس سمینار کے مہمان خصوصی پروفیسر خالد سعید صاحب مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ڈاکٹر فاضل حسین پرویز مدیر گواہ اور مقامی اساتذہ تھے اس ایک روزہ سمینار میں چالیس سے زائد اسکالرس نے مقالے پڑھے۔ اس سمینار کی روداد بھی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوںپر پیش کی گئی۔ ۲۰۱۴ء میں مجھے جب شعبہ انگریزی کی صدارت سونپی گئی تو انگریزی کا قومی سمینار منعقد کرنے کی ذمہ داری مجھے دی گئی۔ انگریزی ادب کے فروغ میں ہندوستانی ادیبوں کا حصہ موضوع پر یہ سمینار ہوا۔تلنگانہ یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر مسٹر پارتھا سارتھی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔عثمانیہ یونیورسٹی اورتلنگانہ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے اساتذہ اور لیکچررزنے اس سمینارمیں شرکت کی اور مقالے پڑھے۔ تینوں سمیناروں میں پڑھے گئے مقالوں کے سوونیر نامور شخصیات کے پیغامات کے ساتھ شائع کیے گئے۔ انگریزی سمینار کے انعقاد کے بعد کالج میں میری اہمیت بڑھ گئی اور مجھے آئی کیو اے سی کا کو آرڈینیٹر بنایا گیا۔ کالج میگزین سرجنا کے دو ایڈیشن میں نے شائع کرائے۔ اردو میں ایک ورکشاپ صحافت کے موضوع پر کرایا گیا جس میں حیدرآباد سے ای ٹی وی اردو پر نیوز پڑھنے والے جیلانی اردو یونیورسٹی شعبہ جرنلزم کے استاد مصطفی علی سروری اور عثمانیہ یونیورسٹی کے استاد اردو ڈاکٹر فضل اللہ مکرم نے شرکت کی۔مقامی صحافیوں کی اس ورکشاپ میں شال پوشی کی گئی۔ ترجمہ کے فن پر ایک ورکشاپ کرایا گیا جس میں حیدرآباد سے مسٹر جنید ذاکر اور فہیم الدین احمد اردو یونیورسٹی نے شرکت کی۔ طلباء کے لیے کالج میں کہکشاں پروگرام ترتیب دیا گیا۔گیسٹ لیکچر کے طور پر ڈاکٹر حمیرہ سعید‘ڈاکٹر محمد ناظم علی‘ ڈاکٹر صفدری عسکر اور رحمٰن دائودی نے شرکت کی۔ ایک شاعر سے ملاقات کے طور پر بیلن نظام آبادی اور جمیل نظام آبادی اور شیخ احمد ضیا کو مدعو کیا گیا۔یوجی سی کی جانب سے مقامی نصاب شامل کرنے کی ضرورت کے پیش نظر میں نے گری راج کالج کے اردو نصاب میں بیس فیصد نصاب تبدیل کیا جس میں جمیل نظام آبادی کی غزلیں ڈاکٹر بیگ احساس کا افسانہ درد کے خیمے محمد ایوب فاروقی کی نظم تیری میری آس وہی ہے شیخ احمد ضیا کا افسانہ اولڈ ایج ہوم ‘ ضلع نظام آباد کی تاریخ اور ضلع نظام آباد کی اردو صحافت مضامین شائع کرائے۔ نظام آباد میں قیام کے دوران اردو اسکالرس اسو سی ایشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی جس کا مقصد یونیورسٹی میں پڑھنے والے ریسرچ اسکالرس کی رہنمائی و رہبری تھا۔پہلے اجلاس میں تلنگانہ یونیورسٹی کے اس وقت کئے وائس چانسلر پروفیسراکبر علی خان نے اس انجمن کے قیام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ایک معیاری لائبری قائم کرنے کے لیے دس ہزار روپیوں کا عطیہ دیا۔ ڈاکٹر محمد عبدالرفیق صاحب گری راج کالج نے پانچ ہزار روپے دئیے ان پیسوں سے ایک الماری کا ریک خرید کر یوجی سی نیٹ اور اردو کی اہم کتابیں خریدی گئیں اردو اکیڈیمی مرکز نظام آباد میں جناب جمیل نظام آبادی کے تعاون سے یہ لائبریری شروع کی گئی اور اسی لائبریری میں اردو اسکالرس اسوسی ایشن کے اجلاس منعقد ہوئے جس میں اسکالرز نے اپنے تحقیقی مضامین پیش کیے گئے اردو کے ادیبوں اور شعرا سے ان کی تخلیقات سنی گئیں ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل اس انجمن کو چلانے کے لیے حرکیاتی رکن ثابت ہوئے محمد عبدالبصیر ڈاکٹر محمد ناظم علی اور رحمٰن دائودی اور دیگر نے اجلاسوں کے انعقاد میں تعاون کیا۔ نظام آباد میں قیام کے دوران ہمارے گھر بھی ادبی اجلاس منعقد ہوتے رہے فاروقی منزل کے نام سے ہمارے گھر پر جناب جمیل نظام آبادی نے والد صاحب کی یاد میں شائع گونج خاص نمبر کی رسم اجرا انجام دی جناب حلیم بابر نے ہمارے گھر پروگرام میں شرکت کی اور کریم نگر سے رحیم انور کے افسانوں کے مجموعے کی رسم اجرا بھی ہمارے گھر منعقد ہوئی۔ نظام آباد میں قیام کے دوران ریسرچ اسکالر مریم فاطمہ نے تلنگانہ یونیورسٹی سے غالب کی نثر پر پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ وہ رہبری و رہنمائی کے لیے گری راج کالج آتی رہیں۔ ہمارے بہت سے طالب علم گری راج کالج سے پڑھ کر آگے ترقی کئے اس طرح نظام آباد کا قیام یادگار رہا۔ چھ سال قیام کے بعد جب حکومت کی جانب سے لازمی تبادلے ہوئے تومیرا تبادلہ نظام آباد سے این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگر ہوا۔ واضح رہے کہ نظام آباد وطن سمجھ کر میں نے مستقل نظام آباد میں قیام کے ارادے سے کھوجہ کالونی میں سو گز کا مکان خرید لیا تھا۔ بچوں میں بڑے فرزند معاذ کا ایس ایس سی اور انٹر ہونے کے بعد وہ فزیو تھیراپی کی تعلیم کے لیے دادی کے گھر حیدرآباد منتقل ہوگئے تھے۔ دوسرے فرزند فراز کا انٹر کاکتیہ کالج سے ہوگیا اور تیسرے فرزند سعد کا حفظ شروع ہوا تھا۔بہرحال اس دفعہ بچوں کی تعلیم کی خاطر جس طرح پہلے ہم لوگ حیدرآباد شفٹ ہوئے تھے اسی طرح اس بار ہم لوگ بھی حیدرآباد آغا پورہ شفٹ ہوئے تاکہ سعد کو ٹین پوش کی مسجد کے مدرسے میں مولانا عبیدا لرحمٰن اطہر کے مدرسے میں پڑھنے کا موقع ملے۔ بچوں کوبھی کالج قریب ہوتا تھا اور مجھے املی بن بس اسٹیشن سے محبوب نگر بس بھی ملتی تھی۔ میری اسکوٹر بجاج چیتک پرانی ہونے کے باوجود اچھا ساتھ دے رہی تھی میں املی بن تک صبح آٹھ بجے اسکوٹر سے جاتا وہاں اسٹینڈ میں اسکوٹر رکھ کر محبوب نگر کی بس پکڑنا اور ساڑھے دس بجے اتر کر کالج جانا اور پھر شام واپسی یہ سلسلہ ۲۰۱۸ ء تا۲۰۲۲ء تک چلتا رہا۔ این ٹی آر کالج لڑکیوں کا کالج تھا خواتین اور مرد لیکچررز کی تعداد پچاس سے زائد تھی طالبات کی تعداد تین ہزار تک تھی۔ اس کالج میں بھی مجھے اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملا۔ کالج کی پرنسپل محترمہ بی بی زینب تھیں کالج میں نیاک انسپکشن بڑا مرحلہ تھا جو میرے زیر نگرانی ۲۰۲۰ء میں مکمل ہوا۔ بی بی زینب کے دور سی ہی مجھے کالج میں وائس پرنسپل آئی کیو اے سی کو آرڈینیٹر روسا کوآرڈینیٹر اور میگزین کمیٹی کا کوآرڈینیٹر بنایا گیا،میرے زیر نگرانی کالج کی دیدہ زیب ویب سائٹ تیار کی گئی جس پر کالج کی ساری سرگرمیاں اپ لوڈ کی جاتی تھیں۔ درپن کے نام سے کالج کے تین سالانہ میگزین میری ادارت میں شائع ہوئے ۔ جن میں چار زبانوں میں طلباء کی تخلیقات کے علاوہ کالج کی سرگرمیاں پیش کی جاتی تھیں۔ ڈگری کالج میں پندرہ سال سروس کرنے اور پی ایچ ڈی کرنے کی شرط پر کسی لیکچرر کو پرنسپل کے عہدے پر ترقی دی جاتی ہے۔ اس کالج میں قیام کے دوران مجھے ۲۰۱۹ء میں ریاستی سطح کا بیسٹ ٹیچر ایوارڈ حیدرآباد وزیر تعلیم اور کمشنر کالجیٹ ایجوکیشن کے ہاتھوں دیا گیا۔ ۲۰۲۰ء میں عالمی وبا کوووڈ کے دوران تقریباً چار تا چھ ماہ بڑا مشکل وقت گزرا سب لوگ لاک ڈائون کے سبب گھروں میں قید اور سوشل میڈیا پروباء کی دلوں میں دہشت پیدا کرنے والی رپورٹنگ اللہ نے کرم کیا اس وبا سے محفوظ رکھا ایک دو مرتبہ ہلکا بخار آیا لیکن اس وباء کے بعد زندہ رکھا یہ اللہ کا شکر رہا۔ اس وباء نے ہزاروں گھروں کو اجاڑ دیا تھا کسی کا باپ مرگیا تو کسی کا بیٹا یا ماں ۔ اس وباء کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ ۲۲ اپریل ۲۰۲۲ء کو مجھے پرنسپل کے عہدے پر ترقی ملی اور ایک مرتبہ پھر مجھے گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد آنا پڑا اس بار پرنسپل کے عہدے پر۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ ظہیر آباد کی لال مٹی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد گھر کی تقسیم کے بعد میں نے نیراجا کالونی ٹولی چوکی میں ایک مکان خرید لیا اور آغا پورہ سے ہم لوگ ٹولی چوکی ذاتی مکان میں منتقل ہوگئے۔ معراج کالونی کا مکان بارش کے سبب بوسیدہ ہوگیا تو بھائی صاحب نے اس مکان کو توڑ کر چار منزلہ نیا ذاتی مکان اپنے لیے اور بیٹے بیٹیوں کے لیے بنالیا۔میں ٹولی چوکی سے گزشتہ دیڑھ سال سے ظہیر آباد جا رہا ہوں۔ کالج میں بہ حیثیت پرنسپل ہر طرح کی ذمہ داریاں دیکھنا ہوتا ہے کالج میں ڈاکٹر محمد غوث مضمون سیاسیات ڈاکٹر عائشہ بیگم اردو‘ بدر سلطانہ اکنامکس‘ محمد تنویر تاریخ ‘محمد مظفر کامرس اور دیگر لیکچررز ہیں۔ کالج میں جو کچھ بھی پروگرام ہوتے ہیں انہیں ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر پیش کئے جاتے ہیں اس طرح گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد میں جو کچھ بھی پروگرام ہوتے ہیں انہیں انٹرنیٹ پر محفوظ کیا گیا۔کالج کی شش ماہی سرگرمیوں کو نیوز لیٹر کی شکل میں رنگین تصاویر کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے کالج میں سیاسیات کا قومی سمینار منعقد کیا گیا۔ اور کالج کے حوصلہ افزا نتائج ہیں۔کالج میں مسلم لڑکیوں کی کثیر تعداد زیر تعلیم ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ پڑھ رہی ہیں۔ یہ میری ملازمت کے پچیس سال کے سفر کی روداد تھی۔ سرکاری ملازمت میں ایک قسم کی طمانیت اور تحفظ ہوتا ہے ورنہ کوووڈ کے بعد کئی لوگ معاشی بدحالی کا شکار رہے۔ تنخواہ اس قدر مل جاتی ہے کہ ہم اپنا اور بچوں کو اچھی طرح خیال رکھ سکیں۔ احباب کی فرمائیش ہے کہ پرنسپل صاحب کار میں آئیں لیکن روزانہ سو کلومیٹر جانا آنا کار سے مناسب نہیں لگا اس لیے بس سے ہی سفر جاری ہے۔ اللہ کرے ملازمت کے دوران ہر قسم کے شر سے محفوظ رہوں اور علم کے فروغ کے لیے کام کرتا رہوں۔