سلطان جمیل نسیم(کینیڈا)
ٹیلی فون اور دروازے کی کال بیل ایک ساتھ اور بغیر کسی وقفے کے بج اٹھیں،ساتھ ہی بادل گرجے اور بجلی کڑکی․․میں ہڑ بڑا کے اٹھ بیٹھاپہلے سرہانے رکھا ہوا ٹیلیفون اُٹھایا تو دروازے کی کال بیل بھی خاموش ہو گئی۔مگر
پھر بجلی کڑکی بادل گرجے اور گھر کی لائٹ چلی گئی ۔میں سمجھ گیا کہ ناوقت آنے والا اُس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا ․․․․جیسے کوئی سرگوشی کرتا ہے اِسی طرح اُس کے سرا سیمہ لہجے میں لپٹی ہوئی آواز سنائی دی’’ فوراَ دروازہ کھولو۔‘‘
اندھیرا، گرج چمک اور اُس کے لہجے میں چھپی ہوئی گھبراہٹ، میرے لئے پریشانی کاسبب بن گئی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اِس وقت میری بیوی موجود نہیں تھی، وہ چند روز کے لئے اپنی چھوٹی بہن کی عیادت کے واسطے گئی ہوئی ہے ورنہ میرے دوستوں کے بارے میں اُس کی رائے پہلے ہی اچھی نہیں ہے، اگر وہ ہوتی اور تواتر کے ساتھ بجنے والی گھنٹیوں سے جاگ اٹھتی تو کمرے میں بھونچال آگیا ہوتا ․․․․۔میں بسترسے احتیاط کے ساتھ اترا ،ر یلنگ کا سہارا لیا اورسنبھل سنبھل کرزینہ طے کرتا ہوا نیچے پہنچا․․․․وہ تو یہ اچھا ہوا کہ اُسی وقت چوکیدار نے جنریٹر چلا دیا۔
وہ آتے ہی صوفے پر ڈھیر ہو گیا ۔ اُس کے چہرے پہ پھیلی ہوئی گھبراہٹ دیکھ کر میں نے سوچا،قیاس آرائی کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے سارا ماجرا معلوم کیا جائے۔
جب اُس نے اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو دبایا تو مجھے اس کے ہاتھ پر رومال جیسا کوئی کپڑا لپیٹا ہوا دکھائی دیا۔ میں نے اسکے وجود کو نظر انداز کرکے کہا،اپنی پریشانی کا سبب بتاؤ․․․․․․․․
اب وہ اِس طرح بولا کہ مجھے اُسکی آواز میں لپٹی ہوئی گھبراہٹ اور چہرے پہ پھیلی ہوئی پریشانی ذرا محسوس نہیں ہوئی
بلکہ یوں لگاجیسے سوچ سوچ کر ٹھہر ٹھہر کے وہ خود کلامی میں مصروف ہے۔
اُس نے کہا۔ہم تم کب ملے تھے ․․․․؟ کل ۔ ۔!! نہیں ۔۔۔۔ کل تو میں کلب گیا ہی نہیں اور کل سے ایک دن پہلے بھی میں نہیں جا سکا تھا․․․․شایدتین چار دن پہلے گیا تھا تب اکیلا بیٹھ کر چلا آیاتھااتفاق سے کوئی جاننے والا بھی موجود نہیں تھا۔۔۔۔ مطلب ہوا ہفتہ دس روز پہلے وہ ملا تھا۔۔۔۔ تم اُس کو نہیں جانتے ۔۔۔جانتا تو میں بھی نہیں ہوں،
کلب میں کسی نے تعارف کرایا تھا اور نام بھی کچھ عجیب سا تھا۔پوکر․․․․جوکر ․․․․کچھ اِسی قسم کا نام تھا مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔ اُس جوکرنے ہاتھ ملاتے ہوئے میری طرف ایسے دیکھا تھاجیسے میری آنکھوں میں جھانک رہا ہو پھر میرا ہاتھ چھوڑنے کے بجائے چاروں انگلیاں دبا کے ہاتھ پلٹا اور میری ہتھیلی دیکھی اورکسی ہچکچاہٹ کے بغیر پیش گوئی کرنے کے انداز میں بولا۔آپ تو پڑھنے کے قابل ہیں،میرے لئے ایک نایاب موضوع ۔۔جب اُس نے میرے چہرے سے اندازہ لگا لیا کہ میں اُس کی بات نہیں سمجھا ہوں تب اُس نے کہا۔ چہرے اور ہاتھ کی لکیریں پڑھنا میرا شوق تھا اور اب شوق ہی پیشہ بن گیا ہے ، آپ کو اپنے شوق کی خاطر یہ بتائے دیتا ہوں کہ آپ کے چہرے کی تحریر اور ہاتھ کی لکیریں مجھے اُکسا رہی ہیں کہ بہت تفصیل کے ساتھ اِن کو پڑھوں۔ فی الحال اتنا بتائے دیتا ہوں کہ جلد ہی آپ کی ملاقات آپ کے ساتھ ہوگی۔ آپ کبھی اپنے آپ سے ملے ہیں۔؟ اتناکہہ کر ،اُس نے مجھے دعوت دی، اگرآپ کے پاس وقت ہے تو آئیے بیٹھ کربات کرتے ہیں۔ اس کی بات کے جواب میں اب میں نے اُس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔ جیسی ABSURDبات اُس نے کہی تھی میں نے سوچا ایسی ہی بات میں بھی پوچھوں کہ مہینہ بھرپہلے یہ جو کمبخت “کیٹرینا” اور” ریٹا “سائیکلون امریکا میں آئے تھے تو اب دوسرے ملکوں میں طوفان اُٹھا نے والے دیش میں اور کتنے طوفان آنے والے ہیں۔؟یہ سوال فوراَ اس لئے بھی ذہن میں آیا کہ جب امریکا میں یہ ریٹا آئی تھی میں پریشان ہوا تھا اس لئے کہ ہیوسٹن میں میرا چہیتا بیٹا رہتاہے مجھے اس کی فکر تھی، مگر طوفان ابھی میلوں دور تھا کہ بیٹے کا ٹیلیفون آ گیا ،وہ دو دن پہلے ہی وہاں سے نکل گیاتھا۔ بہت ہوشیارہے۔ مجھے بیوقوف بناتا رہتا ہے،تمہیں تو پتا ہی ہے کہ وہ مجھے کتناعزیز ہے ․․․․اکلوتا جو ٹہرا․․․․ میں بھی جان بوجھ کر انجان بنا رہتا ہوں․․․․بہانے بہانے سے پیسے منگا لیتاہے، مجھے یہ بھی خبر ہے وہاں اُس نے شادی کرلی ہے، اور خبر کیوں نہ ہوآخر باپ ہوں اُس کا۔ وہ کام دھام کچھ کرتا نہیں ہے اور مجھے․․․․مجھے کیا صرف اپنی ماں کو یہ بتا رکھا ہے کہ Space Sciencکا مضمون پڑھ رہا ہے۔یہ امریکن سربراہ بھی بڑے ۔۔۔ ہیں خلاء میں نظریں گاڑے زمین کے کارو بار کو خراب کرتے چلے جارہے ہیں ․․․․خیر چھوڑو یہ دوسری بات ہے․․․․بیٹا اِس عمر میں جو چاہے کرلے۔ ہمیں تو یہ عمر ملی ہی نہیں․․․․جوانی کو ایک جست میں لانگ گئے ․․․․ہاں تو میں بات کر رہا تھا اُس کی ۔اب تم ہی بتاؤکیا کسی کی ملاقات اپنے آپ سے بھی ہوتی ہے۔؟ اُس کی بات سن کرپہلے تو میں نے سوچا خوب مذاق اُڑاؤں،مگر میں اُسے ایک دم اکھاڑنانہیں چاہتا تھا ۔ کلب میں کسی کے ساتھ آیا تھا۔ خوش پوش ، لا پروا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والاانسان، عمر کے لحاظ سے مجھے ساٹھ سے اوپر کا نہیں لگا اپنے ڈیل ڈول چہرے مہرے سے معلوم ہوتا تھا جیسے پابندی سے ورزش کرتا ہو۔ اس کی خاص بات ایک نہیں دو۔نمبر وَن یہ اُس کے چہرے پہ ،دائیں آنکھ کے نیچے سے ٹھوڑی تک زخم کا ایک گہرا نشان ․․جیسا عام طور پر فلموں کے بدمعاش کرداروں کے چہرے پر ہوتا ہے اُس نشان کے باوجود ا س کی پرسنلٹی میں ایک کشش سی تھی۔ نمبرٹو اس کی بھاری اورجھرجھری سی آواز۔۔ جیسے ہلکے ہلکے کتاغراتا ہے یا سانپ پھنکارتا ہے ،ایسی آواز جس کومیں ہزاروں میں پہچان لوں۔ خیر ۔ جب اس نے میری ہتھیلی دیکھ کر یہ انوکھی سی بات کہنے کے بعد یہ کہا ۔آپ کا ہاتھ بہت کچھ بتارہا ہے تو میں نے بحث مباحثہ کرنے والے لہجے میں کہاـ․․․․جناب میرا یقین ہے کہ کسی کی بھی زندگی یا مستقبل اُس کے ہاتھ کی لکیروں میں نہیں ہوتا ․آپ کو چہرے پڑھنے کا شوق ہے۔چہروں سے دلچسپی مجھے بھی ہے ۔خاص طور سے کتابی چہرے لیکن پڑھنے کے لئے نہیں․اور میرے ہاتھ کی لکیریں اُس وقت کی گواہ ہیں جو میں نے بہت ہی محنت کرکے گزارا ہے ۔ یہ بات میں نے اس لئے کہی کہ مجھ میں اُس کے لئے ذرا سی دلچسپی اورپیدا ہو پھر کہیں ساتھ بیٹھ کر باتیں کریں․․․․تم جانتے ہی ہو مجھے چہرہ شناسی یا ہاتھ کی لکیروں اور ستاروں کی گردش وغیرہ وغیرہ پر کوئی اعتقاد نہیں ہے لیکن وہ مجھے ایک دلچسپ آدمی لگتا تھا ، اپنی آنکھیں گھمانے کے لحاظ سے بھی اور․․․․پھر اس کی آواز۔ اسی لئے میں دوچار باتیں کرنے کے بعد اُس کے علم کی سطح جانچنا چاہتا تھا۔ جانچنے کی بات غلط ہے اس لئے کہ مجھے پامسٹری وغیرہ کے بارے میں ذرہ برابر بھی معلوم نہیں ہے لیکن اِس بات سے تم بھی بخوبی واقف ہو کہ کسی بھی آدمی کو علمِ نجوم یا دست شناسی وغیرہ سے دلچسپی ہو یا نہ ہو پھر بھی وہ اپنے مستقبل ، ماضی یا حال کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلوم ضرور کرنا چاہتا ہے، دوسرے کا امتحان لینے سے زیادہ اپنی نادیدہ خواہشوں کی تصویر دیکھنے کے لئے ․․․․شاید اسی لئے میرا بھی جی چاہا کے اِس موضوع پر اُس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کروں اور یہ ظاہر کردوں کہ میں لکیروں پر کوئی اعتبار نہیں کرتا وہ ماتھے کی ہوں یا ہاتھ کی اور اقبال کا وہ شعر بھی سناؤں جو ایک مرتبہ کہیں سناتھا۔ وہی کہ ستارہ خود آسمان کی گردش میں بھٹک رہا ہے وہ کیا تقدیر کی خبر دے گا ۔ سوچا تھاذرا مزے کی باتوں میں وقت کٹ جائے گا مگر اس نے مجھے اپنی طرف مسلسل دیکھنے کی وجہ سے ایک غیر متعلق بات کہی۔آپ میرے چہرے کے نشان کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں، یہ کسی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے نہیں ہے، 1935میں کوئٹہ میں جو زلزلہ آیا تھا وہ میرے سارے خاندان کو لے گیا اور مجھے یہ نشانی دے گیا،اُس وقت میں تین سال کا تھا۔پیدائش کے حساب سے میں بلوچی ہوں،لیکن پلا بڑھا میں برما میں ہوں۔ ممکن ہے اپنے بارے میں وہ کچھ اور بتاتا کہ عین وقت پر اُس کاکوئی کلائنٹ نماملنے والا آگیا اور اس کو لے کر دُور جا بیٹھا،اتفاق سے اُس روز کلب میں میرا کوئی ایسا واقف کار بھی نظر نہیں آیا جس کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیاں کی جاتیں اس لئے ذرا دیر بیٹھ کر میں چلا آیا اور پھر ان ساری باتوں کو بھول بھال گیا ۔ ۔ آج ․․․․سویرے ہی سویرے ایک عجیب بات ہوئی ۔۔۔۔جب میں لان میں جاگنگ کر رہا تھا مجھے محسوس ہوا، کوئی گلاب کے پودوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہا ہے پہلے تو اپنا وہم جانا۔پھرسوچا کہ شک دور کر ہی لینا چاہئے․․․․جب میں گلاب کی جھاڑی کے قریب پہنچا تو وہاں سچ مچ کوئی تھا۔۔ جس نے اپنے قریب دیکھ کر مجھ پہ حملہ کردیا․․․․چاقو سے حملہ۔۔ میں نے اس کا وار اپنی ہتھیلی پر روکا․․․․معلوم ہے وہ حملہ آور کون تھی․․․․؟ہاں․․․․وہی تھی․․وہ جو ہمیں کلب میں ملی تھی․․․․تم تو بیوی کے ڈرسے کھل کے بات بھی نہیں کر رہے تھے مگر میں نے دیکھ لیا تھا کہ اُس کی آنکھوں میں ایک دعوت ہے۔ ارے وہی۔وہ بھوری آنکھوں والی۔! تمہارے ذہن پر تو ہر وقت بیوی کا خوف طاری رہتا ہے کسی عورت کی طرف دیکھتے بھی ہو تو ایسے جیسے چوری کر رہے ہومگر تمہاری آنکھوں میں ایک کمال بھی ہے بالکل آر پار دیکھ لیتے ہو۔ایسے کھسیانے کیوں ہو رہے ہو، یہاں تمہاری بیوی موجود نہیں ہے، اور میں اِس وقت تمہاری تعریف نہیں اپنا حال بیان کررہاہوں۔ ۔ تو اُس روز کلب میں تمہارے جانے کے بعد بھی میں اُس عورت کے ساتھ ٹال مٹول والی باتیں کرتا رہا․․․․پھر میں نے صاف صاف بتادیا کہ دوچار دن ٹہر جاؤ میری بیوی اپنے ایک عزیز کے ہاں چند روز کے لئے جانے والی ہے اس کے بعد میں تمہارے من پسند ہوٹل میں دعوت کر سکتا ہوں․․․․مگروہ․․․․وہ․․․․شاید اُس سے انتظار نہ ہو سکا․․․․نجانے میرا پتا کیسے معلوم کیا اورکس طرح چوکیدار کی آنکھوں میں دھول جھونک کراندر آئی اورچھپ چھپاکے گلاب کی جھاڑیوں کے پیچھے آن بیٹھی․․․․یہ کوئی ملنے کا طریقہ ہے۔؟طریقہ کو مارو گولی ․․․․سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ اگر وہ سچ مچ مجھ ہی سے ملنے آئی تھی تو چوروں کی طرح چھپ کر کیوں بیٹھی․․․․؟ مجھ پر حملہ کیوں کیا․․․․؟ کیا مجھے پہچانی نہیں․․․․؟ میری باتوں کو دیوانے کی بڑ نہ سمجھو․․․․اُسوقت اگرچہ دن کا اجالا پورا نہیں پھیلا تھا لیکن رات کے ملگجے اندھیرے میں جو روشنی ہوتی ہے ، میں اس کو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا․․․․وہی تھی کلب والی․․․․مگر․․․․اب تک۔یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ مجھ پر حملہ کیوں۔؟ میں نے تو صاف صاف کہا تھا کہ بیوی کے جانے کے بعد ملوں گا۔ ۔مان لیتے ہیں کہ اُس نے کسی طرح میرا پتا حاصل کرلیا۔ چوکیدار کو غچہ دے کے اندر بھی آگئی ۔پھر وہی سوال کہ یوں تاک لگا کر بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی ․؟ اگر وہ مجھ سے ملتی تو میں اسکو گھر میں آنے کی دعوت دیتا اُس کو بتا تا کہ میری بیوی نے اپنے پروگرام میں تبدیلی کرلی اوررات کی فلائٹ سے چلی گئی ہے ، آؤ اندر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔۔مگر شاید وہ تو کسی اور ہی ارادے سے آئی تھی، دوسرا خیال یہ بھی ہے کہ شاید مجھے ہی کوئی اور سمجھ رہی ہو، اُس کو کلب والی ملاقات یاد نہ ہو اور سچ مچ وہ کوئی پیشہ ور چور ہو یا کسی گینگ کی ممبر ہو، اسی لئے اتنی مہارت سے اندر آئی کہ چوکیدار بھی اس کو نہیں دیکھ سکا․․خیر․․․یہ چوکیدار وغیرہ بھی بس دکھاوا ہی ہے ۔خواہ مخواہ کا۔ اب اسٹیٹس سمبل ہو گیا ہے۔چوکیدار کا مطلب ہوا چور کو بتادو کہ اِس گھر میں ایسی چیزیں ہیں جن کی حفاظت کے لئے ایک بندوق بردار رکھا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے وقت آنے پر بندوق چلتی ہی نہیں․․․․چوکیدار اپنی جان بچانے کے لئے پہلے چھپتا ہے ۔بھلا چار پانچ ہزار روپے کے لئے کون اپنی جان جوکھم میں ڈالے گا۔ اور اب تو ہر اعلیٰ ا فسر اپنے گھر پر ہی نہیں بلکہ باتھ روم بھی جائے تو دو گن مین اُس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ خیر لعنت بھیجو بندوق پر۔۔
میں یہ کہہ رہا تھا․․․․تم نے کلب میں اُس کو غور سے نہیں دیکھا تھا۔ کیا گریس ۔کیابیوٹی․․․․سچ تو یہ ہے وہ مجھے صورت سے بد قماش لگتی ہی نہیں تھی․پہلی بات یہ کہ میں نے کبھی کسی جاہل اورمفلس عورت کو کلب میں نہیں دیکھا۔ وہ Mannersسے بھی واقف تھی اس کالباس بھی مڈل کلاس سے اوپر ہی کا تھا ․․․․میں نے اُس سے باتیں کی تھیں بات چیت سے بھی وہ پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی لگتی تھی۔ میری الجھن صرف یہی ہے کہ اُس نے مجھ پر حملہ کیوں کیا۔؟ مجھے دیکھ لیا تھا تواُٹھ کر سامنے آتی مگر ڈائریکٹ حملہ․․․․لمحہ بھر کے لئے میرے اوسان خطا ہوئے تھے اور اُسی ایک لمحے میں وہ چھلاوے کی طرح غائب بھی ہوگئی ۔میں نے چوکیدار کو آوازدی ،وہ جانتا تھا کہ منہ اندھیرے میں جاگنگ کرتا ہوں اِس لئے چاہے رات بھر سوتا رہے مگر میری جاگنگ کے وقت مستعد رہتا ہے․․․میری آواز پر فوراَ آیا۔اور اُس نے قسم کھا کے کہا کہ کسی کو آتے دیکھا نہ جاتے․اب میں اس سے کیا بحث کرتا۔ گھر میں آیا۔اپنے ہاتھ کو دیکھا ۔ اچھا خاصا زخم تھا ۔ خون سے میری مٹھی بھر گئی تھی ۔ مجھے فوراَ ڈاکٹر کے پاس جاکے اینٹی سیپٹک انجیکشن لینا چاہئے تھا۔ مگر اس وقت اسپتال کی ایمرجینسی کے علاوہ کوئی ڈاکٹر نہیں مل سکتا تھاصرف وہاں ہی نہیں بلکہ آج اتوار ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کہیں بھی نہیں ملیں گے ۔ یہی سوچ کرمیں نے فرسٹ ایڈ بکس کھولا۔ خود ہی بینڈیج کرلی ۔ میری کیا کیفیت تھی کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا․میں بہت دیر تک لاؤنج میں ٹہلتا رہا۔ جب ذرا سی تکلیف میں کمی ہوئی تومیں آکے اپنے بیڈروم میں لیٹ گیا․․․․آنکھ لگی ہی تھی کہ اُسی وقت میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی ․․․․جب سنا تو پتا چلا یہ کسی واقف کار کا فون نہیں ہے․․․․وہی تھا․․وہی Face Readingکرنے والا۔میں اُس کی آواز سے پہچان گیا ۔ میرے ہیلو کہتے ہی اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’ پہلے تو ناوقت فون کرنے کی معذرت۔ دراصل آپ کو ایک اہم بات بتانی تھی،وہ یہ کہ آج کی رات اپنے گھر
میں نہ گذاریئے گا۔۔کسی ہوٹل میں۔۔کسی دوست کے ہاں چلے جائیے گا۔ ایسے ہیJust for change آدمی کو کبھی کبھی تبدیلی بھی راس آجاتی ہے ۔اور ہاں آپ کے بیڈروم میں جو Valuablesہوں،وہ بھی ساتھ رکھ لیجئے گا۔۔۔دیکھئے میں آپ کو خوفزدہ کر نا نہیں چاہتا۔۔دراصل ابھی آپ کا وزیٹنگ کارڈ سامنے آگیا تو آپ کا چہرہ نظروں میں گھوم گیا۔ میں نے سوچا ․․․․جی ہاں سوچا․․․․اب یہ تو نہیں کہوں گا کہ آپ کا بولتا ہواہاتھ میں آج تک نہیں بھول سکا ہوں،اُ س ہاتھ کو تو میں ایک مرتبہ تفصیل سے دیکھنا چاہوں گا ،تو جناب میں نے سوچا،دو ایک ایسی باتیں آپ کو بتا دوں کہ آپ نقصان اور خوف دونو ں سے بچ جائیں۔ پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھیئے کہ موت کو ٹالا تو جا سکتا ہے اُس سے بچا نہیں جاسکتا جبکہ حادثے سے بچا بھی جا سکتا ہے اور اسے ٹالا بھی جاسکتا ہے۔ میں نے آپ سے جو کہا ہے وہ حادثے سے بچاؤ کا ایک راستہ ہے کہ بس آج کی رات جہاں آپ سوتے ہیں وہاں نہ سوئیں، دوسرے یہ کہ آج ہی آپ کی ملاقات آپ سے ہو گی اور یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں یہ سب میں نے آپ کے ہاتھ کی لکیروں میں لکھا دیکھاتھا۔ میں نے پہلی ملاقات پر بھی آپ سے یہ کہا تھااور اب پھر کہتا ہوں کہ بہت عرصے بعد اتنابولتا ہوا ہاتھ دیکھا ہے اُس دن اگر میرے کلائنٹ نہ آگئے ہوتے توآپ کے ساتھ ایک اچھی ملاقات رہتی ۔ میں اب سے پہلے فون کرتا لیکن آپ جانتے ہی ہیں دال روٹی کا چکر مہلت کم دیتا ہے۔ اتفاق سے ابھی آپ کا کارڈ سامنے آیا توآپ کا ہاتھ اور آپ کا چہرہ نظروں میں پھر گیااورمیں نے سوچا ایک دو باتیں کرنے کے ساتھ آپ کو آج کی رات ہونے والے حادثے سے بچاؤ کے لئے بھی بتا دوں اور․․․‘‘
اب تک ساری باتیں اِس طرح خاموشی سے سنتا رہا تھا جیسے غبارے میں ہوا بھر تی رہتی ہے لیکن جب وہ سانس لینے کے لئے رکا تو میں پھٹ پڑا۔’’ یو باسٹرڈ۔ پہلے تم نے ایک عورت کو بھیجا کہ وہ مجھے لُوٹ لے خواہ میری جان لے کر سہی․․․․اور اب․․․․تم مجھ سے کہہ رہے ہو کہ میں اپنے گھر کی قیمتی اشیا لے کر باہر نکل آؤں تاکہ جو کام تمہاری بھیجی ہوئی عورت نہ کر سکی تھی وہ تم․․․․یا تمہارا کوئی ساتھی پورا کرسکے․․!‘‘
مجھے تعجب ہوا وہ میرے لہجہ کی تلخی بلکہ گالی دینے کو بھی نظر انداز کر گیااور دھیمے لہجہ میں بولا۔
’’میں اِس وقت آپ کی کسی بات کا برا نہیں مناؤں گا ۔آج دن بھر آپ الوژن(ILLUSION)کا شکار رہے ہیں۔ آپ کے ہاتھ کی خاطرجو میرے لئے ایک بہت بڑا Subject ہے ۔میں نہیں چاہتا کہ آپ کو جانی یا مالی کسی طرح کا بھی نقصان ہو اسی لئے میں آپ کو وہ سب صاف صاف بتا رہا ہوں جو کئی دن پہلے آدھے منٹ کے اندر آپ کے ہاتھ نے اور پھر آپ کے چہرے نے مجھے بتایا ہے۔‘‘
اب میں بغیر روکے ٹوکے اُس کی بات سنتا رہا ۔جب میں نے اُس سے یہ پوچھنا چاہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے جس عورت نے مجھ پر حملہ کیا ہے کیا وہ میرا الیوژن تھا یا وہ عورت چھلاوہ تھی؟ایک ایسی عورت جس سے تمہاری ہی طرح کلب میں ایک سرسری سی ملاقات ہوئی․․․․جس کے ساتھ صرف واجبی سا تعارف ہوا تھا بلکہ جسے تعارف بھی نہیں کہا جاسکتا۔وہ عورت رات کے اندھیرے میں میرے گھر کے لان میں آکر چھپی ․․․․پھر خواہ مخواہ مجھ پر حملہ کیا․․․․چاقو نہایت تیز دھار والا تھا․․․․فرض کریں میں ہاتھ سے نہ روک پاتا․․․․تو وہ میرے سینے میں ہی اتر جاتا ․․اور یہ بھی فرض کریں بیوی کے جانے کے بعد وہ مجھے کلب میں ملی ہوتی اور میں اُس کو اپنے گھر لے آ تا۔؟ ممکن ہے پھر تو اُس کا چاقو میرا کام ہی تمام کر دیتا․․․․یہ بھی ممکن ہے مجھے کوئی خواب آور دوا پلا دیتی ․․․․اور پھر گھر کا صفایا کر کے چمپت ہو جاتی․․․․کیا یہ سب بھی واہمہ ہے ۔؟مگر یہ پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اُس نے ایک اور اچنبھے والی بات کہہ دی۔اُس نے کہا
’’ دیکھئے میں نے جو کچھ کہا ہے اُس پر عمل کیجئے آج کی رات۔ صرف آج کی رات اپنے کمرے میں نہ رہئے، بلکہ کمرے میں جو بھی قیمتی چیزیں ہیں وہ لے کر کسی بڑے ہوٹل میں اور اگر ہوٹل میں نہ جانا چاہیں تو کسی دوست کے یہاں یاپھر کسی بھی کھلی جگہ میں جاکے رہیں اور اگر ایسی جگہ ذہن میں نہیں آرہی ہے تو اپنے چوکیدار کے پاس جاکے بیٹھ جائیے۔ممکن ہے سارا گھر ڈھے جائے یا صرف آپ کے کمرے کی چھت بیٹھ جائے۔اس لئے مہربانی کرکے میری بات مذاق نہ سمجھئے۔اور بارش کی پہلی بوند کے ساتھ اپنا گھر․․․․یا کم ازکم اپنا کمرہ چھوڑ دیجئے․․‘‘
اتنا کہنے کے بعدسانپ کی پھنکار جیسی آواز والے نے فون رکھ دیا․․․․پہلے تو میں کچھ حیران پریشان سا رہا․․․․جیسے میرے حواس معطل ہوگئے ہوں․․․․رفتہ رفتہ میں اُس کی باتوں بلکہ اُس کی آوازکے حصار سے نکلا۔ جب میں نے اُس کی ایک ایک بات پر سوچنا شروع کیا تو مجھے یاد نہیں آیا کہ میں نے اُس کو اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا تھا یانہیں، پھر وزٹنگ کارڈ کی اہمیت کیا ہے۔؟ اکثر ہم اپنی آمدیابطور تعارف کارڈ استعمال کرتے ہیں ممکن ہے میں نے اس کو کارڈ دیا ہو۔۔۔یہ بھی ممکن ہے اس نے ٹیلیفون ڈائریکٹری سے میرا نمبر حاصل کر لیا ہو۔مگر یہ کیا بیہودہ بات کہی کہ آج میری ملاقات مجھ ہی سے ہوگی ؟اور محکمہء موسمیات نے کہاں اور کب پیشن گوئی کی ہے کہ آج رات آندھی طوفان آئے گا،ممکن ہے ایسا اعلان کیا بھی ہو اور وہ میں سُن نہیں پایا ہوؤں ، میں خبر نامہ،پابندی سے کہاں سنتا ہوں،کیونکہ وہ توحکمراں طبقہ کا قصیدہ نامہ ہوتا ہے اوروہ عورت ۔۔کیا اسی نجومی کی بھیجی ہوئی ہوسکتی ہے۔؟ دونوں کی ملی بھگت ہو گی۔دونوں سے ملاقات کلب ہی میں ہوئی تھی ۔ زندگی میں ہزار دفعہ گرج چمک کے ساتھ بارش دیکھی ہے ۔امریکی ریاست فلوریڈا میں بادلوں کی گرج کیسی قیامت خیز ہوتی ہے جب اُس آواز سے خوف پیدا نہیں ہوا تواپنے ملک کی ہزارہا مرتبہ دیکھی اور سنی ہوئی گرج چمک سے ڈر جاؤں گا۔؟ لعنت بھیجو نجومی پر اور اُس عورت پر․․․پھرمیں نے سوچا․․․وہ دونوں مجھے مختلف دن ملے تھے․․․․پہلے عورت․․․․دوتین دن کے بعد نجومی․․․․وہ ایک دوسرے کے آلہء کار ہو سکتے ہیں مگر ․․․․مگر مجھے یہ یاد نہیں آرہا کہ اِ ن سے تعارف کس نے کرایا․․․․!!!
اور اِن تمام باتوں سے الگ اور عجیب․․․․مکان ڈھے جائے گا․․․․گھر کی چھت بیٹھ جائے گی۔کوئی زلزلہ آرہا ہے یامیرا گھر مٹی کا بنا ہوا ہے؟یہ ضرور ہے کہ میں نے ایک ٹھیکیدار سے خریدا تھا․․․․وہ ٹھیکیدار بھی آج تک نیک نام چلا آرہا ہے۔ریٹائرڈ فوجی ہے․․․․خود بھی اسی سوسائٹی میں رہتا ہے․․․بہت سے لوگوں نے اُس کے بنائے ہوئے مکان خریدے ہیں،کئی بارشیں گزرچکی ہیں کسی کا مکان گرا، نہ چھت بیٹھی․․․․پھر میرا گھر․․․․سارا دن میں ڈپریسڈ رہا۔نہ کہیں گیا نہ کسی کو فون کیا․․․․نیند بھی نہیں آئی․․․․ٹی وی پر اتنے چینلزہیں․․ہر کروٹ کے ساتھ چینل بدلتا رہا۔نجومی مجھے ہراساں کرنا چاہتا ہے مگر کیوں․․․․؟ میری مجھ سے ملاقات rabish? what a․․․
کیا سچ مچ ہاتھ کی لکیریں بولتی ہیں۔؟ عورت کیا میرا الیوژن تھی۔؟اور ابھی اتنی طویل بات․․․․کیا یہ نجومی بھی میرا الیوژن تھا۔؟ایسے ہی خیالات کے بھنور میں ڈوبتا ابھرتا رہا․․․․پھر معلوم نہیں کب سوگیا․․․․جب آنکھ کھلی تو چاروں طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ میں نے اُٹھ کے لائٹ آن کرنا چاہی․․․․تیسری دنیا کے نیم ترقی پذیر ملکوں کی اب یہ روایت بن چکی ہے کہ جمہوریت کی طرح بجلی، پانی کا بھی آنا جانا لگا رہتاہے․․․․بیماریاں ہیں دوا نہیں۔ شکایت کریں تو کس سے کریں۔؟شکایت سننے والوں کے پاس کان ہی نہیں ہیں۔۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں جو حاکم ہیں بہرا ہونا تو الگ بات ہے اُن کے کان میں اپنی خوشامد کے سوا کوئی لفظ جاتا ہی نہیں۔چلو ہم جیسی اپرمڈل کلاس کویہ سہولت تو ہے کہ ایک بچہ ہو تو اُس کو یورپ یا امریکا بھیج دیں۔ جن کے پاس یہ سہولت بھی نہیں ہے اور بچے بھی زیادہ ہیں․․․․وہ بنیاد پرست ہیں․․․․جہادی ہیں․․․․کمبخت روٹی پانی بھی مانگتے ہیں،تعلیم کے بعد روزگاربھی چاہتے ہیں۔۔۔۔ یہ لوئر مڈل کلاس کا رونا کیوں رونے لگا؟۔۔شاید اسلئے کہ میں خود بھی اُسی کلاس سے نکل کے آیاہوں․․․․جب اندھیرا ہوتو ایسے ہی خیال آتے ہیں۔اُف۔۔۔کس بلا کی گرج چمک ہے۔۔دل دہل کر رہ گیا۔ چوکیدار کو آواز دوں․․․․مگر اتنی تیز بارش اور ایسی کڑکتی بجلی اور گرجتے بادلوں میں میری آواز اُس تک کیسے جائے گی۔۔اِس کا مطلب ہے وہ نجومی ․․․․لعنت اُس نجومی پر․․․․مجھے نیچے چل کے ہال کمرے میں بیٹھنا چاہئے ۔۔۔سینکڑوں بار اس زینے پر تیزی سے آیا گیا ہوں۔ اب اسکی ریلنگ پکڑ کر اندھوں کی طرح احتیاط سے اترنا پڑ رہا ہے۔۔۔ صوفے پر بیٹھتے ہی لائٹ آگئی․․․․نہیں چوکیدار نے جنریٹر چلا یا ہے۔ ۔ اس کو آواز دوں۔۔ مگر نام کیا ہے۔۔ اب نام بھی تو ذہن میں نہیں آرہا ہے۔۔۔ میں نے وقت دیکھا میری گھڑی بند تھی ، ڈائینگ ٹیبل پر کھانے کے برتن رکھے تھے۔ اس کا مطلب ہے شام کو صفائی کرنے والی بھی۔ اور خانساماں بھی اپنا کام نمٹا کے جا چکے ہیں۔۔اُف میرے خداکتنی شدید گرج چمک ہے۔ اور یہ․․․․یہ بیوی کا پرس اوپر کمرے سے کیوں اُٹھالا یا ہوں۔ چلتے وقت وہی تو کہہ گئی تھی کہ ساری اہم چیزیں توبنک لاکرز میں رکھی ہیں بس یہ چھوٹی موٹی اِس پرس میں پڑی ہیں۔۔ تومیں بھی نے احتیاطاََ اپنی خاص چیزیں اسی میں رکھ دی ہیں۔ ویسے تمام کریڈٹ کارڈز تو حسبِ معمول میری جیب میں ہیں اور یہ۔۔رات کاایک پہر گزر گیا۔! یہ میرے ہاتھ پر رومال کیوں بندھا ہے․؟ اندھیرے میں بے خیالی میں باندھ لیا ہوگا۔بے خیالی ۔! !بارش تیز ہوتی جارہی ہے ۔۔اب اتنی ہمت تو ہے نہیں کہ گیراج سے گاڑی نکالوں اور کلب جا بیٹھوں یا کسی دوست کے ہاں چلا جاؤں۔ خواہ مخواہ پٹرول پھونکنے اور وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے سنو․․اے چوکیدار۔ ادھر آؤ ۔ذرا مجھے سہارا دو۔۔۔ہاں بس ۔۔میں کچھ دیر تمہارے ساتھ بیٹھ کرباتیں کرنا چاہتا ہوں۔۔ ارے یہاں نہیں جہاں تم بیٹھ کے چوکیداری کرتے ہو وہاں۔۔۔۔چوکیدار کے کندھے پر ہاتھ رکھے میں ہال کمرے سے باہر آیا۔۔۔تیز بارش میں گھر سے باہر قدم رکھاہی تھا کہ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی پہاڑ سے بہت سارے پتھرلڑھکتے ہوئے میرے تعاقب آرہے ہیں۔چوکیدار مجھے کھینچتا ہوا بھاگا۔
غزل مرثیہ اور رباعی کے ہمہ جہت اور معتبر شاعر صبا اکبرآبادی کی غزلوں کے مجموعی
اوراقِ گل۔۔۔۔۔چراغِ بہار ۔۔۔۔۔ثبات ۔۔۔کے بعد غزلوں کا نیا مجموعہ
میرے حصے کی روشنی شائع ہوگیا ہے۔
مات ہونے تک کی مقبولیت کے بعد اردو کے معروف و ممتاز افسانہ نگار
جدید احساس و شعور کے نمائندہ شاعر سلطان جمیل نسیم
تاجدار عادل کا نیا شعری مجموعہ کے افسانوں کا پانچواں مجموعہ
اُس کے نام فصل گل کو نذرانہ
ناشر: بختیار اکیڈمی۔اے؍۴۹۔ ۳گلشن اقبال کراچی ۷۵۳۰۰