تغیر اور انقلاب اور ارتقا دنیا کی تمام چیزوں کی تقدیر ہے۔زبان اور اندازِ بیان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے۔اہلِ علم و ادب کو چاہیے کہ ان تبدیلیوں کا کھلے دل اور خندہ پیشانی سے خیر مقدم کریں۔ہمت رائے شرما کا بھی اپنا رنگ ہے،بات کو نئے انداز سے کہنے کی خواہش ہے۔ولولہ اور اُمنگ ہے۔۔۔وہ ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ہمّتِ مرداں مددِ خدا مالک رام
ہمّت رائے شرما ایک نہایت وضعدار شخص ہیں اور انہیں اپنے جیسے درجنوں وضعداراہلِ قلم کی دوستی اور ہمت افزائی بھی نصیب ہے۔میں نے جب ان کا کلام دیکھا تو وہ تصویریں یاد آئیں جو شرماجی نے وقتاََ فوقتاََ ’’شہاب ثاقب‘‘ کے لیے بنائی ہیں۔پھر ان کی دو کتابیں’’ہندو،مسلمان‘]اور ’’نکاتِ زباندانی‘‘نظر سے گزریں۔نثر ہو یا نظم،رنگ ہو یا لکیر،قافیہ ہو یا ردیف،غزل ہو یا گیت،سب ایک ہی صلاحیت اور سکت کے نمائندے ہیں۔ان سب میں ہمّت رائے جی کی ہمت اور خلوص کا جلوہ یکساں نظر آتا ہے۔اُن کی عرق ریزی اور دماغ سوزی پر کوئی کیا رائے دے۔ان سے لطف اُٹھانا ہی ان کی قدر جاننا ہے۔ان سب میں سے مصنف کی شخصیت جھانکتی رہتی ہے۔ وہ شخصیت جو دل نواز ہے۔۔کارساز ہے اور جوانوں کے لیے قابلِ رشک ہے۔
ہمّت رائے شرما سالہا سال پہلے کی بھرپور(بمپر)فصل کے پرانے چاول ہیں جنھوں نے اپنے انفاس کی مہک کا زیادہ سے زیادہ حصہ ان کاغذوں کے سپرد کر دیا ہے اور میں بھی اس مہک کے فیض اُٹھانے والوں میں ہوں۔ ظ۔انصاری
ہمّت رائے شرماعجیب صفات کے مالک ہیں،شاعر ہیں،ادیب ہیں،آرٹسٹ ہیں،فلموں کے آرٹ ڈائریکٹر ہیں۔پانچ سات زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ہم ان کو ان سب حیثیتوں سے جانتے تھے مگر افسانہ نگاری ان کے کردار کاایک نیا پہلو ہے۔اسے انسان دوستی اور دردمندانہ جذبات نے جنم دیا ہے۔۔۔وہ متحد ہندو مسلم تہذیب کے قائل ہیں۔ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارہ چاہتے ہیں۔اس لیے ان کے کیریکٹر ایک منفرد کردار ہونے کے بجائے’’سمبل‘‘ ہو کر رہ گئے ہیں۔وہ مکالموں سے اپنے کرداروں میں جان ڈالتے ہیں۔
خواجہ احمد عباس