جب میں چلنے کو تھا ،آپ یعنی حیدر قریشی ”جسم اور روح“پر بزبان تحریر بات کرتے مل گئے۔ موضوع میرا اپنا خاص اور بولنے والا اپنا خاص(جو بھی بھلا لگا وہ بڑی دیر سے ملا)،رُکنا ہی پڑا۔یہ کیسا اسلوبِ بیان ہے کہ بات سے بات جُڑی ہوئی چل رہی ہے،کبھی خراماں خراماں،کبھی رواں،دواں،کبھی بہہ رہی ہے موج در موج،سیل در سیل،جیسے ہوا۔اصل موضوع کا یہ حال کہ چلتے چلتے ،بہتے بہتے بالکل غائب اور پھر غیر محسوس طریقے سے دوسری باتوں کے درمیان ایک بار پھر نمودار۔۔ خیال، فکر، احساس،ادراک،اپنے طور پرہر قسم کی قیدوبند سے آزادجیسے سب اپنے طور پر اپنے اپنے کاموں میں مصروف،باہم آمیز ہو کر بھی اور جدا جدا بھی ایک غیر محسوس اسلوب کے بنتوّں(ٹکسچر)میں بندھے ہوئے۔بظاہر دھاگے الجھے الجھے اِدھراُدھر نکلتے ہوئے اور پھر خودبخودجُڑتے ہوئے، جیسے کبھی اُدھڑے ہی نہ تھے۔عرفانِ روح کے مذہب کے راستے کے علاوہ دوسرے راستوں کی نشاندہی نے مضمون کے دامن کو زیادہ معنی خیز بنا دیا لیکن موضوع کو تشنہ رہنا تھا،سو رہا۔اصل لطف تو طفلانہ معصومیت،حیرانی اور تجسس کی تحت موجی نے دیا جو مجھ سے کم مایہ قاری سے بھی چھپی نہ رہ سکی۔باتوں کا سلسلہ اس دوران آپ کی تحریر”اپنے وقت سے تھوڑا پہلے“ کی سرحد میں داخل ہو چکا ہے۔جسم اور روح سے بھی زیادہ گھمبیر اور گہرے معاملے سے ہم اور آپ دوچار ہیں لیکن لفظیات کا تانا بانا قطعی مختلف ہے۔حیران کن۔۔عجیب طرح کا ہلکا پھلکا پن،ایک مکمل سپردگی،ایک کامل تسلیم ورضا بلکہ راضی بہ رضا والی کیفیت کی فضا میں ایقان کو چھونے والا یہ احساس کہ انسان کی مساعی ہی قدرت کی پراسرار قوتوں کو مشکل کشائی،تعاون اور سرپرستی کی جانب راغب کرتی ہے۔ لاٹری۔۔نوجوان ،رقم سے معمور سوٹ کیس،پولیس۔ ۔درمیان میں آپ پولیس کے نرغے میں۔۔ٹرین سے چھوٹے بیٹے کا اترنا۔۔تبدیلیٔ شخصیت و شناخت۔۔پراسرار معاملات ۔ کشف کے، وجدان کے،جذب کے، ماہیت قلبی کے،جیسے کوئی شمس تبریزکسی جلال الدین رومی کو قیل و قال کی پستی سے مرتبۂ حال کی بلندیوں پر لے جا رہا ہو۔
عبداللہ جاوید(کینیڈا)
(مکتوب مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ نمبر ۱۱۔جولائی تا دسمبر۲۰۰۸ئ)
سلطان جمیل نسیم(کینیڈا):اِن ذائقوں کی وجہ سے یہ خوبی بھی پیدا ہوگئی ہے کہ ہر پیمانے کے ساتھ ساتھ پڑھنے والے کو اپنی یادوں کے میخانے بھی یاد آجاتے ہیں اور وہ حیدر قریشی کی کھٹی میٹھی یادیں پڑھتے پڑھتے اپنی تلخ و ترش یادوں کا ذائقہ بھی چکھنے لگتا ہےجیسے میںمیرے ساتھ تو یہ ہوا کہ تقریباً ہر پیرا گراف پڑھنے کے بعد ذہن کے اندھیرے میں پڑی ہوئی اپنی کوئی بھولی بسری یاد،یکایک جگمگ کرتی ہوئی سامنے آتی رہی ہے۔۔۔۔ کھٹی میٹھی یادیں۔ کے بارے میں یہ بھی عرض کرنا ہے کہ ان سوانحی یادوں میں اپنے بزرگوں کے لئے احترام،ہم عمروں کے محبت اور چھوٹوں کے لئے شفقت و پیار کا اظہار نہایت خلوص کے ساتھ ملتا ہے۔ اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ قریشی صاحب کو روحانیت سے بھی لگاﺅ ہے۔اپنی اس بات کے ثبوت میں”کھٹی میٹھی یادیں“ میں سے وہ پہلا جام اٹھا لیں جس پر”بزمِ جاں“ کا لےبل لگا ہوا ہے۔آخری بات کے طور پر یہی کہوں گا کہ رواں دواں اندازِ تحریر نے بھی ان یادوں کو پڑھنے کے قابل ایسا بنا دےا ہے کہ بقول حضرتِ صبا اکبرآبادی سارے میخانے کو اک سانس میں کےسے پی لوں
حیدر قریشی نے بھی اپنی یادوں کو کھٹا اور میٹھا کرنے کے لئے الفاظ کی مٹھاس اور کھٹاس استعمال کی ہے لےکن مجھے اِن کے الفاظ میں غیروں کے لئے اور اُن لوگوں کے لئے بھی خاص طور سے جنھوں اِن کے ساتھ مناسب اور اچھا سلوک نہیں کیا تلخی اور ترشی کم ہی محسوس ہوئی ہے۔۔۔۔ شاید لفظوں کا احترام کرنے والوں کا یہی شےوہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
صفیہ صدیقی(انگلینڈ): آپ کی ”کھٹی میٹھی یادیں“بہت پُرلطف ہیں اور میں تو ادبی دیانت داری کو بہت اہم سمجھتی ہوں۔آپ نے جس طرح صاف صاف سب کچھ جو آپ نے محسوس کیا وہ لکھ دیا یہ آپ کی خوبی ہے۔اسی طرح ”میری محبتیں“بھی آپ کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں۔”محبت کی نمناک خوشبو“میں آپ نے اپنی آپی کا جس طرح تذکرہ کیا ہے اسے پڑھ کر خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش میری بھی کوئی ایسی محبت کرنے والی بڑی بہن ہوتی۔”پسلی کی ٹیڑھ“میں آپ نے اپنی شریکِ حیات کا جس انداز میں تذکرہ کیا ہے اس سے بے انتہا مسرت ہوئی۔ورنہ عموماً ہمارے معاشرے میں والدین کے انتخاب کردہ شوہر بیوی میں زیادہ تر ساری عمر ”سرد جنگ“سی جاری رہتی ہے۔وہ شریک سفر تو ہوتے ہیں‘شریکِ زندگی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شفیق احمد(بھاولپور): انہوں نے اپنی بعض تحریروں کے لیے یادنگاری کی اصطلاح وضع کی ہے اور اس میں جن موضوعات پر لکھا ہے وہ اس سے پہلے اُردو ادب میں کہیں نہیں ملتے ۔ ہمارے ہاں ایک مشکل یہ بھی آپڑی ہے کہ لوگ تخلیقی فکر کے چکر میں سچ سے دور چلے جاتے ہیں یا پھر ان کے سچ میںسے تخلیقی عنصر غائب ہو جاتا ہے۔ حیدر قریشی کے ہاں یہ دونوں مشکل صورتیں پیدا نہیں ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
منزہ یاسمین(بھاولپور):حیدر قریشی کی یہ خود نوشت جب کتابی شکل میں سامنے آئے گی تو ممکن ہے ترمیم و اضافہ سے یہ آج سے قدرے مختلف ہو مگر یہ بات طے ہے کہ اپنے سادہ و پرکار انداز اور گذری زندگی کی سچی کھری اور کھٹی میٹھی یادیں پڑھنے والے پرایک بھرپور تاثر ضرور چھوڑیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر لئیق صلاح(حیدرآباد دکن):ان کے خودنوشت سوانح سے اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں دعامانگتے ہیں قبولیت کا یقین بھی ہے۔ اور مایوسی و ناامیدی کو کفر سمجھتے ہیں۔ تصوف سے بھی واقفیت ہے۔ مسئلہ جبروقدر کے بارے میں جو تجزیہ انہوں نے کیا ہے وہ بالکل منفرد انداز کا ہے۔ حیدرقریشی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں۔ کیونکہ انھوں نے جرمنی پہنچنے پر اپنے جن تاثرات اظہار کیا ہے۔ ا ن سے بیوی کی برتری ثابت ہوتی ہے، اور یہ ان کی روشن خیالی و وسیع النظری ہے۔۔۔ اس سوانح کا سب سے خاص وصف حید ر قریشی کا اسلوب ہے۔ مختلف موضوعات پرمبنی یہ سوانح ہے۔ لیکن کہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ قلم کی روانی میں فرق آیاہے۔ خواہ وہ مل کا حال ہو یا تعلیم و تدریس کا موضوع یاپھرکھیل کا بیان یادیگر تذکرے۔ موضوع کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب، طرز ادائے بیان، جن میں اضافہ کردیتاہے۔ ان کی تحریر میں بے ساختگی کے علاوہ شگفتگی بھی موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر حامد اشرف(اودگیر):حیدر صا حب نے بعنوان کھٹی میٹھی یا دیں تصنیف کے ذریعے ایک نئی صنف ” یاد نگا ری” کی اردو میںبنا ڈا لی ہے ۔۔۔۔ (مضامین)یہ ثا بت کرتے ہیں کہ ادب مسرت زا ئی کا سر چشمہ ہے۔ان مضا مین میں وا قعات کی پیش کشی اور اسلوبً نگارش کی شان پو شیدہ ہے جس سے حےدر صا حب کے دل کی مخفی دھڑکنوں کا اظہار ہو تا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انوار احمد اعجاز(گوجرانوالہ):عکاس 15کے شمارے میں زندگی کا یاد گار سفر کے عنوان سے آپکی کھٹی میٹھی یادیں پڑھنے کانہ صرف موقع ملا۔بلکہ آپ کی رفاقت اور ہمسفری کا لطف بھی ملا۔تھوڑے سے دنوں پرمحیط یہ سفر اتنی بے پناہ یادیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔آپ نے ان سب کو بڑی خوبصوررتی سے اردو کے دامن میں سمو کر ایک یادگار ادبی خدمت سرانجام دی ۔خدا آپ کو خوش رکھے ۔۔۔۔۔ٹیگور کے مجسمے والے واقعے کو پڑھ کر ان کی اپنی ناقدردانی کے احساس کوجاننے کا موقع ملا کہ کیسے اتنے بڑے بڑے لکھاری بھی اپنوں کی بے اعتنائی کو جھیلتے رہے۔بہرحال آپ نے اپنی لمحہ بہ لمحہ یادوں کو جس طرح سے محفوظ کیا اور اپنے چاہنے والوں کو جس طرح سے مربوط صورت میں پیش کیا اس پہ آپ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کرشن مہیشوری(راج کوٹ): جب کبھی ہم اپنی بیتی یادوں کو اپنے ذہن میں دہراتے ہیں تو ایک عجیب احساس ذہن کو معطر کرتا ہے۔یہی یادیں جب صفحہ قرطاس پر منتقل ہو جائیں تو کبھی اسے سوانح نگاری ،تو کبھی خاکہ نگاری کا نام دیا جاتا ہے۔حیدر قریشی نے اپنی ایسی یادوں کو”کھٹی میٹھی یادیں“ کا نام دیا ہے اور اسے یاد نگاری کے زمرے میں رکھا ہے۔
حیدر کی یہ یادیں پڑھ کر حیدر کے حافظہ اور اندازِ بیان پر حیرت ہوتی ہے اور داد دینے کو جی چاہتا ہے۔اکثر روزمرہ کی باتیں ہمیں یاد نہیں رہتیں۔اکثر یادیں وقت کے ساتھ مدھم نقوش بن کر رہ جاتی ہیں۔دھندلی دھندلی۔۔۔مدھم مدھم۔۔۔اور اگر واضح ہوں بھی تو انہیں حیدر کے انداز میں تحریر کرنا ؟۔۔یہ بھی ایک کمال ہے۔حیدر کی کھٹی میٹھی یادےں پڑھ کر ایسا تاثر قاری کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ وہ اپنے ماضی سے ہمےشہ جڑے رہنا چاہتے ہیں۔وہ اپنی یادوں کے ساتھ خوش رہنا چاہتے ہیں۔ایک طرف انہے ںانسانی ترقی پر خوشی ہوتی ہے تو دوسری طرف انسانی دلوں میں وقتاً فوقتاً گھٹتی محبت کا گلہ بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔حےدر قریشی کی ”کھٹی میٹھی یادیں“حکایتِ دراز اور لذیذ تر ہیں۔ایسی دلکش اور فرحت بخش یادیں جو قاری کو مکمل طور پر جکڑنے کے بعد ایک بار پھر مطالعہ کے لئے اکساتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان(پشاور): ہمارے برخوردارحیدر قریشی۔۔۔میں انہیںمغربی دنیا میں اردو کا سب سے بڑا ادیب مانتا ہوںاور ان کی صلاحیتوں کے سامنے اپنی ہیچ مدانی کا اعتراف کرتا ہوں ۔حیدر ،ون مین ادبی رائٹنگ کی انڈسٹری ہیں۔پورا رسالہ کمپیوٹر پرہی بیٹھ کر مرتب کرتے ہیں ۔ ۔میرے برخوردار ہیں۔مجھ سے عمر میں دس برس کم،لیکن کام وصلاحیت میں سو سال بڑے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نصر ملک(ڈنمارک):جرمنی میں مقیم اردو ادب کی منفرد و بے مثال شخصیت،حیدر قریشی ہمارے عہد کے وہ ادیب و شاعراور نقادو محقق ہیں کہ جنہیں مشرق و مغرب میں اردوادب کا ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوٹ کہا جانا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
Doris Weber(چیف ایڈیٹر پبلک فورم۔ فرینکفرٹ) حیدر قریشی کی داستانِ حیات،ایک سچ ہے لیکن اسے پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے جیسے کوئی افسانہ پڑھ رہے ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔