ہماری شاعری میں بیوی سے محبت کا اظہار کم کم ہی ہوا ہے۔ کمار پاشی نے اپنی بیوی کے تعلق سے لکھی ہوئی نظموں کا ایک پورا مجموعہ’’اردھانگنی کے نام‘‘سے شائع کیا تھا۔ حیدر قریشی نے اپنی ازدواجی زندگی کے ساڑھے بارہ سال مکمل ہونے پر’’نصف سلور جوبلی‘‘کے نام سے جو نظم کہی ہے وہ ان کے جذبات کی شیفتگی کی آئینہ داری کرتی ہے۔انہوں نے’’اردھانگنی‘‘کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی جزو حیات بنا دیا ہے۔مظہر امام کے مضمون’’عمرِ گریزاں کی شاعری‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوی کا خاکہ ، جسے ’’رسماً‘‘بڑی آسانی سے “اڑایا”جا سکتا تھا۔ حیدرقریشی وہاں بھی مودب اور بیوی کی محبت میں ڈوبا دکھائی دیتاہے۔ حالانکہ کوئی بھی خاکہ نگار دل کی بھڑاس نکالنے کا ایسا سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ حیدرقریشی نے اپنے عزیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش تو کیا، ایسا خیال بھی اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔
قاضی اعجاز محور کے مضمون’’میری محبتیں‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود حیدر قریشی اور ان کی بیوی مبارکہ کے درمیان لوگوں نے دیوار اٹھانے کی کوشش کی مگر صراحتاً یہ نہیں لکھا گیا کہ اسباب کیا تھے جن کی روشنی میں مذہبی ملائوں نے جدائی کا اعلان کیا۔ بہرحال حیدرصاحب نے کامیاب ازدواجی زندگی میں رخنہ پڑنے نہیں دیا۔
رؤف خیرکے مضمون’’میری محبتیں‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر نے دیگر احباب کے ساتھ ان یادوں میں اپنے والدین ،اپنی شریک حیات مبارکہ اور اپنے حقیقی دوست (خدا تعالیٰ)کا ذکر بہت عمدگی سے کیا ہے۔
کرشن مہیشوری کے مضمون’’کھٹی میٹھی یادیں۔ایک مطالعہ‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘میں آپ نے اپنی شریکِ حیات کا جس انداز میں تذکرہ کیا ہے اس سے بے انتہا مسرت ہوئی۔ورنہ عموماََ ہمارے معاشرے میں والدین کے انتخاب کردہ شوہر بیوی میں زیادہ تر ساری عمر ’’سرد جنگ‘‘سی جاری رہتی ہے۔وہ شریک سفر تو ہوتے ہیں‘شریکِ زندگی نہیں۔
صفیہ صدیقی کے مکتوب سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی نے ۱۹۷۸ء کے آخر میں ’’جدید ادب‘‘کتابی سلسلے کے اجراء کا پروگرام بنایا۔(میری محبتیں ،ص۴۸)۔کتابی سلسلہ جاری ہوا،اس میں ان کی تمناؤں کا لہو شامل ہوا۔ہر شمارے کے ساتھ ان کا ایک آدھ زیور بِک جاتا۔اس اللہ کی بندی نے ایک دفعہ بھی تکرار نہیں کی۔جب تک ان کے زیور نے ساتھ دیا’جدید ادب‘جاری رہا۔زیور ختم،’جدید ادب ‘بند۔(میری محبتیں ص۸۳)
ڈاکٹر وسیم انجم کی کتاب’’حیدر قریشی فکروفن‘‘ کے ایک مضمون سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی اپنی فراخدلی کی وجہ سے مشہور ہے۔ آپ اگر کسی Skin Headکے ہتھے نہ چڑھے تو آپ زندگی کا بقیہ حصہ (جسکے نہایت لمبا ہونے کا قومی امکان موجود ہے) نہایت عافیت سے گذاریں گے۔ ہم سب یہاں خیریت سے ہیں۔ بھابی مبارکہ کو میری اور ریحانہ کی طرف سے سلام اور مبارکباد بھی کہیں کہ آپ کو دوبارہ پا لیا ہے۔ خواہ چھ ماہ بعد مجھے اس مبارکباد دینے پر کوسنے دیں۔آپ کا مخلص اظہر علی (میجر اظہرصاحب کے مکتوب سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک ان کی بیگم صاحبہ کے انٹرویو کا تعلق ہے۔اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ایک اہل قلم کی مصروفیات کس طرح ان کی بیویوں کے لئے سوکن کا کام دیتی ہیں ۔اس انٹرویو سے ہمیں حیدر قریشی کی بے پناہ ادبی مصروفیات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اس کام کے لئے وقت کی کتنی قربانی دیتے ہیں۔ اسلم رسولپوری کے مضمون’’حیدر قریشی کے انٹرویوز‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر بھائی کی زندگی میںانٹر نیٹ کا ، بلکہ خود انٹر نیٹ کی زندگی میں حیدر بھائی کا اتنا عمل دخل ہو گیا ہے کہ جس اردو سائٹ پر جائیے وہاں وہ کسی نہ کسی روپ میں مل جائیں گے ۔ سنا ہے گھر میں ان کا زیادہ تر وقت کمپیوٹر کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی بیگم نے اسے اپنی سوت مان لیا ہے ، اور بے چاری ہر دم بس کمپیوٹر کوان سے خلع دلانے کی شرعی تدبیریں سوچتی رہتی ہیں ۔
نصرت ظہیر کے مضمون’’حیدر بھائی پر ایک ادھورا مضمون‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدرقریشی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں۔ کیونکہ انھوں نے جرمنی پہنچنے پر اپنے جن تاثرات اظہار کیا ہے۔ ا ن سے بیوی کی برتری ثابت ہوتی ہے، اور یہ ان کی روشن خیالی و وسیع النظری ہے۔
ڈاکٹر لئیق صلاح کے مضمون’’کھٹی میٹھی یادیںکے تناظر میں‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حیدر قریشی صاحب کا فون ملا تو آواز اسی طرح ہشاش بشاش اور حوصلے جوانوں کی طرح بلند۔ انہوں نے کہا رسالہ پڑھا ہے میں نے ہاں ہوں کر دی‘ انہوں نے اپنی گزشتہ سال دو سال کی بیماری قلب اور اپنی اہلیہ مبارکہ کی زندگی و موت سے کشمکش کی جو روداد سنائی تو میں نے سوچا ہر آدمی دکھ درد میں مبتلا ہے‘ کس کس کی داستان سنی جائے۔ انہوں نے کہا میرے رسالے کے صفحات 225 تا 238 پڑھ لیں آپ اپنی بیماری بھول جائیں گے۔ میں نے فون بند کر کے بادل ناخواستہ کتاب کا وہ حصہ پڑھا توواقعی اپنی بیماری بھول گیا‘ بعد ایک مدت کے میرے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر میرے گھر والے خوش اور حیران ہوئے‘ میں نے سب سے وہ مضمون پڑھوایا‘ اس دوران میں اپنی بیماری بھول گیا۔حیدر قریشی کے گھرانے پر بجلی کی طرح گرنے والی بیماریوں کا حال پڑھا تو یقین نہ آیا ۔ ۔ ۔ ۔ خوش قسمتی سے وہ مہذب و مالدار ملک جرمنی میں تھا‘ جہاں اس کا اور گھر والوں کا ایسا علاج ہوا کہ حیدر پھر اٹھ کے چل پڑا‘ ان کی اہلیہ 13 برس سے بیمار ہے اور علاج کروا رہی ہے۔ ان کے گردے تقریباً فیل ہیں مگر شاباش ہے جرمنی کی فلاحی مملکت پر کہ انہوں نے مریض کو اپنی گاڑی بھیج کر روزانہ لانے لے جانے کا ذمہ بھی لے رکھا ہے‘ زیادہ ضرورت پڑے تو ہیلی کاپٹر بلا کر کسی اور بڑے ہسپتال پہنچا دیتے ہیں۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے کالم دل پشوری سے اقتباس۔روزنامہ ’’آج‘‘پشاور۲۵؍جولائی ۲۰۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کی تحریریں ہمہ جہت حیثیت رکھتی ہیںان میںجہاں تحقیق و تنقید کے محاکمے قاری کو دعوت ِ فکر دیتے ہیں وہاں تخلیقی رنگ و آہنگ بھی اپنا جادو جگاتا نظر آتا ہے۔اُن کی تخلیقی سرگرمیوں کا دائرہ خاصا وسیع ہے جس پر پاک و ہند کے علاوہ دیگر یورپی ممالک کے ادبا نے دل کھول کر داد دی ہے۔قریشی صاحب نے اپنی تخلیقی نثر میں جہاں متنوع موضوعات پر خامہ فرسائی کی وہاں اہل خانہ کو بھی خاص اہمیت دی ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کی ادبی کہکشاں میں ہر رنگ کا ستارہ جھلملا رہا ہے۔زیر نظر مضمون میں صرف اُن تحریروں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جن کا تعلق اُن کی اہلیہ(مبارکہ) کے ساتھ ہے۔اس حوالے سے اُن کی نمائندہ تحریر وہ خاکہ ہے جو اُنھوں نے ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر لکھا ہے۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی نے زوجہ مبارکہ کا ذکر جہاں بھی کیا کما ل محبت اور لگائو سے کیا ہے،’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کا آخری حصہ جہاں تمام اہم احباب کا تذکرہ روانی سے آگے بڑھتا ہے وہاں ایک بار پھر بہانے بہانے سے اہلیہ کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔ان باتوں میں مبارکہ کی بیماری کا احوال سامنے آتا ہے اور دو طرفہ محبت اور احترام کی کیفیات بھی لہریں مارتی نظر آتی ہیں۔
حیدر قریشی نے جب اپنا کلیات ’’ عمر لاحاصل کا حاصل‘‘ مرتب کیا تو اس کا انتساب لکھتے ہوئے ایک بار پھر’’ اظہار ِ تشکر‘‘ کا آغاز اپنی اہلیہ سے کیا ہے:
’’ اپنی اہلیہ مبارکہ کا شکریہ جس نے مجھے میری ساری خامیوں سمیت نہ صرف قبول کر رکھا ہے بلکہ مجھے ادبی کاموں میں ہر طرح کی سہولت بھی فراہم کرتی رہتی ہے۔‘‘
یہ محبت کی کہانی مزید آگے بڑھتی ہے اور ’’ محبت کے پھول‘‘ میں ایک پھول ادائے خاص سے مبارکہ کی نذر کرتے ہیں:
اک روح کا قصہ ہے؍ میرے بدن ہی کا؍ جو گم شدہ حصہ ہے
( عمرِ لا حاصل کا حاصل:ص۱۳۹)
ایک عام قاری کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حیدر قریشی کا رویہ اپنی اہلیہ کی جانب حد درجہ ہمدردانہ اورمشفقانہ ہے۔اس حوالے سے ان کی ہر تحریر دردمندی اور احسان مندی کی کیفیت میں ڈوبی نظر آتی ہے۔حق سچ کی بات تو یہ ہے کہ بیوی کے حوالے سے یہ عمومی رویہ نہیںہے۔ یہ ایسا خاص الخاص رویہ ہے جو ہر کسی کو ارزانی نہیں ہو سکتا،اور کہیں نظر آ جائے تو حیرت ضرور ہوتی ہے۔ اس نوع کی کیفیات کا صرف وہی شخص مکلف ہو سکتا ہے جو ذہنی آسودگی سے مالا مال ہو، اپنی شریک ِ حیات کو زندگی کی مسرتوں اور ازلی خوشیوں کا محرک ِ اول مانتا ہو۔حیدر قریشی کے فکری نظام میں اہلیہ کی علامت خوش بختی اور بے لوث محبت کا بلیغ اشاریہ ہے،اُنھوں نے اپنی تحریروں سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ عورت بیوی بھی ہو سکتی ہے۔حیدر قریشی کے اس خوب صورت ماہیے کے ساتھ بات تمام کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
اظہار ضروری ہے؍ پیار اگر ہوتو؍ اقرار ضروری ہے
عامر سہیل کے مضمون ’’حیدر قریشی کی تحریروں میں زوجہ مبارکہ کا ذکر‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِن ادبی احباب کی جانب سے خطوط اور ای میلز کے ذریعے امی کی خیریت پوچھی جاتی رہی اورذکر ہوتا رہا۔بعض شخصیات نے فون پر براہِ راست امی سے باتیں کیں،اور کرتی رہتی ہیں۔
عبداللہ جاوید(کینیڈا)،شہناز خانم عابدی(کینیڈا)،ترنم ریاض(دہلی)،عامر سہیل (ایبٹ آباد) ،حسن آتش(کلکتہ)،نسیم انجم(کراچی)،ڈاکٹررضیہ اسماعیل (انگلینڈ ) ، ارشد خالد (اسلام آباد)،سعید شباب(خانپور) ،ڈاکٹر رضیہ حامد(بھوپال)،فرحت نواز(رحیم یار خان)،
نصرت بخاری(اٹک)،مسزاینڈڈاکٹرعبدالرب استاد(گلبرگہ)،ڈاکٹر نذر خلیق(راولپنڈی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔