نیں بیٹا کہاں ہو
جی ماما میں یہاں ہوں”۔۔! “
الماری سے سر باہر” نکالتے ہوۓ بلند آواز میں بولی تھی۔۔کافی دنوں سے وہ اپنی کلوزٹ ٹھیک کرنے کا سوچ رہی تھی لیکن امتیخانات کی وجہ سے ڈِیلے کر رہی تھی ۔۔ اب پیپرز ختم ہو چکے تھے۔, اور فری بیٹھنے سے بہتر تھا کے آج کے آج کام حتم کر لے ۔۔۔ پھر کیا دیکھتے ہی دیکھتے نین نے قمر باندھی اور جُٹ گئی کام میں
تمہارے پاپا کہہ رے ہیں شام کی” چاۓ سب اکٹھی پیئیں گے، پاپا اور وجی کہہ رہے ہیں کے پکوڑے بناؤں ساتھ، تم بھی بتا دو تمہارے لیے کیا بناؤں”۔۔۔ ماما نے کھڑے کھڑے ایک ہی سانس میں دریافت کیا تھا۔
جو وجی اور پاپا کھائیں گے وہی” ۔۔۔” مصروف انداز میں لیکن بہت محبت سے کہا۔
نگین بیگم جواب پاتے ہی کمرے سے نکل گئیں۔
چاۓ کا دور چلا تو پاپا نے لاڈلی بیٹی کو خود سے لپٹاتے ہوۓ پیار سے پوچھا۔۔”میری گُریا کے پیپر کیسے ہوۓ ہیں۔” “پاپا میں آپ سے ناراض ہوں آپکو اندازہ بھی ہے کےایک ہی گھر میں ہوتے ہوے بھی آج پورے ایک ویک کے بعد مُلاقات ہو رہی ہے”۔۔۔ مصنوعی ناراضگی سے کہا گیا تھا۔
ارے بھئی نگین بیگم یہ تو بڑا مسلۂ” ہو گیا ہے۔کیا کِیا جاۓ؟؟” سکندر نے سوالیہ نظروں سے بیگم کو دیکھا تھا۔
نا،”بابا”،نا،” یہ آپ دونوں باپ بیٹی” کا معاملہ ہے میں کچھ نئیں کر
سکتی۔۔” نگین بیگم سہولت سے اپنا دامن بچا گئیں۔
میں بھی ناراض ہوں”۔۔۔ وجی نے” بھی موقع پہ چھکا مارا تھا ۔۔۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟؟ تم سب نے مل” کر میرے خِلاف پلانگ کی ہوئی ہے کیا؟؟” سکندر علیم شرارت سے گویا ہوۓ تھے۔
اچھا بابا میں اپنی غلطی تسلیم کرتا” ہوں۔اب ایسا کیا کروں کے میرے دونوں بچوں کا موڈ ٹھک ہو جاۓ”۔ سکندر نا صرف اچھے اور مخلص باپ اور انسان تھے،بلکے بہت اچھے دوست بھی ثابت ہوۓ تھے, بچوں کے معاملے میں وہ خود بھی بچے بن جایا کرتے تھے۔”ٹھیک ہے ایک شرط پہ
آپ کل آفس نہیں جائیں گے۔، بلکے ہمارے ساتھ پِکننگ پہ چلیں گے”۔ نین بات ختم کر کے جواب طلب نظروں سے بابا کو دیکھنے لگی۔
آہ ہ ہ ۔۔۔ہمممم کل تو میری بہت” امپورٹینٹ میٹنگ ہے۔” سکندر صاحب نے شڈیول کے مطابق بچوں اور بیگم کو آگاہ کیا۔
نہیں پاپا نہیں آپ نے ابھی کہا تھا” کے آپ ہماری ہر شرط مانیں گے ۔۔ بس آپ کل نہیں جا رہے آفس،بلکے ہمارے ساتھ پِکننگ پہ چلیں گے”۔نین بچوں کی طرح روٹھتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔
نینی میری پری میری جان کل نہیں” بٹ آئی پرامس پرسوں پکا چلیں۔ اوکے ڈن” !۔۔۔۔۔ وجی نے فوراً
بابا
کی رہنمائی کی تھی ،مجبوراً نین کو بھی ہتھیار ڈالنے پڑے
پاپا آپ کو پتہ ہے کل مینے بہت ٹف” میچ جیتا “۔”پاپا وہ میری فرینڈ عروج ہے نا اُس کی بڑی آپا کی شادی ہے وہ کل ہمیں اِنوائٹ کرنے آئی تھی”۔باپ کو پاس پا کر دونوں بچے اپنی اپنی باتیں بتانا شروع کر چُکے تھے
نگین اپنی ہستی مُسکراتی رندگی کو نظر لگ جانے کے ڈر سے فوراً منظر سے ہٹ گئیں ۔ایک موتی اُنکی آنکھ سے زور آور ہو کر باہر نکلا تھا اور ان کے گال بھگو گیا تھا
※※※※※※※
پہلے دن نیو اسٹوڈنٹس کو جس طرح سے پرشانی اُٹھانی پڑتی ہے،ایسی کوئی پرشانی نین کو نہیں اُٹھانی پڑی تھی، علینا جہاں یقینً بہت اچھی مدد گار ثابت ہوئی تھیں اسٹوڈنٹ کارڈ سے لے کر کلاس شڈیول تک سب کچھ تو وہ بتا چُکی تھیں۔نین جو بہت اعتماد اور با حِمتی سے پیرس جیسے بڑے مُلک میں آ تو گئی تھی لیکن اب شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ آؤ نین ان
سے مِلو یہ اس یونیورسٹی کے لائک فائک اسٹوڈنٹس ہیں ۔۔۔
دو لڑکیوں اور تین لڑکوں کا کوئی گروپ تھا جن کو وہ نین سے انٹروڈیوس کروا رہی تھی ۔۔ وہ پانچوں کہیں سے بھی لائک فائک اسٹوڈنٹس نہیں لگ رہے تھے۔،پھر مِس علینا ایسا کیوں بول رہی تھیں ،نین یہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
یہ ہے ہیری،اسکا کام ہے یہاں” آنے والے ہر نیو قمر کو بُلی کرنا
اُنہیں تنگ کرنا جیسا کہ ہر نیو قمر کہ ساتھ پروانے اسٹوڈنٹس کرتے ہیں وہ اِسے اپنا حق تسلیم کرتے ہیں”۔ اُن میں سب سے دُبلے پتلے نیلی آنکھوں والے کی طرف اِشارا کرتے ہوۓ کہا تھا جس نے نین کو تِرچھی نظروں سے گھورا تھا۔نین نے فوراً اُس کی نظروں کامفہوم سمجھ کر نظریں جُھکا لیں۔
اور یہ ہے بہت زہین اور لائک” شِرلے یہ بس میک اپ کرتی ہے اِسے اور کچھ نہیں آتا انفارچونیٹلی”۔، نیلی آنکھوں والے کے ساتھ کھڑی قدرے لاپروا سی نظر آنے والی کرلی بالوں والی کا کہاتھا ,جس نے ناک چڑھاتے ہوۓ دیکھا تھا۔۔۔۔ آبے کیا یہ کوئی نئی ٹیچر ہے ؟ جو اے۔جے (اے۔جے مطلب علینا جہاں )پوری یونی کو چھوڑ کر بس ہم سے ہی تعارف کروا رہی ہیں۔ تیسرے نمبر والے نے چوتھے والے کے کان میں ہلکی سی سرگوشی کی تھی۔ ہاں لگ رہی ہے چشمہ دیکھ اُسکا شکل سے تو ڈاکڑ لگتی ہے۔شرارت سے کسی دوسرے نے لُقمہ دیا تھا۔
یہ ہے پیٹر اِسے سنگر بننے کا بہت” شوق ہے لیکن آج تک مجھے سمجھ نہیں آیا کہ پھر یہ اب تک سائکالوجسٹ کے ڈپارٹمنٹ میں کیوں ہے”؟ ۔۔۔۔۔ نین سکندر بےتاثُر چہرہ لیے اُن سب کے چہرے دیکھ رہی تھی جہاں کوئی کسی قسم کی شرمندگی ندارد تھی…۔۔ اُن کے چہروں پہ اُکتاہٹ تھی۔جیسے کبھی کوئی بن بُلایا مہمان آ جاۓ تو بندا اکتا جاتا ہے۔۔۔ ایسی اُکتاہٹ اور بےزاری اُن کے چہروں سے عیاں تھی۔،جیسے کہہ رہے ہوں۔بس ہو گیا؟؟ اب ہم جائیں ؟
اور یہ ہے عینی اِسے بس باپ کے” پیسے اُڑانے کا شوق ہے پارٹیز، کیٹی پارٹیز،کلب کہیں بھی جاؤ گی یہ تمہیں ضرور مِلے گی فا شور” ۔۔۔۔
اور یہ ہیں ان سب کے چہیتے شہریار” عرف شیری ۔،
۔۔! انفارچونیٹلی یہ کُچھ کرتے ہی نہیں, وہ دیکھو , اُنگلی سے سامنے بنے کیفے کی طرف اشارہ کیا ،یہ بس وہاں بیٹھتا ہے اور آنے جانے والے اسٹوڈنٹس کو دیکھتا ہے”۔اُنکے لفظوں کا کھُردرا پن واضع تھا۔
میم کیا یہ ہماری نیو میتھس ٹیچر ہیں” ؟؟”… ہیری نے ہمت کر کے زُبان پہ آیا ہوا سوال پوچ ہی ڈالا۔
نو۔شی از اے نیو قمر”… تیز نظروں سے” سب کو دکھتے ہو بول کر مُڑنے لگیں جب شیری کی تلخ آواز اُن کے کانوں میں پڑی۔نین بھی جہاں اے۔جے کے ساتھ مڑنے لگی تھی وہ بھی ٹھٹھک کہ رک گئی۔
ہمیں یہ بلکُل گوارہ نہیں کے آپ
نیو قمرز کے سامنے ہمیں یو انسلٹ کریں”۔ جہاں اے۔جے سکون سے سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑی تھیں وہیں نین کا سکون غارت ہونے لگا تھا۔ اُسے کچھ بہت بُرا ہونے کا احساس ہو چُکا تھا، وہ نا چاہتے ہوۓ بھی پرائی آگ میں ہاتھ ڈال چُکی تھی، وہ مُہاورہ تو سُنا ہو گا ،نا،کے کرے کوئی اور بھرے کوئی۔
اوہ اچھا سہی، تو اور کیا کیا نہیں پسند” آپکو زرا کُھل کر بتا دیں شہریار ۔۔۔، کیوں یہ یونی تو آپکی پسند اور نا پسند پے ہی تو چلتی ہے ُ”ُُُ۔۔۔۔ اے۔جے نے غصیلے انداز میں لفظوں کو چبھا چبھا کر ادا کیا تھا۔
اے۔جے مُجھے جو کہنا تھا کہہ چُکا، آپکو” ہماری انسلٹ کرنے کا کوئی حق نہیں ،بنا ڈرے اُس نے اے۔جے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ رغبت سے کہا تھا”۔ اُنچا قد کاٹھ،گورا رنگ ،بِلی جیسی شاطر آنکھیںُ،اُن میں چھلکتا غرور،کُشادہ پیشانی اُس پے غصے سے پڑی سِلوٹیں،وہ بلاشبہ ایک وجیہہ مرد تھا۔اُس کی آنکھوں میں کُچھ تو تھا جسے،نین سکندر نے محسوس کیا تھا۔
اور پھر اے۔جے کے پُکارنے پہ وہ فوراً سر جُکھا کر اُن کے پیچھے چل دی،لیکن دل میں سانپ کُنڈلی مار کے بیٹھ چُکا تھا،اور اُسکے یہ سارے ڈر اور حدشے بہت جلد درُست ہونے والے تھے
وقفعے وقفعے سے اسٹوڈنٹس کی آمدورفت بھڑتی جا رہی تھی۔
دِسمبر کا مہینہ تھا۔ کرسمس اور نیو ائر کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں۔ پوری یونی کو بہت خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ۔ یونی کے وسط میں انتہائی خوبصورتی سے ٹری سجایا گیا تھا اُس کے ارد گرد فیری لائٹس لگائی گئی تھیں جسے ٹری مزید نکھر گیا تھا۔اور ٹری کی ہر چھوٹی بڑی لڑیوں کی ساتھ وش لاک اور کی لگائی گئی تھی۔ ۔یونی میں جگہ جگہ چارٹ ورک بھی کیا گیا تھا ۔ کئیں پہ اسٹوڈنٹس نے اپنے محترم اُستادوں کے لیے بہت پیاری پیاری ویشیز لکھی تھیں، اور ایک بڑے سے چارٹ پے نیو قمرز کےلیے ویلکم ٹو پیرس ویلکم ٹو سوربونے لکھا گیا تھا۔یونی کے بڑے بڑے اور خوبصورت تناور درختوں کو بھی طرح طرح کی فیری لائٹس سے سجایا گیا تھا۔ ہر کوئی اپنی بیسٹ پرفارمنس دینے میں لگا ہوا تھا۔
وہیں سے بلاک اے کی طرف آؤ تو نین سکندر جسے ابھی آۓ چند روز ہوۓ تھے، جو پہلے دن ہونے والی تمام سوچوں کو جھٹک کر عجلت میں تیزی سے اپنی کلاس کی طرف بھڑ رہی تھی کسی کے پُکارنے پہ وہ پلٹی تھی۔شہریار کا گروپ اُسے اِشارے سے اپنی طرف بُلا رے تھے۔
می”؟؟ نین نے انگوٹھے سے اپنی” طرف اشارہ کرتے ہوۓ پوچھا۔” یس یس یو۔”۔، پیٹر نے بلند آواز میں کہا تھا۔نین جو اب تک اُن سب کو بھولی ہوئی تھی،ایسے بیچ راستے میں اُن کے پُکارنے پہ اُس کے اوسان جواب دے گئے وہ مرے ہوۓ قدموں سے مور کی چال چلتی اُن کے سامنے پیش ہو گئی۔
تو تم ہو نین سکندر۔۔۔۔ ویسے بڑا” عجیب نام ہے تمہارا، کیا مطلب ہے نین کا؟ آئی مین کبھی سُنا نہیں یہ نام”۔ بِلی آنکھوں والے نے اپنی آنکھوں کو چوٹا کرتے ہوۓ تعاجُب سے پوچھا تھا۔
کچھ بولو بھی ، گونگی ہو کیا؟ اُس دن” بھی خاموش تھی آج بھی منہ کو فقعل لگاۓ کھڑی ہو ، چُپ رہتی ہو یا چُپ لگ گئی ہے”۔، نین کی طرف سے جواب نا پا کر شیری نے فوراً جملہ کسہ تھا جس پہ سب کا بلند قہقہ لاتعداد بھیڑ اور بے جا شوروگُل کے باوجود گونجا تھا
نین سکندر بلکُل سپارٹ آنکھیں لیے سب کو باری باری دیکھ رہی تھی،چہرہ بلکُل بے تاثُر تھا۔،لیکن بولی پھر بھی کچھ نا، کیوں کے آج وہ اس بے مطلب کی لڑائی کو اُن سب کی جلی کُٹی سن کر ختم کرنا
چاہتی تھی۔وہ یہاں پڑنے آئی تھی نا کے ان جیسے بندروں کے منہ لگ کر اپنے قیمتی دو سال ضائع کرنے، وہ بہت عقلمند تھی اور ابھی خاموشی اختیار کر کے وہ عقلمندی کا واضع ثبوت دے رہی تھی۔
ارے اسے دیکھو بلکُل بہن جی لگتی” ہے”۔ شرلے شیشے میں خود کو دیکھتے ہوۓ اپنی لِپسٹک کو مزید گاڑھا کرتے ہوۓ بولی تھی۔ شیری قہقہ لگاتے ہوۓ شرلے کو یقیناً داد دے رہا تھا۔
ہماری بات ابھی پوری نہیں ہوئی” نین سکندر”۔ نین کو مُڑتے دیکھ شیری غُصے سے دھاڑا تھا۔شیری پہ نین کی یہ حرکت ناگوار گُزری تھی۔
نین دو قدم چل کر واپس پلٹی تھی اور اعتماد سے چلتی ہوئی شیری کے سامنے سینے پے بازو باندھ کر کھڑی ہو گئی اور خالی خالی نظروں سے اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ جیسے کہہ رہی ہو میں سُن رہی ہوں بولو۔۔۔۔۔۔اُس کی نظروں میں بلا کا سکون تھا۔
سُنو یہ تمہارا ایٹیٹیوڈ یہاں ہمارے” سامنے نہیں چلے گا۔,پوری یونی،ہم سے ڈرتی ہے۔، لہازا اپنی نظریں بچا کر رکھو ہم سے”۔، پوری یونی اُن سے واقعی ڈرتی تھی یہ بات نین نے جب محسوس کی جب شیری کہ گروپ نے اُسے اپنی طرف بُلایا تھا۔ ،تو اِرد گرد کا مجمہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہوا تھا۔
اگر آپکا ہو گیا تو میں جاؤں مُجھے بھی” اپنی کلاس کے ساتھ مل کی چارٹ بنانے ہیں”۔وہ بڑے تحمل سے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوۓ لاپرواہی سے بولی تھی۔وہ نا چاہتے ہوۓ بھی زور دار تماچہ اُن سب کہ منہ پے مار ہی گئی تھی۔، پھر وہ پلٹی اور اُن سب کو ہکا بکا چوڑ کر آگۓ بھڑ گئی اُن سب کی نظروں سے دور بہت دور ۔
پیٹر ! بی ریڈی بہت عرصے بعد ٹکر کا” بندہ آیا ہے۔، بہت مزہ آنے والا ہے” ہیری پِلر کو زور سے مُکا مارتے ہوۓ بولا تھا،اور شیری کی آنکھیں سُرخ پانیوں سے بھر گئی تھیں۔بظاہر وہ ہس رہا تھا،لیکن دل میں اندھیوں کا شور بھرپا تھا۔ہیری مجھے
اس لڑکی کی ساری ڈیٹیلز چاہیں کل صُبح تک ہیری کے لیے حُکم سادر کیا تھا۔ جِسے ہیری نے خوشی خوشی قبول کیا تھا۔
پھر وہ وہاں رُکا نہیں لمبے لمبے ڈاک بھرتا وہاں سے نکل گیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...