آج سے ایک ہزار سال قبل دو دانشوروں کی بحث حقیقت کی نیچر کے بارے میں جاری تھی۔ اس کی نوعیت فزکس کی کسی جدید یونیورسٹی سے زیادہ مختلف نہ تھی۔ یہ دونوں ہماری فکری تاریخ کے بڑے نام ہیں۔ ان میں سے ایک ابنِ سینا تھے جن کی معرکتہ الآراء کتاب “القانون فی الطب” اگلے پانچ سو سال تک میڈیکل کا اہم ترین کام رہا۔ دوسرے ان سے سات سال بڑے تھے۔ خاموش طبع لیکن بلا کے ذہین۔ یہ ابو ریحان البیرونی تھے۔
یہ خوارزم میں گرگانج کا مقام تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہنہ گرگانج آج ترکمانستان اور ازبکستان کی سرحد پر ہے۔ کسی وقت میں یہ خورازم کی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ جب چودہویں صدی میں ابنِ بطوطہ یہاں پر گئے تو ان کے تاثرات تھے، “یہ ترکوں کا سب سے بڑا، خوبصورت اور اہم ترین شہر ہے۔ نفیس بازار ہیں اور چوڑی سڑکیں ہیں۔ کثیر عمارتیں ہیں۔ خوشحالی اور اشیا کی فراوانی ہے”۔
چودہویں صدی کے آخر میں تیمور لنگ نے اس شہر میں قتلِ عام کر کے اس کی تمام عمارتوں کو مسمار کر دیا تھا۔ لیکن اس شہر کا خاتمہ اس وقت ہوا جب آمو دریا نے سولہویں صدی میں سیلابوں کے بعد اپنا راستہ بدل لیا۔ شہر ختم ہوا اور علاقائی دارالحکومت خیوہ چلا گیا۔
اس کے کھنڈرات کو یونیسکو کی طرف سے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ کبھی یہ دنیا میں علم کا اہم مرکز رہا تھا۔ البیرونی اور ابنِ سینا، دونوں ہی یہاں کے شاہی دربار میں کام کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوجوان ابنِ سینا کی دلچسپی میٹافزکس میں تھی۔ البیرونی نے انہیں اٹھارہ سوال پیش کئے تھے۔ ان میں سے چند:
۱۔ آخر اس بات کا کیا جواز ہے کہ ہم اس بات پر اصرار کریں کہ فلکیاتی اجسام زمین کے گرد مکمل دائروں میں گردش کرتے ہیں؟ ان پر کششِ ثقل اثر نہیں کرتی؟ آخر یہ زمین پر گرتے کیوں نہیں یا اس سے دور کیوں نہیں چلے جاتے؟
۲۔ کیا مادہ ناقابلِ تقسیم ذرات پر مشتمل ہے؟ اور اگر ہمارے پاس اس کے کسی بھی جواب کے حق یا مخالفت کے اچھے شواہد نہیں تو اس پر اصرار کیوں ہے کہ ایسا نہیں ہے؟
۳۔ کیا سورج کی شعاعیں مادی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر گرمی ہم تک کیسے پہنچتی ہے؟
۴۔ کیا متوازی کائناتوں کے وجود کا امکان ہے؟ آپ اسے مسترد کیوں کرتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں تھا کہ البیرونی ابنِ سینا کو نیچا دکھانا چاہتے تھے۔ یہ ایک دیانتدار مکالمہ تھا جس کا مقصد دوسرے کی بات اور نقطہ نظر کو سمجھنا تھا۔ یہاں پر ہم ابنِ سینا کا ایک جواب نقل کرتے ہیں جو سورج کی گرمائش کے بارے میں ہے۔
“حرارت خود سے حرکت نہیں کرتی۔ دوسرا یہ کہ ایسا نہیں کہ اوپر کوئی گرم شے ہے جہاں سے حرارت نیچے آ رہی ہے۔ تیسرا یہ کہ سورج گرم نہیں۔ یہ روشنی کے انعکاس کی وجہ سے ہوا کے گرم ہونے کا مظہر ہے۔ ہم عدسوں کے تجربات میں ایسا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شعاع خود کوئی جسم نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر ایک مسئلہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ایک جگہ پر دو اشیا نہیں ہو سکتیں۔ لیکن اگر شعاع مادی شے ہو تو اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ ہوا اور شعاع کو بیک ایک ہی جگہ پر ہونا پڑے گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ اب ہم جانتے ہیں کہ سورج بہت گرم ہے اور اس کی حرارت الیکٹرومیگنیٹک ویوز کی مدد سے ہم تک ویسے ہی پہنچتی ہے جیسے روشنی۔ لیکن ان چیزوں کی وضاحت ہونے میں ابھی 900 سال رہتے تھے۔ جب میکسویل نے اس عقدے کو حل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابنِ سینا نے البیرونی کے ہر سوال کا جواب دیا اور اپنے (اور ارسطو کے) خیالات کا مضبوطی سے دفاع کیا۔ لیکن البیرونی کے لئے یہ تسلی بخش نہ تھا۔ مکالمہ چلتا رہا۔
اور یہ تمام سوالات تجریدی نوعیت کے نہیں تھے۔ البیرونی بہت سے سوالات کا جواب چاہتے تھے۔ مثلاً، برف پانی پر کیوں تیرتی ہے؟
ابنِ سینا کا خیال تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہوا کے ننھی سے pockets ہوتی ہیں جن کی وجہ سے یہ ہلکی ہو جاتی ہے۔ (جبکہ آج ہمیں معلوم ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ برف کی کثافت پانی سے کم ہے)۔
پھر اس مکالمے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ابنِ سینا اکتا جاتے ہیں اور یہ کام اپنے ہونہار شاگرد المعصومی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ (اور المعصومی کو اپنے استاد کے جوابات پر اعتراض کئے جانا پسند نہیں آتا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنا دلچسپ ان کے مکالمے کے خیالات ہیں، اتنا ہی یہ دونوں شخصیات ہیں۔ لیکن ان دونوں genius کے پسِ منظر، خیالات اور شخصیات میں بڑا فرق ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...