آئن سٹائن اور نیلز بوہر دوست تھے اور کوانٹم مکینکس کے بارے میں ان کی بحث چالیس سال سے زیادہ چلتی رہی۔ اور یہ بحث اب بھی ختم نہیں ہوئی۔ آئن سٹائن پہلے شخص تھے جنہوں نے ایٹم اور ریڈی ایشن کے بارے میں انقلابی نئی تھیوری کی ضرورت کا احساس کیا تھا لیکن ان کی نظر میں کوانٹم مکینکس اس کا جواب نہیں تھا۔ پہلے انہوں نے کہا کہ یہ بے ربط ہے۔ لیکن جب ان کا یہ آرگومنٹ ناکام ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ نیچر کی نامکمل تصویر پیش کرتی ہے اور اس تصویر کا اہم حصہ چھوڑ رہی ہے۔
غالباً، آئن سٹائن اس کو اس لئے قبول نہیں کر سکے کیونکہ انہیں سائنس سے بہت توقعات تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ رئیلیٹی کی روح چند ریاضیاتی قوانین میں ہے جو وقت سے ماورا ہیں اور ان کی آرزو ان تک پہنچنے کی تھی۔ ان کی نظر میں سائنس اس کو پہچاننے کا طریقہ ہے اور حقیقت کی یہ روح ہم سے الگ آزادانہ طور پر وجود رکھتی ہے۔ اس کو ہمارے وجود، علم اور یقین سے فرق نہیں پڑتا۔
اور آئن سٹائن کو ایسا یقین رکھنے کا حق پہنچتا تھا۔ سپیشل تھیوری اور جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی جیسی شاندار دریافتوں کی کامیابی سمیٹنا اسی سمت کا سفر ہی تو تھا۔ اور اسی وجہ سے وہ ایٹم، الیکٹرون اور ریڈی ایشن کو بھی اسی طرز سے سمجھنا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوہر کا جواب تھا کہ ایٹامک فزکس کے لئے ہمیں سائنس کے اس تصور کو یکسر تبدیل کر دینے کی ضرورت ہے۔ رئیلیٹی اور رئیلیٹی کے بارے میں علم کے تصور کو بھی۔ ایسا کیوں؟ یہ اس لئے کہ ہم خود بھی دنیا کا جزو ہیں اور جس ایٹم کی وضاحت ہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں ان سے انٹرایکشن کرنا پڑتا ہے۔
بوہر کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ ہم فکر میں یہ انقلابی تبدیلی کو ذہن میں جذب کر لیں تو ہم سمجھ لیں گے کہ کوانٹم مکینکس اس پہلو سے بالکل مکمل ہے کہ اس سے زیادہ “مکمل تر” وضاحت نہیں کی جا سکتی، اور یہ ہمارے اس دنیا کا حصہ ہونے کی چکائی جانے والی قیمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم بوہر کا یہ استدلال قبول کرنے سے انکار کریں اور رئیلیٹی کی کامن سینس والی پرانے فیشن کی فکر پر اور علم اور مشاہدے کے تعلق پر اصرار کریں اور خود سے الگ آزاد حقیقت پر تو پھر ہمیں ایک مختلف قسم کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ ہم نیچر کے بارے میں کس شے کے بارے میں غلط ہیں۔ آئن سٹائن کے 1935 میں لکھے ہوئے پیپر سے شروع ہونے والے تھیوریٹیکل اور پھر تجرباتی کام سے ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ یہ کیا ہے۔ ایسی کسی نئی وضاحت کو ایک عام مفروضے کو ترک کر دینا پڑے گا جس کے مطابق اشیا دوسری اشیا سے صرف اسی وقت تعامل کر سکتی ہیں جب وہ سپیس میں ان کے قریب ہوں۔
یہ locality کا مفروضہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا رئیلزم درست ہے یا اینٹی رئیلزم؟ ہمارے پاس اس کا فی الوقت جواب نہیں۔ لیکن سائنسی رئیلزم کو ترک کر دینا لازمی نہیں۔
حالیہ دہائیوں میں اس مسئلے کو سمجھنے کے بارے میں کچھ پیشرفت ہونا شروع ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ حل ہونے کے قریب تو بالکل نہیں لیکن کم از کم آغاز تو ہے۔ آج ہم آئن سٹائن کے وقت سے زیادہ فہم رکھتے ہیں اور اس بارے میں مسائل اور رکاوٹوں سے زیادہ بہتر آگاہ ہیں۔ اور بہت دلچسپ تجاویز اور ہائپوتھیسس سامنے رکھے گئے ہیں۔
اور ان کی وجہ سے یہ سوال ایک بار پھر سامنے آتا ہے کہ کیا آئن سٹائن کا رئیلزم کا ضدی یقین اور نامکمل انقلاب تکمیل تک پہنچ سکے گا؟
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...