قومی اخبارات کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ حیدر آباد دکن ( بھارت ) میں مقیم اُردو زبان کے مایۂ ناز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین چوراسی بر س کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انتھک جد و جہد کرنے والے اس ادیب کی رحلت پر ہر آ نکھ اشک بار اور ہر دِل سوگوار ہے ۔ پندرہ جولائی 1936ء کو گلبرگہ ( بھارت ) کی تحصیل چنچولی میں مولوی احمد حسین اور امیر النسا بیگم کے گھر سے طلوع ہونے والا اردو طنزو مزاح کا یہ آفتاب ستائیس مئی 2020 ء کوحیدر آباد دکن ( بھارت ) میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مجتبیٰ حسین کے تعلیمی کاغذات میں ان کی تاریخ پیدائش پندرہ جولائی 1933ء درج ہے۔ وہ ممتا ز ترقی پسند پاکستانی افسانہ نگار،صحافی اور مزاح نگار ابراہیم جلیس ( 1924-1977) کے چھوٹے بھائی تھے ۔ ابراہیم جلیس نے کچھ عرصہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار’’ مساوات ‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجا م دئیے ۔ ابراہیم جلیس نے حریت ضمیر سے جینے والے حریت فکر کے اس مجاہد نے ہر مر حلۂ زیست پر جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ گزشتہ چھے عشروں میںیوسف ناظم ( 1918-2009)اور مجتبیٰ حسین نے اردو ادب میں طنزو مزاح کے حوالے سے نہ صرف بھارت بل کہ پاکستان میں بھی بہت مقبولیت حاصل کی ۔ مجتبیٰ حسین کے سانحہ ٔارتحال سے بھارت میں اردو طنز و مزاح کا عہدزریں اپنے اختتام کو پہنچا۔
میرا خیال ہے کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ مجتبیٰ حسین جیسی نابغہ ٔ روزگار ہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضائو ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میںاُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ ان کے مداحوں اور الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحر ِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز ، اعصاب شکن اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیںہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میںاوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میںدب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟ مجتبیٰ حسین کی وفات سے اردو زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے ۔
مجتبیٰ حسین کا پہلا کالم پندرہ اگست 2 196ء کو روزنامہ ’ ’ سیاست ‘‘ کے کالم ’شیشہ و تیشہ ‘ میں ’’ کوہ پیما ‘‘ کے فرضی نام سے شائع ہوا ۔ مجتبیٰ حسین کا اپنے حقیقی نام کے ساتھ پہلا ظریفانہ مضمون ’’ ہم طرف دارہیں غالب ؔکے سخن فہم نہیں‘‘کے عنوان سے سال 1964ء میں ’ ماہ نامہ صبا ‘ میں شائع ہوا۔
تعلیمی مدارج
مجتبیٰ حسین نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے والد سے حاصل کی ۔اس کے بعد جماعت چہارم میں مدرسہ تحتانیہ آصف گنج ( گلبرگہ ) میں داخلہ لیا ۔مجتبیٰ حسین نے مختلف تعلیمی مدارج میں امتیازی نمبر حاصل کر کے کا میابی حاصل کی ۔اس کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔ میٹرک : گورنمنٹ ہائی سکول تانڈور ، 1951
۲۔انٹرمیڈیٹ : انٹر میڈیٹ کالج ،گلبرگہ ،1953
۳۔بی۔اے : عثمانیہ یونیورسٹی ،حیدرآبا ددکن ، 1955
۴۔ڈپلومہ اِن پبلک ایڈمنسٹریشن ،عثمانیہ یونیورسٹی ،حیدرآبا ددکن ، 1958
مجتبیٰ حسین کی شادی اپنے چچا مولوی محمد غوث کی بیٹی ناصرہ رئیس کے ساتھ گیارہ نومبر 1956ء کو ہوئی ۔اُن کی اولا د ہادی حسین ،راشدہ رئیس ،مصباح رئیس ،نجیبہ رئیس ۔
عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آبادکن ( بھارت ) سے سال 1955ء میں بی۔اے کرنے کے بعد مجتبیٰ حسین نے روزنامہ سیاست کے مدیر اور اپنے سب سے بڑے بھائی محبوب حسین جگر کے ساتھ سال 1956 ء میں بہ حیثیت سب ایڈیٹر روزنامہ سیاست میں کام کیا۔ محبوب حسین جگر نے عابد علی خان کے ساتھ مِل کر روزنامہ سیاست کی اشاعت کاآغاز کیا ۔مجتبیٰ حسین کی ملازمت کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔ حکومت آندھرا پردیش کے محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ میں خدمات ( 1962-1972)
۲۔ شعبہ تحقیق ،گجرال کمیٹی دہلی میں خدمات ( دس نومبر 1972تااٹھارہ ستمبر1974)
۳۔ مدت ملازمت کی تکمیل کے بعد مجتبیٰ حسین نے شعبہ صحافت کو اپنا یا اور روزنامہ ’ سیاست ‘ میں کالم نگاری پر توجہ مرکوز کر دی ۔روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ میںمجتبیٰ حسین ’’ میرا کالم ‘‘ کے عنوان سے ہر اتوار کو باقاعدگی سے لکھتے تھے ۔ان کا یہ کالم بہت مقبول ہوا اور بر صغیر کے متعدد اخبارات نے اسے طویل عرصہ تک قند مکرر کے طور پر شائع کیا ۔
۴۔جدید دورکے تقاضوں کے مطابق مجتبیٰ حسین نے نہ صرف بھارتی ذرائع ابلاغ سے معتبر ربط برقرار رکھا بل کہ عالمی نشریاتی اداروں نے بھی ان کے فکر و فن سے استفادہ کیا۔ جن عالمی نشریاتی اداروں نے مجتبیٰ حسین کے بارے میںپروگرام پیش کیے ان میں بی بی سی لندن ،وائس آف امریکہ ،کینیڈین ٹی وی ،ریڈیو ماسکو ،ریڈیو جاپان ،ٹوکیوشامل ہیں۔
۵۔ اردو ادب کے مارک ٹوئن ( 1835-1910: Mark Twain )قرار دئیے جانے والے مجتبیٰ حسین کی شگفتہ تحریروں پر مشتمل سیریل ’’ عجب مرزا غضب مرزا ‘‘ ای ٹی وی نے پیش کیا جو باون اقساط پر مشتمل تھا۔سچ تو یہ ہے کہ مجتبیٰ حسین کی تصانیف کے مطالعہ سے اردوزبان کی تفہیم کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے تھے۔
تصانیف : مجتبیٰ حسین ایک کثیر التصانیف ادیب تھے ان کی تصانیف درج ذیل ہیں:
آپ کی تعریف ( 2005)،آدمی نامہ: خاکے ( 1981)، الغرض ( 1987)،بہر حال ( پہلا ایڈیشن : 1974)، بالآخر ( 1982)، جاپان چلو جاپان چلو (1983)،چہرہ در چہرہ ( 1993)،کالم بر داشتہ ( 2007)، مجتبیٰ حسین کے منتخب کالم ( 2004 )،میرا کالم ( 1990)۔ مجتبیٰ حسین کے سفر نامے ( 2003)، مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں جلد اول ( 2001)،مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں جلد دوم(2002)،قطع کلام (پہلا ایڈیشن : 1969)،قطع کلام ( 1989)،قصہ مختصر (پہلاایڈیشن : 1972)،تہذیب و تحریر ، تکلف بر طرف ( پہلا ایڈیشن1949 )،سو ہے وہ بھی آدمی ( 1987)،چہرہ در چہرہ ( 1993)،سفر لخت لخت ( 1995)،ہوئے ہم دوست جس کے ( 1999)،امریکہ گھاس کاٹ رہا ہے: سفر نامہ ( 2009) ، مجلہ کتاب نما کا خصوصی شمارہ : مجتبیٰ حسین ( 2004)،شکیل الرحمٰن : مجتبیٰ حسین کا فن ( 1987)،حسن مثنیٰ : مجتبیٰ حسین اور فن مزاح نگاری ( 2003)،ریڈ کراس کی کہانی ترجمہ ( 1975)،مہرباں کیسے کیسے : خاکے ( 2009)،اردو کے شہر اردو کے لوگ : خاکے ( 2011)،کالم میں انتخاب ( 2011)،
بھارت کے دس اہم علمی و ادبی اداروں سے وابستہ رہنے والے اس یگانۂ روزگار رفاضل کی گراں قدر خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔ایک سیاح کی حیثیت سے انھوں نے جن ممالک کا سفر کیااُن میں جاپان ( ایک ماہ پانچ دن، ۱۹۸۰ ) ،بر طانیہ ( ایک ماہ ،۱۹۸۴)،فرانس ( پیرس، ایک ہفتہ ۱۹۸۴)،امریکہ ( ایک مہینا دس دن ،۱۹۸۴)،کینیڈا ( چار دِن ،۱۹۸۴)،سویت یونین ( دس دِن ۱۹۸۴)،سعودی عرب ( پچیس دن ،۱۹۸۸)،پاکستان( پچیس دِن ۱۹۸۸)،مسقط ( دسمبر ۱۹۹۵،پانچ دِن )،سعودی عرب، رکن سرکاری حج وفد:( تئیس دن ۱۹۹۶)،دوبئی ( پانچ دن ،۱۹۹۷)،امریکہ ( دو ماہ پندرہ دن ۲۰۰۰)،سعودی عرب ۰دس دن ،۲۰۰۴)،امریکہ و کینیڈا( تین ماہ ، ۲۰۰۸)
تالیفات :
شاہد صدیقی کے کالموں کا انتخاب ،شیشہ و تیشہ ( 1964)،ضبط شدہ نظمیں :سال اشاعت 1975ء ، ادبی مجلہ ماہ نامہ ’’ آج کل ‘‘ نے طنز و مزاح پر سال 1974ء میں دو خصوصی نمبر شائع کیے ان یادگار شماروں کی اشاعت میں مجتبیٰ حسین نے مہمان مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔
ترقی پسند بھارتی افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی( 1915-1984) کے بارے میںاپنے خاکے میں مجتبیٰ حسین نے لکھا ہے :
ایک سال پہلے یوسف ناظم نے ہمیں بتایا کہ بیدی صاحب کسی بات پر ہم سے ناراض ہیں۔ہم نے یوسف ناظم سے پوچھا ’’ اگر آ پ کہیں تو میں بیدی صاحب کو خط لکھ دوں اور اگرکسی بات پر خفا ہوں تو معافی مانگ لوں ۔‘‘ یوسف ناطم بولے ’’ خط لکھنے کی ضرورت نہیں ،اُن کے کم زور حافظے پر پورابھروسا رکھو،وہ یہ بات بہت جلد بھول جائیں گے ۔‘‘ ( جولائی ِ1978،آدمی نامہ ،ص 28 )
مجتبیٰ حسین کے اسلوب اور شخصیت پر جو کام ہو اہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔ مجلہ شگوفہ ،حیدر آباد دکن :مجتبیٰ حسین نمبر جلد ۲۰،نومبر 1987ء
۲۔ مجلہ شگوفہ ،حیدر آباد دکن: مجتبیٰ حسین نمبر،جلد ۴۵،اگست 2012
۳۔مجلہ شگوفہ ،حیدر آباد دکن: جلد ۴۰، مئی 2008 ۔گوشہ مجتبیٰ حسین
۴۔ مجلہ چہار سُو ،راول پنڈی :مجتبیٰ حسین نمبر،جلد ۲۴،جنوری ،فروری 2015ء
۵۔ بہار یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور مرکزی وزیر پروفیسر شکیل الرحمان کی مطالعہ احوال پر مبنی تحقیقی کتاب ’’ مجتبیٰ حسین کا فن ‘‘ سال ۱۹۸۸ء میں حسامی کتاب گھر حیدرآباد دکن کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی ۔
۶۔ڈاکٹر محمد کاظم کی ادارت میں ادبی مجلہ ’’ کتاب نما ‘‘ دہلی کا خصوصی شمارہ مجتبیٰ حسین کے بارے میںسال ۲۰۰۴ ء میں شائع ہوا۔
۷۔ممتاز محقق حسن مثنیٰ کا تحقیقی مقالہ ’’ مجتبیٰ حسین اور فن مزاح نگاری ‘‘دہلی سے ایلیا پبلی کیشنز نے سال ۲۰۰۳ء میںشائع کیا ۔
۸۔مشہور نقاد اور محقق ڈاکٹر افسر کاظمی کی تصنیف ’’ مجتبیٰ حسین بہ حیثیت طنز نگار ‘‘ مکتبہ جامعہ نئی دہلی نے سال ۲۰۰۴ء میں شائع کی۔
۹۔ پروفیسر شفیع شیخ کی حکایات اور افسانے کے انداز میں لکھی گئی کتاب’ ’ مجتبیٰ حسین ایسا کہاں سے لاؤں ‘‘ سال ۲۰۰۴ء میں منظر عام پر آئی ۔
۱۰۔ احسان اللہ احمد نے اپنی تصنیف ’’ مجتبیٰ حسین اور گلبرگہ ‘‘میں مجتبیٰ حسین کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔
۱۱۔مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے ممتا ز صحافی رفیق جعفر نے اپنی ضخیم تصنیف ’’ اردو ادب کے تین بھائی ‘‘میںمحبوب حسین جگر ،ابراہیم جلیس اور مجتبیٰ حسین کی علمی ،ادبی اور سماجی خدمات پر روشنی ڈالی ہے ۔یہ کتاب غلام محمد اعظم ایجو کیشنل ٹرسٹ کے زیر اہتمام سال ۲۰۰۹ ء میں شائع ہوئی ۔
۱۲۔عالمی شہرت کے حامل بر صغیر کے جن اخبارات و جرائد نے مجتبیٰ حسین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے الگ گوشے شائع کیے ان میں ماہ نامہ صبا حیدر آباد،ماہ نامہ الفاظ علی گڑھ،ماہنامہ انشا کولکتہ ، روزنامہ آزاد ہند ،کولکتہ ،روزنامہ آفتاب بھوپال ،ماہ نامہ شاعر ممبئی ،روزنامہ جنگ کراچی ،روزنامہ جنگ لندن، ماہ نامہ سب رس حیدرآباد ،ماہ نامہ عدسہ حیدرآباد ،ماہ نامہ الانصار حیدرآباد اور روزنامہ منصف حیدر آباد شامل ہیں ۔
۱۳۔ بھارت کی جن بڑی جامعات میں مجتبیٰ حسین کی شخصیت اور اسلوب پر تحقیقی کام جاری ہے ان میں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی ،کشمیر یونیورسٹی سری نگر ،عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد ،بروڈہ یونیورسٹی گجرات،روہیل کھنڈ یونیورسٹی یوپی،مرہٹواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد اور پٹنہ یونیورسٹی شامل ہیں ۔
۱۴۔مجتبیٰ حسین کی شخصیت اوراسلوب پر اُن کی زندگی میں پی ایچ ۔ ڈی سطح کے بارہ مقالے لکھے گئے ۔ان کے اسلوب ،شخصیت اورعلمی خدمات پر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے کچھ محققین کے نام درج ذیل ہیں :
ڈاکٹر افسر کاظمی ( جمشید پور ) ،ڈاکٹر شگفتہ پروین ( دہلی) ،ڈاکٹر گل رعنا ( حیدرآباد )
۱۵۔مجتبیٰ حسین کے فن اور شخصیت پر جن محققین کو ایم۔فل کی ڈگریاں ملی ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں :
سردار پاشا ( گلبرگہ یونیورسٹی ) ، حسن مثنیٰ ( رانچی یونیورسٹی ) ، پیرزادہ ارشاد احمد ( کشمیر یونیورسٹی )
۱۶۔مجتبیٰ حسین کی تصانیف کے تراجم جن زبانوں میں ہوئے ان میںاوریا، کرناٹکا میں بولی جانے والی کناڈا،ہندی،انگریزی ،روسی اور جاپانی زبان شامل ہیں ۔
خاکہ نگاری :
اُردو ادب میں آب ِ حیات سے پہلے خاکہ نگاری کا کوئی قابلِ ذکر نمونہ نظر نہیں آتا۔مختلف تذکروں میں ادیبوں کی حیات اور علمی وادبی معمولات و مصروفیات کے بارے میں جو تعارفی ،توصیفی یا تعریفی تحریریں موجود ہیں اُن میں فنِ خاکہ نگاری کا جوخفیف سا پرتو دکھائی دیتاہے اس سے خاکہ نگاری کے متعلق کسی واضح اسلوب کا تعین کرنا بعید از قیاس ہے ۔ محمد حسین آزادؔ ( 1827-1910) نے انشا پردازی اور مرقع نگاری کے امتزاج سے مختلف شخصیات کی زندگی کا احوال اس انداز سے زیبِ قرطاس کیا ہے کہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ محمد حسین آزادؔ کے اسلوب میں سوانحی انداز کا غلبہ ہے تاہم یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ ان تحریروں کے معجز نما اثر سے خاکہ نگاری کا شعور پیدا کرنے میںمدد ملی ۔ اِس کے بعد فرحت اللہ بیگ( 1883-1947) نے اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے اس فن کو پروان چڑھایا اور یوں خاکہ نگاری کی مقبولیت میں پیہم اضافہ ہوتا چلا گیا۔فن خاکہ نگاری کو پروان چڑھانے والوں میں شاہد احمد دہلوی، ڈاکٹر سید عابد حسین ،مولوی عبدالحق ، رشید احمد صدیقی ، عصمت چغتائی ،سعادت حسن منٹو اور محمد طفیل کے نام شامل ہیں ۔ مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کی سادگی اور پر کاری کی ہر طرف دُھوم مچی تھی۔ انھوں نے تصنع کی مظہر تکلف کی روادی ،ظاہری جاہ و جلال اور مرعوب کن اطوار و عادات سے بے نیاز رہتے ہوئے شخصیات کو زندگی کے اصل رُوپ میں سامنے لانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔مجتبیٰ حسین نے خاکہ نگاری کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں فعال کردار ادا کرنے والی شخصیات کے بارے میں اپنے تمام مشاہدات و تاثرات کو زیبِ قرطاس کرنے کی سعی کی ہے ۔قاری چشم ِ تصور سے ان تمام شخصیات کو عام انسانوں کے رُوپ میں مصروف ِ عمل دیکھ سکتاہے ۔مجتبیٰ حسین نے اپنے احباب کی شخصیت کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت اس امر کا خیا ل رکھا ہے کہ ان کا سب احوال اس انداز میں پیش کیا جائے جیسے کہ وہ واقعتاً تھے نہ کہ جس طرح وہ دکھائی دیتے تھے ۔انسان شناسی ایک کٹھن مر حلہ ہے ،یہ دیکھا گیا ہے کہ اہم شخصیات کی زندگی کے متعدد اہم پہلو عام آدمی کی زندگی سے پوشیدہ رہتے ہیں۔مشاہیر کی کتاب ِ زیست کے متعدد ایسے اوراق جن میں نا ہمواری اور بے اعتدالی ہو وہ اکثر نا خواندہ ہی رہ جاتے ہیں ۔ان کی زندگی کے یہ سر بستہ راز سوانحی کتب یا کسی بیاض میں مذکور نہیں ہوتے بل کہ مخلص احباب کی بیاض ِ دِل پر نوشتہ عا م آدمی کی نظروں سے مستور ہوتے ہیں ۔مجتبیٰ حسین نے اپنی ممدوح شخصیات کی زندگی کے یہی پہلو اپنے خاکوں میں اُجاگر کیے ہیں ۔ مجتبیٰ حسین کے خاکوں کے عنوان ہی ان کے موضوع کی کلید بن جاتے ہیں ۔ عالمی شہرت کے حامل مصور اور خطاط سید صادقین احمد نقوی ( 1930-1987)کے بارے میں مجتبیٰ حسین نے لکھا ہے :
’’دین آرٹسٹ کی عادت ہوتی ہے اور لین مداحوں کی مجبوری ۔صادقین کے گھر سے میں نے کسی کوخالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا۔جب بھی وہ صادقین سے مِل کر واپس جاتاتو اس کے ہاتھ میں یا تو صادقین کے مصافحے کی گرمی ہوتی یا صادقین کے آرٹ کاکوئی نمونہ ،دِل میں صادقین کی دی ہوئی محبت کاگداز ہوتا،آنکھوں میں صادقین کے فن پاروں کی چمک ہوتی یا کانوں میںصادقین کی رباعیوں کی گونج ہوتی۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ سکندراگرصادقین کے گھر سے جاتا تو دنیا سے یوں خالی ہاتھ نہ جاتاجس کے ذکر سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔‘‘
سگریٹ نوشی کے سلسلے میںمشفق خواجہ کی زندگی کی بے اعتدالی اور نا ہمواری کو سامنے لاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
’’ وہ سگریٹ نوشی کے معاملہ میں نہایت کفایت شعار واقع ہوئے ہیں ۔میرا خیال ہے صبح میں ایک بار اپنا سگریٹ جلاتے ہیں اوررات تک اس سگریٹ سے بعد کے سگریٹ جلاتے ہیں ۔سگریٹ نوشی کے اِس انداز سے ماچس کی بچت بہت ہوتی ہے ۔‘‘
اُردو شاعری کے ٹیدی بوائے حکیم یوسف حسن کے بارے میں مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں :
’’ حکیم صاحب دوستوں کا بہت خیا ل رکھتے ہیں لیکن اُن کے دوستوں سے میری گزارش ہے کہ وہ بھی کبھی کبھی حکیم صاحب کا خیال رکھیں۔محض دوستوں کی خاطر میں نے حکیم صاحب کوکئی صعوبتیں اٹھاتے دیکھا ہے ۔اگر دوست اُن سے کہیں کہ وہ دوزخ چلے جائیں تو مجھے یقین ہے حکیم صاحب اپنے پاس بے شمار نیکیاں رکھنے کے باوجود دوزخ میں جانے پر مُصر رہیں گے۔‘‘
اپنی گل افشانی ٔ گفتار کے بارے میں مجتبیٰ حسین نے( ابو سید محمد مخدوم محی الدین خدری) مخدوم محی الدین ( 1908- 1969)کا یہ شعر اپنی کتاب’ ’ تکلف بر طرف‘‘کے آغا ز میں شامل کیا ہے :
ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکرِ ناز
کتنی آہوں کو چُھپایا ہے تجھے کیا معلوم
امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن( 1835-1910 : Mark Twain )ا ور برطانوی مزاح نگار پی جی وڈ ہاؤس(1881-1975 : P. G. Wodehouse)سے مجتبیٰ حسین بہت متاثر تھے ۔ مجتبیٰ حسین کے پسندیدہ ادیبوں میںمرزا اسداللہ خان غالبؔ، جرمن فلسفی نطشے ( 1844-1900 : Friedrich Nietzsche) ، احمد شاہ بخاری پطرس ، کینیڈا سے تعلق رکھنے والے مزاح نگارسٹیفن لیکاک ( 1869-1944 : Stephen Leacock ) ، کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی ،شفیق الرحمٰن ،رشید احمد صدیقی ،کنہیا لال کپور ،احمد ندیم قاسمی ،ابن انشا ،فکر تونسوی ،اورابراہیم جلیس شامل ہیں ۔ اپنے شگفتہ مضمون ’’ میں اور میرا مزاح ‘‘ میں مجتبیٰ حسین نے اپنے من کی غواصی کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’میں گھنٹوں آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آ پ کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میں اپنے آ پ کو پہچان نہیں سکتابل کہ مجھے ہمیشہ میرے مقابل آئینہ میںایک بے وقوف آدمی کھڑا ہوا نظر آتاہے جب کہ کمرے میں میرے سوا کوئی اور موجود نہیں ہوتا۔اگر یہ بے وقوف آدمی میں ہی ہوں تو پھر بتائیے میں اپنے آپ کو پہچان کر بھی کیا کروں ؟ چار و ناچار چُپ ہو جاتا ہوں ۔‘‘
مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کے بارے میں متین امروہوی کے یہ اشعار بر محل ہیں :
ہزاروں سال تک صحرا کی ہم نے خاک چھانی ہے
ہوا ہے جب کہیں جا کر دکھن میں ’’ خاکہ ور ‘‘ پیدا
گلستانِ دکھن میں جو کبھی غنچہ کِھلا ہو گا
کسے معلوم تھا وہ پھول بن کر مجتبیٰ ہو گا ( متین امروہوی ۔بھارت )
ایوارڈو اعزازات
۱۔ ہاسیہ رتن ایوراڈ : یہ ایوارڈ اُڑیا زبان کے تخلیق کاروں کی انجمن ’’ مسرس ساتیہ سمیتی ‘‘ کٹک کی طرف سے سال 1980ء میں دیا گیا۔
۲۔ اردو زبان میں مجتبیٰ حسین کے شگفتہ سفر نامے ’’ جاپان چلو ،جاپان چلو‘‘ کا سال 1985ء میں مسز شاشور نے جاپانی زبان میں ترجمہ کیا ۔
۳۔ سال 1982 ء میں طنز و مزاح کے حوالے سے غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی طرف سے پہلی مرتبہ جاری ہونے والا ’ ’ غالب انعام ‘‘ مجتبیٰ حسین کو دیا گیا۔
۴۔ ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے کام کرنے والی علمی وادبی مجلس ’’ بزمِ ساز و ادب ‘‘ دہلی کی طرف سے مجتبیٰ حسین کو سال 1983ء میں ’’ نشان امتیاز ‘‘ سے نواز ا گیا۔
۵۔ایوارڈ برائے تخلیقی نثر : اردو اکیڈمی ،دہلی 1989ء
۶۔کل ہند مخدوم ادبی ایوارڈ : اردو اکیڈمی آندھر ا پردیش 1994
۷۔کل ہند مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ : ارد و اکیڈمی ہریانہ ،1998
۸۔کل ہند ایوار برائے مجموعی خدمات : اردو اکیڈمی کرناٹک ،2002
۹۔میر تقی میرؔ ایوارڈ : امریکی مسلمانوں کی فیدڑیشن کی جانب سے ،2006
۱۰۔کل ہندصوفی جمیل اختر ایوارڈ ،کولکتہ 2009
۱۱۔کل ہند امیر خسرو نیشنل ایوارڈ ،انجمن ترقی ٔ اردو جمشیدپور ،جھاڑ کھنڈ ،2009
۱۲۔ڈی۔لٹ کی اعزازی ڈگری ،گلبرگہ یونیورسٹی ،کرناٹک 2010
۱۳۔سنت گیانیشور نیشنل ایوارڈ : اردو ساہتیہ اکیڈمی مہاراشٹر2011
۱۴۔وزیٹنگ پروفیسر : یونیورسٹی آف حیدرآباد
مجتبیٰ حسین کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں سال 2007ء میں اُنھیں بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے ملک کے چوتھے اعلا ترین سول ایوارڈ ’’پدم شری ایوارڈ ‘‘سے نواز ا گیا۔ دو جنوری 1954ء سے شروع ہونے ولا یہ ایوارڈ اب تک 1254ممتاز شخصیات کو دیا جا چکا ہے ۔ دسمبر 2019ء میں جب بھارتی حکومت نے بھارتی شہریت کے قانون ( CAA) کے نفاذ اور شہریوں کی قومی رجسٹریشن (NRC) جیسی ترامیم پیش کیں تو مجتبیٰ حسین حبس اور جبر کے اس ماحول ناخوش و بیزار رہنے لگے ۔ اس امتیازی قانون کے ذریعے اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کونشانہ بنایا گیا۔نفرت ،حقار ت اور خوف کی اس فضا نے اس حساس تخلیق کار کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیا ۔اس کے ساتھ ہی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جبر کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے یہ ایوارڈ واپس کر دیا۔
مجتبیٰ حسین کے شگفتہ مضمون’’ڈائرکٹر کا کتا ‘‘سے ایک اقتباس :
’’ وہ ڈائرکٹر کا کتا تھا۔ڈائرکٹر کی طرح ہی خونخوار اوررعب داب والا ،کیوں نہ ہو آخر کو وہ ڈائرکٹر کی صحبت میں جو رہتاتھا۔اُس کا نام کیا تھا،یہ کوئی بھی نہیں جانتاتھا۔لوگوں کو بس اُس کا عہدہ معلوم تھایعنی ڈائرکٹر کا کتا۔ایک تو کتا اور اُوپر سے ڈائرکٹر کا کتا،گویا کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا ۔بقول پطرس’ بہت ہی کتا تھا‘۔ڈائرکٹر جب اپنی کار میں دفتر آتا تو یہ اس کی پچھلی نشست پر بیٹھا دفتر کی خاتون کلرکوں کو دیکھ دیکھ کر رال ٹپکایا کرتا تھا۔ کار ڈائرکٹر کو چھوڑتی اور کتے کو لے کر واپس چلی جاتی تھی۔ڈائرکٹر اپنے ساتھ کتے کو کیوں لاتاتھااس کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ڈائرکٹر اپنی شخصیت میں کتے کی ملاوٹ کر کے اپنے رعب اور دبدبہ میں اضافہ کرنا چاہتا تھا۔‘‘
یہاں کتا محض ایک علامت ہے جسے ایک نفسیاتی کُل کے روپ میں دیکھا جاسکتاہے ۔اسی علامت کے معجز نما اثر سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے میںمدد ملتی ہے ۔معاشرتی زندگی میں بہرام ٹھگ ،کفسو ،مصبو جیسی کاتک کی کتیائیں اورنازو ،ایازو ، رمزی اورانورو جیسے خارش زدہ سگان راہ بلا شبہ ایسے باؤلے کتے ہیں جن کی بھینگی چشم میں خنزیر کا بال ہے ۔اپنی شگفتہ تحریروں میں مجتبیٰ حسین نے اپنے آ نسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں پنہاں رکھنے کی جو کوشش کی ہے وہ قاری کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کرتی ہے کہ زندگی کے مصائب و آلام کے بارے میں وہ سنجیدہ بھی ہیں اور رنجیدہ بھی ۔
اپنی شگفتہ تحریروں میں مجتبیٰ حسین نے زندگی کی نا ہمواریوں ،بے ہنگم تضادات ،بے اعتدالیوں اور کجیوں کے ہمدردانہ شعور پر مبنی جو رائے دی ہے وہ ان کی فنی مہارت کا منھ بولتاثبوت ہے ۔ان کا خیال تھاکہ معاشرتی زندگی کے معمولات اور انسانی جذبات پر کبھی ہمدردانہ توجہ نہیں دی گئی۔تخلیق ِ ادب میںانسانی جذبات و احسات کونظر انداز کرنا ایسی محرومی ہے جس کاازالہ کسی صورت میں ممکن ہی نہیں ۔مجتبیٰ حسین کاخیال تھاکہ تلخی ٔ ایام کی مظہر تخلیقات میںجذبات کانظام عنقا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ پس نو آبادیاتی دور میںادبی شعور میں تغیر و تبدل کا سلسلہ پیہم جاری رہا۔خاص طور پر تقسیم ہندکے موقع پر ہونے والے فسادات کے موضوع پر جو ادب تخلیق ہوا وہ ایک معتبر تاریخی حوالہ ہے ۔ہجرت کے واقعات کوادب کی اساس بنا کر ادیبوں نے زندگی کی حقیقی معنویت،صبر و استقامت ،مقصدیت اورسعیٔ پیہم کی ضرورت کو اجاگر کرنے پر زور دیا۔مجتبیٰ حسین کاخیال تھاکہ ہجرت کے موقع پر رونما ہونے والے فسادات کے تناظر میں مجید لاہوری ، دلاور فگار ،نذیر احمد شیخ اور سید ضمیر جعفری کی شاعری جہاں بے حس معاشرے پر طنزہے وہاں یہ رجائیت آمیزبھی ہے۔انسان اگر کٹھن حالات میں صبر و تحمل اور قناعت کو شعار بنالے تو اس کا ضمیر منور ہو جاتا ہے جب کہ نا شکر ی،احسان فراموشی ،محسن کشی ،بے غیرتی اوربے ضمیری تباہ کن بددماغی پر منتج ہوتی ہے ۔
قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ ہر طرف بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ،اپنا اُلو سیدھا کرنے والے،جو فروش گندم نما ،ابن الوقت ،آستین کے سانپ اور بروٹس قماش کے عیار مسخروں،بھڑووں ،آدم خور بُھوتوں ،چڑیلوں ،ڈائنوں اور طوائفوں کا جھمکاہے ۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا مشکو ک نسب کے یہ سفہا اور اجلاف و ارزال محسن کُشی کا قبیح کردار اپنا کر ہمیشہ اہلِ ہنر کے در پئے آزار رہتے ہیں ۔ اِن سفید کووں ،کالی بھیڑوں،گندی مچھلیوں اورعفونت زدہ انڈوں کے باعث مسموم معاشرتی ماحول سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے ہیں ۔یہ ابن الوقت درندے جس تھالی میں کھاتے ہیں اُسی میں چھید کرتے ہیں اور اسی شجر سایہ د ار کی شاخیں کاٹنے اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں جو ان کے سر پر سایہ فگن ہے ۔کسی معاشرے میں منافقت ،خست و خجالت ،انصاف کُشی او ربے حسی کا بڑھنا اس معاشرے کے وجود اور بقاکے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میںتیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک میں چور محل میں جنم لینے والے ،کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے اور چور دروازے سے گُھس کر اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے والے سگانِ راہ نے سماجی اورمعاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر ،زندگیاں پُر خطر اورآ ہیں بے اثر کر دی ہیں ۔ ان حالات میں طلوع ِ صبح ِ بہاراں کا یقین کیسے کر لیا جائے کہ ان چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد متفنی سفہاکی چیر ہ دستیوںاور خزاں کے سیکڑوں مناظر نے تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے ۔ شاطر اور نوسر باز ٹھگوں نے سادہ لوح انسانوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔اس کے باوجودسادہ لوح لوگ ان عادی دروغ گو سفہاکے فریب میں آجاتے ہیں۔ ہوائے جورو ستم میں بھی شمع ِ وفا کو فروزاں رکھنا ،حریت ِ ضمیر سے جینا اور حریتِ فکر کا علم بلند رکھنا زندگی بھرمجتبیٰ حسین کا شیوہ رہا ۔ انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ کر گسوں میں پلنے والے ایک فریب خوردہ شاہین کے مانند ہے جو رہ و رسم شہبازی بھلاچکاہے ۔ فریب خوردگی کے بغیر اس کا جینامحال ہے ۔مجتبیٰ حسین نے انسانی فطرت کے حوالے سے اس مسئلے کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیاہے ۔ مجتبیٰ حسین کا شمار اپنے عہد کے ان جری تخلیق کاروں اور ماہرین علم بشریات میں ہوتا تھا جنھوں نے حق گوئی و بے باکی کو سدا اپنا شعار بنایا ۔اُنھیں اس بات کا قلق تھا کہ پس نو آبادیاتی دور میں فقیروں کے حالات تو جوں کے توںرہے مگر بے ضمیروںکے وارے نیارے رہے ۔زاغ و زغن ،بوم و شپر اور کر گسوں کے جھرمٹ میں پلنے والے فریب خوردہ شاہینوں کے بارے میں محمد حسن عسکری نے لکھا ہے:
’’انسان کے دماغ میں دھوکا کھانے کی بڑ ی صلاحیت ہے ،بل کہ فریب خوردگی کے بغیر اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور وہ ہر قیمت پرکسی نہ کسی طر ح کا فریب بر قرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔‘‘ (1)
مجتبیٰ حسین کی شگفتہ تحریروں کے مطالعہ سے زندگی کے تلخ حقائق کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔قلزمِ حیات کی ہر موج میںسیکڑوں نہنگ،وہیل مچھلیاں ،دریائی گھوڑے اور شارک مچھلیاں ہمہ وقت سطح ِ آب پر تیرکر کم زورآبی مخلوق پر اپنی قوت و ہیبت کی دھاک بٹھا رہی ہیں۔آسمان سے برسنے والی بارش کے نفیس اور صاف قطروں کو صدف میں جانے کی راہ میںحائل ہو کر یہ آبی مخلوق قطرے کے گہر ہونے کی پوری کہانی سامنے لاتی ہے ۔زندگی کے دشتِ خار میںمنزلوں کی جستجو کرنے والے آبلہ پا مسافروں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ یہاں گاڈزیلا،ڈائنو سار ،گینڈوں،ریچھوں ،خطرناک جنگلی سانڈوں ،بھیڑیوں ،راکشس اور تیندووںکا راج ہے۔
جاپان کے سفر کے بارے میں اپنے افسر مجاز سے بات کرتے ہوئے مجتبیٰ حسین نے کہا:
’’ سر !جی تو ہمارا بھی بہت چاہتاہے کہ نئی نئی زمینیں دیکھیں ،نئے نئے آسمانوں میں جھانک آ ئیں ،گھاٹ گھاٹ کا پانی پئیں ،نئے لوگوں سے نئی نئی باتیں کریں ،نئے چہروں کو نئے ڈھنگ سے دیکھیں ،مگر ہمارا جذبۂ حب الوطنی ہمیں باہر جانے نہیں دیتا۔ہمیں ہر دم یہ فکر رہتی ہے کہ اگر ہم باہر چلے گئے تو پھر ملک کا کیا ہو گا۔ہمارے بغیر آخر ملک کیسے ترقی کر سکتاہے ۔پھرہم نے کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو دس دن کے لیے ہی سہی باہر کے کسی ملک میں جا کر آتے ہیں تو زندگی بھر اس ملک کے قصے اور وہ بھی من گھڑت قصے سنا کر اپنا اور اہلِ وطن کا وقت برباد کرتے ہیں۔انھیں اپنے ملک کا سورج اچھا نہیں لگتا۔چاند کی طرف دیکھتے ہیں تو منھ موڑ کے کہتے ہیں برطانیہ میں جو چاند ہم نے دیکھا تھاوہ چاند بھلا اس ملک میں کہاں نظر آ ئے گا۔بھلایہ بھی کوئی چاند ہے۔غرض انھیں اپنے ملک کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ اگر خدا نخواستہ
جاپان کے لیے ہمارا انتخاب ہو گیا تو اِس ملک میں بقیہ زندگی کس طر ح گزاریں گے ۔ ‘‘ ( جاپان چلو جاپان چلو)
’’غفور صاحب جیسی شخصیتیںہماری ادبی و تہذیبی زندگی کا اثاثہ ہوتی ہیں اور ایسی شخصیتوںکو دیکھ کر ہی ہمیں یک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ ابھی ہمارے ملک میں شریف اور نیک نفس بندوں کی پیدائش ممنوع قرار نہیںدی گئی ہے ۔شریف آدمی اگر پیدا ہونا چاہیں تو وہ پیدا ہو سکتے ہیں اور اپنے کیے کی سزا پا سکتے ہیں ۔‘‘( آ دمی نامہ )
’’ مشہور شخصیتوں کے بارے میں ہم نے سُن رکھا ہے کہ اِن کی موت اس وقت تک مکمل نہیںہوتی جب تک کہ اُن کی یاد میں کوئی تعزیتی جلسہ منعقد نہ کیا جائے ۔کسی مشہور شخصیت کی موت پر تعزیتی جلسہ منعقد نہ ہو تو یوں محسوس ہوتاہے جیسے یہ شخصیت بے موت ماری گئی ہے ۔گویا تعزیتی جلسہ مرنے والے کے تابوت میں آخری کیل کادرجہ رکھتاہے ۔بڑی شخصیتوں کو اچھی طر ح مارنے کے لیے تعزیتی جلسہ کا حربہ استعمال کرنا ضروری ہے ورنہ اندیشہ لگا رہتاہے کہیں یہ شخصیت پھر زندہ نہ ہو جائے ۔اس لیے مشہور شخصیت کی موت اور تعزیتی جلسہ کے انعقاد میں زیادہ فاصلہ نہیں رکھا جاتا۔بل کہ اکثر اوقات تو یوں بھی ہوتاہے کہ مرحوم کی زندگی کا خاتمہ اور تعزیتی جلسہ کا آغاز دونوں ساتھ ساتھ واقع ہوتے ہیں۔‘‘ ( بہر حال: تعزیتی جلسے ) ایسا محسوس ہوتا ہے مجتبیٰ حسین کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ معاشرے میں محسن کشی کی وہی قبیح صور ت نمو پا رہی ہے جو بروٹس اور جولیس سیزر کے زمانے میں تھی ۔جب محسن کش اور نمک حرام بروٹس سنگِ ملامت لیے اہلِ درد کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں تو ہر حساس تخلیق کار کو دلی صدمہ ہوتا ہے ۔اپنے محسن کے ٹکڑوں پر پلنے والے وہ بروٹس جن کے بارے میںیہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ آزمائش و ابتلا کی گھڑی میںمرہم بہ دست آ ئیںگے ،انہی کو جب اپنے کرم فرما پر خنجر آزما ہوتے دیکھتا ہے تو اس کا جی گھبر جاتا ہے اور اُس کے دِلِ صد چاک سے آ ہ نکلتی ہے ۔ وقت کی مثال بھی سیلِ رواں کی تند و تیزموجوں کی سی ہے ۔اس دنیا میں کوئی بھی شخص خواہ اس کی قوت و ہیبت کتنی ہی جہاں گیرکیوں نہ ہوسیلِ زماں کے تھپیڑوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔درِ کسریٰ سے یہی صدا سنائی دیتی ہے کہ کوئی شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا لے وہ بیتے لمحات کی چاپ اورپُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا ۔ایک تخلیق کار ان باتوں کو خاطر میں نہیں لاتا کہ دیوان جمع کرتے وقت درد و غم کی کیا کیفیت رہی ۔ یہ فریب ہی تو ہیں جو انسانی زندگی کودکھوں کی سوغات بنا دیتے ہیں۔فراقؔ گورکھ پوری نے سچ کہاتھا:
میاں رو پیٹ کر بیٹھے ہیں ان فریبوںکو
یہ ہم سے پوچھنے آئے ہوغم کیا تھا خوشی کیا تھی
تاریخ وفات : امریکہ میں مقیم شاعر تنویر پھولؔ نے مجتبیٰ حسین کی تاریخ وفات ہجری اور عیسوی تقویم کے مطابق لکھی ہے :
تاریخ وفات ہجری :
’’ ادب کا صنعت گر مجتبیٰ حسین ۔‘‘ ( ۱۴۴۱ ہجری )
قطعۂ تاریخ وفات عیسوی :
اے پھولؔ !آہ ،چل بسے اِک خوش ادا دایب
جن کی نگارشات سے مِلتا تھا دِل کو چین
وہ اِک گُل ِ شگفتہ تھے ،پہلے کہو ’’ گلاب ‘‘ ( ۵۳)
’’ طنز و مزاح کی تھے ضیا مجتبیٰ حسین ‘‘ ( ۱۹۶۷) [ ۵۳+۱۹۶۷=۲۰۲۰عیسوی ]
————————————————————————————————————————————————————-
مآخذ
(1)محمد حسن عسکری :مجموعہ ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور ،سا ل اشاعت 2000،صفحہ 150