(مطبوعہ ’’سب رس‘‘ حیدرآباد)
مجتبیٰ حسین کو سلام۔۔۔
تنقید نگاروں نے اچھے ادب کے کئی پیمانے وضع کر رکھے ہیں۔ یہ مقیاس و میزان بہرحال عمدہ تخلیق پارے کی مکمل شناخت نہیں فراہم کر سکتے، جس طرح بحور و اوزان کا کامیاب برتنا اچھی شاعری کے مماثل نہیں، اسی طرح نثر کی تشفی بخش تعریف کارِ دُشوار ہے۔
مجتبیٰ حسین کی تحریریں ہر درجہ، ہر معیار اور ہر اسلوب کے لیے قابل قدر معیار کے سبب مقبول ہیں اور اپنی ادبی اہمیت کی دلیل بھی۔ ادبی رسائل و جرائد جو ادبیت و علمیت کے پیمانوں سے مضامین کو پرکھتے ہیں، صحافتی ذرائع اور تفریحی ادب کے وسائل جو عوامی ذوق و معیار کی بنا پر تحریروں کو جانچتے ہیں، دونوں کے پاس ان کی تحریروں / تخلیقات کو یکساں قدر و منزلت حاصل ہے۔ اس کامیابی پر مجتبیٰ کو خصوصی سلام پیش کرتا ہوں۔
عثمانیہ یونیورسٹی انجینئرنگ کالج کے وہ پانچ سال (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۰ء) بلا شبہ میرے زندگی کے مصروف ترین عرصوں میں ایک اہم عرصہ تھا۔ تعلیم اور ادبی تخلیق کے درمیان رواں دواں۔ انجینئرنگ کی پڑھائی ایک طرف، شعر و نثر اور تنقید کی مسلسل مشق دوسری طرف میں نے نہ جانے کتنے فن پارے چھپوائے، کتنی ادبی محفلوں، بحث و تمحیص کی محفلوں میں شرکت کی۔ اس مدت میں کئی وقیع شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ مرحوم وقار خلیل ایک بیش قیمت بزرگ دوست تھے جو میری قدر بھی کرتے تھے اور مجھے اردو ادب کی طرف کھینچتے بھی رہتے، اردو ادب جو کہ بنیادی طور پر مجھے ہمیشہ محبوب رہا ہے۔
انہی دنوں نہ جانے کب محترم مجتبیٰ حسین صاحب سے میری شناسائی ہو گئی۔ میرا خیال ہے کہ شاید آندھراپردیش (اردو) میگزین کے دفتر پر، جہاں ہم اپنی تخلیقات آں جہانی کنول پرشاد کنول صاحب کے حوالے کرنے جاتے اشاعت کے لیے۔ پھر یہ ملاقات گاہے بہ گاہے ہوتی رہی۔ خاص کر اعظم راہی صاحب کے ممتاز ادبی رسالہ پیکر میں میری شائع شدہ تخلیقات کے تناظر میں، ان کی تحریروں کی تحسین میں، لطیف کیفے کی بیٹھکوں میں۔ مجتبیٰ حسین اس وقت بھی اردو ادب کا ایک بڑا نام تھا اور آج بھی ہے۔ زندہ دلان حیدرآباد کے جلسوں اور مزاح نگاری کے جشنوں نے تو انھیں آفتاب تازہ کی طرح طلوع کر دیا تھا۔
سلیمان اریب مرحوم کے آخری مجموعہ ’’کڑوی خوشبو‘‘ کی رسم اجرأ میں جس طرح عزیز قیسی اور مجتبیٰ حسین نے مجھ جیسے نئے لکھنے والے کی پذیرائی کی، اس سے میرے دل میں ان کی ادب دوستی نے خاص جگہ بنا لی۔
۲۰۰۸ء میں جب میری کتاب ’’ادبی گفتگو‘‘ (جو نثری مضامین پر مشتمل ہے) کا اجرا ہوا تو میری شدید خواہش تھی کہ یہ عمل مجتبیٰ کے ہاتھوں سے ہو کہ میری نگاہ میں اردو نثر کا (بلا تفریق صنف و فکر) حیدرآباد کا سب سے بڑا نام مجتبیٰ حسین ہے۔ فی زمانہ اے کاش ایک بزرگ ادیب نے یہ عمل ہونے دیا ہوتا۔ مجتبیٰ نے بڑے خلوص سے مثبت جواب دیا تھا لیکن وجوہ فی بطن شاعر ہی بہتر ہیں۔ جہاں یہ بات سچ ہے کہ آج عالم اردو میں جس خلوص و محبت کے ساتھ، ستائش و صلہ سے بے پروا ہو کر اردو حیدرآباد اور اس کے اطراف کے حلقوں میں لکھی جا رہی ہے۔ شاید ہی اس کی کہیں مثال ملے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ اردو کے سینئر ادیب و ناقد بری طرح سیاست و گروہ بندی کا شکار ہو گئے ہیں۔ بہ ہر حال یہ موضوع جملہ معترضہ کی طرح ہے۔ مجتبیٰ حسین میرے خیال میں اس قسم کی ذیلی سیاستوں سے اپنے قد کی بناء پر بلند ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مجتبیٰ حسین اردو کے قلم کاروں میں ہمارے مقبول ترین ناموں میں سے ایک ہے، اہلِ حیدرآباد (بالخصوص) ان کی تحریروں کو بے حد ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں وہ تبسم زیر لب، خفیف مسکراہٹ اور بے ساختہ قہقہے ان تینوں خوش گوار کیفیتوں کو چھوتے ہوئے اور ان کے درمیان بڑے کام کی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں معزز سوچ کی نمائندگی ملتی ہے ان کے مضامین سے خود تنقیدی، اپنے چہرہ اور سلوک کو ایک مثبت زاویے سے آئینہ میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
ایک کامیاب انشائیہ نگار کی حیثیت سے مجتبیٰ اپنی تحریروں میں وسیلہ اور مزاج اشاعت کی مناسبت سے مواد پیش کرتے ہیں۔ کالم نگاری میں صحافتی زبان کی سادگی ملتی ہے تو خاکوں میں اختصار کے ساتھ اپنے نرالے انداز سے تعارف، ان کے مستقل مضامین مختلف طول کے ہوتے ہیں، بعض تشفی بخش حد تک موضوع کی مناسبت سے طول رکھتے ہیں اور دائرہ تحریر کشادگی رکھتا ہے تو بعض وسیلہ اشاعت کے لحاظ سے مختصر لیکن مسکت۔ اپنے طویل تصنیفی تجربہ کے نتیجہ میں انھوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ اخبارات، جرائد، کتب، رسائل (سرکاری، خانگی، ادبی، سیاسی، تفریحی) اور خطبات و تقاریر کے تناظر میں لکھا ہے اور ہر بار یہ احساس دیا ہے کہ انھوں نے موضوع سے اپنے قاری / سامع کے ظرف کے لحاظ سے انصاف کیا ہے۔
یہ بات بھی سچ ہے کہ وہ صرف عوام یا اپنے مخاطب کو خوش کرنے یا انھیں بے جا تحسین کے ذریعہ مسرور کر کے دل جیتنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ برمحل نشتر زنی، قابل فکر نکتہ کے اظہار اور اختلافی نکتہ کے بیان سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کے خاکوں سے یہ ضروری نہیں کہ صاحب موصوف صد فی صد ہر فقرہ سے متفق ہوں چند باتیں انھیں غیر مطمئن اور چیں بہ جبیں کرنے کے لیے بھی مل جاتی ہیں۔
طنز و مزاج کا فن محض لطیفہ گوئی اور پھگڑ بازی سے معنون نہیں ہے یہ ایک انتہائی ذمہ دار طرز اظہار ہے جو فرد اور سماج کو گرسنگی، کمیوں اور خامیوں سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ سنجیدہ موضوع کو سہل اور غیر مرتکز کر کے پیش کرتا ہے، مضحک کیفیت میں۔ مزاح نگار طنز نگار ایک دردمند دل رکھتا ہے، جو چاہتا ہے کہ مخاطب مسکراتے ہوئے اپنی زندگی کے تاریک یا سوالیہ پہلوؤں کی طرف بھی نگاہ غیر سے دیکھے اور اگر کوئی بات مناسبت محسوس ہو تو اس کے اصلاح بھی کر لے۔
مثال کے طور پر جب مجتبیٰ نے مشاعرہ میں متشاعر قسم کی خواتین کو دادِ سخن اور جلوہ گریِ حُسن کے لیے پیش کرنے پر آواز اٹھائی اور ’’مشجرہ‘‘ کی ترکیب سے سخت وار کیا تو بہت سے منتظمین اور متاثرین تلملا اٹھے، لیکن بات واجب تھی بلکہ صحیح شکوہ تھا اس ابتذال کے خلاف۔ ہر صحت مند و صحیح فکر والے نے یہ تو محسوس کیا۔
مجتبیٰ ایک معیاری اردو تہذیب کے نمائندہ ہیں اس لیے ان کی تحریروں میں وہی وقار ملتا ہے جو احترام آدمیت سے مملو ہے۔ ان کے کالم نادر انداز میں موضوعات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہیں، بات میں بات، موضوع در موضوع نکیلی باتیں لکھنے میں ان کی فن کاری اور ابھر کر سامنے آئی ہے کہ قاری گفتگو سے چٹخارہ بھی لیتا اور سوچنے پر بھی مائل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’تھوکنا منع ہے‘‘ کا یہ حصہ دیکھیے:
’’ہمارے ایک جاپانی دوست ہمارے ساتھ ایک مشاعرہ میں چلے تھے۔ سامعین میں ہم دونوں بالکل پیچھے بیٹھے تھے، صدر مشاعرہ کے آگے ایک خوبصورت اگالدان بھی رکھا تھا، انھوں نے صدر مشاعرہ کو دو ایک بار اگالدان کو اپنے منھ تک لے جاتے ہوئے دیکھا تو نہایت رازدارانہ انداز میں ہم سے پوچھا ’’صدر مشاعرہ کون سے مشروب کا استعمال کر رہے ہیں‘‘ اس پر ہم نے تفصیل سے سمجھایا کہ صدر مشاعرہ اگالدان میں مشروب نہیں پی رہے ہیں بلکہ اگالدان میں مشروب منتقل کر رہے ہیں اور بر سر عام تھوکنا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔‘‘
اس تحریر میں ’’مشروب‘‘، ’’رازدارانہ انداز‘‘، ’’تفصیل‘‘ اور پھر مقطع میں مشغلہ مصنف کی ہنر مندی کی واضح دلیلیں ہیں۔
’’اردو شاعری اور آٹو رکشہ‘‘ کا یہ اقتباس بھی خوب ہے:
’’یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھار آٹو رکشا والوں سے ’’املا‘‘ کی غلطیاں یقیناً سرزد ہو جاتی ہیں لیکن ان کی ان غلطیوں سے بھی شعر میں نئے معنی اور مفہوم پیدا ہو جاتے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے ہم نے ایک آٹو رکشا پر علامہ اقبال کا مشہور شعر اس طرح لکھا ہوا دیکھا تھا:
نہیں تیرا نشیمن ’’خسر سلطانی‘‘ کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
آٹو رکشا والا جو کہ ’’قصر سلطانی‘‘ سے واقف نہیں تھا، اس لیے اس نے ’’خسر سلطانی‘‘ لکھا تھا۔ اور خسر سلطانی لکھ کر اور اپنے خسر کے گھر میں اپنا نشیمن نہ بنا کر یہ ثابت کر رہا تھا کہ وہ اپنی محنت کے بل بوتے زندہ رہنا چاہتا ہے اور گھر داماد، ہرگز نہیں بننا چاہتا۔‘‘
واہ کیا خوبصورت تاویل ہے۔
٭
مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری دوسرے خاکہ نگاروں سے کافی حد تک مختلف اور عمدہ تصویر کشی کی مثال ہے۔ ان کی خاکہ نگاری عموماً پلاٹ کی پابند نہیں ہوتی۔ وہ رواں دواں انداز میں چند نمائندہ نکات کے ذریعے اپنے ممدوح کی ذات کو متشرح کرتے ہیں وہ ایسے واقعات اور استعاراتی گوشے کو استعمال کرتے ہیں کہ خود بہ خود مقصود شخصیت کا نیم تعارف ہو جاتا ہے۔ کتنے ہی ادیب شعرا اور سماجی شخصیات ان کے خاکوں کے عنوان بنے ہیں۔ میرے خیال میں جتنے افراد کے خاکے مجتبیٰ نے لکھے ہیں اتنے شاید ہی کسی ادیب کے احاطہ تحریر میں آئے ہوں۔ ان خاکوں میں تنوع بھی شامل ہے، ندرت بھی، خلوص بھی۔ ان خاکوں میں دوست، احباب و اقارب بھی ہیں شناسا بھی۔
مضمون کی طوالت کے با وصف میں ان کے خاکوں کے چند جملے ضرور پیش کروں گا کہ اس سے ان کی قوت اظہار کا کچھ اندازہ ہو:
(۱) ’’اور اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد اعجاز صاحب سچ مچ ایک ایسے راستے پر چلے گئے، جس پر چل کر آدمی واپس نہیں آتا، میرا ما تھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب اعجاز صاحب نے ڈھائی گھنٹوں کی ملاقات میں ایک بار بھی اپنی خراب صحت کا ذکر نہیں کیا تھا۔ میں اس وقت تاڑ گیا تھا کہ اعجاز صاحب کی بیماری لفظوں سے آگے نکل گئی ہے جبھی تو وہ اس باب پر چپ سے ہیں۔‘‘ (اعجاز صدیقی)
(۲) ’’بھئی تمھارا کیا نام ہے؟‘‘ مزدور نے کہا ’’تاؤ جی! میرا نام عبدالرحمن ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’بھئی ذرا رک جاؤ‘‘ وہ صاحب جن کی بڑی بڑی زلفیں ہیں اور جو تمھارے پیچھے آ رہے ہیں، تمھارا نام جاننا چاہتے ہیں۔‘‘
مزدور سر پر پٹرومکس اٹھائے رک گیا۔ جب شاذ سے اس کا سامنا ہوا تو اس نے کہا ’’باؤ جی! میرا نام عبدالرحمن ہے۔‘‘ شاذ نے کہا، ’’اچھا تو تمھارا نام عبدالرحمن ہے۔ بڑی خوشی ہوئی تم سے مل کر۔ یہ بتاؤ چاہتے کیا ہو؟‘‘
مزدور بولا ’’لو سنو! باؤ جی! میں آپ سے کیا چاہوں گا؟‘‘
پھر میری طرف اشارہ کر کے بولا۔ ’’ان باؤ جی نے بتایا تھا کہ آپ میرا نام جاننا چاہتے ہیں۔ شاذؔ نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں میری طرف گھما کر پوچھا ’’اے مجو میاں میں نے کب اُن کا نام جاننا چاہا تھا۔ میں نے کہا، یار شاذؔ! میں تو تمھاری مشکل آسان کر رہا ہوں اور تم میری طرف حیرت سے دیکھے جا رہے ہو۔ پوچھ لو اُن کا نام، ورنہ بعد میں نہایت کرب کے ساتھ شعر کہو گے:
آگے آگے کوئی مشعل سی لیے چلتا تھا
ہائے کیا نام تھا اس شخص کا پوچھا بھی نہیں
شاذؔ نے زوردار قہقہہ لگایا۔ اُس رات وہ اتنا ہنسا کہ آنکھیں بھیگ گئیں۔‘‘
(شاذؔ تمکنت)
مجتبیٰ کی تحریروں کے کئی رخ ہیں۔ ہر پرتو ادب کے طالب علم کے لیے جداگانہ تناظر میں قابل تحلیل و مطالعہ ہے، طنز و مزاح، لطیفہ گوئی، افسانہ نگاری، صحافی، تبصرہ سماجی تحریر سب اپنی طور پر منفرد اور مخصوص ہیں۔
ان کی نثر لسانی لغزشوں اور خامیوں سے پاک ہے کوئی مقامی بول چال کی کمزور جھلک نہیں ملتی، محسوس ہوتا ہے وہ اپنے اسلوب اور اپنی تحریر کی پستی اور سلاست کا گہرا احساس کرتے ہیں۔
چوں کہ ادب ایک فن پارہ ہے، وہ کسی صنف کا بھی ہو، کسی فارم اور نوع میں بھی ہو، اس کا فن کارانہ تخلیقی صلاحیت سے گہرا رشتہ ہوتا ہے، ہر ادب اپنی خاص شناخت خداداد صلاحیتوں کے بنا پر حاصل کرتا ہے۔ اس میں بڑا دخل اس کی مہارت زبان، اظہار کے رویہ اور ترسیل کے بارے میں مختص کردہ طریق کار سے بھی ہوتا ہے۔ لیکن ناطقہ کی سب سے بڑی خوبی سامعہ سے منطبق ہونا ہے۔ اس لیے وہ ادیب جو اپنے نقطہ نگاہ کی راست ترسیل چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ توجہ کو مرکوز رکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے فن کو قبولیت کی مشعل سے روشن رکھتے ہیں کہ راہ آشنائی بھی ہو اور اس کے مقصود تک رسائی بھی۔
ان تمام ملحوظات کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ادب کی سب سے بڑی طاقت صداقت ہے۔ وہ مزاحیہ ادب کوئی زندگی نہیں رکھتا جس کے کردار اور ماحول میں کسی حقیقی شخصیت اور کسی جانے بوجھے ماحول سے ہم آہنگی نہ ہو۔ جب تک قاری / سامع یہ نہ محسوس کرے کہ گفتگو اس کے مانوس تجربہ سے میل کھاتی ہے وہ خیالی لطیفہ کو مکمل طور پر قبول نہ کرے گا۔ مجتبیٰ حسین نے زندگی کے مختلف شعبوں سے کردار اور ماحول منتخب کیے ہیں اور انھیں بے حد نزاکت اور خوش اسلوبی سے اپنی تحریروں میں سجایا ہے کسی کردار یا ماحول کو وہ منفی طور پر نہیں اجاگر کرتے کہ آپ نفرت کرنے لگیں۔ اس سے تو گفتگو درمیان ہی میں شکستیدہ ہو سکتی ہے۔ ہاں ایسے منفی کردار کو وہ اس طرح مختلف رنگوں، شکلوں اور پہلوؤں سے آپ کے سامنے لاتے ہیں کہ آپ کو اس کی مکمل اصلی صورت مل جاتی ہے۔ حتمی فیصلہ آپ پر ہے۔
ان تحریروں میں اجتماعی زندگی کے اثرات زیادہ ملتے ہیں مجلسی باتیں، مکالمے، رفاقتیں، محفلیں اور گفتگو کے ذریعے وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ادیب / مزاح نگار سماج کا ایک متحرک اور معنی خیز کردار ہے اور اس کی فکر و نظر قابل اعتماد افادیت رکھتی ہے۔
مجتبیٰ کی تحریریں جتنا ہنساتی ہیں اتنا ہی کبھی کبھی رلاتی بھی ہیں غور کرنے پر مجبور بھی کرتی ہیں۔ اگر آپ ان کے مضامین میں چھپے ہوئے درد کو محسوس کریں تو بلا شبہ آپ کی بھی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے۔ ان کی تحریر کردہ وفیات تو اس میں بہت کامیاب ہیں۔
کبھی کبھی خاکہ نگاری کی زد میں وہ بے حد سخت وار بھی کر جاتے ہیں جس کو سہنے کے لیے کلیجہ چاہیے۔ کئی بار اس طرح شخصیت کے ایسے پہلو پیش کر دیتے ہیں جس میں ضم کا پہلو اجاگر ہو جاتا ہے۔ اے کاش وہ ایسا نہ کرتے۔ یہ بات نہیں معلوم کہ اس طرح کے جملہ ان کی گفتگو کی روانی سے وجود پذیر ہوتے ہیں یا بات سے بات نکالنے کی روش میں یا پھر مشق تیر اندازی کے لیے جو بھی ہو وار تو سخت ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر:
(۱) ’’ہمارے مظہر امام کے بارے میں ایک بات اور بتا دوں کہ بلا کے حسن پرست واقع ہوئے ہیں۔ اتفاق سے کہیں حسن سچ مچ دستیاب ہو جائے اور مظہر امام ساتھ میں ہوں تو میں حسن کو نہیں مظہر امام کو دیکھتا رہ جاتا ہوں۔‘‘ (مظہر امام)
(۲) دو دو گھنٹے نہانے کے ضمن میں:
’’کسی نے بتایا کہ مغنی تبسم نہاتے وقت اپنے اعضاء کو نہیں دھوتے بلکہ مختلف حیثیتوں کو دھوتے ہیں۔ ابھی اپنے اندر بیٹھے ہوئے شاعر کو نہلایا ہے تو ابھی ناقد کے سر پر پانی انڈیلا ہے۔ اس سے فرصت ملی تو اپنے ترقی پسند پیکر کو ابٹن سے مل رہے ہیں۔ ساتھ میں اپنے جدید ذہن کو بھی جھاویں سے رگڑتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘ … (مغنی تبسم)
ایسی کچھ مثالیں ہیں جن میں شخصیات کی نجی زندگی اور لغزشوں کا بر سر عام تذکرہ کر دیا گیا جو پردہ خفا میں رہتیں تو بہتر تھا۔
مجتبیٰ کی وہ تحریریں جو عام موضوعات سے متعلق اور کسی خاص عنوان کی پابند نہیں زیادہ کامیاب اور بے ساختہ ہیں ان میں سے موضوع کا انتخاب جس آزادی سے کرتے ہیں اسی آزادی سے ان کو برتتے بھی ہیں۔ اس نوع کے حسنِ بیان کی اچھی مثالیں اُن کے مجموعوں میں افراط ملتی ہیں۔ مثلاً ’’قصہ داڑھ کے درد کا‘‘، ’’مرزا کی یاد میں‘‘، ’’برف کی الماری‘‘ اور ایسے ہی بیسیوں مضامین۔
ان کی زود گوئی اور بسیار ’’خاکہ نویسی‘‘ سے ایسا لگتا ہے کہ وہ دوست داری کے معاملے میں امیر کبیر ہیں، ان کے پاس سیکڑوں دوست ہیں، جن سے ان کا قریبی بلکہ خانگی حد تک تعلق ہے لیکن حقیقتاً شاید ہی ایسا ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ مجتبیٰ اپنی لا شعاعی نظروں سے مختصر مدت اور تعارف سے ہی ممدوح کی ذات کا گہرا جائزہ لے لیتے ہیں اور بڑی مہارت سے اپنے خاکہ کے درد بست بنا لیتے ہیں۔
مگر یہ بھی صحیح ہے کہ ان کے عزیز و قریب تر رفقاء کے خاکے کچھ زیادہ ہی بوقلمونی اور عمق رکھتے ہیں۔ یہ خاکے فرمائشی خاکوں یا حسب حال خاکوں سے جودت اور وصف میں برتر ہیں۔
وہ دِلّی اور حیدرآباد کے قریبی احباب کے بارے میں جب لکھتے ہیں تو کھل کے لکھتے ہیں۔ ان کے بیان میں روانی بھی ہوتی ہے، آزادی بھی اور سرحد سے پار ہونے والی بے ساختگی بھی۔
مجتبیٰ کی تحریریں اپنے مناسب اسلوب اور طرز بیان کے توازن کے سبب سے ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کی طرح! ان کا طریقہ اظہار یکساں طور سے خواص اور عوام دونوں کے لیے قابل اعتبار اور پُر کشش ہے۔ وہ لفظیات، تراکیب اور تشبیہات کے انتخاب میں احتیاط برتتے ہیں۔ ایک خاص سچویشن اور شخصیت کی بے حد اختصار سے آئینہ گری کرنے کے لیے وہ چابک دستی سے مضحک مگر دلچسپ قصے اور پیکر تراش لیتے ہیں اور اس طرح ان کی تحریر کا لطف بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ ان مضامین / تحریروں میں خود ساختہ حالات بھی ہیں، محاورے بھی ہیں اور مزہ بھی لفظوں کا کھیل بھی، بات سے بات نکالنے کا تماشہ بھی۔
مجتبیٰ حسین شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں، اسی لیے وہ اپنی تحریروں کا معیار ہمیشہ بلند رکھتے ہیں۔ وہ رکیک، اسفل اور کم درجہ کی مزاح نگاری اور پھکڑ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔ دکن کے اکثر مزاح نگار بگڑی زبان، کم درجہ کی معاشرت، غربت اور مقامی سماجی خرابیوں کو اجاگر کر کے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو غیر دکنی قارئین کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں۔ مجتبیٰ نے اس طرح کے مقامی ابتذال سے احتیاط برت کر اپنی تخلیقات کو عالمی ادبی سطح پر چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح رکھا ہے۔
مجتبیٰ حسین اُن خوش نصیب ادیبوں میں سے ہیں جنھیں انعام و اکرام و اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے وطن اور بیرونِ وطن سب جگہ اُن کے چاہنے والے بسے ہیں اور قارئین کی یہ محبت اور قدردانی اُن کے لیے بڑا اعزاز ہے۔
معاصر اُردو ادب میں مجتبیٰ حسین ایک بے حد اہم نام ہے جس پر اہل دکن کو بجا فخر ہے۔
٭٭٭
نوٹ: یہ مضمون مجتبیٰ حسین کی حیات میں شائع ہو چکا ہے۔ اب وہ نہیں رہے، اُن کی یاد باقی ہے۔ اللہ رب العزت اُن کی مغفرت فرمائے۔۔۔ آمین
٭٭