(مطبوعہ ’’خاص نمبر: عرفان صدیقی‘‘ مرتبہ: عزیز نبیل
مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو)
منجمد پُر شور دریا (مصحفؔ اقبال توصیفی کی شاعری کی ایک جھلک)
اُردو کی نئی شاعری اس معاملے میں بہت خوش بخت ہے کہ اس کے دامن میں کئی نمائندہ اور قابل ذکر شاعر اپنے اپنے منفرد لب و لہجہ (زبان، ڈکشن اور فکر) کے ساتھ رونق پذیر ہیں۔ یہ شاعر ہندوستان، پاکستان اور دوسرے ممالک میں رہتے ہوئے بھی ایک حد تک اسی فکری لہر سے ارتباط رکھتے ہیں جو جدید شاعری کی شناخت ہے۔ ایسے ہی ایک اہم شاعر جناب مصحفؔ اقبال توصیفی بھی ہیں۔ ہند و پاک میں جب بھی جدید شاعری کی بات ہو گی تو اس میں اہم ترین ناموں میں مصحفؔ کا ذکر ضرور آئے گا۔
مصحفؔ نے شاعری کو سراسر اظہار ذات کے وسیلے کی طرح استعمال کیا ہے وہ اپنی سوچ کی ترسیل کے لیے ارتکاز کے ساتھ ایک مخصوص ڈکشن کو پسند کرتے ہیں اور یہی ڈکشن ان کی شاعری کی پہچان ہے۔
ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ آپ ایک مانوس سے ماحول میں آ گئے ہیں، جہاں کے سارے کردار کچھ جانے پہچانے سے ہیں لیکن جہاں کے موسم اجنبی اور جداگانہ سے ہیں، یہ تحیر آمیز صورت حال مصحف نے غضب کی فن کارانہ صلاحیت سے پیدا کی ہے۔
مصحفؔ کی شاعری کی اہم ترین قوت ان کی صداقت ہے وہ جذبات کے اظہار کے لیے کوئی غیر معمولی فطری ماحول نہیں گھڑتے بلکہ کچھ حد تک راست طور سے لیکن شاعرانہ تیور سے اپنا اصل مقصود بیان کرتے ہیں۔ ان کی نظمیں اور غزلیں دونوں ہی اس معاملے میں ان کے ذاتی تجربات، ذاتی شعور اور قریب ترین ماحول سے متعلق ہیں۔ اس لحاظ سے مصحفؔ کی شاعری بنیادی طور پر دونوں ہی فارم (نظم اور غزل) میں اپنی جداگانہ تخصیص رکھنے کے باوجود خلوص اظہار پر مرکوز ہیں۔ پھر بھی دونوں ہی اصناف میں ان کے دوبے حد الگ اور واضح طرز بیان سامنے آئے ہیں۔ جہاں ان کی نظمیں، بیش تر نیم مکالماتی یا خود کلامی یا بیانیہ میں سے کسی ایک لہجہ کو استعمال کرتی ہیں ان کی غزل سراسر شاعرانہ، سہل ممتنع اور راست اور کچھ حد تک روایتی انداز پر مائل ہے۔ ندرت تو ہے لیکن تجربہ اور علامتی اظہار (جو کہ جدید شاعری کا رویہ ہے) کا کم ہی تناسب ملتا ہے۔
ایک اور بات جو مصحف کی شاعری کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ عمیق، گنجلک اور مجہول موضوعات سے شاعری کو بوجھل، دور افتادہ یا نارسا بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے شاعر آپ سے قریب تر ہے، وہ آپ کا شریک سفر ہے، وہ آپ کو وہ باتیں سناتا ہے جس سے آپ شاید مانوس ہیں لیکن ان کی پرتیں اور ان کی زیریں رو کی نشان دہی بھی کرتا ہے جو آپ کے لیے شاید نئی ہوں۔ کچھ حد تک ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی نے شاعر کے جس (Role) رول کے بارے میں اشارہ کیا تھا وہی منصب یا رول (زیرک فکر کے امتزاج کے ساتھ) مصحف نے نبھایا ہے۔
ان کی نظمیں متوسط طول کی بلکہ کچھ حد تک مختصر طوالت کی ہوتی ہیں کسی موضوع کے ساتھ دیر تک، دور تک اور تکرار کے ساتھ چلنے سے گریز کیا گیا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ شاعر موضوع کو برتنے کے لیے سطحیں تبدیل کرتا ہوا، پرتیں کھولتا ہوا، زاویے بدلتا ہوا، انحراف یا گریز کرتا ہوا طویل فکری اظہار کی طرف مائل ہو۔ اس کے لیے مختصر لمحہ کا اظہار زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ ایسے ہی کئی مختصر لمحے مل کر طویل زندگی کی آئینہ داری کر سکتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے ان کی نظموں میں عام طور سے مکالماتی (بلکہ نیم مکالماتی کہوں تو بہتر ہے) انداز کو منتخب کیا گیا ہے۔ شاعر عموماً اپنے کردار کے تعارف کے لیے اس کے اطراف و اکناف اور احباب سے تعلق و نسبت کو اجاگر کرتا ہے۔ ان نظموں میں کچھ حد ایک نا محسوس قسم کی کردار نگاری بھی ملتی ہے۔ یہ کردار بیش تر رائج الوقت اور ہم عصر (Contemporary) سماج کی تمثیل کی طرح ہیں۔ شاعر اس کردار کو اس کے لب و لہجے اور Approach کے تناظر میں پیش کر کے نئی زندگی کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ عکاسی بالکل صریح اور راست بھی نہیں بلکہ کئی مائل سطحوں سے ہو کر ایک مقصود منظر کو پیش کرتی ہے۔
غزلوں میں جہاں شاعر نے سہل ممتنع طرز بیان کو ترجیح دی ہے وہیں ان کا ہر شعر واضح اکائی کی طرح ایک خاص موضوع کا اظہار ہے۔ شعر کی زبان میں ایک خفیف سی پیاس، ایک غیر متوقع اچانک پن اور محتاط طور پر لفظوں کا انتخاب اور عام طرز سے ہلکا سا اعراض ان کی غزلوں کو جدید غزلوں میں ایک بین شناخت فراہم کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں کی سب سے اہم جہت ’’غزل‘‘ پن ہے۔ ان کے موضوعات میں ’’ہم تم‘‘ کا تذکرہ (کچھ حد تک رومان)، ہم سفری کے تجربات، وقت گزاری کے اشغال اور ذاتی مشاہدات بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ چند شعرا اس ضمن میں:
تو بھی مجھ سے روٹھی تھی
میں اک کروٹ لیٹا تھا
محفلوں میں کم نظر آتا ہوں میں
اپنی تنہائی سے گھبراتا ہوں میں
یہ آئینہ خانہ کیا کروں میں
میں تجھ کو کہاں رکھوں چھپا کر
ذرہ ذرہ مری لاکھوں آنکھیں
لمحہ لمحہ ترا جادو ہوتا
میری آنکھوں کے دروازے پر دستک دی
سوتے ہوئے اک غم کو جگایا کس نے؟ تم نے!
بھیڑ تھی کیسی دوکانوں پر!
کوئی نہ پہنچا اپنے گھر تک!
رات تم نے روشنی کے کھیل میں
کیوں مرے سائے پہ سایہ رکھ دیا
چار سو میں نے بچھا دیں آنکھیں
ہر طرف تو، تھی، نظارے تیرے
مصحفؔ کا الفاظ سے رشتہ خالص طور پر ترسیل کے تناظر میں ہے، وہ لفظ کو ایک آلہ کی طرح (بلکہ ایک زنجیر کی کڑی کی طرح) استعمال کرتے ہیں، یہ آلہ سراسر اکہرا نہیں ہے، وہ ہر لفظ کو ایک منتخب سطح سے متشرح کرتے ہیں، کبھی وہ مناظر کو نیم بازحد تک کھولتے ہیں یا کبھی ان میں ایسا رنگ بھر دیتے ہیں جو نئی معنویت بخشے، جس سے ایک غیر عمومی حساس فضا پیدا ہو جاتی ہے ایسی فضا جو ہر غیر مرئی لہر سے اہتزاز انگیز اور مرتعش ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ نجی زندگی کے کسی تجربے کو شاعر وسعت دے کر ایک عالمی تجربہ میں بدل دینا چاہتا ہے اور وہ بھی یوں کہ نجی محسوسات ضائع نہ ہوں۔
مصحفؔ کی شعری زبان ان کی نظموں میں بہت حد تک نثری بیانیہ اسلوب میں ہیں جن میں مجید امجد اور اختر الایمان کی نظموں جیسا کھردرا پن ہے۔
لب و لہجہ میں پُر فریب لفاظی اور نرم و شیریں تراکیب سے احتراز کیا گیا ہے تاکہ بات حقیقت سے بعید نہ ہو پائے اور اسی ارتکاز سے ترسیل ہو جس کو شاعر مرغوب سمجھے۔ نظموں میں ایک عمومی زندگی سے منتخب مناظر اور علامتیں پیش کیے گئے ہیں جو قریب تر محسوس ہوں مثلاً چائے، نکڑ، کافی ہاؤس، گیند، کھلونا، شیو (Shave)، سگریٹ، ریل، کھانے کی میز، ممی پپا، مائیکرو فلم، اسکوٹر وغیرہ۔
جیسا کہ میں نے اس سے پہلے ایک مضمون میں اشارہ کیا تھا، مصحف کی نظموں میں وقت ایک اہم رکن ہے، وہ وقت پل پل سے لیکن صدیوں تک ناپتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ تراکیب اور بندشوں میں ایک طویل بیان کو محو اور منجمد کر دیتے ہیں۔
ان کی نظموں میں ذاتی کرب کو کلیدی اہمیت حاصل ہے، فرد کی گرسنگی، دوستوں کے بچھڑنے کا غم، معصوم زندگی سے دور ہو جانے کا الم، رشتوں میں مثبت و منفی تعلق، اظہار و ترسیل کے مسائل اور ایسے ہی کئی اہم موضوعات ہیں جو ان کی نظموں میں خصوصیت سے ملتے ہیں۔
مصحفؔ کی نظموں کے ماحول اور کردار دونوں ہی متوسط درجہ کے سماج سے منتخب شدہ ہوتے ہیں، اس لیے آپ کو ان کا کلام پڑھتے ہوئے نا مانوسیت کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی نظموں کے چند گوشے نمونتاً پیش ہیں:
’’تم بڑے چالاک ہو
اور سفاک بھی
تم چاہتے ہو
میں اپنے ہونٹوں کی سیپیاں ضرور کھولوں
اپنے سینے کے راز
ایک گٹھری میں باندھ کر
تمھاری چوکھٹ پر رکھ دوں۔۔۔‘‘
(مجھے شاعری نہیں آتی)
’’میں ترے کرتے کا دامن تھاموں
آؤ ہم ریل بنائیں۔۔۔
آؤ ہم ریل کو پیچھے لے جائیں۔۔۔‘‘
(وقت کی ریل گاڑی)
’’ہوش میں آؤ۔۔۔ ہم کو
وقت کے دھارے پر بہنا ہے
ہم کو ان لوگوں میں
اس دنیا میں رہنا ہے‘‘
(بند دروازے)
’’پھر ایک نرم ہوا کا جھونکا
اور منظر نے کروٹ لی
میرے جسم کے گملے میں اظہار کا پردا
ایک ٹہنی پر نطق کا پھول اپنی پلکیں جھپکاتا
پنکھڑیوں کی اوٹ سے آنکھیں کھول رہا تھا!!
(تو خاموش تھی)
مصحفؔ کی نظموں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ایک بے حد حساس، دردمند اور بے لوث زندگی کا شاعر آپ سے ہم کلام ہے۔ وہ فرد کے قریب تر مسائل سے گہرے طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ وہی معصوم زندگی کی رعنائیوں کے شائق ہیں۔ مصحفؔ نے اصولوں، عقائد اور اس قسم کے ناصحانہ موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ نہیں دی ہے لیکن ان کی تخلیقات کے پس منظر سے ایک ایسا فرد احساس پر ابھرتا ہے جو صالح سوچ، متوازن زندگی اور سادہ طرز حیات کی تجسیم ہے۔ آپ مصحفؔ کے کلام کے مختلف ادوار سے گزریں گے تو یہ ضرور محسوس کریں گے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کی شاعری کے تار و پود کی زیریں رو میں آہستہ آہستہ ایک نمائندہ تبدیلی بہت حد تک زندگی کی بدلتی ہوئی روش اور شاعر کے خالص تجربات حیات کے اکتساب سے منتج ہوتی ہے۔
وہی شاعر جو ابتدائی دور میں چاہتوں، دوست داریوں اور کار جہاں کی جہد میں مصروف ملتا ہے اب حقائق سے روشناس ہو کر غیر رومانی فلسفیانہ صداقتوں سے دوچار ہے اور بکھرتی ہوئی زندگی کو سمیٹنے کے لیے کوشاں ملتا ہے اور کمال یہ کہ دونوں ادوار میں اسلوب کی مخصوص انفرادیت قائم ہے۔
بلا شبہ مصحفؔ اقبال توصیفی جدید شاعری کا ایک اہم نام ہے اور ان کی شاعری ایک منجمد لیکن پُر شور دریا کی طرح ہے کہ رواں ہو جائے تو سیل در سیل اپنے مخاطب کو بہا لے جائے، اپنی جاری و ساری حسیت کی لہروں پر!
٭٭٭