کہیں پر ضبط کرتی ہوں
۔۔کہیں پر بول دیتی ہوں ۔۔۔
تعلق بوجھ بن جائے تو
اسکو چھوڑ دیتی ہوں ۔۔۔
میں اک دریا کے جیسی ہوں
۔۔اپنی دھن میں چلتی ہوں ۔۔۔
بھپر جاؤں جو مستی میں
کنارے توڑ دیتی ہوں۔۔۔
میں دل کی کر چیاں لے کر
کہاں در در پھروں تنہا۔۔۔
اگر دل ٹوٹ جائے تو میں
خود ہی جوڑ لیتی ہوں۔۔۔
محبّت کے تقا ضوں میں
بہت خود دار سی ہوں میں۔۔۔
وفا داری پے آ وں تو
حد یں سب توڑ دیتی ہوں۔۔۔
رونے کا مشغلہ ابھی بھی جاری رہتا اگر اس کا فون نہ بجتا اس نے جلدی سے آنسو پونچھے اور اپنے شولڈر بیگ سے موبائل نکالا نمبر دیکھ کر اس نے کال کاٹی موبائل پھر سے بجنا شروع ہوا نہ چار اسے فون اٹھنا پڑا
“ہیلو پری تم ٹھیک ہو نہ” آواز میں تڑپ تھی پری کے دل کو کچھ ہوا مگر بولی کچھ نہیں “پری میں جانتا ہوں تم ٹھیک نہیں ہو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا میری خودغرضی نے تمہیں اس عذاب میں مبتلا کر دیا”
“ایسی کوئی بات نہیں ارحم تم نے جو کیا وہ ایک بھائی کا فرض بنتا ہے اگر تم اس وقت یہ سب نہ کرتے تو بھی تم آج خود کو معاف نہیں کر سکتے تھے” پری نے روتے ہوئے کہا ” ارحم کو اس کا رونا تکلیف دے رہا تھا”پری پلیز تم رو مت کاش میں اس وقت عقل سے کام لیتا میں تمہیں اعتماد میں لیتا تو آج خالات اسے نہ ہوتے تمہیں تو شاہ زر سے نفرت تھی جس بندے کو تم اک لمحہ کے لئے اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتی تھی تم نے اسے اپنی زندگی میں شامل کسے کر لیا پری تم میرا انتظار کر لیتی تم جانتی تھی نہ میں ایسا نہیں ہو کچھ تو غلط ہوا ہو گا کاش وہ وقت واپس آ سکتا ” اب کی بار ارحم کے لہجہ میں بھی نمی تھی “ارحم تمہارا نمبر بند تھا کتنا فون کیا میں نے مجھے تو یہ بھی نہیں پتا تھا میرا نکاح کس کے ساتھ ہو رہا ہے مجھے تو لگا وہ تم ہی ہو گے تم واپس آ گئے ہو جب نکاح پڑھایا گیا مجھے تو تب شاک لگا مگر میں پاپا کا مان نہیں توڑ سکتی تھی ارحم تم نے مجھے برباد کر دیا ۔ ۔ ۔ میں۔ میں میرا وجود اسی وقت حتم ہو گیا تھا جب شاہ زر نے مجھے تھپڑ مارا تھا ارحم تم نے مجھے جیتے جی مر دیا میں کیا کرو میں شاہ زر کو چھوڑ بھی نہیں سکتی اس نے کہا ہے وہ مما پاپا کو نقصان پہنچا دے گا ارحم وہ صرف دھمکیاں نہیں دے رہا تھا اس کی نظروں میں میں نے وہ نفرت دیکھی ہے اگر اس وقت تم دیکھ لیتے تو تو تم بھی اس سے خوفزدہ ہو جاتے ”
“پری اس شخص نے تمہیں تھپڑ مارا اس کی اتنی ہمت میں اسے ذندہ نہیں چھوڑوں گا میں تمہیں لینے آ رہا ہو ہم مل کر سب کچھ پہلے جیسا کر لے گے ” ارحم کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اس کی پری جس کو اس نے ٹوٹ کر چاہا تھا جیسے ہر لمحہ اس نے سوچا تھا وہ اس وقت اتنی تکلیف میں تھی وہ کیسے سہ سکتا تھا پری ایک دم اس کی بات سے پریشان ہو گئی “نہ نہیں تم مت آنا ارحم مجھے اب میرے حال پر چھوڑ دوں مجھے جینے دوں خدا کا واسطہ ہے ورنہ میں خود کے ساتھ کچھ کر جاؤ گی ” ارحم اس کی بات پر تڑپ اٹھا “پری تم ایسا کچھ نہیں کروں گی میرے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا میں نے ہیرے کو کھو دیا ہے پری جب کوئی شخص ہمارے نصیب میں نہیں ہوتا وہ ہماری زندگی میں آتے ہی کیوں ہے میری دعا ہے اللہ تمہیں خوش رکھے شاہ زر کو ایک دن تمہاری قدر ضرور آئے گی ”
بس کر جاؤ ارحم آئندہ مجھے فون مت کرنا نفرت ہے مجھے تم سے سن رہے ہوں نہ تم نفرت ہے مجھے تم سے “وہ چلائی ” پری پلیز خود کو سنبھالوں میں تمہیں اس حال میں کسے چھوڑ سکتا ہوں”
” میرا تمہارا کوئی رشتہ نہیں رہا پلیز مجھے میرے حال پر چھوڑ دوں مجھے اب کسی کی ضرورت نہیں ہے ” اس نے غصے سے کہ کر فون بند کر کے موبائل آف کر کے واپس بیگ میں رکھا اور اٹھ واشروم میں گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تو نئی جگہ اوپر سے اتنی ٹینشن پری کو رات بہت مشکل سے ہی نیند آئی وہ بھی سوتے جاگتے کیفیت میں تھی مما پاپا سے اس نے کوئی بات نہیں کی تھی موبائل ان ہی نہیں کیا وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ابھی صبح کے چھ بج رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اس نے جلدی سے اٹھ کر آنکھیں مسلتے ہوئےدروازا کھولا سامنے بوا کھڑی تھی اس کی جان میں جان آئی وہ سمجھی شاید وہ ہٹلر کا جانشین شاہ زر صاحب ہو گے “سلام بیگم صاحبہ وہ صاحب نے کہا تھا آپ کو صبح جلدی اٹھا دوں ناشتہ آج صاحب جلدی کرے گے ”
“تو میں کیا کرو “پری نے خیران کو کر پوچھا “صاحب نے کہا ہے ناشتہ کھانا سب آپ آج سے بنائی گی آپ جلدی سے فریش ہو جائے پھر نیچے بائیں طرف کچن ہے وہاں آ جائے گا اب میں جاؤ بیگم صاحبہ” “ہاں جائے آپ میں آتی ہوں ” اس نے کہ کر دروازا بند کیا “اللہ پوچھے شاہ زر آپ سے مارچ کے مہینے میں اتنی سردی ہے یہاں بارش بھی ہو رہی ہے اتنی صبح صبح ٹھنڈ میں جگا اللہ کرے نمونیہ ہو جائے آپ کو مرکپ جاؤ آپ کہی ” اپنی بددعا پر خود ہی خوف آیا “استغفار اللہ اللہ جی مجھے معافی کر دے بس غصّے میں کہ دیا آئندہ ایسی بددعا نہیں دوں گی وہ مرے یہ جئے میری بلا سے ” جلدی جلدی فریش ہو کر گرم شال اپنے گرد لپیٹ کر باہر نکلی ابھی وہ شاہ زر کے کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی کہ اپنا نام سن کر ٹھٹھک گئی شاہ زر کسی سے فون پر بات کر رہا تھا روم کا دروازا کھولا ہوا تھا “ہاں تو اور کیا کرتا ایسے ہی جانے دیتا اتنا ہی بہادر تھا اس کا منگیتر تو نہ انکار کرتا شادی سے میں نے اچھا کیا اس کو بلک میل کر کے پری کی شادی مجھ سے ہی ہونی تھی مجھے اس سے وہ سب بدلے لینے ہے جو میری ماں کے ساتھ ہوئے ہے یہ تو کچھ بھی نہیں ہے” پری کے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین کسی نے کھینچ دی ہو وہ ساکت کھڑی رہ گئی وہاں شاہ زر بات کرتے ہوئے مڑا پری کو دیکھ کر فون پر موجود صنم کو اللہ خافظ کہ کر اس کی طرف متوجہ ہوا “باہر کھڑی ہو کر میری باتیں سن رہی ہوں اندار او تم “وہ نحوست سے بولا “نہ۔۔۔۔نہیں می میں آپ کی کو۔ کوئی بات نہیں سن رہی تھی می میں نیچے جا رہی تھی وہ بس اچانک ہی ” اس نے گھبرا کر اپنے حق میں صفائی پیش کی شاہ زر روم سے باہر آیا ایک نظر پری کے چہرے کو دیکھا جو خوف سے زرد پر گیا تھا “اچھا کیا تم نے سن لیا یہ سب جو تم نے سنا وہ سچ ہے میں نے ہی سب کچھ کیا ہے ۔” وہ ہڈھرمی سے گویا ہوا “مگر کیوں “پری نے پریشان نظروں سے اسے دیکھا “اس لیے کہ مجھے تم سے حد سے زیادہ نفرت ہے تمہیں اپنے سامنے رکھ کر اذیت میں دیکھنا چاہتا ہوں میں نے تو صرف ارحم کو راستے سے ہٹایا تھا تم تو مجھے کوئی محنت کئے بنا مل گئی تھی “ہاہاہا وہ قہقہہ لگا کر ہنسا جیسے وہ سامنے کھڑی پری کا مزاق اڑا رہا ہوں
“اخر میں نے میرے گھر والے نے ایسا کیا کیا ہے شاہ زر جو اس کی اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں آپ مجھے میرا قصور تو بتائیں مجھے” “قصور تمہارا قصور یہ ہے تم ایک جھوٹے مکار انسان کی بیٹی ہو جس نے مجھ سے میرا بچپن میری زندگی میری ماں چھین لی مت پوچھنا کھبی وہ سارے ظلم مجھ سے جو میری ماں کے ساتھ کئے گئے ہیں نہیں تو مجھے انسان سے حیوان بنے میں زرہ دیر نہیں لگے گی دعا کرنا اپنے لئے اگر کھبی میں اپنی ماں کی تربیت بھول بیٹھا نہ تو تم میری ہاتھوں ذندہ نہیں بچ سکوں گی اب دفع ہو جاؤ میرے سامنے سے جاؤ” اس نے دانت پیس کر نفرت سے کہا شاہ زر کے چہرے پر موجود کرب پری کو صاف دکھائی دے رہا تھا پری نے ایک لمحہ زایا کئے بنا ڈور لگائی اور جلدی سے سیڑھیاں اتر کر بائیں سائیڈ کچن میں جا کر سکون کی سانس لی
“بیگم صاحبہ کیا ہوا آپ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہے “بوا نے تفتیش سے پوچھا
“کچھ نہیں بوا بس کچن نہیں مل رہا تھا مجھے اس لیے ادھر ادھر تلاش کر رہی تھی تو شاید اسی چکر میں سانس چڑ گئی “اس نے پانی کا کلاس فٹا فٹ پی لیا بوا نے حیرت سے نئی بیگم کو دیکھا اور سر جھٹک کر کام میں مصروف ہو گئی البتہ پری کا دل اب زوروں سے دھڑاک رہا تھا ۔ جنگلی انسان وہ بڑبڑائی پھر سب خیال جھٹک کر بوا کے ساتھ کام میں مصروف ہو گئی
تم مجھے نظر سے گرا تو رہے ہو
مجھے تم کبھی بھلا نہ سکو گے
کبھی نام باتوں میں جو آیامیرا
تو بےچین ہو کے دل تھام لو گے
کسی نے جو پوچھا سبب آنسوئوں کا
بتانا بھی چاہو نہ بتا سکو گے
میرے دل کی دھڑکن بنی ہے جو شعلہ
سلگتے ہیں ارماں یوں بن کے آنسو
کبھی تو تمہیں بھی یہ احساس ہو گا
مگر ہم نہ ہوں گے تیری زندگی میں
بھلانا بھی چاہو بھلا نہ سکو گے
میری یاد ہو گی جدھر ہو گے تم
کبھی نغمہ بن کے کبھی آنسو بن کے
تڑپتا مجھے ہر طرف پائو گے
شمع جو جلائی کے میری وفا نے
بجھانا بھی چاہو نہ بجھا سکو گے
مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو
مجھے تم کبھی بھلا نہ سکو گے
کبھی بھلا نہ سکو گے۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھڑی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی باہر وقفے وقفے سے بارش ہو رہی تھی اسے بارش بےحد اچھی پسند تھی مگر اس وقت وہ بارش کو دیکھ کر بھی خوش نہیں ہو پا رہی تھی اسے رہ رہ کر صبح کی باتیں یاد آ رہی تھی آخر ایسا کیا راز ہے جس نے شاہ زر کو ایسا ظالم انسان بنا دیا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے کس سے پوچھے اسے تو بس اتنا ہی پتا تھا کہ اس کی ماں اچھی عورت نہیں تھی اور اس نے خودکشی کر لی تھی مگر آج اسے لگ رہا تھا جیسے وہ تصویر کا ایک روح ہی ابھی تک دیکھتی آ رہی تھی اگر وہ بری عورت ہوتی تو شاہ زر ان کا نام اتنی عقیدت سے کھبی نہ لیتا اسے تواپنی ماں سے بےپناہ محبت تھی ۔ پری جتنا سوچ رہی تھی اتنا ہی پریشان ہو رہی تھی صبح سے شاہ زر نے پری کو ٹارچر کرنے کے ہزار خربے استعمال کیے تھے
“بوا بوا جلدی ناشتہ لگائے بتایا بھی تھا مجھے جلدی جانا ہے”انداز میں بےزاری تھی “بیٹا ابھی لائی ” بوا نے کچن سے ہی جواب دیا
“ناشتہ اپنی بیگم صاحبہ کے ہاتھ بھجوائی گا” پری کے اوسطان حطا ہوئے وہ اس وقت شاہ زر کو فیس نہیں کرنا چاہتی تھی مگر ہائے رے قسمت منہ ہی منہ میں شاہ زر صاحب کو ہزاروں گالیاں دے کر ٹرے اٹھا کر ہٹلر کے سامنے رکھ کر واپس جانے لگی”کہا جا رہی ہو تم مجھے سرو کون کرے گا ”
میں ہی کرو گی باپ کی نوکر لگی ہوئی ہوں نہ آپ کی ” یہ الفاظ زبان پر تو آنے سے رہے دل میں تو کہنے سے اسے ہٹلر نہیں روک سکتا تھا یہی سوچ کر دو تین چھوٹی چھوٹی بددعا بھی دے ڈالی جیسا کے اللہ کرے شاہ زر آپ کے پیٹ میں کیڑے پڑے ۔۔”کیا بکواس کر رہا ہوں سنائی نہیں دیتا” وہ پھر سے ڈھارا پری صاحبہ کو ہوش کی دنیا میں واپس آنا ہی پڑا ” ج جی میں کرتی ہو ” شاہ زر نے سر سے پاؤں تک پری کا جائزہ لیا جو سردی سے وقفے وقفے سے کانپ رہی تھی حلانکہ کپڑے بھی اچھے خاصے گرم تھے اور چادر بھی خوب لپیٹ کر پہنی ہوئی تھی
“جب تک میں ناشتے سے فارغ ہو گا تم باہر جا کر کھولے آسمان کے نیچے کھڑی رہو گی جاؤ اب ” “مگر باہر بارش ہو رہی ہیں اتنی سردی ہے پلیز شاہ زر ایسا نہ کرے “وہ عاجزی سے بولی شاہ زر نے ایک نظر اسے دیکھا پھر کرسی دھکیل کر اٹھا پری کو ہاتھ سے پکڑ کر کھسیٹ کر باہر لایا اور جھٹکے سے ہاتھ چھوڑا وہ کھاس پر جا کر گری “جب تک میں نہ کہوں یہاں سے ہلنا بھی نہیں ایک بار کہو مان لیا کرو مجھے دلیلے مت دینا آگے سے یہاں عیش کرنے کے لیے نہیں لیا تمہیں سمجھی وہ چبا چبا کر بولا اور واپس چلا گیا پری وہی بیٹھی پوٹ پوٹ کر روئی اسے سردی سے زیادہ اس شخص کی نفرت پر رونا آ رہا تھا کوئی اس حد تک ظالم کیسے ہو سکتا ہے شاہ زر نے ناشتے کے بعد بوا کو اسے لانے کے لیے بیجا وہ سردی سے کانپ رہی تھی چہرے سے پانی کی بوندیں گر کر زمین کو بھگو رہی تھی کپڑے بھی سارے گیلے ہو گیے تھے مگر شاہ زر کو کوئی پروا تک نہیں تھی ایک نفرت بھری نظر پری کے وجود پر ڈالی “جا کر کپڑے تبدیل کرو میں نے ناشتہ کر لیا ہے جو بچا ہے تم وہی کھاؤ گی میری مرضی کے بغیر کسی چیز کو ہاتھ بھی لگایا تو انجامِ تم اچھے سے جانتی ہوں “وہ کہ کر روکا نہیں یہ جا وہ جا پری بھاگ کر کمرے میں آئی کپڑے تبدیل کئے ہیٹر لگا کر اس کے سامنے بیٹھ گئی مگر سردی سے اب بھی اس کا بدن کانپ رہا تھا ۔ کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کیا نفرت کا جذبہ اتنا منہ زور ہوتا ہے کہ ہر اچھے برے کی تمیز تک بھولا دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
شاہ زر رات دیر سے واپس گھر لوٹا تھا کھانا بھی اس نے نہیں کھایا اسے ایک بے نام سی الجھن محسوس ہو رہی تھی جس کو وہ خود بھی کوئی نام نہیں دے پا رہا تھا اس کا سائیڈ پر پڑا موبائل پھر سے وائبرٹ ہوا اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا کال پر صنم تھی صنم اور وہ یونیورسٹی کے ٹائم کے دوست تھے آج کل صنم انگلینڈ میں سیٹل تھی شادی ابھی تک اس نے صرف شاہ زر کی محبت میں نہیں کی ہوئی تھی شاہ زر جان کر بھی انجان بنا رہتا تھا وہ صنم کو صرف اپنی بہت اچھی دوست ہی سمجھتا آ رہا تھا اس سے اپنی دل کی ہر بات شیئر کرتا تھا
“ہیلو ”
“کہاں گم تھے تم بندہ فون کر کر کے پاگل ہو جائے مگر اگلے کو کوئی فکر ہی نہیں ” اس نے ناراضگی سے شکوہ کیا
“اب بنے بنائے کو کون پاگل کر سکتا ہے صنم “وہ شرارت سے بولا۔ اس کی بات پر صنم تپ ہی تو گئی”ہاں ہاں میں پاگل ہی ہوں جو اتنی دور بیٹھ کر بھی اپنے عقلمند دوست کو یاد رکھے ہوئے ہوں نہ “وہ تپ کر بولی “یار تم جانتی ہو یہاں ایک ریسٹورنٹ بنا رہا ہوں پورا دن مصروف گزارتا ہے اپنے لیے بھی ٹائم نکالنا مشکل ہو جاتا ہے مگر میں پھر بھی اپنی پاگل سی دوست کو نہیں بھولتا بس آج کچھ طبعیت ناساز تھی موبائل سائیڈ پر
پڑاتھا ”
“کیا ہوا تمہیں کوئی دوائی لی کیوں ہر بات کو سر پر سوار کر لیتے ہوں کام ہی نہ ہو جائے گا اپنا خیال رکھنا بھی ضروری ہے نہ “وہ اسے ہمیشہ کی طرح آج بھی سمجھا رہی تھی صنم جانتی تھی وہ تنہا ہے اس لیے اپنے تف لائف سٹائل سے بھی شاہ زر کے لیے روز وقت نکال لیتی تھی “صنم آج بہت تیز بارش تھی یہاں اور جانتی ہوں میں نے اسے اس بارش میں کھڑے رکھا تب تک جب تک وہ سردی سے مرنے والی نہیں ہو گئی اسے دیکھ کر مجھے اس پر تھوڑا بھی ترس نہیں آیا اس وقت میں اپنے لیول سے بہت نیچے گر گیا تھا” وہ کہتا ہوا کمرے کے ٹیرس پر آ گیا جہاں تیز ہواؤں نے اس کا استقبال کیا “شاہ یہ تم کیا کہ رہے ہو تم اور اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہوں “وہ بےیقنی سے چلائی”مجھے تو اب بھی یاد ہے ایک دن بارش ہو رہی تھی تم کلاس سے نکلے تو ایک چڑیا زخمی پڑی ہوئی تھی تم کتنے بے چین ہو گئے تھے شاہ تم نے اس کا کتنا خیال رکھا تھا وہ پھر بھی مر گئی اور تم پورا دن اس کے لیے اداس رہے تم تو ایک چڑیا کو مرتے تڑپتے نہیں دیکھ سکتے تھے آج ایک جیتے جاگتے وجود کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر لیا ” شاہ زر نے گہری سانس لی اور خود کو ریلکس کیا “کیونکہ مجھے نفرت ہے اس سے اس کے وجود سے میں جب جب اسے دیکھتا ہوں میرے سامنے اس کے باپ کا مکرو چہرہ آجاتا ہے پھر میں انسان سے حیوان بن جاتا ہوں میرا دل کرتا ہے میں اس شخص کی نسلوں کو برباد کر دوں دنیا کے سامنے وہ شخص اتنا پاک باز رہتا ہے کہ اس کا اصلی چہرہ کوئی جان ہی نہیں پایا میری دادی میری ماں کو ایسے ہی ٹریٹ کرتی تھی ایسے ہی ظلم کرتی تھی میں نے تو ان سب کا حساب لینا ہے ” وہ ماضی میں کھو کر چلایا ساری دنیا کو آگ لگا دینے کا دل کیا “صنم میں جب جب وہ لمحے یاد کرتا ہوں مجھے تکلیف ہوتی اتنی تکلیف کے میں تمہیں بتا نہیں سکتا میں وہ سب یاد نہیں کرنا چاہتا مگر وہ سب ایک آسیب کی طرح میری زندگی کے ساتھ چمٹ گیا ہے میں رات رات بھر سو نہیں پتا مجھے میری ماں کی سسکیاں سونے نہیں دیتی کاش میں اتنا حساس نہیں ہوتا صرف پانچ سال کا تھا میں مجھے وہ سب ایسے یاد ہے جیسے وہ کل کی ہی بات ہو ” وہ ماضی میں کھویا ہوا تھا اس کا لفظ لفظ صنم کو رولا رہے تھے رو تو ساتھ والے کمرے میں پری بھی رہی تھی جو کھڑی کے پاس بیٹھی ساری باتیں سانس بند کر کے سن رہی تھی آنسو لگاتار اس کے آنکھوں سے نکل رہے تھے اس رات شاہ زر سو نہیں پایا تھا نہ ہی پری کو نیند آئی تھی وہ صبح کا انتظار کر رہی تھی اسے اپنے باپ کو فون کرنا تھا ان سے وہ سب جانا تھا جو شاہ زر کھبی بھی اسے نہیں بتانے والا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح وہ ٹائم پر اٹھ کر فریش ہوئی کچن میں جا کر بوا کے ساتھ ناشتہ تیار کیا پھر شاہ زر کے آنے کا انتظار کرنے لگی ابھی تک شاہ زر اپنے کمرے میں سے نہیں نکلا تھا وہ کچن سے دوسرے والے دروازے سے باہر نکلی جو باہر لان میں کھلتا تھا بارش رات کو ہی روک گئی تھی آسمان بلکل صاف دکھائی دے رہا تھا دھوپ لان میں پھولوں پر پڑ رہی تھی جو ان پھولوں کی دلکشی کو اور نمایاں کر رہی تھی لان کافی بڑا تھا اس پاس درخت ہی درخت تھے اس نے پاؤں سے چپل اتاری اور گیلی کھاس پر چلنے لگی سردی آج کچھ کم تھی اس نے سکن گرم کپڑے پہنے ہوئے تھے جس پر ہلکا ہلکا کام ہوا تھا دوپٹا اپنے گرد اچھے سے لپیٹا ہوا تھا ہر فکر سے آزاد وہ اس وقت اس ماحول میں کھوئی ہوئی تھی سردی لگنے پر چپل واپس پہن کر پھر سے چلنے لگی اسے احساس بھی نہیں ہوا کب شاہ زر اس کے پاس آیا وہ اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ایک ایک پھول کو محبت سے چھو رہی تھی ” کس سے پوچھ کر تم یہاں آئیں ہوں ” وہ آواز پر ڈر کر پیچھے ہوئی پاس ہی شاہ زر خونخوار نظروں سے اسے گھور رہا تھا وہ ڈر کر ایک قدم پیچھے ہٹیں توازن برقرار نہیں رکھ سکی ایک دم گرنے لگی تھی کہ اچانک غیرارادی طور پر شاہ زر نے اس کا ہاتھ تھام لیا پری نے خوف سے آنکھیں بند کر لی تھی مگر اسے جب لگا وہ گرنے سے بچ گئی تو آنکھیں کھول کر دیکھا شاہ زر ہوش میں آیا ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا “اندار جاؤ اور آئندہ میری اجازت کے بغیر تم لان میں بھی نہیں آؤ گی سمجھی “اس نے بات پوری کی اور واپس مڑا “یہ مجھے کیا ہو گیا تھا میں نے اسے کیوں گرنے سے بچایا گر جاتی مجھے اسے نہیں بچانا چاہیے تھا “شاہ زر خود سے الجھ پڑا “اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا میں ایسا ہی کرتاوہ ایک فطرتی عمل تھا”اس نے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا سارے خیال جھٹک کر اس نے ناشتہ کیا اور بوا کو بتا کر چلا گیا پری نے سکون کی سانس لی کچن میں آئی اسے بھوک محسوس ہو رہی تھی یہاں پر تو اسے ڈھنگ کا کھانا بھی نہیں ملتا تھا جو کچھ شاہ زر چھوڑ کر جاتا اسے وہی کھانا کھانے کا حکم تھا ۔ “بوا آج کا مینیو کیا ہے میں زرا ناشتہ کرنے کے بعد گھر والوں سے بات کر لوں پھر آ کر آپ کے ساتھ کھانا بناتی ہوں بلکہ ابھی تو بنا سیکھ رہی ہوں” اس نے وہی بیٹھ کر ناشتہ شروع کیا “بیٹی آج تو شاہ زر بیٹا کہ کر گیا ہے وہ لنچ پر نہیں آیے گا ہاں رات کے لیے مینیو بتا کر گیا ہے وہ بعد میں بنا دے گے “پری نے سر کے اشارے سے ٹھیک ہے کہا “بیٹی اگر تم برا نہ مانوں تو ایک بات پوچھوں “بوا اسے ناشتہ کرتے دیکھ کر بولی “ہاں ہاں بوا پوچھے نہ بلکہ آپ پہلے یہ بتائیں آپ یہاں کب سے ہے ” پری کے دل میں یہ خیال کہی دنوں سے آ رہا تھا آج موقع ملا تو پوچھ ہی لیا “میں یہاں دس سال سے ہو جب شاہ زر بیٹے نے یہ گھر بنایا میں ساتھ والے گھر میں کام کرتی تھی وہ لوگ کہی باہر شیفٹ ہو رہے تھے ان لوگوں نے شاہ زر بیٹے سے کہا وہ مجھے یہاں لے آیا میں کشمیر کی ہو شادی کے ایک ماں بعد شوہر کا انتقال ہو گیا پھر میں دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے آخر یہاں پہنچ گئی ” پری کو سن کر افسوس ہوا “بس بوا جو ہماری قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے نہ ” پری نے دکھ سے انہیں دیکھا ” اب تو خیر اس واقعے کو ارصہ ہوا تم بتاؤ بیٹی شاہ زر سے تمہاری شادی کیسے ہوئے میں نے تو کئی بار اس سے کہا شادی کر لوں وہ کبھی نہیں منا “بوا نے حیرت سے پوچھا ” وہ کسی اور سے کیسے شادی کر سکتے تھے بوا جب کے پیار وہ مجھ سے کرتے رہے ہیں میرے امی ابو سے بات تو کی انہوں نے مگر وہ لوگ نہیں مانے میری شادی کہی اور طے ہو گئی شادی والے دن آپ کے شاہ زر صاحب نے میرے منگیتر کو دھمکی دی وہ بچارا شادی سے ہی انکار کر کے بھاگ گیا ایسے ہماری شادی ہو گئی ابھی بھی وہ مجھ سے خفا ہے کہ میں نے ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا تب ہی تو ایسے ناراضگی دیکھا رہے ہیں” وہ اور بھی کچھ کہتی مگر اس کی زبان کو بریک تب لگی جب کافی کا مگ ٹیبل پر رکھ کر مڑی دروازے کے بیچ میں شاہ زر کو کھڑے دیکھا پری کی سیٹی گم ہو گئی “ابھی اور ایسی وقت میرے کمرے میں آؤ”وہ لال آنکھوں سے اسے گھوتا ہوا بولا پری نے بوا کو دیکھا جو ایسے ہی دیکھ رہی تھی پری کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی وہ مرے قدم اٹھاتی شاہ زر کے کمرے کی طرف گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...