حمایت علی شاعر
(ثلاثیاں اور ہائیکو)
تین مصرعوں پرمشتمل میری مختصر نظمیں ۔۔۔بغیر کسی نام کے ۔۔۔۱۹۶۰ء سے مختلف رسائل میں چھپ رہی تھیں۔نام کے حوالے سے سب سے پہلے ’نئی قدریں‘(حیدرآباد، سندھ) کے سالنامے (جنوری، فروری ۱۹۶۲ء)میں اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوئیں۔
’میرے خیال میں مختصر ترین نظم تین مصرعوں ہی پر مشتمل ہو سکتی ہے اس لیے میں نے اس نئی صنف کا نام مذہبی نظریات سے قطعِ نظر مثلث کی رعایت سے ’تثلیث‘ مناسب سمجھا۔‘
جون ۱۹۶۱ء میں ہندوستان کے نقاد اثر فاروقی کا ایک مضمون ’الشجاع‘(کراچی) میں شائع ہوا جس میں اُنہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مثلث کی رعایت سے اس صنف کا نام ’ثلاثی‘ بھی رکھا جا سکتا ہے۔مجھے یہ تجویز پسند آئی۔میں نے اپنے کچھ بزرگ اہلِ قلم علامہ نیاز فتح پوری، حضرت اثر لکھنوی اور محترم احمد ندیم قاسمی سے بذریعہ خطوط مشورہ کیا۔سبھی نے ’ثلاثی‘ کو پسند کیا چنانچہ سب سے پہلے اِسی نام سے میری ثلاثیاں مجلہ ’فنون‘ (لاہور ) میں شائع ہوئیں۔اِس دوران میں کچھ ’احباب‘ نے میرے خلاف لکھنا شروع کر دیااور مختلف رسائل میں مراسلوں کی صورت میں مجھ پر الزامات عائد کیے جانے لگے۔آخر مجبور ہو کر ’الشجاع‘نومبر ۱۹۶۳ء کے شمارے میں، میں نے ایک وضاحتی خط لکھا:
’اچھا اب ثلاثی کی اصل حقیقت ظاہر کر دوں،اس کی محرک نہ ہائیکو ہے نہ کسی شاعر کی نظم،ثلاثی کہنے کا خیال میرے دل میں رباعی سے پیدا ہوا۔رباعی ہماری سب سے مختصر اور شائد سب سے مشکل صنفِ سخن ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت کم شعرأ اِس پر طبع آزمائی کرتے ہیں(اس کی ایک وجہ چند مخصوص بحروں کی پابندی بھی ہے)غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ اکثر رباعیوں میں دوسرا مصرعہ اضافی ہوتا ہے اور محض ہیئت کی پابندی کی خاطر کہا جاتا ہے۔ میں نے سوچا اگر پہلا مصرعہ ہی ہر طرح مکمل ہو تو دوسرے مصرعے کا احسان اُٹھانا نہیں پڑے گا اس طرح میں نے اپنے تئیں الفاظ کی ’فضول خرچی‘ سے دامن بچانے کی کوشش کی اور اِن مصرعوں کو اُن بحروں کا پابند نہیں رکھا جو رباعی کے لیے مخصوص ہیں۔ہئیت میں اس تھوڑی سی تبدیلی سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ بحروں کے انتخاب سے شاعر کو آزادی مل گئی اور دوسرا یہ کہ ایک مختصر ترین صنفِ سخن وجود میں آئی جس میں خیال کو اور بھی احتیاط کے ساتھ نظم کرنے کی ذمہ داری شاعر پر عائد ہوتی ہے‘۔
میری ثلاثیاں چھپتی رہیں اور مشاعروں میں بھی پسند کی جانے لگیں چنانچہ دوسرے شعرأ نے بھی اس صنف کو اپنا لیا اور جاپانی صنف ’ہائیکو‘ کے ساتھ کبھی کبھی ثلاثی کو بھی نوازتے رہے ۔ بزرگ شعرأ میں حضرت راغب مراد آبادی نے اس کی طرف خاص توجہ دی ۔اُن کی ثلاثیوں کا مجموعہ ’سخنِ مختصر‘ کے نام سے شائع ہونے والا ہے جس کا انتساب اُنہوں نے میرے نام کیا ہے
حمایت علی شاعرِ خوش کلام
ثلاثی ہے جن کی لطیف اختراع
ہے مجموعے کا انتساب اُن کے نام
راغب صاحب اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کا پنجابی میں بھی ایک مجموعہ ہے’تاریاں دی لو‘،اُس میں رباعیات بھی ہیں اور ثلاثیاں بھی،ایک ثلاثی میں مجھے یوں نوازا ہے
ثلاثی اے اردو وچ ایجاد اوہدی
حمایت علی جنھوں کہندے نیں شاعر
وسے دل چِ پنجاب دے یاد اوہدی
بعض شعرأ نے ثلاثی کو اپنا تو لیا مگر اُسے من مانے انداز میں لکھنے لگے اور نت نئے نام دینے لگے۔میں نہیں جانتا کہ یہ کام لاعلمی میں سرزد ہو رہا ہے یا ثلاثی کی صنفی وحدت کو منتشر کرنا مقصود ہے۔حال ہی میں محترمہ رعنا قبال کی ایک کتاب ’تثلیث یا ثلاثی‘ کے نام سے شائع ہوئی (۲۰۰۵ء) اس میں وہ سارے مباحث اور مضامین تاریخ وار جمع کر دیے گئے ہیں جو اس سلسلے میں ۱۹۶۰ء سے ا ب تک مختلف رسائل میں چھپتے رہے۔کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔کراچی کے ایک بزرگ شاعر حنیف اسعدی نے اپنے تین مصرعوں کو قافیے کو پابند کر دیا اور اُسے ’سہ مصرعی ‘کہنے لگے۔
۲۔ انڈیا کے شاعر قمر اقبال نے ’تتلیاں‘ کے نام سے ۱۹۸۱ء میں ایک مجموعہ شائع کیا اور اپنے تین مصرعوں کو ’تثلیث‘ ہی سے موسوم کیا۔
۳۔ انڈیا کے مشہور فلم ڈائریکٹر اور نغمہ نگار گلزار اپنے تین مصرعوں کو ’تروینی‘ کہتے ہیں اور اُنہیں قافیہ ردیف کا پابند نہیں رکھتے۔
۴۔ انڈیا ہی کے ایک شاعر علیم صبا نویدی نے ’ترسیلے‘ کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا ۔
۵۔ انڈیا ہی کے ایک شاعر صابر زاہد اپنے تین مصرعوں کو ’مثلثے‘ کہتے ہیں۔
۶۔ انڈیا میں کچھ شاعر ’ترائیلے‘ کے نام سے تین مصرعے لکھتے ہیں(اردو ادب کی مختصر تاریخ۔ڈاکٹر انور سدید) ’ترائیلے‘فرانسیسی زبان کی صنفِ سخن ہے جو آٹھ مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے اس میں صرف ایک مصرعہ تین بار دہرایا جاتا ہے۔
۷۔ پاکستان کے ایک شاعر ساحل احمد بھی تین ہم قافیہ مصرعوں کو ’مثلث‘ کا نام دیتے ہیں۔(اردو ادب کی مختصر تاریخ)
۸۔ ایک مزاح نگار شاعر نے اسے ’تپائی‘ کا نام دے رکھا ہے۔
۹۔ حیدرآباد،سندھ کے ایک شاعر ظافر تشنہ کا ۲۰۰۳ء میں ایک نعتیہ دیوان ’کجری‘ کے نام سے شائع ہوا ہے اس میں تین مصرعوں پر مشتمل مختلف نظمیں ہیں۔’کجری‘ پوربی زبان کا لوک گیت ہے جو شمالی ہند میں بہت مقبول ہے۔
۱۰۔ لندن کے ایک شاعر انور شیخ نے اپنی ایک شعری صنف کا نام ’تکونی‘ رکھا تو لندن ہی کے ایک نقاد محمود ہاشمی نے ’ثلاثی‘ کو اس سے ملوث کر دیاحالانکہ یہ صنف تین مصرعوں کی بجائے تین بندوں پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر بند میں چار چار شعر ہوتے ہیں۔مگر ہمارے محترم نقاد نے شائد اس کا صرف نام پڑھا ہے کلام نہیں دیکھا ۔ (نقاد جو ٹھہرے)‘
حیرت ہے کہ اس کتاب میں بھوپال کے ایک شاعر کوثر صدیقی کے’کارناموں‘ کا کہیں ذکر نہیں۔ ہندوستان میں یہ مشہور کیا گیا ہے کہ کوثر صدیقی ’ثلاثی کے موجد‘ ہیں۔اُن کی شخصیت اور شاعری پر ایک ضخیم کتاب بھی اُن کے صاحبزادوں نے مرتب کی ہے جس میں برادرم اثر فاروقی کے سوا سبھی اہلِ قلم نے اُنہیں یہ اعزاز عطا کر دیااور دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف نے کہیں تردید نہیں کی۔اُن کی خاموشی ’اعتراف‘ کے مترادف ہے ناطقہ سر بہ گریباں ہے اِسے کیا کہیے ( غالبؔ)
حمایت علی شاعر
خود فریبی ایک سوال
دل کی وحشت کسی عنوان تو کم ہو جائے تخلیق ہوں شعور کی یا لاشعور کی
زندگی اپنے لیے اور بھی ہو جائے عذاب میری طرح جہاں میں کوئی دوسرا نہیں
ہم سے جنت کا تصور بھی اگر کھو جائے یہ عجز کی ہے بات کہ فن پر عبور کی
(حمایت علی شاعر کی دو ثلاثیاں)