شہناز خانم عابدی (کینیڈا)
جی چاہتا ہے میں بھی کچھ کہوں۔یوں کہنے کو تو بہت کچھ ہے، سمجھ میں نہیں آتا کیا کہوں کیا نہ کہوں۔ جا وید نہ صرف ایک اچّھے رفیقِ حیات ہیں بلکہ وہ میرے ایک اچّھے دوست بھی ہیں۔جا وید کی پہلی کتاب’’موجِ صد رنگ‘‘ کے شائع ہونے کا مجھے اس وقت پتہ چلا جب م۔ع سلام مرحوم نے جاوید کو اطلاع دی کہ ہماری میٹنگ میں آپکی کتاب چھاپنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ شاید اس لئے کہ وہ زمانہ میری بے حد مصروفیت کا زمانہ تھا۔چھوٹے چھوٹے بچّے اورمیری اپنی تعلیم ۔۔۔۔۔یہ بھی جاوید کی بڑائی ہے۔ جب میری شادی ہوئی تھی۔ میں نے انٹر کا امتحان دیا تھا، جاوید نے میری تعلیم جاری رکھی اور ہر قدم پر میرے لئے مددگار ثابت ہوئے۔ میں تو خیر ان کی شریکِ حیات ہوں لیکن ہر کسی کو اٹھا کر بلندیوں تک پہنچاناشاید ان کا مشغلہ ہے جس سے خا صے لوگ مستفید ہو چکے ہیں، ان کے اس مشغلے سے اگر کسی کو نقصان پہنچاہے تو ان کے پیاروں کو جن میں ، میں اور بچّے شا مل ہیں یا پھر خود ان کو ۔ جب میں دیکھتی ہوں کہ وہ اپنا اخلاص غلط آدمیوں پر ضائع کر رہے ہیں تو مجھے افسوس بھی ہوتاہے اور غصّہ بھی آتا ہے مگر وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں ’’میں یہ سب اللہ کی خوشنودی کے لئے کر تا ہوں۔ میرے اچّھے سلوک کے بدلے اگر کوئی برا سلوک کرتا ہے تو اللہ کے پاس مثبت مارکس کے امکا نا ت بڑھ جا تے ہیں‘‘
جاوید ایک اچّھے آدمی اور بہت اچّھے انسان ہیں، ہر ایک کے دکھ درد کو اپنا بنا لیتے ہیں۔بلکہ ان کے لئے یہ کہنا بہتر ہوگا
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
دروغ گوئی ان کی طبیعت میں با لکل نہیں ہے صاف اور سچّی بات کرتے ہیں۔ حسد اور کینہ پروری ان کی فطرت کو چھو کر نہیں گئی،اپنے دشمنوں کو معاف کردیتے ہیں۔کبھی کسی سے بدلہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔اگر کوئی دشمن اپنے کسی کام سے آئے تو پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس کا مسئلہ حل کر دیں۔ لیکن ا س سے تعلقات نہیں رکھتے
جا وید کی طبیعت میں لحاظ اور مروّت بہت ہے۔ اس پر ایک واقعہ یاد آیا۔ کسی سیمینار کے دوران ایک مشہور ومعروف دانشور اور ادب نواز سول سرونٹ نے اپنی صدار تی تقریر میں جاوید کے ایک فقرے پر اعتراض کیا جو علّامہ اقبال کے بارے میں تھا وہ فقرہ علّامہ اقبال کے ایک مکتوب سے لیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے اعتراض بے بنیاد تھا ۔ جاوید نے ان صاحب کو سرِ جلسہ نہیں ٹوکا، جاوید کی منطق یہ تھی کہ اگر جواب میں ان سے میں یہ کہتا کہ یہ فقرہ میرا نہیں ہے میں نے علّامہ اقبال کے ایک مکتوب سے لیا ہے تو حاضرینِ جلسہ ضرور ان کی ہنسی اڑاتے۔جہاں تک مشا عروں کا تعلق ہے جاوید بہت کم جاتے،اگر کبھی کہیں جانا ضروری ہو تو مشاعروں کی عام روش سے ہٹ کر جاوید اپنا تازہ ترین کلام سناتے ہیں۔انہو ں نے نہ تو کوئی مشاعرہ لو ٹااور نہ کسی مشا عر ے میں لٹے(ہوٹ ہوئے)۔سیمینار اور مذاکروں میں بھی جاوید کا انداز منفرد ہو تا ہے شرکائے مذاکرہ کے ناموں سے مرعوب ہوئے بغیروہ اپنا موقف بے لاگ انداز میں پیش کرتے ہیں۔وہ نہ اہلِ اقتدار کو خاطر میں لا تے اور نہ ہی حا ملانِ جبّہ ودستار سے اختلافِ رائے کے نتائج کی پروا کرتے ۔ اب تو یہ سب خواب کی باتیں لگتی ہیں۔
حملۂ قلب کے بعدجاوید نے عز لت اختیار۔انتہائی نجی نشستوں میں ایک دو مرتبہ لے جایا جائے تو چلے جا تے ہیں ۔جاوید بہت حساس دل رکھتے ہیں۔ خود بھی بہت جلد دکھی ہو جاتے ہیں اور اگر ان کی طرف سے کسی کے لئے کوئی کوتاہی سرزد ہوجائے تو اس کی خلش برسوں محسوس کرتے ہیں ۔
دو سال پہلے کا وا قعہ ہے جاویدکسی سے ملنے گئے۔ اتوار کا دن تھا ،ہمارے ڈرائیور صاحب کو تبلیغی جماعت وا لوں کے ساتھ جانا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ جن صاحب سے ملنے گئے تھے ان صاحب کو لاہور یا اسلام آباد جانے کے لئے ایئر پورٹ جا نا تھا۔ملاقات کے بعد وہ صاحب جا وید کو چھوڑنے باہر آئے۔وہ صاحب ایک باوضع آدمی ہیں اور یوں بھی وہ ہمیشہ جاوید کو باہر تک چھوڑتے ہیں ۔باہر ان کا سفری بیگ با لکل تیّار رکھا تھا ۔جا وید کا بہت دل چاہاکہ ڈرائیور صاحب کو کہیں ایئر پورٹ چھوڑ نے کے لئے مگر جاوید یہ بھی جانتے تھے کہ ڈرائیور صاحب مذہب کے معاملے میں بہت سخت ہیں ہر گز نہیں راضی ہوں گے۔بادلِ نا خواستہ ان صاحب سے رخصت ہو کر گاڑی میں بیٹھ گئے لیکن انہیں اس بات کا بہت افسوس رہا اور اب تک ہے ۔ کہتے ہیں میں ان صاحب سے دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوں۔ظاہر میں جو باتیں بہت چھوٹی محسوس ہوتی ہیں وہ ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتی ہیں۔
’’موجِ صد رنگ ‘‘ جب میرے ہاتھوں میں آئی اس کے گرد پوش کا ڈیزا ئن اور رنگ بہت پسند آیا۔جاوید کا
کلام میں نے راتوں رات پڑھ لیاان کی بیش تر غزلیں اور نظمیں میں نے پہلے بھی پڑھی تھیں کیوں کہ مختلف رسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا رہتا تھا،مشاعروں میں بھی سننے کا موقع ملا تھا اور ایک دو مرتبہ ریڈیو سے بھی سنا تھا۔’’موجِ صد رنگ‘‘کے بعد ایک طویل وقفہ ، کچھ تو حملۂ قلب اور کچھ اپنے کام میں تساہل ۔دوسروں کے کام میں جان لگادیتے ہیں ،پوری پوری رات جاگ کر کام کریں گے مگر اپنے کام میں سستی او ر طبیعت کی بے نیازی ان پر مجازؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکی
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئی
کون شاعر ایسا ہے جس کو اپنے اشعار کی اشا عت بھلی نہ لگے۔ شہرت کسے پیاری نہیں ہوتی جاوید بھی تمام تر بے نیازی کے باوجودکلام کی اشاعت چا ہتے ہیں مگر یہ کام ان کے بس کا نہیں۔۔۔اگر اس معاملے کو میں اپنے ہاتھوں میں نہ لیتی تو شاید اس کتاب کی اشاعت کبھی عمل میں نہیں آتی ۔ اگر اس فقرے کو آگے لے جایا جا ئے تو یوں ہوگا کہ معروف صحافی او ر ’’ شاعر کائنات ‘‘( روز نامہ ’’کائنات‘‘ سے تعلق کی رعا یت سے ) جناب صابر وسیم صاحب کا تعاون شاملِ حال نہ ہوتا تو شاید میرا یہ خواب شرمندۂ تعبیرنہ ہوتا۔ میں جاوید کی اور اپنی جانب سے ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔اب اجازت۔