سیاہ عبایا پہنے خاکی رنگ کے لانگ کوٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے وہ اس کی طرف آرہی تھی ۔
میں نے کہا تھا کی میں پسٹل گھر دے جاؤں گا ارسا۔
میں پسٹل کی وجہ سے نہیں آئی۔ یہ بارش مجھے یہاں لائی ہے ۔ وہ دونوں اب ساتھ چلنے لگے۔
خیریت تو ہے آج جج صاحبہ کا موڈ اتنا خوشگوار ہے؟
ہمممم ۔۔ اس نے لمبی سانس لی۔
میں نہیں جانتی کیوں لیکن آج میں اپنا آپ خوش محسوس کررہی ہوں ۔ آج میرا دل عجیب انداز میں دھڑک رہا ہے۔ مجھے ہر چیز بہت اچھی لگ رہی ہے ایسے لگ رہا ہے جیسے لاہور کو پہلی دفعہ دیکھ رہی ہوں۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
حیرت کی بات ہے اس سب کے باوجود تم مجھے آج بھی اچھے نہیں لگ رہے۔ وہ ہنسی تھی۔
میری ایسی قسمت کہاں جو آپ جناب کو اچھا لگوں ۔ وہ اب تیز تیز چلنے لگا۔ ارسا اس سے تھوڑا پیچھے رہ گئی تھی ۔
سنو میں نے زالان کے بارے میں بہت سوچا اور میں اس نتیجے پر پہنچی کہ آج رات جب میں اس سے ملوں گی تو پہلے اس سے پوچھوں گی کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔ اگر وہ واقعی مجھے مارنا چاہتا ہے تو اسے کبھی نہیں پتہ چلے گا کہ میں فاطمہ حیدر ہوں ۔ لیکن اگر وہ مجھے نہیں مارتا تو اسے یہ بتانے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے ۔ حدید کے قدم رکے تھے اس نے مڑ کر ارسا کو دیکھا ۔
آج کچھ نہیں کہو گے ۔ حدید نے نفی میں سر ہلایا ۔
میں جانتا ہوں کہ ارسا ہاشم جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ٹھیک ہوگا ۔ وہ مسکرایا تھا ۔ ارسا نے فخر سے اپنے کوٹ کے کالر جھاڑے ۔
سو تو ہے ۔ وہ دونوں دوبارہ چلنے لگے ۔
تم جانتی ہو ارسا ! مجھے لگتا تھا کہ لڑکیاں کچھ بھی کرلیں لیکن وہ لڑکوں کے مقابلے میں نہیں آسکتی ۔ لیکن اپنی زندگی میں ہر راستے ہر منزل میں میں نے ارسا ہاشم کو ہمیشہ اپنے برابر میں دیکھا ہے ۔ ظالم ملکہ ہمیشہ میرے مقابلے پر رہی ہے ۔ پانی کی ایک بوند ارسا کے ہاتھ پر گری تھی ۔
دنیا کی انمول کتابوں میں لکھا جائے گا کہ:
” ایک لڑکا تھا حدید معصوم سا اور
ایک لڑکی تھی مغرور سی
وہ دونوں عجیب تھے بہت عجیب ”
میں تو عجیب نہیں ہوں عجیب تو تم ہو نمونے ۔ حدید ہنسا تھا ۔
حدید ایک بات بتاؤ تم نے زندگی سے کیا سیکھا؟ اس نے تیز آواز میں کہا
بہت کچھ ۔
وقت نے ، لوگوں نے ، زندگی نے ، مجھے بہت سے سبق دیئے ہیں۔ لیکن سب سے انمول جو سبق ملا وہ خود پر یقین کرنے کا تھا ۔ کچھ بھی ہو جائے کتنی ہی آزمائشیں امتحانات آجائیں خود پر یقین رکھنا ہے چاہے آپ موت کو ہی اپنے سامنے کیوں نہ دیکھ لیں ۔خود پر یقین ہی آپ کو اپنی منزل تک پہنچائے گا ۔
اپنا بتاؤ۔ وہ اب بھاگ رہا تھا ۔ ارسا اب بھی آہستہ چل رہی تھی۔
وقت نے مجھے سکھایا کہ اگر آپ کی زندگی بے رحم ہے تو آپ بھی بے رحم بن جاؤ۔ یہ دنیا رحمدل اور کمزور لوگوں کے لیئے نہیں بنی ۔ اگر آپ اس دنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو مضبوط اور بے رحم ہونا ہوگا ۔ لیکن بے رحم کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مظلوموں پر بھی رحم نہ کھاؤ ۔ آپ کو بے رحمی صرف بے رحم لوگوں کے معاملے میں دکھانی ہے ۔ خود کو مضبوط کریں لیکن پتھر دل نہیں ۔ بے رحم بنیں لیکن ظالم نہیں ۔ پانی کی ایک بوند اس کی کھڑی ناک پر گری تھی۔ اور نقاب پر پھسلی تھی ۔
ایک اور بات جو مجھے وقت نے سکھائی۔ بی نیگیٹو۔ وہ مسکرائی
بی پازیٹیو صرف نصیحتوں میں اچھا لگتا ہے ۔ اگر آپ ہر چیز یا ہر معاملے کو پازیٹیولی دیکھنے لگے تو لوگ اس بات کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے ۔ ایک وقت آئے گا کہ آپ کو سب کو پازیٹیولی دیکھنے کی اتنی عادت ہوجائے گی کہ اپنے دشمن آپ کو دوست لگیں گے ۔ یوں نہیں کہ آپ چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کے باری میں نیگیٹو سوچیں ۔ بس ہر چیز کو پازیٹیو مت لیں ۔ آپ بیچ میں رہیں ۔ نا نیگیٹو نا پازیٹیو ۔ درمیانہ ۔ اگر آپ کسی چیز کو پازیٹیو لے رہے لیکن اس کے بارے میں نیگیٹو خدشات بھی رکھیں تاکہ وقت آنے پر آپ کو سچائی قبول کرنے میں دقت نا ہو ۔ اس طرح ہی آپ کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ حدید رکا تھے ۔ اس نے مڑ کر ارسا کو دیکھا ۔ پھر مسکرایا ۔
یقیناً۔۔ مختلف لوگ ، مختلف کردار ، مختلف کہانیاں ، مختلف امتحانات ، مختلف احساسات ، مختلف سوچ ۔ اس نے کہا
اور پھر مختلف اختتام۔ اس نے حدید کی بات مکمل کی ۔ حدید نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر اپنے ٹراؤزر کی پاکٹ سے ایک پسٹل نکالی ۔ گولڈن کلر کی نفیس وہ پسٹل بہت خوبصورت تھی ۔ اس نے وہ پسٹل ارسا کی طرف بڑھائی ۔ جسے اس نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔
جانتے ہو حدید یہ یہ پسٹل مجھے ہمیشہ سے اچھی لگتی تھی ۔ میرے پاس بہت سی پسٹلس ہیں لیکن یہ سب سے مختلف ہے ۔ کیونکہ یہ ایک سائلینسر پسٹل ہے۔( وہ پسٹل جس سے فائر کرنے کی آواز بہت کم ہو عام پسٹلس کے مقابلے میں )۔ اس نے پسٹل کو لوڈ کیا اور درخت کا نشانہ لے کر فائر کیا۔ ہلکی سی آواز کے ساتھ گولی پسٹل سے نکل کر درخت کی لکڑی میں لگی تھی۔
یہ پسٹل تمہارا تحفہ سمجھ کر رکھوں گی ۔ حدید نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔
محترمہ یہ پسٹل آپ نے مجھ سے معافی کے بدلے کی ہے ۔ ارسا نے اثبات میں سر ہلایا۔
لیکن ساتھ میں کافی کا بھی کہا تھا ۔ لیکن کل جو کافی تم نے پلائی تھی یقین کرو میں نے کبھی اتنی بری کافی نہیں پی تھی۔ وہ اب دوبارہ چلنے لگے۔
پتا ہے اب مجھے تم کافی بنا کر دو گے اچھی سی۔
نیور ۔ بھلا اتنا ہینڈسم اور معصوم لڑکا کافی بناتا اچھا لگے گا۔ ان کی آوازیں دور جارہی تھیں۔
میرا یقین کرو اگر تم جج نہ ہوتے تو تم کافی شاپ کے مالک ہوتے اور میں تمہاری ڈیلی کسٹمر۔ ارسا کی ہنسی گونجی تھی ۔ بارش کے قطرے ان کے قدموں کے نشانات پر گر رہے تھے۔ مسلسل ۔۔۔۔
———- ———–
ٹھوکر سے میرا پاوں زخمی ہوا ضرور
مگر راستے میں جو کہسار تھا وہ ہٹ گیا۔۔
سنو ہادیہ ۔ اس نے ہادیہ کو بلایا ۔ آج اس کے کسی کیس کی پیشی نہیں تھی اسی لیے وو کورٹ سے جلدی آگئی تھی ۔ ہادیہ بھی آج صبح ہی آگئی تھی ۔
آج رات مجھے باہر جانا ہے تریباً 30 : 10 بجے تک ۔ اس کی بات سن کر ہادیہ کو جھٹکا لگا ۔ کیونکہ وہ کورٹ کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی ۔ ایک جج بنننے کے بعد سب سے پہلے آپ کی سوشل لائف ختم ہوتی ہے ۔ وو کبھی کسی مارکیٹ یا شاپنگ پر نہیں جاتی تھی اور اب اچانک باہر جانا وو بھی رات کو ہادیہ کو پریشان کر رہا تھا ۔
ہیلو ہیلو آواز آرہی ہے ہیلو ۔ ارسا کے بولنے پر ہادیہ سوچوں سے باہر آئی ۔
ہاں بولو۔ ہادیہ نے بے دھیانی سے کہا ۔ ارسا نے حیرت سے اسے دیکھا
آج مجھے باہر جانا ہے ۔ رات کو بنا گارڈز کے ۔ امی ابو کو ہینڈل کرلینا اور گیسٹ روم صاف کروادینا ۔ میرے ساتھ ایک گیسٹ بھی ہوگا نہیں۔ مطلب گیسٹ نہیں مطلب امممم ۔ وہ تیز تیز بولتی سوچ میں پڑ گئی ۔
مطلب کے اپنا ہی بندہ ہوگا ۔ ہاں ۔ اس نے ہادیہ کی طرف دیکھا جو ناسمجھی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
کون ہوگا یہ اپنا بندہ ؟
اب یہ تو جب وہ آئے گا تبھی پتا چلے گا ۔ وہ مسکرائی اور اندر کی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
عجیب لڑکی ہے ۔ ہادیہ بڑبڑائی ۔
————- ——–
مجھے زندگی میں قدم قدم پر تیری رضا کی تلاش ہے
تیرے عشق میں میرے خدا مجھے انتہا کی تلاش ہے ۔
آہ نہ کر لبوں کو سی
عشق ہے دل لگی نہیں
سینے پر تیر کھاۓ جا
آگے قدم بڑھائے جا
یعنی زبان حآل سے
کہ دے کے ہاں ستائے جا
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں۔
وہ گنگناتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اسکارف سی نقاب لگا رہی تھی ۔ نقاب لگا کر اس نے ٹھوڑی پر ٹکایا اور ٹیبل کے برابر میں بنے کبڈ کو کھولا ۔ کبڈ میں بہت سے ہینگر لٹکے ہوے تھے ۔ جن میں سیاہ چغے ، سیاہ اپرز ، لانگ کوٹ لٹکے تھے ، نیچے بلیک جاگرز ، لانگ شوز ، پڑے تھے ۔ جبکہ بیچ میں ایک دراز تھی ۔ اس نے مسکراتے ہوۓ ایک ہینگر اٹھایا اور بیڈ پر رکھا واپس کبڈ تک آئی اور وہ دراز کھولی ۔ وہاں پر مختلف پسٹل رکھی تھیں ۔ اس نے آگے بڑھ کر گولڈن پسٹل اٹھائی اور اسے لوڈ کر کی بیڈ پر پھینکا نیچے۔ جھک کر جوگرز اٹھے ۔ بیڈ کے پاس آئی اور چغے کو کندھے پر لٹکایا ۔
(میں تو کہتی ہوں بھاڑ میں جائے سب مجھے تو بس ایک کالا چغہ دو میں جا رہی ہوں قبرستان قبریں کھودنے ۔
تمہارے پیچھے کوئی بدر غازان نہیں آئے گا ارسا ۔
مجھے کسی بدر غازان کی ضررورت بھی نہیں ہے )
وہ اب گردن کے نیچے ڈوری بند کر رہی تھی ۔
(بھئی مجھے نا ایک پسٹل دو ، دو تین خنجر دو۔ میں جا رہی ہوں ڈاکو بننے )
وہ اب جھک کر جاگرز پہننے لگی ۔
( کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ میں بلیک اپر پہنوں ہڈ سر پر گراوں ایسے کہ میرا چہرا نظر نا ہے ایٹیٹیوڈ بوائے کی طرح اور کہیں روپوش ہوجاوں کتنا مزہ آئے گا نا )
اس نے بیڈ پر پر پسٹل اٹھائی ۔
یا اللہ خیر ۔ اس نے چونک کر پیچھے دیکھا جہاں ہادیہ دل پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی ۔
ڈرا دیا تھا تم نے ظالم ۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگی ۔ ارسا چپ چاپ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی ۔
خیر یہ اس طرح کے گیٹ اپ کی کیا ضرورت تھی ۔ کسی قاتل سے ملنے جا رہی ہو یا کسی ڈاکو سے ؟ ہادیہ نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا ۔ ارسا نے کندھے اچکائے اور باہر چلی گئی ۔ جبکہ ہادیہ پریشانی سے اس کی پشت کو گھور کر رہ گئی ۔
———– ———-
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔
چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔ بڑھتی سردی لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رہی تھی ۔ لیکن اس ٹھٹھرتی سردی میں وہ لاہور کی اس تنگ سی گلی میں ایک بند دکان کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا ۔ دکان کے شٹر سے ٹیک لگائے دو سیڑھیاں چھوڑ کر تیسری سیڑھی پر پاؤں رکھے وہ چاند کو دیکھ رہا تھا ۔ سفید شرٹ پر سیاہ اپر پہنے ہڈ کو کمر پر گرائے سیاہ ہی پینٹ اور جاگرز پہنے ، سفید رنگت لیئے وہ ہمیشہ کی طرح ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں اداسی چھائی ہوئی تھی ۔ سیاہ بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے ۔وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا ۔
( سورج کی روشنی سیاہ سڑک پر چلتی پراڈو کے شیشے سے ٹکرا رہی تھی ۔ ڈرائوینگ سیٹ پر بیٹھے زالان کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی ۔ آج پورے دس سال بعد وہ اپنی گڑیا سے ملنے جا رہا تھا ۔ ان دس سالوں میں اس نے اس دن کے لیئے بہت محنت کی تھی ۔ یتیم خانے سے نکل کر وہ حسیب کمانڈر (جو ایک مشن کے سلسلے میں اس گاؤں آئے ہوئے تھے) کے گھر گیا تھا ۔ وہاں سے اس کی ایک الگ زندگی شروع ہوئی ۔ اس کی تعلیم مکمل کروائی گئی ۔ اسے بھرپور ٹریننگ دی گئی ۔ انتقام کے جذبے کو دل میں لیئے اس نے ہر مشکل وقت گزارا ۔ ان دس سالوں میں وہ انٹیلیجنس کی مدد سے ایک طاقتور مافیا گینگ بنا چکا تھا جس کی مدد سے وہ ملک میں اسمگلنگ پر کنٹرول پارہے تھے ۔ بہت سے بڑے بڑے گینگز کو اس کی مدد سے انٹیلیجنس نے پکڑا تھا ۔ وہ انٹیلیجنس کا ایجنٹ بن چکا تھا ۔ جو ہر مشن میں فاتح بن کر لوٹا تھا۔ گاڑی یتیم خانے کے باہر رکی تو وہ اپنی سوچوں سے باہر آیا ۔ وہ چھوٹا سا یتیم خانے اب ایک بڑی سی بلڈنگ میں تبدیل ہو چکا تھا ۔ وہ تیزی سے گاڑی سے اترا اور اندر کی جانب بڑھا۔ کاریڈور سے گزرتے ہوئے وہ آفس کے اندر داخل ہوا ۔ جہاں ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا تھا ۔
اسلام و علیکم۔ اس نے مصافحہ کیا۔
اور کرسی پر بیٹھ گیا ۔ دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھے۔
جی فرمائیے ۔ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں ۔
میرا نام زالان حیدر ہے ۔ دس سال پہلے میں اور میری بہن اپنے ماں باپ کی ڈیتھ کے بعد یہاں آئے تھے ۔ کچھ ہفتوں بعد میں تو یہاں سے چلا گیا تھا جبکہ میری چھوٹی بہن یہیں تھی ۔ اس کا نام گڑیا۔۔۔۔ جلدی جلدی میں وہ گڑیا کہ گیا تھا۔
اس کا نام فاطمہ حیدر ہے ۔ آپ مجھے اس سے ملوا سکتے ہیں ؟ اس نے تصیح کرتے ہوئے کہا۔ انداز سے بے چینی جھلک رہی تھی ۔
مسٹر زالان بات دراصل یہ ہے کہ آپ کے جانے کے بعد آپ کی بہن بہت بیمار ہوگئیں تھیں ۔ مقابل نے سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کہا۔
ایک دن وہ یہاں سے غائب ہوگئیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ خود یہاں سے گئیں یا کوئی انہیں لے گیا۔ کچھ پتا نہیں چلا اور اب تو دس سال ہوگئے ہیں ۔کون جانے کہ اب وہ زندہ بھی ہیں یا۔۔۔اس آدمی کی بات بیچ میں ہی رہ گئی ۔ زالان کرسی سے اٹھا اور آفس سے باہر نکلا ۔ کاریڈور میں چلتے ہوئے وہ دیوانوں کی طرح وہاں بنے کمروں میں جھانکنے لگا۔
جھوٹ بول رہے ہو تم لوگ ۔ میری گڑیا اپنے بھائی کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی ۔ میں جانتا ہوں وہ یہیں ہیں ۔ وہ چلا رہا تھا ۔ کچھ گارڈز اس کی جانب بڑھے ۔ وہ اب چلاتا ہوا گراؤنڈ میں داخل ہوا ۔ گارڈز نے اسے پکڑ لیا ۔
چھوڑو مجھے چھوڑو ۔ میں خود اپنی گڑیا کو ڈھونڈوں گا ۔ وہ دیوانہ وار خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ آنکھوں سےآنسو بہ رہے تھے ۔ آخر تھک کر وہ نیچے بیٹھ گیا ۔
وہ کیسے جاسکتی ہے ؟ وہ مجھے کیسے چھوڑ سکتی ہے ؟ سر جھکائے وہ روتے ہوئے بڑبڑارہا تھا ۔ سب کے لیئے یہ ایک عجیب منظر تھا ۔ بائیس سالہ وہ مرد اپنی بہن کے لیئے تپتے فرش پر بیٹھا تو رہا تھا ۔ لیکن وقت کا کام گزرنا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ بھی اپنی زندگیوں کی طرف واپس آجاتے ہیں۔ شدید ڈپریشن ، ذہنی دباؤ کے بعد وہ بھی اپنی زندگی کی طرف لوٹا تھا لیکن مردہ دل کے ساتھ ۔ خود کو سنبھالنے میں ہادی نے اس کی بہت مدد کی تھی ۔ اب وہی اس کے لیئے سب کچھ تھا ۔ ایک دوست ایک بھائی سب کچھ ۔ اور اب پانچ سال بعد اس کی ملاقات ارسا ہاشم سے ہوئی ہے جس کی آنکھیں گڑیا جیسی ہیں ۔ لیکن اسے ارسا ہاشم کو مارنے کا آرڈر ملا ہے ۔ اور اگر وہ یہ نا کر سکا تو ہادی اسے ماردے گا ۔ عجیب امتحان میں تھا وہ ۔ اپنی پسٹل اٹھاتے اٹھاتے وہ اسے گھر ہی چھوڑ آیا تھا ۔ اسے کچھ وقت چاہیئے تھا خود کو سنبھالنے کے لیئے ۔ )
ہینڈز آپ یو آر انڈر اریسٹ۔ وہ چونکا تھا ۔ ایک لڑکی کی رعب دار آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔ اپنی کنپٹی پر پستول کی نال محسوس ہوئی۔ زالان نے فورا اپنے آنسو صاف کیئے اور چہرہ پیچھے موڑا ۔ سیاہ چغے میں مسکراتی آنکھوں کے ساتھ وہ گولڈن گن اس کی کنپٹی پر رکھ کر کھڑی تھی ۔
اے زندگی!
مجھے تو بتا۔۔۔۔۔۔۔
میں تجھے کہاں ملوں؟
جہاں کوئی غم نہ ہو ،
جہاں آنکھیں نم نہ ہوں،
جہاں دل میں خواہشوں کی،
تھوڑی سی بھی پیاس نہ ہو۔۔۔۔۔۔
جہاں زندگی اداس نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں سنگدل تنہائی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں خوشیوں سے جدائی نہ ہو۔۔۔۔۔
اے زندگی !
مجھے تو بتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تجھے کہاں ملوں ؟ ؟
جہاں راحتیں ازل سے نصیب ہوں۔۔۔۔۔۔۔
جہاں بہاروں کی نوید ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں اپنوں سے سب قریب ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے زندگی !
مجھے تو بتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تجھے کہاں ملوں؟؟؟؟؟
———— ——
Sneak peak of last episode
رات کے ایک بجے وہ دونوں بند دکان کی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے ۔ چاند کی روشنی ان کے چہروں پر پڑ رہی تھی ۔ سفید رنگت پر پڑتی روشنی دونوں کے مسکراتے چہرے ۔ یہ ایک خوبصورتی سے بھرپور منظر تھا ۔ جیسے اگر کوئی اور وہاں آگیا تو منظر کی خوبصورتی چلی جائے گی لیکن ہر دفع وہی نہیں بوتا جو ہم چاہیں ۔ جہاں خبصورتی ہوتی ہے بدصورتی بھی وہیں پیدا ہوتی ہے ۔ جہاں مسکراہٹ ہوتی ہے آنسو بھی وہی گرتے ہیں جہاں بہار ہوتی ہے خزاں بھی وہی آتی ہے ۔
ارسا تم نے مجھے بتایا نہیں کے تم وہاں سے کیسے نکلیں اور تمہارے امی ابو یہ سب کیسے ہوا ؟ زالان نے جھک کر اپنے جوتوں کے تسمے ٹائیٹ کرتے ہوۓ کہا ۔
اس کی بات پر ارسا اٹھی اور سیڑھیاں اتر کر نیچے کھڑی ہوئی ۔ زالان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو ارسا نے اسے نیچے آنے کا اشارہ کیا ۔ زالان بھی سیڑھیاں اتر کر اس کے پاس آیا ۔ بند دکان کی پچھلی جانب کھرے نقاب پوش نے اپنی گن لوڈ کی ۔
مسٹر زالان رات ہوچکی ہے اب گھر چلیں باقی کہانی میں آپ کو صبح بتاؤں گی ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
لیکن میں کیسے ؟
لیکن ویکن کچھ نہیں تم میرے ساتھ آرہے ہو ۔ ارسا نے اسے گھورا تھا ۔
ٹھیک ہے چلو ۔ لیکن اس سے پہلے کے وہ اپنے قدم اٹھاتے فضا میں فائر کی آواز گونجی ۔ گن سے نکلی گولی برق رفتاری سے زالان کی پشت کی جانب بڑھی ۔ جسے ارسا نے بخوبی دیکھا ۔ غیر ارادی طور پر اس نے زالان کو دھکا دیا وہ منہ کے بل نیچے گرا ۔ نیچے پڑا پتھر اس کے ہونٹ پر لگا وہاں سے خون بہنے لگا ۔ جبکہ گولی تیز رفتار سے ارسا کے دل میں لگی تھی ۔۔۔
———– ——-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...