”مجھے پاکستانیوں سے نفرت ہے۔۔۔ شدید نفرت۔۔۔ اگر میرا بس چلے تو یہاں سانس لینے والے کسی انسان کو زندہ نہ چھوڑوں“ وہ نفرت کے شعلے برساتی سبز آنکھوں سے کھڑکی کے پار نظر آتی سڑک پر چہل قدمی کرتے ہنستے مسکراتے چہروں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ واقعی سب کو جلا کر بھسم کر دیتی۔
”کیوں؟ “ وہ اپنے سے دس سال چھوٹی اس لڑکی کی بات سن کر حیران ہوا تھا۔
”وہ جس کی عزت بچانے کے لئے ایک باپ نے جان دی تھی۔۔۔ وہ جس کی عزت کو بچانے کی خاطر ایک ماں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کی سانسیں روکی تھیں۔۔۔ تمہارے اس ملک کے لوگوں نے اسی کی عزت کو برباد کیاہے۔۔۔لٹیرے ہو تم لوگ لٹیرے “اس نے تین دن بعد منہ سے لفظ نکالے تھے اور کسی زخمی شیرنی کی طرح یک دم پھٹ پڑی تھی۔ اگر اس کے ہاتھ کرسی سے نہ بندھے ہوتے تو مقابل کا منہ نوچ لیتی۔
”مجھے افسوس ہے آپ کا واسطہ غلط لوگوں سے پہلے پڑا لیکن یہاں بہت اچھے لوگ بھی ہیں اور اب آپ ایک محفوظ مقام پر ہیں“ وہ سمجھ سکتا تھا اس کے ساتھ یقیناً کچھ غلط ہوا ہو گا اسی لئے محب وطنی کا پر جوش مظاہرہ کرنے کے بجائے اس نے رسانیت سے سمجھانا چاہا۔
”قبریں کتنے ہی محفوظ مقام پر کیوں نہ ہوں اس سے مردے کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی مرنے والے کی زندگی لوٹ کر آتی ہے “ اس کے کاٹ دار لہجے پر وہ لمحہ بھر کو چپ ہو گیا ۔
”لیکن آپ زندہ ہیں اور کسی محفوظ مقام پر ہونے نہ ہونے سے آپ کو فرق پڑتا ہے “ اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جتایا تو وہ نظریں چرا کر پھر سے باہر دیکھنے لگی۔
”آپ کون ہیں؟“ اس نے ایک بار پھر نرمی سے پوچھا۔ یہ سوال وہ پچھلے تین دنوں سے اس سے مسلسل کر رہے تھے پر جواب ندارد تھا۔ جب سے اسے وہاں پکڑ کر لایا گیا تھا وہ خاموش تھی۔
”پاکستان کی تباہی“ وہ بولی نہیں پھنکاری تھی۔
” اگر تم کسی دشمن ملک کی جاسوس ہو اور یہ نفرت کا ڈھونگ رچا کر میرے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہو تو یاد رکھنا میں تمہارا بہت برا حشر کروں گا“ اس نے بھی سب لحاظ بالائے طاق رکھ دیے جبکہ وہ خود کو دشمن ملک کی جاسوس کہے جانے پر پھٹی پھٹی نگاہوں سے میز کے پار بیٹھے شخص کو دیکھنے لگی۔
”بتاؤ کون ہو تم۔۔۔ کہاں سے آئی ہو۔۔ اور تمہاری اس نفرت کا مقصد کیا ہے؟“ وہ بے اختیار کرسی سے اٹھا اور دونوں ہاتھ میز پر رکھتے ہوئے اس کی طرف جھک کر دھاڑا تھا۔ لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا وہ اب بھی بے خوف نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”نہیں کیپٹن صاحب نہیں ۔۔۔ تم وردی والے ہو ۔۔۔ اپنے ملک کی محبت میں جان دینے والے۔۔۔ تم میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اپنے ملک کا مکروہ چہرہ دیکھ سکو“ کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی تھی۔
” تم بلا جھجک بتاؤ ۔۔۔ جتنی محبت مجھے اپنے ملک سے ہے اتنی ہی نفرت میں یہاں پلنے والی برائیوں سے بھی کرتا ہوں “ اس کا لہجہ مضبوط تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا اس کے ملک کا ایسا کون سا مکروہ چہرہ ہے جس سے سامنے بیٹھی لڑکی روشناس ہوئی ہے۔
”اور ہاں جھوٹ بالکل نہیں ہونا چاہیے ورنہ۔۔۔۔“ اسے بولنے کے لئے منہ کھولتا دیکھ کر کیپٹن مجتبیٰ نے ہاتھ اٹھا کر دھمکی کے انداز میں بات ادھوری چھوڑی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر سبز پہاڑوں کے درمیان وہ خوبصورت سی پرسکون وادی تھی۔ جہاں ٹریفک کے بے ہنگم شور کے بجائے پرندوں کے سریلی چہچہاہٹ سنائی دیتی تھی۔ جہاں آسمان پر ہر وقت روئی کے گالوں کی طرح نرم بادل اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے تھے۔ پہاڑ کی پگڈنڈیوں سے ہوتا آڑا ترچھا راستہ اس چھوٹی سی بستی کی طرف جاتا تھا جس کے ایک طرف پہاڑوں سے گرتی آبشار قدرتی حسن کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ قدرتی حسن سے مالا مال ہونے کے باوجود دیکھنے والوں کو ایسے لگتا جیسے اس بستی پر کسی آسیب کا سایہ ہو ۔ یہاں کے مکینوں کے لئے ہنسنا گناہ تھا اسی لئے تو جس دن خوشی کو کوئی رمق نظر آتی اسی دن غم کے جنات وارد ہو جاتے تھے۔
اسی بستی میں ایک چھوٹا سا گھر اس کا بھی تھا جس میں وہ اپنے اماں ابا اور چھوٹے بہن بھائی کے ساتھ آباد تھی ۔ بستی کے آسیب نے ابھی تک ان کے گھر کا رُخ نہیں کیا تھا اسی لئے وہ اپنی جنت میں کسی حد تک مطمئن رہتے تھے۔ لیکن اردگرد کے ماحول میں چھائی خوف کی فضا اس پر اثر انداز ہو رہی تھی اور وہ دن بہ دن نڈر ہوتی جارہی تھی ۔ اکثر سکول سے چھٹی والے دن وہ بچوں کو اکھٹا کر کے پہاڑ پر لے جاتی اور پھر اونچائی پر پہنچ کر وہ سب بلند آواز سے گاتے تھے۔
”وہ تیرا پاکستان ہے۔۔۔یہ میرا پاکستان ۔۔۔ ہم سب کی ہے جان۔۔۔ ہمارا پاکستان“ یہ ان سب کا پسندیدہ کھیل تھا اور پہاڑوں سے ٹکرا کر گونجتی اپنی ہی آواز کو سننا ان کا پسندیدہ نغمہ۔۔
ایک دن چھوٹی سی سبز جھنڈی کہیں سے اس کے ہاتھ آ لگی تو اس نے لا کر قرآن پاک کی رحل میں رکھ دی۔ پھر یہ اس کی عادت ہی بن گئی جب بھی قرآن پڑھنے کے لئے نکالتی اس جھنڈی پر نظر پڑتی اور وہ قرآن تھامے دل ہی دل میں دعا مانگنے لگ جاتی۔
”یہ یہاں کیوں رکھی ہوئی ہے؟“ ایک دن امجد صاحب کی اس پر نظر پڑی تو پوچھ بیٹھے۔
”اس لئے ابا کیونکہ۔۔۔ ہمیں یہ دونوں تحفے ایک ہی دن ملے تھے اسے لئے انہیں ہمیشہ ساتھ ہونا چاہیے“ اس نے امجد صاحب کے ہاتھ سے جھنڈی لے کر چومی اور واپس رحل میں رکھ دی۔ وہ اس کی حرکت پر ہنس دیے پاکستان سے اس کی محبت سے نہ صرف وہ بلکہ پورا محلہ ہی واقف تھا اور وہ بڑے فخر سے سب سے کہتی تھی:
”یہ جو میری آنکھوں میں سبز رنگ ہے نا۔۔۔ یہ پاکستان کا رنگ ہے۔۔۔ میری پاکستان سے محبت کا ثبوت ۔۔ اور یہ محبت مجھے قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے“ محبت کے دعویدار بھول جاتے ہیں کہ محبت ہمیشہ قربانی مانگتی ہے اور قربانی دینا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آپا۔۔آج پھر کوئی کہانی سنا دو“ وہ عادت کے مطابق سیڑھیوں پر بیٹھی کتاب کی ورق گردانی کر رہی تھی جب داور نے آکر فرمائش کی۔ وہ کتابوں کی شوقین تھی اور سکول کی لائبریری سے کتابیں لا لا کر پڑھا کرتی تھی دسویں جماعت میں آنے تک اس کے سکول کی لائبریری میں ایسی کوئی بھی کتاب نہیں بچی تھی جو پاکستان کی تاریخ پر مبنی ہو اور اس نے نہ پڑھی ہو۔ وہ اکثر ان کتابوں میں موجود واقعات کو سادہ لفظوں میں بدل کر داور اور عدیمہ کو سنایا کرتی تھی۔
”ہممم۔۔۔ کہانی“ وہ لمحہ بھر کو سوچ میں گم ہوئی۔ اس کی سوچ کچھ دن پہلے ایک پُرانے رسالے میں پڑھی گئی کہانی پر ٹک گئی۔ جو اسے کافی پسند آئی تھی۔
”ٹرین ٹو پاکستان۔۔ سناؤں؟؟“ اس نے داور کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ پُرجوش ہو گیا۔ اپنی بہن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان اس کا بھی پسندیدہ موضوع بن گیا تھا۔
”کیا آپا کبھی کوئی پریوں والی یا شہزادیوں والی کہانی بھی سنا دیا کرو۔۔۔ ہمیشہ پاکستان پاکستان کی رٹ لگائی ہوتی ہے۔۔۔ قسم سے معاشرتی علوم کی ٹیچر لگتی ہو۔۔۔“ عدیمہ جو کہانی سننے کے لئے شوق سے ان کے پاس آکھڑی ہوئی تھی کہانی کا نام سن کر مایوس ہو گئی۔ نو سالہ عدیمہ کو پریوں شہزادیوں کی کہانیاں سننے کا اشتیاق رہتا تھا۔
”عدیمہ ۔۔۔ اچھے بچے اپنی تاریخ کبھی نہیں بھولتے۔۔۔ اور جب ایک شہزادی پہلے سے ہمارے گھر میں موجود ہے پھر ہمیں کیا ضرورت دوسری شہزادیوں کی کہانیاں سننے کی“ اس نے پیار سے عدیمہ کا ہاتھ پکڑکر اپنے پاس بٹھالیا۔
”میں سچ میں شہزادی لگتی ہوں؟“ عدیمہ کے لہجے میں خوشگوار حیرت در آئی۔
“ہاں جی بالکل۔۔۔ بہت پیاری سی شہزادی“ کشمالہ نے اس کے گال کھینچے تو ننھی آنکھوں میں کئی جگنو چمکنے لگے۔
”آپا اب کہانی سنائیں بھی“ داور سے اس کی تعریف کہاں برداشت ہوئی تھی اسی لئے اس کی توجہ کہانی کی طرف دلوائی۔
”اچھا پھر سنو۔۔۔ یہ کہانی ہے پاکستان اور ہندوستان بننے سے پہلے کی۔۔۔ جب یہ ساری زمین برصغیر کہلاتی تھی۔۔۔ ہندوستان کا ایک گاؤں تھا جہاں مسلمان اور سکھ مل کر رہتے تھے۔۔۔ اسی گاؤں میں ایک مسلم لڑکا رہتا تھا۔۔۔ جو بہت بہادر تھا۔۔۔ نڈر۔۔ کسی سے نہ ڈرنے والا“
”بالکل میری طرح کا؟؟؟“ وہ جو دادی اماں کی طرح کہانی سنا رہی تھی داور کی بات پر رُک گئی۔اگر عدیمہ کو شہزادی کا درجہ ملا تھا تو اسے بھی کسی کہانی کا ہیرو ہونا چاہیے تھا۔ یہ داور نے سوچا تھا۔
”تم کیسے ہو سکتے ہو۔۔۔ تمہاری تو اندھیرے میں چیخیں نکل جاتی ہیں اور ڈر کر اماں یا آپا کے پاس بھاگے آتے ہو“ عدیمہ نے ہنستے ہوئے مذاق اڑایا ۔
”تینوں اندر آکر کھانا کھا لو۔۔“ وہ جو عدیمہ کو ٹوکنے والی تھی زینب بی بی کی آواز پر ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”آپا کہانی؟“ وہ اندر جانے کے لئے اٹھی تو داور نے اس کا دوپٹہ پکڑ لیا وہ جانتا تھا کھانا کھانے کے بعد اماں سونے کے لئے لیٹا دیں گی اور کہانی رہ جائے گی۔ عدیمہ پہلے ہی بھاگ کر اندر جا چکی تھی گھر میں سب سے جلدی بھوک اسی کو لگتی تھی۔
”کل سنا دوں گی“ اس نے داور کو تسلی دی تو وہ منہ بسور کر رہ گیا۔
”آپا کل میں بھی کہانی سننے آؤں گا“ دیوار کے پار سے بلال کا چہرہ نمودار ہوا وہ یقیناً ان کی گفتگو کا کچھ حصہ سن چکا تھا۔ اس کی بات پر کشمالہ نے سر ہلا کر ہامی بھرتے ہوئے کمرے کی راہ لی۔ اس رات وہ دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ کچھ کہانیاں ہمیشہ کے لئے ادھوری رہ جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکول سے واپسی پر ایک ہاتھ میں اپنی کتابیں پکڑے دوسرے ہاتھ میں داور کی انگلی تھامے وہ ان دونوں کی نوک جھوک سنتی آرہی تھی ۔ جہاں عدیمہ کی کسی بات پر داور سے جواب نہ بن پاتا تو مدد کے لئے کشمالہ کا آنچل ہلاتا اور وہ انہیں ٹوک کر خاموشی سے چلنے کی ہدایت کرتی جس کا دونوں پر ہی خاطر خواہ اثر نہیں ہو رہا تھا تھوڑی دیر چپ ہوتے اور پھر زبان پر کھجلی ہونے لگتی۔اس کا دھیان ان کی باتوں سے زیادہ اپنی چادر پر تھا جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے چہرے سے کھسک جاتی اور وہ گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتی کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا اور پھر داور کا ہاتھ چھوڑ کر چادر ٹھیک کرتی۔ وہ یہ عمل دو تین بار دوہرا چکی تھی۔ اس نے نیا نیا نقاب کرنا شروع کیا تھا اسی لئے چادر سنبھالنے میں مشکل ہو رہی تھی۔
” رُکولڑکی ۔۔۔بات سنو“وہ لوگ چند باوردی افراد کے پاس سے گزرے تو ان میں سے ایک نے اسے آواز دی۔ کشمالہ کے قدموں کی رفتار پہلے سے تیز ہوگئی عدیمہ کو اس کے قدم سے قدم ملانے میں مشکل ہو رہی تھی جبکہ داور اس کا ہاتھ پکڑے تقریباً گھسیٹتا جا رہا تھا۔
”کیا بہری ہو؟؟۔۔۔سنائی نہیں دیتا کہ میں تمہیں آوازیں دے رہا ہوں؟“ وہ ایک ہی جست میں ان کے سامنے آکھڑا ہوا تو مجبوراً اُسے بھی رُکنا پڑا اسے رُکتے دیکھ کر داور اور عدیمہ بھی رُک گئے۔ اس شخص کے تنے ہوئے تاثرات کو دیکھتے داور نے غیر محسوس طریقے سے کشمالہ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی تھی۔ وہ دور سے ہی نقاب ٹھیک کرتے ہوئے کشمالہ کے چہرے کی جھلک دیکھ چُکا تھا اور اب دل میں قریب سے دیکھنے کی خواہش جاگی تھی۔ اس نے چند قدم آگے بڑھ کر کشمالہ کے چہرے سے نقاب نیچے کیا تھا۔ چڑھتی جوانی کے نوخیز حسن کو دیکھ کر وہ مبہوت رہ گیا۔ اگلے ہی پل کشمالہ کا ہاتھ اٹھا اور مقابل کے چہرے پر نشان ثبت کر گیا تھا۔ جیپ سے اتر کر کچھ لوگ کشمالہ کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھے تو اس شخص نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا۔ وہ بہن بھائی کو ساتھ لئے آگے بڑھ گئی ۔ گھر کے قریب پہنچ کر انہیں اماں ابا کو کچھ نہ بتانے کی تنبہیہ کرنا نہیں بھولی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میجر صاحب وہ تجھے مار کر گئی ہے“ باوردی لوگوں میں سے ایک شخص آگے بڑھ کر اس کے پاس آیا جبکہ باقی سب جیپ میں واپس جا بیٹھے تھے۔
”تبھی میں کہوں اتنا درد کیوں ہو رہا ہے“ اس نے بے اختیار دل تھام لیا۔
”دل پہ نہیں۔۔۔ منہ پر مارا ہے اس نے“ اس شخص نے اس کے دل تھامنے پر ہوش دلانا چاہا۔
”لیکن لگا تو سیدھا دل پر ہے“ وہ اس کے سحر میں ڈوبے ہوئے جیپ کے بونٹ پر آ بیٹھا۔ دوسرا شخص بھی اس کی تقلید میں اس کے برابر آ بیٹھا تھا۔
”کہیں پہلی نظر میں عشق تو نہیں ہو گیا؟“ پیچھے جیپ میں سے تشویش بھری آواز اُبھری ۔
”عشق وشق کا تو پتا نہیں۔۔۔ بس دل کو اچھی لگی ہے“ وہ اب بھی اسی راستے پر نظریں جمائے بیٹھا تھا جہاں سے وہ کچھ دیر پہلے گئی تھی۔
”پھر جانے کیوں دیا روک لیتے۔۔۔ ہمیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع مل جاتا“ ایک اور آواز نے مشورہ دیا۔
”اتنی جلدی کھیل ختم کرنے میں مزا نہیں آتا۔۔۔ شکار کو تھوڑا بھگانا بھی چاہئے۔۔۔۔ اور سالے تو بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوتا اپنا منہ کالا کرتا ہے“ اس نے بات مکمل کرنے کے ساتھ مشورہ دینے والے کو بھی لتاڑا۔
”ویسے کم حسین تو چھوٹے والی بھی نہیں تھی“ اس کے پاس بیٹھے شخص کی آنکھوں میں عدیمہ کا سراپا سوچتے ہوئے ہوس اُتر آئی تھی۔
”اُسے بھی دیکھ لیں گے۔۔۔ پہلے بڑی سے تو مل لیں۔۔۔ تو پتا کروا کون ہے کہاں رہتی ہے۔۔۔ اگر باپ زندہ ہے تو سسر جی سے ایک ملاقات تو فکس کروا۔۔۔ آخر تھپڑ کا حساب بھی تو برابر کرنا ہے“ اس نے پاس بیٹھے شخص کی طرف دیکھتے ہوئے خباثت سے آنکھ ماری تو فضا میں سب کا فلک شگاف مکروہ قہقہ گونج گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔