آرام سے فلیٹ کا پنکھا چلا کر بیٹھ گئی ٹھنڈ تو بہت لگ رہی تھی پھر ہاتھ بڑھا کر پیچھے گردن پر لگی پٹی اُتار دی زخم کُچھ حد تک بھر چُکا تھا لیکن اِس قابل نہیں تھا کے اُسے کھولا چھوڑا جا سکے لیکن ضد میں دونوں کا کوئی ثانی نہیں تھا دروازہ دو مرتبہ بہت ہی تہذیب سے کوئی نوک کر چُکا تھا لیکن اُسے ابھی تنہائی چاہیے تھی
کتنے مان سے تھوڑی دیر پہلے وہ محد کے گھر گئی تھی جو گھر کم مرغیوں کا ڈربا ضرور تھا لیکن اب بازل کو جلانا بھی تو تھا کے وہ اُسکے مخلف کے گھر میں رہ رہی تھی لیکن سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا جب اُنکے دروازہ پر بڑا سا تالا لگا ہوا تھا
اب ذہن میں جمکا ہُوا تھا
"اُسکا پتا تو میں صاف کردوں گا”
بازل کے الفاظ ذہن میں گونجے تو سارا خون نوچھڑ کر چہرے پر آگیا
"مروا دیا ۔۔۔ہائے اللّٰہ میں ایک معصوم کی زندگی سے کھیل گئی ۔۔۔۔بازل تو ہے ہی پاگل ۔۔۔۔محد”
دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں چہرے پر پسینے کا راج آگیا
"محد میں بدلہ لو گی”
پُر عزم ہوکر بولی اور اب بازل سے خوف آرہا تھا
ویسے ہی بیٹھی نظریں سامنے جمائے ہوئے تھی
جب کمرے کا دروازہ کھولا اور نور بھاگ کر صوفے پر بیٹھی نورکی گود میں کود گئی
"مام ”
اُسکا بے یقینی کی پرشائی والا چہرہ پکڑ کر بولی
اتنی دیر باہر کھڑے رہنے کے بعد ڈوبلیکٹ کی سے دروازہ کھول کر اندر ائے تھے
"نور میری جان ”
ماحول کو نظر انداز کرتی چٹاچٹ اُسکا چہرہ دیوانہ وار چوم گئی
تو نور کی کلکاریاں پورے کمرے گونج رہیں تھی جبکہ چند قدم پر کھڑا بازل تھوڑی دیر کے لیے پُر سکون ہوگا
"بابا ۔۔ نور ۔۔۔تی۔مام”( بابا نور کی مام)
وہ بازل کی طرف منہ کرکے مایا کے چہرہ پر ہاتھ رکھی بازل کو بتا رہی تھی کے اُسکی مام مل گئی ہے
مایا کو شکڈ ہوگئی تھوڑی دیر پہلے تو اُسے گھر سے نکالا تھا یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ابھی اُسکے زخم نہیں بھرے گردن کی بیک پر تھوڑا سا درد اُبھرا تو اُسے اگنور کرتی دوسری طرف کو منہ کرگئی جبکہ بازل کی آنکھیں اُسکے زخم اور گیں یہاں سے خون رس رہا تھا پٹی شاید اُتار دی تھی
"پٹی کیوں اُتاری؟؟؟”
چند قدم آگے کی طرف رکھتا ہُوا کسی حد تک اپنے تاثرات سرد رکھے ہوئے تھا
"کیوں تمھیں تکلیف ہے ”
نور کو نیچے اُتارتی اُسکی طرف سیدھی ہوئی ۔۔۔۔بازل شاہ نے غلط وقت پر مکھیوں کا چھجا چھیڑا تھا
"ہاں ہے ۔۔۔اب سیدھی طرح سے پٹی دوبارہ کرو ۔۔۔۔۔مجھے اُمید نہیں تھی تم ڈارمے فلموں کی ہیروئن کی طرح ۔۔مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے آزماؤں گی ۔۔۔۔۔افسوس ”
تمسخر اُڑنے والے اندازِ میں بولا تو
دیب نے سائڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی پرانی پٹی ہی دوبارہ اوپر رکھ دی
نور نیچے کھڑی دونوں کو دیکھ رہی جو ایک دوسرے کو گھورنے میں مصروف تھے
"مام بی اُول بابا بی ڈرٹی(مام بھی اور بابا بھی ڈرٹی)
بول کر اپنے ہونے کا احساس کروا تو بازل نے نور کو گھوری سے نوازہ
"خبر دار جو آپ نے میرے بیٹی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ۔۔۔پتہ آپکی یہ براؤن غُصہ والی آنکھیں بلکل کسی جن سے مشاہبت رہتی ہیں ”
نیچے جُھک کر نور کو اپنے بازوں میں بھرا اور بازل کو تنبیہہ کی
جبکہ بازل متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا
"مام ون ”
بازل کو چُپ دیکھ کر دونوں ہاتھ اوپر کرکے جیت کا جشن مناتے ہوئے مایا کے حق میں نعرے لگا تو جواب میں مایا اپنی چھوٹی سی ساتھی کہ منہ چوم گئی
"کبھی یہ پیار ہمارے حصے میں بھی آئے”
سر کھجاتے ہوئے اونچی آواز میں بولا تو مایا کا رنگ ایک سیکنڈ میں اناری ہوگیا
"م۔۔۔محد کے ساتھ کیاہے ۔۔۔دیکھو میں بدلا لوں گی تمہارے سے ”
اُنگلی کے ساتھ تنبیہہ کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی بازل کے چہرے پر آئے تاثرات ایک سیکنڈ میں تبدیل ہوئے
"چاہے تم جتنی بھی بہادر ہو لیکن یہ اُنگلی اُٹھانا والی غلطی دوبارہ مت کرنا ”
اپنے ہاتھ سے اُسکی اُنگلی نیچے کرتا ہوا گمبھیر اور سخت آواز میں بولا اور آگے بڑھ کر نور کہ گالوں کو ہونٹوں سے چھویا تو اُسکی سانسیں مایا کے چہرے پر گر رہیں تھیں
اتنی غریب آنے پر مایا کی نظریں بٹکی اور اُسکے خوبصورت نقش و نگار پر جم گئی دل ایک اور ہی ترنگ میں دھڑکا تو اُسکے سنبھلنے سے پہلے ہی غیر مخصوص انداز میں بازل کے ہونٹوں نے مایا کے ماتھے تک کہ سفر کیا جس کے بعد وہ صدمے سے دو قدم پیچھے ہوئی چند سیکنڈ پہلے اُسکی جسارت پر دماغ ماوف ہوگیا تھا اور بازل ہوش میں آتا ہی ایک آنکھ دبا کر باہر چلا گیا
سکتے میں کھڑی جب نور کی کلاپنگ سے ہوش آیا جو جوش میں دونوں ہاتھ بجا رہی تھی
"یہ دعا ہے میری رب سے
تیرے عاشقوں میں سب سے
تجھے میری عاشقی پسند آئے
میری عاشقی پسند آئے۔۔۔۔۔۔”
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"ایسا مزا چکھایا ہے کے اب کبھی کسی کے سامنے منہ کھولنے کی جرت نہیں کرے گی”
رخسار سامنے بیٹھی ملیحہ کو اپنے کارنامہ سنا رہی تو جو رو رہی تھی
"پھوپھو میں کیسے رہوں گی ۔۔۔۔اتنی دیر ہوگئی میں کبھی تالش کو دیکھا بھی نہیں”
آئیز میک اپ کا خیال رکھتے ہوئے ٹشو سے انکھوں کے کنارے صاف کیے
"میری جان بہت جلد اُس ناسور سے جان چھوٹ جائے گی ”
اُسے حوصلہ دیتی ہوئی بولی
"میری بہو اِس گھر کی ملک دیکھنا تم ہو بنو گی ”
لالچ دیتے ہوئے اُسکا ماتھا چوما
"بی بی جی باہر پولیس آئی ہے ”
اچانک ملازم آکر بولا
"اندر نہ آنے دینا شبیر ۔۔۔۔۔۔”
جلدی سے بولتی ملیحہ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہوئی
"کیوں اب کیوں بھاگ رہیں ہے جان لینا اتنا آسان نہیں ہوتا ”
پیچھے سے تالش کی آواز آئی تو ہاتھ یکدم پھول گے جبکہ ملیحہ اُسکا ہاتھ چھوڑ کر بھاگتی ہوئی تالش کے سینے سے یہ لگی
اچانک حملے سے تالش گھڑبڑا کر اپنی سینے سے چپکی ملیحہ کو دیکھا تو اُسے پیچھے کی طرف دکھیل دیا
"ملیحہ اپنی حد میں رہو”
وہاں کھڑا انسپکٹر دونوں کو گہری نظروں سے تاڑ
رہا تھا
"تم میرے ہو تالش وہ تم سے بڑی ہے ۔۔۔۔۔تم پر بس میرا حق ہے ….ویسے بھی وہ اب کسی قابل نہیں رہی ”
وہ اپنے دکھاوے کے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی
"مجھ پر میری ہر چیز پر میری بیوی کا حق ہے جو میرے بیٹے کی ماں ہے اُسکے علاوہ کسی لڑکی کو چھونا تو دور دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا میں”
سخت تاثرات لیے بولا
"اور الحمدللہ میری دیب بلکل ٹھیک ہے ”
بولتے ہوئے رخسار کو دیکھا جس کا رنگ ہر سیکنڈ میں بدل رہا تھا
"پر بیٹا یہ پولیس کیوں آئی ہے ؟؟”
آگے بڑھ کر محبت سے چور لہجے میں بولی
"بی بی تم پر ایف آئی آر کٹی ہے تین قاتلانہ حملوں کی اور گواہ کے بیان بھی ماجود ہیں ”
تالش کے بولنے سے پہلے ہی انسپکٹر بولا اور اپنے ساتھ کھڑی لیڈی کونسلیٹر کو ہتھگھڑی لگانے کا اشارہ کیا
"یہ الزام ہے میری پھوپھو پر ”
ملیحہ بپھری ہوئی شیرینی کی طرح آگے آئی
"اِسے بھی ساتھ ہی لگا لو یہ بھی انولو ہوگی یقیناً ”
انسپیکٹر نے لیڈی کونسلیٹر کو کہا تو ملیحہ تین فٹ دور ہوگئی
"لے جائیں انسپیکٹر صاحب رخسار میڈم کو”
کہتے ہوئے باہر نکل گیا ”
ماں تک گوارہ نہیں کیا تھا جب کے صدمے کی زیاتی سے آنکھیں پھٹنے کو تھیں
اب حسد کی آگ میں جلنے کا وقت آیا تھا لوگوں کی زندگی اجیرن کرنے کے بعد بدلہ تو بنتا تھا
"خُدا جب رسی کو ڈیل دے دیتا ہے تو انسان خود خدا بن جاتا ہے
بے شک برائی کا بدلہ برائی جبکہ کے اچھائی کا بدلہ اچھائی سے دیا جائے گا ”
"خدا وقت کے خداؤں کی پکڑ کرے گا اور پکڑ بہت مضبوط ہوگی ۔۔۔جس میں کوئی رہائی ناممکن ہے ”
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"بازل نے ٹکھانا بدل لیا ہے اور ابھی تک فرانس سے نکلنے والی کسی بھی فلیٹ میں وہ نہیں گیا ۔۔۔نہ اُس لڑکی کی کوئی خبر ہے اُسکا گھر پرائیویٹ اور سرکاری رہائش دونوں بند ہیں”
اُسکے سامنے بیٹھا انسان اُسے خبر دے رہا تھا
"اُسے زمین کھا گی یہ آسمان ۔۔۔۔وہ لڑکی کیسے لے گئی خود کو گولی لگنے کے باوجود”
چہرے پر شکت کی مہر لگی ہوئی تھی لیکن وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا
"سر ایک بری خبر ہے ” باہر سے آکر ایک سیاہ یونیفارم میں مبلوس لڑکی نے کہا
"بولو”
سخت آواز میں جواب دیا
"سر آپکے پرانے بنگلے سے م۔۔۔۔۔منان سر کی لاش ملی ہے ”
وہ ڈرتے ہوئے بولی جبکہ حنان پیچھے چیئر پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گیا
"سر ار یو اوکے”
سامنے کھڑے انسان نے چہرے پر ماسک سیٹ کرتے ہوئے کہا
"جاؤ ۔۔۔۔۔۔مجھے اکیلا چھوڑ دو”
پانچ منٹ بعد چلایا وہ رونا نہیں چاہتا تھا اُنکے سامنے خود کو کمزور ثابت نہیں کر سکتا تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"مس انایہ اِدھر آئیں میں بتاتا ہوں”
بازل سامنے تھری سیٹر صوفہ پر بیٹھا اپنی گود میں لیپ ٹاپ رکھے کُچھ ٹائپ کر رہا تھا جبکہ ایک سمارٹ سی خوبصورت لڑکی جینز اور شرٹ میں ماجود سر پر ٹیل پونی کیے ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھی تھی اُسکی بات سنتے بلکل قریب جا بیٹھی
"یہ دیکھیں ہم یہ کوڈ ایڈ کریں گے تو یہ اکاؤنٹ ہیک ہوجائے گا اور ساری انفارمیشن ہمارے اکاؤنٹ میں لاک ہوجائے گی”
وہ بتاتے ہوئے ایک نظر اُسکے چہرے پر ڈال رہا تھا اور ساتھ ہی کن آنکھوں سے دور بیٹھی مایا کو بھی دیکھ رہا تھا جو اپنی ٹانگیں ٹی وی دیکھتے ہوئے زوروں سے ہلا رہی تھی
صاف ظاہر تھا کہ اُسکا دھیان ٹی وی پر کم جبکہ اِس طرف زیادہ تھا
"ویسے چائے بہت اچھی بنائی ہے آپ نے ۔۔۔بہت ذائقہ ہے آپکے ہاتھوں میں”
جان بوجھ کر بولا جبکہ جانتا تھا کے چائے مایا نے بنائی ہے
"چھچھورا ”
بولتی ہوئی اُٹھ گئی
"پتہ نہیں کیوں آئی ہوں میں ۔۔۔۔بس صبح نوین کے پاس جاؤں گی پھر محد کو ڈھونڈو گی ”
سوچتی ہوئی ریموٹ زور سے ٹیبل پر پٹختی جانے کے لیے موڑی
"کوئی تمیز یہ تہذیب ہے تمہیں مایا ۔۔۔۔اٹھاو واپس ریموٹ اور میز پر واپس رکھو ”
پیچھے سے رعب و جلال والی آواز کانوں میں پڑی
"خود اُٹھا لو نوکر نہیں ہوں تمہاری میں ۔۔۔اور میرے سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ”
ڈنکے کی چوٹ پر جواب دیتی آگے بڑھنے ہی والی تھی جب نظر لیپ ٹاپ کے سکرین پر لگی تصویر پر گئی
وقت ٹھر گیا تھا آنکھیں ساخت ہوگئیں تھی
بازل نے تیزی سے لیپ ٹاپ کی لوڈ گرا دی لیکن دیر ہو چُکی تھی
ایک نیا امتحان شروع ہوا تھا دل دہل گیا آنکھیں نمکین پانی سے بھر چکیں تھیں
بازل نے اُسکی طرف قدم بڑھائے لیکن وہ کا چُکی اُسکی پہنچ سے دور
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...