مجھے خاموش راہوں میں تیرا ساتھ چاہیے
تنہا ہے میرا ہاتھ تیرا ہاتھ چاہیے
مجھ کو میرے مقدر پر اتنا یقین تو ہے
تجھ کو بھی میرے لفظ میری بات چاہیے
دوپہر سے رات ہونے کو آ گئی تھی، لیکن ابان گھر نہیں آیا تھا۔ وہ بنا مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا تھا۔
زری کا کہا ایک ایک لفظ اس کے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔
وہ کتنی بار اپنی بات ثابت کرنے کے لئے اس کے سامنے آئی تھی اور اتنی ہی بار اس نے اسے دھتکار دیا تھا۔
اسے اب تک یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کی اپنی ماں ہی اس کا گھر بسنے سے پہلے ختم کردینا چاہتی تھیں۔
وہ زری کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آخر کب تک؟ کبھی نہ کبھی تو اسے اس کا سامنا کرنا ہی تھا۔
ان تمام سوچوں کو جھٹکتے اس نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی تھی۔۔۔
______________
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے، وہ کبھی اپنی اولاد کے لئے کوئی غلط فیصلہ لے ہی نہیں سکتی۔
ماں کا دل اگر موم ہوتا ہے تو اس کی اولاد بھی اپنی ماں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔
یہی زری کے ساتھ تھا وہ چاہ کر بھی اپنی ماں سے زیادہ دیر خفا نہیں رہ سکتی تھی۔
وہ ان کی گود میں سر رکھے کافی دیر ان کی باتیں اور نصیحتیں سنتی رہی تھی۔
رابیہ بیگم کے بتانے پر ہی دوپہر میں ہونے والے واقعہ کی خبر ہوئی تھی۔
اس بات کا پتا چلتے ہی اس کا دل کافی بے چین ہو گیا تھا، پتا نہیں ابان نے سب کچھ سننے کے بعد کیا رد عمل اختیار کیا ہوگا؟ لیکن اب سچائی جاننے کے بعد وہ اپنے ساتھ کچھ غلط ہی نہ کرلے۔۔۔
اس کی پریشانی مغرب کے بعد اور بھی بڑھ گئی تھی کیونکہ ابان اس وقت گھر آ جاتا تھا لیکن آج تو سب کچھ ہی الٹ ہو رہا تھا۔
آج آمنہ بیگم اور آغا جان دونوں نے رات کا کھانا اپنے کمروں میں کیا تھا۔
نجمہ آمنہ بیگم کو کھانا ان کے کمرے میں ہی دے آئی تھی۔
جبکہ آغاجان کے لئے وہ خود لے کر گئی تھی جس سے آغاجان نے کرنے سے منع کر دیا تھا، پھر زری کے اصرار پر انہیں کرنا پڑا۔ وہ انہیں دوا بھی دے آئی تھی۔
ڈائننگ ٹیبل پر احمد صاحب، رابیعہ بیگم، ماہی اور زری ہی تھے۔
لغاری ہاؤس میں آج معمول کے مطابق چہل پہل نہیں تھی کیونکہ آج ماہی بھی خاموش تھی۔
ماہی آغاجان اور احمد صاحب کی باتیں سن چکی تھی جو آج دوپہر ہوا تھا۔
وہ چاہ کر بھی ابان کو ایک کال نہ کر سکی تھی۔ اس میں ہمت نہ تھی کہ وہ اس سے کال کرکے ہی پوچھ لیتی کہ اب تک آئے کیوں نہیں؟ کب آئیں گے؟ آپ نے ڈنر کر لیا؟ یہ وہ سوال تھے، جو اسے بے چین کر رہے تھے۔
اب رات کے دس بج رہے تھے مگر وہ ستمگر اب تک نہیں آیا تھا۔
غم نہیں یہ کہ انتظار کیا
بلکہ یہ ہے کہ اعتبار کیا
بے تعلق ہی ہم تو اچھے تھے
اس تعلق نے اور خوار کیا
___________________
رات کے گیارہ بج رہے تھے جب اس نے گھر میں قدم رکھا تھا۔
اس نے صبح سے کچھ کھایا نہ تھا اسی لیے بھوک مٹانے کی نیت سے وہ سب سے پہلے کچن میں گیا تھا۔
نجمہ رات نو بجے ہی اپنے کواٹر میں چلی جاتی تھی اور اب کچن میں کوئی بھی موجود نہ تھا۔
اکثر جب بھی وہ کچن میں آتا تھا تو وہ دشمن جاں موجود ہوتی تھی لیکن آج خالی کچن اس کو منہ چڑا رہا تھا۔
اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ خود سے کچھ بنا سکتا یا فریج سے کچھ لے کر گرم کر سکتا۔ وہ بنا کچھ کھائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
اس کے قدموں کی آہٹ سے ہی وہ جان گئی تھی کہ ابان ہے۔ اسی لیے وہ اپنی آنکھیں بند کیے سوتی بنی تھی۔
وہ دروازہ بند کیے، صوفے پر اپنا کوٹ اچھالے بالکل اس کے بیڈ کے پاس جا کھڑا ہوا تھا۔
اسے یوں پرسکون سوتا دیکھ کر قلب سکون محسوس ہوا تھا۔
دن بھر کی تھکاوٹ پل بھر میں دور ہوئی تھی۔ اس کا دل کیا کہ وہ اسے اپنی باہوں میں بھر کے کہیں دور بہت دور لے جائے، جہاں غم کا سایہ تک نہ ہو۔
وہ اس پر جھکا تھا۔ اس سے پہلے کے وہ کوئی گستاخی کرتا وہ اس کے ہاتھوں کے عمل کو دیکھ چکا تھا۔ جو اس کے جھکنے پر مٹھی بنائے زور سے بند کر گئی تھی۔
اس کا ایک ہاتھ اس کے چہرے کے بہت قریب ہی موجود تھا۔ مطلب صاف تھا کہ وہ سو نہیں رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند کئیے بھی ابان لغاری کو محسوس کر سکتی تھی۔
وہ بنا کچھ کہے واش روم میں گھس گیا۔
واش روم کے دروازہ بند ہونے پر وہ اٹھ بیٹھی تھی، اور اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں گرائے ایک لمبا سانس کھینچا تھا، جیسے وہ کچھ دیر پہلے سانس روکے لیٹی ہو۔
_________________
وہ واش روم سے فریش ہو کر باہر آیا تھا، جب ذری اس کے لیے کھانا میز پر لگا چکی تھی، اسے حیرانی بالکل نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ ابان لغاری کو بنا دیکھے بھی پڑھ سکتی ہے۔
وہ تولیہ اچھالے ڈریسنگ کی طرف آیا تھا، جب زری میز پر کھانا رکھے بیڈ کی طرف بڑھنے کو تھی ،جب وہ ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔
وہ اس کا ہاتھ یونہی پکڑے کنگھی کرنے میں مصروف تھا، جیسے دوسرا کوئی فریق وہاں موجود ہی نہ ہو۔
وہ اس کے کچھ نہ بولنے سے سمجھ گیا تھا کہ وہ دوپہر ہونے والے واقعے کے بارے میں جان چکی ہے۔
وہ کوئی بھی بات کئیے اسے لیے سوفے پر بیٹھ گیا تھا۔
وہ کھانا کھانے میں مصروف ہو چکا تھا مگر زری ویسے ہی بیٹھی تھی۔
اس کے لئے یہی کافی تھا کہ سب جاننے کے بعد اس نے کوئی الٹی سیدھی حرکت نہیں کی تھی۔ لیکن زری کے دل میں اس وقت یہی ایک خیال تھا، کہ وہ شخص کچھ تو بولے کچھ تو کہے وہ جانتی تھی کہ ابان لغاری معافی مانگنے والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ معافی نہ بھی مانگے۔۔۔۔ کم سے کم کچھ کہے تو سہی۔
وہ کھانا کھا چکا تھا۔۔
ٹھیک ہے تم لے جاؤ اسے۔۔۔۔
وہ اس کے کہنے پر برتن اٹھائے کچن کی طرف چل دی تھی، لیکن یہ دیکھ کر حیران ہوئی تھی کہ ابان بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔
وہ کچن میں برتن دھوئے، واپس ان کو ان کی جگہ پر رکھ رہی تھی جب ابان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
کافی۔۔۔
وہ بس کافی ہی بولا تھا۔ جس سے وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ کافی پینا چاہتا ہے، اسی لئے وہ بنا کوئی جواب دیے کافی بنانے میں لگ گئی۔
وہ پاس ہی چیئر پر بیٹھا، بڑی فرصت سے اسے دیکھنے میں مگن تھا۔ جو خاموشی سے اپنا کام کئے جا رہی تھی۔
وہ زرفشاں لغاری کو سمجھنے سے انکاری تھا۔ کہ کیسی لڑکی ہے کم از کم کچھ تو کہے یا پھر ایک طنز کا تیر ہی چلا دے۔ میرے ساتھ رہ کر اسے اتنا تو سیکھ ہی جانا چاہیے تھا۔ وہ اپنی سوچ پر خود ہی مسکرا دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ لڑکی کچھ نہیں کہے گی۔
ستم پر شرطِ خاموشی بھی اس نے ناگہاں رکھ دی
کہ اک تلوار اپنے اور ،میرے درمیا ں رکھ دی
یہ پوچھا تھا کہ مجھ سے جنسِ دل لے کر کہاں رکھ دی
بس اتنی بات پر ہی کاٹ کر اس نے زباں رکھ دی
پتا چلتا نہیں اور آگ لگ جاتی ہے تن من میں
خدا جانے کسی نے غم کی چنگاری کہاں رکھ دی
زمانہ کیا کہے گا آپ کو اس بدگمانی پر
میری تصویر بھی دیکھی تو ہو کر بدگماں رکھ دی
میرے حرفِ تمنا پر چڑھائے حاشیے کیا کیا
ذرا سی بات تھی تم نے بنا کر داستاں رکھ دی
___________________
لغاری ہاؤس میں ہنز خاموشی کا راج تھا۔
آمنہ بیگم صبح کھانے پر باہر آئی تھیں۔
ان کے باہر آنے کی وجہ سے ابان بغیر ناشتہ کئے آفس چلا گیا تھا۔
گھر میں آمنہ بیگم سے کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی۔
آمنہ بیگم کی چھوٹی بہن اور بہنوئی بھی آج لغاری ہاؤس آئے تھے۔
وہ دونوں کل کی فلائٹ سے عمرے کی سعادت حاصل کرنے جا رہے تھے۔
آپا ماہی نظر نہیں آرہی۔۔۔۔۔ فرزانہ بیگم نے پوچھا۔
وہ یونیورسٹی گئی ہے۔
آپا! کیا کچھ ہوا ہے؟
آمنہ بیگم کے سب بتانے پر ان کی چھوٹی بہن تھوڑی خاموشی کے بعد بولی تھی۔
آپا آپ میری اور سمعیہ کی وجہ سے اپنا گھر تباہ نہ کریں۔ اللہ نے سمعیہ کے لئے بھی کوئی نہ کوئی جوڑ رکھا ہوگا اور فکر مت کیا کریں۔
آپ اپنا دل صاف کرلیں اور ابان کو زیادہ دن اپنے سے یوں ناراض مت رہنے دیں۔
تم سہی کہہ رہی ہو۔۔۔ چھوٹی تم ایسا کیوں نہیں کرتی کہ سمیعہ کو لغاری ہاؤس چھوڑ جاؤں۔
نہیں آپا۔۔۔ یا سر بھی تو ہو گا۔ دونوں بہن بھائی رہ لیں گے۔آپ فکر نہ کریں۔
یاسر کا کیا ہے وہ تو لڑکا ہے، کہیں بھی رہ لے گا۔
اور ویسے بھی سمعیہ کچھ دن آجائے گی تو میرا بھی دل لگا رہے گا۔
ورنہ آج کل تو دل ہر چیز سے بیزار ہوا پھرتا ہے۔ چلین ٹھیک ہے آپا میں کل جاتے ہوئے سمعیہ کو آپ کے پاس چھوڑ جاؤں گی۔
________
زری کیا ہوا ہے؟ تم کب سے خاموش ہو۔بھائی کی وجہ سے پریشان ہو۔
موم اور بھائی کو لے کر تم پریشان نہ ہو، وہ لوگ خود ہی ایک دوسرے کو منا لیں گے، ویسے بھی بھائی موم سے زیادہ دن ناراض نہیں رہ سکتے۔
وہ دونوں یونیورسٹی میں موجود تھیں۔
نہیں۔۔۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بس پیپرز کو لے کر ٹینشن ہو رہی تھی۔
او مائی گاڈ۔۔۔۔ زرفشاں ابان لغاری پیپر کی ٹینشن لے رہی ہیں، یہ میرے کان کیا سن رہے ہیں۔ ماہی کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
ماہی کی یو بکواس ایکٹنگ کرنے پر وہ دونوں مسکرا دیں۔
کہ تبھی دانیال ان کے پاس آیا تھا۔
زری مجھے تم سے دو منٹ بات کرنی ہے۔ وہ ماہی کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
ماہی کو اس کا انداز ایک آنکھ نہ بھایا۔
ٹھیک ہے ذری میں لیکچر لینے جا رہی ہوں، تم بھی آ جانا۔ وہ ایک نظر دانیال پر ڈالے وہاں سے چلی گئی۔
دانیال بھائی ایسی کیا بات تھی، جو آپ ماہی کے سامنے نہیں کہہ سکتے تھے، خوامخواہ ناراض کردیا اسے۔۔۔
اسی کی بات تھی میری نادان بہن، اگر اس کے سامنے کچھ کہتا تو کوئی شک نہیں تھا کہ وہ میرا سر پھاڑ دیتی۔
میں ماہی کے لیے رشتہ بھیجنا چاہتا ہوں۔
دانیال کی بات سن کر زری دو منٹ کے لیے خاموش ہی رہی۔
آپ سچ میں۔۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔ مذاق میں بھی کوئی رشتہ بھیجتا ہے۔
حد ہے میں پاگل ہوں جو سال سے تمہاری پھوڑ نند کے پیچھے خوار ہو رہا ہوں۔
آپ میرے سامنے میری پیاری سی نند کی برائی کر رہے ہیں۔
واہ، خوب،۔۔۔۔ نہیں تمہاری نظر میں بھائی کی کوئی اہمیت نہیں؟ بس شوہر کے ملتے ہی تم بدل گئی ہو۔
دونوں مسکرا دیئے۔۔۔
________
ماہی اپنی خالہ کی طرف چلی گئی تھی۔
زری کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ تو وہ آغاجان کے پاس چلی گئی تھی۔
آغاجان سب ٹھیک ہے نا؟
ہاں میرے بچے سب ٹھیک ہے۔
تو پھر آج آپ میرے ساتھ صبح پارک کیوں نہیں گئے؟
آج دل نہیں چاہ رہا تھا۔ بس، اسی لیے۔۔۔۔ کل سے پھر سے جانا شروع کر دیں گے۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔ وہ ان کے سائیڈ میز کی طرف منہ کیے کھڑی ان کی دوا نکالتے، ان سے باتیں بھی کر رہی تھی۔
اور آغاجان کچھ فاصلے پر صوفے پر بیٹھے تھے اور زری کی شکایتیں دور کر رہے تھے۔
جب کوئی تھکا ہارا آغا جان کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔
اور آغاجان کے سامنے نے ہی دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔
آغا جان مجھے آپ سے ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ آپ میرے حصے کا پیار بھی دوسروں کو کر جاتے ہیں۔ وہ زری کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
وہ اس کی آواز پر چونکی تھی۔
دوسروں کو کہاں؟ تم دونوں ایک ہی تو ہو۔
وہ آغا جان کی بات پر مسکرا دیا۔
زری دوا لئیے آغاجان کے پاس آئی اور ان کی طرف بڑھا دی۔
زری آج یقیناً مجھ سے زیادہ دوا کی ضرورت تمہارے سائیں کو ہے، دیکھو اس کا چہرہ کیسے لال ہو رہا ہے۔
نہیں آغا جان۔۔۔۔ بس تھوڑی سی تھکاوٹ ہے۔ وہ بھی آرام کرنے سے دور ہو جائے گی۔ آپ آرام کریں۔ وہ یہ کہہ کر ان کے کمرے سے نکل گیا۔
زری جاؤ، تم اسے کچھ کھانے کو دو اور میری مانو تو اسے دوا بھی دے دینا۔ یہ اسی طرح بس اپنے آپ پر ہی سارا غصہ نکالتا رہے گا، کسی سے کچھ نہیں کہے گا۔
ٹھیک ہے آغاجان، میں انہیں دوا دے دوں گئی۔
____________
وہ تھکا ہوا آفس سے آیا تھا۔ سر پھٹنے کے قریب تھا، اسی لئے وہ سیدھا اپنے کمرے میں گیا تھا مگر وہاں زری کو نہ پا کر وہ اسے ڈھونڈنے نیچے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
اسے آغاجان کے کمرے سے زری کی آواز سنائی دی تو وہ انہی کے کمرے میں چلا گیا تھا۔ سر کے درد کی وجہ سے وہاں دو منٹ بیٹھنا اس کے لئے مشکل ہو گیا تھا،اسی لئے وہ جلد ہی آغا جان کے کمرے سے اٹھ آیا تھا۔
اور اب اپنے بیڈ پر لیٹا اسی دشمن جان کے بارے میں سوچ رہا تھا، جو پوری آب و تاب سے اس کے دل و دماغ پر سوار ہو گئی تھی۔
رات کے چھ بجے کا وقت تھا جب ذری کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
وہ بیڈ پر لیٹا تھا۔
وہ اس سے دانیال کے بارے میں بتانا چاہتی تھی، مگر بات کہاں سے شروع کرے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔ اسی لیے وہ کافی دیر ایسے ہی کھڑی رہی۔
وہ بس آنکھیں بند کیے تھا۔ وہ جانتا تھا کہ زری اس سے کچھ کہنا چاہتی ہے، مگر کہہ نہیں پا رہی۔
وہ اٹھا تھا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔
وہ۔۔۔۔۔ میں۔۔۔ اس کے اس طرح اٹھ کھڑے ہونے سے، اور بالکل پاس آ جانے سے الفاظ ساتھ ہی چھوڑ گئے تھے۔
میں سن رہا ہوں۔ بولو۔۔۔۔۔ وہ اس کے اور قریب ہوا تھا۔
میں۔۔۔۔۔
اس کے اس طرح بات کرنے سے اسے الجھن ہوئی تھی اور غصہ بھی آیا تھا کہ وہ اب بھی اس کے سامنے آنے سے کتراتی تھی اور بولنا تو بہت دور کی بات۔۔۔۔۔۔
اس نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا اور اپنے ساتھ لئے دروازے کے باہر لا کھڑا کیا تھا۔
میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں یہ کہہ کر اس نے اس کے منہ پر ہی دروازہ بند کر دیا تھا۔
وہ سگریٹ کی ڈبی اور لائٹر لیے صوفے پر آ بیٹھا تھا۔
وہ اپنے رویے کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ ہر بار اس کے ساتھ زیادتی کر جاتا تھا، لیکن آج کچھ غلط نہ ہو جانے کے ڈر سے وہ زری کو اپنے کمرے سے نکال چکا تھا۔
اس کا کانپتا وجود اور بات کرتے وقت تھرتھراتے ہونٹ۔۔۔۔ ان سب کے مدنظر وہ کوئی گستاخی کردینے کو تھا۔ جس کا ازالہ شاید ممکن نہ تھا۔
اپنے آپ پر قابو پانے کے لیے اسے یہی ایک بہترین حل نظر آیا۔
وہ کافی دیر سگریٹ پھونکتا رہا تھا۔
____________
اس کے منہ پر دروازہ بند کر دینے پر زری کو رونا آیا تھا۔ کہ کیسا شخص تھا جب دل میں آیا اپنے کمرے میں جگہ دے دی وہ بھی اس کے بارہا انکار کرنے پر اور جب جی میں آیا ذلالت کئیے کمرے سے نکال دیا۔
اس بے عزتی کے بعد زری اپنے پہلے والے کمرے میں آ گئی تھی اور بیڈ پر لیٹ خوب روئی تھی۔
وہ سوچ چکی تھی کہ وہ اب اس کے کمرے میں قدم بھی نہیں رکھے گی۔۔۔۔
موسم غم ہے مہربان اب کے
ہم پر تنہائیوں کا سایہ ہے
بعض اوقات رات یوں گزری
تو بھی کم کم ہی یاد آیا ہے
___________
رات کے نو بج گئے تھے۔ لیکن زری اب تک کمرے میں نہ آئی تھی۔
وہ نیچے آیا تھا جب نجمہ اپنے کوارٹر جانے کی تیاری میں تھی۔
صاحب آپ کو کچھ چاہیے تھا؟
وہ۔۔۔۔ سب کہاں ہیں؟ کیا سب نے ڈنر کر لیا؟ صاحب بڑے صاحب( آغا جان) اپنے کمرے میں ہیں اور انہوں نے اپنے کمرے میں ہی کھانا کھایا اور آمنہ بیگم نے بھی اور چھوٹے صاحب (احمد صاحب) فیکٹری کے کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے ہیں اور ماہی بی بی آج اپنی خالہ کے گھر ہی رہیں گی۔ وہ چپ ہو گئی تھی۔
زرفشاں۔۔۔۔
وہ جی اپنے کمرے میں ہیں، دو بار گئی تھی انہیں اٹھانے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔
وہ کچھ پل خاموش ہوا تھا۔
صاحب میں جاؤ؟
ہا۔۔۔ ہاں۔۔۔ تم جاؤ۔
نجمہ کے جانے کے بعد وہ زری کے کمرے کی طرف گیا تھا۔
کمرے میں داخل ہوا تھا اور سامنے ہی دشمن جان بیڈ پر سوئی ہوئی تھی۔
وہ اس کی طرف بڑھا تھا جو سرمئی رنگ کے لباس میں موجود تھی۔ اس کے چہرے پر آنسوؤں کے نشانات واضح موجود تھے۔
اس کا چہرہ دیکھ کر ایک دم سے اس کی سانسیں تھم گئی تھی۔ وہ ہر بار اس کے ساتھ زیادتی کر جاتا تھا۔
وہ جھکا اور اسے اپنی باہوں میں اٹھائے اپنے کمرے کی طرف چل دیا تھا۔
وہ اسے بڑے آرام سے بیٹھ پر لٹائے فریش ہونے چل دیا تھا۔
وہ فریش ہو کر آیا اور اس کے بہت قریب ہی لیٹ گیا تھا۔
اپنا سر ایک ہاتھ سے اٹھائے اسے دیکھنے میں محو تھا۔ وہ چاہ کر بھی اس کے سحر سے نکل نہیں پا رہا تھا۔
وہ اپنا چہرہ اس کے چہرے کے بہت قریب لے گیا تھا اور اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اپنے لب باری باتی اس کی آنکھوں پر رکھ دیے تھے۔
وہ پیچھے ہوا اور دراز سے ایک ڈبی نکالی جس میں چین موجود تھی۔ یہ وہ چین تھی جو زری کو اس کے ابو نے دی تھی۔ اور ابان نے اس چین کو بڑی بے دردی سے زری کے گلے سے الگ کیا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ یہ چین زری کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے، اسی لئے اس نے اس چین کو جڑوایا تھا۔ اور اس میں ایک چھوٹے سے لوکٹ کا اضافہ کیا تھا، وہ بہت پیار سے اسے وہ چین پہنا گیا تھا۔
اس کا سر اپنے بازو پر رکھے اس کے گرد حصار بنائے لیٹ گیا تھا۔
سکون تو اب ملا تھا اس کو اپنے پاس دیکھ کر۔
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا
جب کوئی ذکر گردش آیام آ گیا
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا
غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آ گیا
شاید کہ دور بادۂ گلفام آ گیا
دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا
دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا
سو بار حسن پر بھی یہ الزام آ گیا
صیاد شادماں ہے مگر یہ تو سوچ لے
میں آ گیا کہ سایہ تہ دام آ گیا
دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں
کیا جانیے غریب کہاں کام آ گیا
یہ کیا مقام عشق ہے ظالم کہ ان دنوں
اکثر ترے بغیر بھی آرام آ گیا
احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ
اب آفتاب زیست لب بام آ گیا
___________