شِٹ۔۔۔ شِٹ شِٹ شِٹ۔۔۔۔
مجھے ایک بار وہ لڑکی مل جاۓ میں اسکا خون کر دوں گا۔
وہ پچھلے دو گھنٹے سے اس سڑک کنارے بیٹھا تھا اِکّا دُکّا گاڑیاں جو گزری تھیں انہوں نے رکنا گوارا نہ کیا اس گرمی اور دھول مٹی میں اسکی بری ہو گٸ تھی۔
وہ اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے عاٸشہ کو فاٸر کر دیا کیا ضرورت تھی ابھی ہی یہ سب کہنے کی یہ کام آفس پہنچ کر بھی کیا جا سکتا تھا۔ مگر واۓ ری قسمت اب اسے کیا معلوم تھا کہ اپنی گاڑی لے کر آٸ تھی۔
ڈیم اٹ۔۔۔۔۔
وہ پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔
کبھی کبھی ہم دوسروں کو سبق سکھانا چاہ رہے ہوتے ہیں اور خود ہمیں ہی سبق مل جاتا ہے۔
***************************
نتاشا میڈم یہ رہی گاڑی کی چابی باس نے مجھے جاب سے نکال دیا ہے۔
اوہ مطلب آپ کو بھی فاٸر کر دیا گیا ہے۔
ہاں کیونکہ فاٸر ورڈ انکا فیورٹ ہے سو۔۔۔۔
اچھا مگر باس کدھر ہیں گھر چلے گۓ کیا؟؟؟
نہیں میں انہیں راستے میں اتار آٸ ہوں کیونکہ انہوں نے مجھے اسی وقت فاٸر کر دیا تو میں نے بھی کہہ دیا پھر کہ یہ میری گاڑی ہے۔ تو آپ اٸیر پورٹ کے پاس والی جو روڈ ہے وہاں سے ان کو لے آٸیں میں دو گھنٹے پہلے انہیں وہاں اتار کر آٸ تھی۔
وہ تو ایسے آرام سے کہہ رہی تھی جیسے تمغہ حاصل کر کے آٸ ہو۔
کیاااااا دد۔۔۔دو گھنٹے؟؟؟؟
تو دو گھنٹوں تک آپ کیا کرتی رہی ہیں؟؟؟؟؟
شاپنگ۔۔۔
عاٸشہ ہ ہ۔۔۔۔۔آر یو میڈ آپ شاپنگ کے لیے کیوں گٸیں؟؟؟؟
ظاہر ہے باس نے جاب سے نکال دیا اور یقیناً وہ میری ایک ہفتے کی سیلری نہیں دیتے تو میں نے کمپنی کے کارڈ سے کر لی۔ اور یہ رہا کریڈٹ کارڈ۔۔۔۔۔
وہ دونوں چیزیں تھما کر چلی گٸ اور نتاشا سر پکڑ کر بیٹھ گٸ۔
مگر فلحال اس کے پاس سر پکڑ کر بیٹھنے کا وقت نہیں تھا اسے جلد از جلد ظہیر خان کو پک کرنا تھا۔ آج شامت سب کی پکا تھی یہ تو طے تھا۔
اگلے آدھے گھنٹے میں وہ وہاں موجود تھی۔ آٸ ایم سو سوری سر ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ مس عاٸشہ کچھ ایسا کریں گی۔
وہ اور بھی کچھ کہہ رہی تھی مگر ظہیر خان تو اس گاڑی کو دیکھ کر غصہ ضبط کر رہا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کو عاٸش کو اسی گاڑی میں ڈال کر آگ لگا دے اور پھر کھاٸ سے نیچے پھینک دے۔
عاٸشہ نے اس سے جھوٹ بولا تھا اور وہ اسے اسی کی گاڑی سے نیچے اتار کر یہاں خوار کر کے گٸ تھی۔
وہ جتنا ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا اسے اتنا ہی غصہ آرہا تھا۔ نتاشا کریم بُک کرواٶ اور مجھے دوبارہ یہ گاڑی میرے آفس میں نہ نظر آۓ ورنہ تم نظر نہیں آٶ گی۔
نتاشا حیران ہوتی کریم بُک کرانے لگی مگر ایسی بھی کوٸ حیرانی نہ تھی اسے وہ مکمل قصہ جانتی تھی اور اپنے باس کی فطرت سے بھی واقف تھی۔
ظہیر خان سیدھا گھر آیا تھا اس وقت وہ ریلیکس ہونا چاہتا تھا اور بالکل بھی کسی سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
************************************
زری تمارے لالہ واپس آگۓ کیا؟؟؟
جی مما جانی آگۓ ہیں لالہ اور انہوں نے سختی سے کہا ہے کہ کوٸ بھی آج کی تاریخ میں اپنی شکل نہ دکھاۓ۔ بےزاری سے چینل سرچنگ کرتے زرش نے جواب دیا۔
کیوں ایسا کیا ہو گیا ۔۔۔۔آخر ایسا بھی کیا ہو گیا؟؟؟؟
خان بیگم ظہیر کے لیے پریشان ہو رہی تھیں۔ کیونکہ ظہیر خان کو اگر غصہ بھی آتا تھا تو بھی وہ ہاٸپر نہیں ہوتا تھا۔
رہنے دیں مما جانی اب کسی کی ہاۓ تو لالہ کو لگی ہی ہو گی نہ۔
بدتمیز۔۔۔۔ خان بیگم نے کشن اٹھا کر دے مارا۔
ہاۓ مما جانی اتنی ظالم تو نہ بنیں اب کیا بچی کی جان لیں گی۔
تو تم بھی تھوڑی سی شرم کر لو اپنے لالہ کو ایسے کہہ رہی ہو۔
اچھا نہ سوری آپ جا کے پوچھیں ذرا کہ صاحب کے مزاج اتنے برہم کیوں ہیں۔
رہنے دو اسے خود کو تھوڑا ریلیکس کرنے دو اور اٹھو تمہارے بابا کی کال آٸ تھی پوچھ رہے تھے تمہارا جا کر بات کرو ان سے۔
اچھا میں جاتی ہوں اور آپ لالہ کو کہیں کھانا کھا لیں۔
زری بات کر کے کھانے کے لیے آٸ تو خان بیگم اکیلی بیٹھی تھیں۔
کیا ہوا لالہ کدھر ہیں؟؟؟
وہ کھانا نہیں کھاۓ گا۔
اور یہ خان ولا میں پہلی بار ہوا تھا کہ ظہیر خان گھر میں موجود ہوتے ہوۓ بھی کھانے کی ٹیبل پہ نہیں تھا۔
مگر اصل طوفان ابھی آنا باقی تھا۔
*******************************
اگلے دن جب ظہیر خان آفس گیا تو عاٸشہ کے کارنامے ایک ایک کر کے سامنے آنے لگے۔
ہیلو عارف میرے روم میں آٸیں۔
مے آٸ کم اِن سر۔۔۔۔
کم اِن۔
اب کیسی طبیعت ہے آپکی۔ وہ لیپ ٹاپ پہ مصروف سا بولا۔
آٸ ایم فاٸن سر۔۔۔
زرقون شاہ سے میٹنگ ٹاٸمنگ کیا ہیں؟؟؟؟
وہ سس سر۔۔۔۔۔
وہ کیا؟؟؟؟ ظہیر ابرو اچکاتے بولا۔
وہ دراصل سر بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔ عارف پسینہ صاف کرتے ہوۓ بولا۔
جی تو کیا بات ہے میں نے آپ سے ٹاٸمنگ پوچھی ہے اور آپ اتنے پریشان ہو رہے ہیں جیسے میں نے الجبرا کا کوٸسچن کر لیا ہو۔
وہ دراصل سر ۔۔۔۔ وہ عاٸشہ۔۔۔۔۔
اور بس ظہیر ممکنات سوچ رہا تھا کہ زرقون کو عاٸشہ کیا کر آٸ ہو گی جو بیس منٹ وہ اسکے ساتھ رہا تھا اس نے اپنی زندگی کے بدترین لمحات گزارے تھے۔
مجھے سچ سچ بتاٸیں کہ کیا بات ہے بنا رکے شروع ہو جاٸیں۔
اور عارف اسے بے بسی سے دیکھ کر رہ گیا وہ دل میں عاٸشہ کو جتنی صلواتیں سنا سکتا تھا وہ سنا رہا تھا جس نے اسے آج اس مصیبت میں ڈالا تھا۔
وہ سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ا سے یے تک ساری کہانی سنا ڈالی۔
وہ چپ چاپ سنتا رہا تھا عارف کو اسکی یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ لگ رہی تھی۔
مگر سر پہل زرقون میڈم نے کی تھی وہ بدتمیزی کر رہی تھیں۔
عاٸشہ سے لاکھ اختلاف سہی مگر اس وقت وہ اس شیر کو کچھ بھی کرنے سے روک دینا چاہتا تھا وہ جانتا تھا کہ خاموشی کا طوفان شور میں بدلا تو بہت نقصان ہو گا۔
مگر وہ بولا بھی تو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارف مس عاٸشہ کا کنٹریکٹ پیپر لے آٸیں اور انہیں کال کر کے بلاٸیں۔
******************************
عاٸشہ کل سے پریشان گھوم رہی تھی۔ کرنے کو تو کل وہ حساب چکتا کر آٸ تھی مگر اب نٸ جاب کہاں سے ڈھونڈے گی اوپر سے ارتضیٰ خان کی طنز بھری باتیں کیسے سنے گی۔ کتنے دھڑلے سے اس دن کہہ رہی تھی کہ اپنے دم پہ جاب ڈھونڈ کر کامیاب ہو گی مگر یہاں تو ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا اور وہ جاب سے فارغ کر دی گٸ تھی۔
جب اس نے سدرہ کو اپنا کارنامہ بتایا تو وہ ہنس ہنس کر دوہری ہو رہی تھی۔ یا اللہ کیا چیز ہو تم لاڈو مطلب اپنے باس کو تم اسی کی گاڑی سے اتار کر راستے میں چھوڑ کر چلی گٸ اوپر سے اسی کے پیسوں سے شاپنگ بھی کر آٸ۔
دیکھنا اب تم ۔۔۔وہ ضرور تمہاری پٹاٸ کرے گا۔
سدرہ بے تحاشہ ہنس رہی تھی اسے عاٸشہ سے ایسی توقع نہیں تھی۔
لالی اب آپ ہنسی تو میں ناراض ہو جاٶں گی بالکل بات نہیں کروں گی۔
اوکے اوکے سوری اب بالکل نہیں ہنسوں گی۔ سدرہ ہونٹوں پہ انگلی رکھے اپنی ہنسی روک رہی تھی۔
پہلے تو عاٸشہ ناراض نظروں سے اسے دیکھتی رہی پھر جو دونوں کی ہنسی چُھوٹی تو وہ دیر تک ہنستی رہیں۔
اس وقت وہ آنے والے وقت کو بھلا کر ظہیر خان کی حالت کو انجواۓ کر رہی تھی۔
جب تک سدرہ رہی وہ بھولی رہی مگر اب اس کے جانے کے بعد وہ آگے کا سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔۔۔
عاٸشہ پریشانی سے کمرے میں ٹہل رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ وہ لیز کھاۓ جا رہی تھی۔ اسے خوشی میں ذیادہ بھوک لگتی تھی یا پریشانی میں یہ اندازہ کرنا مشکل تھا مگر وہ دونوں حالتوں میں ہی کھاتی تھی اور بے تحاشہ کھاتی تھی۔
تبھی اسکا موباٸل بجا۔
ہیلو عاٸشہ خان اسپیکنگ؟؟؟؟
یس سپیکنگ۔۔
مس عاٸشہ باس نے کل آپکو آفس بلایا ہے کل نو بجے آفس پہنچ جاٸیے گا۔
مگر میری۔۔۔۔۔
مگر کال کٹ چکی تھی۔
اب ایک نٸ مصیبت کھڑی ہو گٸ تھی۔
چل بھٸ عاٸشہ کم آن اب پنگا لیا ہے تو سامنا بھی کر ۔ شیر بن شیر میں میں بکری نہیں بننا۔
خود کو تسلی دے کر وہ سونے چل دی۔
************************************
اگلے دن وہ ساڑھے نو بجے آفس پہنچی۔
مس عاٸشہ باس نے آپکو اپنے کیبن میں بلایا ہے۔
عاٸشہ جل تو جلال تو کا ورد کرتی اندر چلی گٸ۔
آٸیے مس عاٸشہ ویسے کافی جلدی آگٸ ہیں آپ شاید پیدل آٸ ہیں کیونکہ آپ اپنی گاڑی تو کل آفس میں دے گٸ تھیں۔ تو آنے میں کوٸ مسٸلہ تو نہیں ہوا کافی منگواوں کیا آپ کے لیے۔
طنز تو ارتضیٰ خان بھی کرتے تھے مگر ظہیر خان کا تو کوٸ ثانی نہ تھا۔
نو تھینکس آپ نے مجھے کیوں بلایا کل تو آپ مجھے فاٸر کر چکے تھے نہ تو پھر۔
اوہ رٸیلی کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میں آپ سے ان دو گھنٹوں کا حساب نہیں لوں گا وہ ظہیر خان جو ایک منٹ کا حساب رکھتا ہے وہ دو گھنٹے بھلا دے گا جو آپکی کرم نوازی کی وجہ سے مجھے نصیب ہوۓ۔
دد دیکھیے تب آپ مجھے فاٸر کر چکے تھے تو آپ مجھ سے وہ حساب نہیں لے سکتے۔ عاٸشہ اندر سے سہمی ہوٸ مگر بظاہر پر اعتماد لہجے میں بولی۔
ہاں مگر تب مجھے کنٹریکٹ کا پتا نہیں تھا جو مس عاٸشہ خان نے ساٸن کیا تھا کہ وہ چھ مہینے سے پہلے جاب نہیں چھوڑ سکتیں۔
ہاں تو۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
تو یہ کہ آپ اگلے چھ ماہ تک میری سیکرٹری ہی رہیں گی اور جاٸیے اور میری لیے دو منٹ میں کافی بنا کر لاٸیے۔
مم مگر۔۔۔۔۔
کانٹریکٹ پورا نہ کرنے پر شراٸط آپکو معلوم ہیں نہ۔۔۔۔۔۔
اور وہ پھنس گٸ تھی خیر اچھا ہوا وہ بھگت لے گی مگر ارتضیٰ خان کو معلوم نہیں ہونے دے گی وہ جاب کر رہی ہے یہی بہت تھا سو وہ مسکرا کر کافی بنانے چلی گٸ۔
دو منٹ گزر چکے تھے مگر عاٸشہ کا کچھ پتا نہ تھا۔
یہ لڑکی کبھی نہیں سدھر سکتی کبھی بھی نہیں۔ مگر میں سبق اسکو اب سکھا کر ہی رہوں گا۔ وہ شیطانی مسکراہٹ لیے کام میں مگن ہو گیا۔
پانچ منٹ بعد وہ کافی لے کر آ گٸ۔
مس عاٸشہ دو مںٹ کا کیا مطلب ہوتا ہے ہمم۔
دوسری کافی بنا کر لے آٸیں اور دو منٹ مطلب دو منٹ۔
وہ غصہ ضبط کرتی واپس ہو لی۔
اس بار تین منٹ لگے۔ ظہیر نے پھر واپس بھیج دیا۔
اگلی دفعہ دو منٹ دس سیکنڈ لگے۔ وہ چکر لگا لگا کر تھک گٸ تھی مگر خاموشی سے بات مانتی رہی۔
دس سیکنڈ ابھی بھی لیٹ۔۔۔ وہ گھڑی سامنے کرتے بولا۔
ہاں تو دس سیکنڈ سے کیا ہوتا ہے کونسا کافی حلق سے اترنے سے انکار کر دے گی۔
وہ دھپ کر کے بیٹھ گٸ۔
مس عاٸشہ یہ کافی لے جاٸیں دو منٹ میں دوسری کافی بنا لاٸیں۔
وہ پیر پٹختی چلی گٸ۔ پیچھے سے ظہیر خان مزے لیتا بولا کھیل تو اب شروع ہوا ہے عاٸشہ خان۔۔۔۔
اس بار وہ ایک منٹ پانچ سیکنڈ میں ہی واپس آ گٸ۔
واٶ ایسے ہی فاسٹ کام کیا کریں۔ وہ اس سے کافی لیتا ہوا بولا۔
اچھو۔۔۔۔۔۔۔آخ آخر
یہ کافی ہے یا کیا ہے؟؟؟؟؟ ظہیر اچھل ہی پڑا۔
ہاں تو اب میں کیا کروں مجھے کافی بنانی نہیں آتی اور ویسے بھی چار بار کافی گرم ہونے سے اس کا ٹیسٹ بدل ہی جاتا ہے۔
پہلی دفعہ ہی پی لیتے نہ۔
عاٸشہ اس پہ احسانِ عظیم کرتے ہوۓ بولی۔
جبکہ ظہیر خان کی حالت تو ایسی تھی جیسے گرم توے پر بٹھا دیا ہو۔
وہ اسے ایک ہی بکواس سی کافی چار بار گرم کر کے پلا رہی تھی۔
تگنی کا ناچ کون ناچنے والا تھا یہ تو وقت ہی بتاتا مگر مزہ بہت آنے والا تھا۔