مجھ سے پوچھنے آیا ہے تو وفا کے معنی,,,,,,
یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو,,,
؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اشعر اپنے کام سے واپس ایا ۔۔۔ وہ جو ولیمے کے دوسرے دن ہی چلا گیا تھا ۔ اج چھیالیس دن بعد واپس آرہا تھا ۔
اس کا بس چلتا تو اب بھی نہ اتا ۔ سزا جو دینی تھی اس کو ارشیا کو ۔۔۔ سارے دن بہت کشمکش میں گزراے تھے اسنے ۔۔۔ وہ ارشیا کے ساتھ ٹھیک کر رہا ہے یا نہیں وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا ۔ جہاں غصے میں وہ ارشیا کے لیے سزا مقرر کر بیٹھا تھا اب غصہ ٹھنڈا ہونے پر اسے اپنا فیصلہ غلط۔لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ وہ ایسا نہیں تھا خوش مزاج، سنجیدہ ، بہت جلدی بات بھول جانے والا معاف کرنے والا ۔۔۔۔۔ پر ارشیا کے معاملے میں اس کا دل سخت ہو گیا تھا ۔۔۔۔ چاہے چنڈ لمحوں کے لیے ہی سہی ۔۔۔۔ ارشیا اور اپنی آخری لڑائی وہ ابھی تک نہیں بھولا تھا ارشیا کو سزا دیتے دیتے اسے یہ بھی خیال نہ رہا کہ اسکی ماں بھی ہے وہاں ۔۔۔۔
وہ گھر ایا تو دروازے پر تالا تھا اسنے اس پاس دیکھا کہ کسی سے پوچھ لے پر کوئی نظر نہ ایا ۔ اس لیے خود ہی تالا کھول کر وہ اندر اگیا ۔ بہت خاموشی تھی گھر میں اس نے سامان رکھ کر کچن میں گیا پانی پینے تو اسے وہ اپنا کچن نہ لگا ۔ اتنا صاف کچن اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی وی تھی ۔ اس نے پانی کا گلاس اٹھائے باہر ایا تو پورے گھر کو ایک نظر دیکھا ۔۔۔
مسکراتے ۔۔ چلو ارشی سگھڑ تو ہے ۔ گھر کافی اچھے سے سنھبالا ہے۔ اپنے کمرے کو دیکھو اس کا کیا حال بنا کر رکھا وا ۔۔۔
وہ سیڑھیاں چڑھتے اوپر ایا ۔ ارشیا کے کمرے کی طرف جانے لگا لیکن کچھ یاد اتے وہ دوسری طرف موڑا گیا ۔ وہ کمرہ تو وہ ارشیا کو پہلے دن ہی دے چکا تھا اس کا کمرا تو دوسرا تھا ۔
دروازہ کھولا اور اپنا سامان اندر رکھ دیا کہ نیچے سے سعدیہ بیگم کی اواز ائی ۔ جو ارشیا کو کہہ رہی تھی کہ اشعر ہی ایا ہو گا ۔ اسی کے پاس تالے کی دوسری چابی ہے ۔۔۔ ارشیا چادر اوڑھے سعدیہ بیگم کا ہاتھ پکڑے ساتھ لے کر ارہی تھی ۔
وہ سعدیہ کو بیٹھاکر پانی لینے ائی ۔ جب اشعر سیڑھیوں سے اترا ۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔ ارشیا کو کہتے ا خری سیڑھی سے نیچے اترا ۔
ارشیا نے بنا دیکھے وعلیکم السلام ۔۔۔ کہتی کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔
اشعر بھی سعدیہ کی طرف اگیا جو اپنے بیٹے کو دیکھتے کرسی سے اٹھ گئی تھی ۔۔۔ ماں تھی کتنے دنوں بعد اپنی ایک لوتے جان کے ٹکڑے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
اشعر بھی ماں سے مل کر وہی ان کے پاس بیٹھ گیا ۔ پر ارشیا صرف ایک دفعہ ائی پانی دینے سعدیہ کو پھر وہ کھانا بننے کے لیے کچن میں گئی اور باہر نہ نکلی ۔
اشعر نے ماں کے پاس بیٹھا اتنے دن جو سب ہوا اسکی روداد سنتا رہا .. باکل ویسےہی جیسے وہ شروع میں اکر اپنی ماں سے پورے دن کی باتیں سنتا تھا ۔۔۔۔
رات کے کھانے میں ارشیا نے تھوڑا اہتمام کیا ۔ اشعر کی پسند وہ جانتی تھی اتنے دنوں میں سعدیہ اسے اشعر کے بارے میں سب بتا چکی تھی ۔ کھانا کھا کر جہاں اشعر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ وہی ۔ ارشیا کچن کا کام ختم کر کے سعدیہ امی کے پاس چلی ائی ۔۔۔
امی اپ ابھی تک سوئی نہیں ۔۔۔۔ اپ کو کچھ چاہیے؟؟؟
سعدیہ جو بہت ہی کھو کر سوچ رہی تھی ۔ ارشیا کو دیکھتے ۔۔۔ آؤ آؤ میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی ۔ اسے اپنے پاس بیڈ پر بیٹھاتے ۔ میں نے بات کی ہے اشعر سے کہ آئندہ وہ کبھی ایسے نہ جائے اتنے دنوں کے لیے ۔ مجھے اور تمہیں چھوڑ کر ۔۔۔ کان کھنچے ہیں میں اس کے ۔ میں نے کہا ہے کہ لوگ کیا کہتے ہوں گئے ۔ کہ بیوی ائی تو ماں کو بیوی کے سہارے چھوڑ کر چلا گیا ۔ تم برا مت ماننا یہ سب میں نے اسے کہا تاکہ اسے اپنی زمہ داری کا احساس ہو ۔ ورنہ ایسے تو وہ ائے روز چلا جایا کرے گا مجھے اور تمہیں چھوڑ کے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
ارشیا نے مسکراتے سعدیہ کا ہاتھ پکڑ کر اپ نے جو بھی کہا ہو گا۔ ہماری بھلائی کے لیے کہا ہو گا ۔
ارشیا کو دیکھتے خدا سلامت رکھے تمہاری مسکراہٹ کو ۔۔۔ پھر ایک دم سیریس ہوتے خفیا انداز میں بولتے تم بھی تھوڑا غصہ دیکھانا کہ تمہیں بھی اس کا جانا برا لگا پہلی دفعہ ہی جتاوں گئی تو ائندہ خیال رکھے گا
۔۔۔۔
ارشیا جی امی ۔۔۔۔ اب میں جاوں یا کچھ اور بھی بتانا ہے ۔
سعدیہ اسے دیکھتے ۔ نہیں نہیں ابھی تم جاو اور تھوڑی ناراضگی دکھانا ۔ باقی میں ساتھ ساتھ تمہیں بتاتی رہوں گئی ۔۔۔
ارشیا کو سعدیہ امی پے بہت پیار ایا ۔۔۔۔ سعدیہ امی کو گلے لگاتے امی فی حال اپ اشعر کی امی کم میری امی زیادہ لگ رہی ۔
سعدیہ بھی فورا ہاں تو تم اب مجھے اشعر کم نہیں ہو ۔۔۔ بہت پیاری بیٹی ہو میری ۔۔۔۔۔ تم نہ کہتی تو میں اشعر کو جانے ہی نہ دیتی ۔۔۔ پر پہلی دفعہ مانگا تھا تم نے میں بھی انکار نہیں کر پائی پر اب اس معاملے میں نہیں سنو گی ۔۔۔ ۔۔ کوئی بات نہ تمہاری مانو گئی اور اشعر اس کے تو میں کان کھینچو گی اب کبھی جانے کی بات کرے تو سہی ۔۔۔۔۔۔۔
امی اپ فکر نہیں کریں ۔۔ ۔۔۔۔ ارام سے سو جائیں اتنا مت سوچوں۔۔۔ اشعر کہیں نہیں جائیں گے اب ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سعدیہ کو سلا کر کمرے میں جانے کی جگہ چھت پر چلی گئی ۔ اندھیرے میں کھڑ ے بس سیاہ آسمان کو دیکھتی رہی ۔۔۔ باکل اسکی زندگی کی طرح ۔ ہر رنگ سے پاک ۔۔۔۔ وہ اشعر کو اتنے دن بعد دیکھ کے بہت خوش ہوئی تھی ۔ اسے سمجھ ہی نہیں ا رہا تھا کہ وہ کیا کچھ کر دے ۔۔۔۔۔۔ کسی نے صحیح کہا تھا نکاح کے بول میں بہت طاقت ہوتی ۔۔۔ کتنی فکر رہتی تھی اسے اشعر کے لیے ۔۔۔۔ نہ چاہتے بھی ہر چیز اسکا دھیان اشعر کی طرف کھینچ کے لے جاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔اسمان کو دیکھتے کیا پوری زندگی اسکی ایسے ہی گزرے گی ۔ کیا کبھی وہ خوش حال میاں بیوی کی طرح نہیں رہ پائے گے ۔۔۔ بہت سے سوال تھے اسکے دماغ میں پر جواب کوئی نہیں تھا اسکے پاس ان سوالوں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر اشعر جو ابھی ابھی چھت پر ایا تھا ۔ چھت پر کسی اور کی موجودگی محسوس کرتے اس نے اس پاس نظر دوڑائی ۔ چھت کے باکل ایک طرف اسے ارشیا نظر ائی وہی کھڑے ارشیا کو دیکھتا رہا جو پتہ نہیں اسمان کو دیکھتے کن سوچوں میں گم تھی ۔۔۔۔
۔ ۔ ارشیا واپس جانے کے لیے موڑی تو اشعر کو ایسے دیکھتا پاکر اداسی سے اسے دیکھا ۔۔۔۔ لیکن بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی ۔
اشعر سمجھ نہ پایا نہ آسکے شام۔کے رویے کو نہ ابھی ۔ وہ ایک الگ ہی ارشیا کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ جب جب وہ ارشیا کو سمجھنے کی کوشش کرتا تب تب وہ ایک نئی ارشیا کھوج لیتا ۔۔۔۔
رات گزر گئی ایک اور خاموش رات ، بالکل ان کے رشتے کی طرح ۔۔۔
…۔ ۔ دوسرے دن اس نے افس سے چھٹی لے لی ۔ امی کے کہنے پر ۔۔۔ کہ کچھ ارام کر لو ۔۔۔ وہ پورا دن ارشیا کو دیکھتا رہا ۔ ہر وقت چپ چاپ کام میں لگی رہتی ۔۔۔ بالکل مشین کی طرح ۔۔۔۔ کام سے فارغ ہوتی تو سارا وقت اشعر کی ماں کو دیتی ۔۔۔ ان کی باتیں سنتی رہتی ۔
پورا دن اس نے اشعر سے نہ بات کی نہ یہ کہ وہ اس پاس ہے بھی یا نہیں ۔۔۔۔
اگر اشعر اسے اگنور کرتا تھا تو وہ اشعر سے زیادہ اسے اگنور کرتی تھی ۔بعض دفعہ تو اشعر کو ایسا لگا جیسے وہ سچ میں وہاں نہیں ہے ۔۔۔۔
ارشیا اشعر کو دیکھ کر پر سکون ہو جاتی چاہے وہ بات نہ کر پر کم از کم اس کے سامنے تو ہے ۔
وہ ارشیا کے روم سے کچھ لینے ایا ۔۔۔ اسنےالماری کھولی اس کی ہر چیز ویسے کی ویسے تھی ۔۔۔۔ ارشیا کا کوئی سامان اسکی الماری میں نہیں تھا ۔ پورا کمرہ ویسا کا ویسا تھا کچھ نہیں بدلا تھا ۔ بس اب اس کمرے میں اشعر کانہیں ارشیا کا احساس موجودتھا ۔ وہ اپنی چیزیں دیکھ رہا تھا جب ارشیا واش روم سے باہر نکلی ۔
اس نے اشعر کو حیرانی سے دیکھا تو ۔ اشعر نے فورا وہ۔میری کچھ چیزیں تھیں وہ لینے ایا ہوں ۔۔
ارشیا نے سنا پر کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ بالوں میں کیچر لگاکر وہ کمرے سے باہر نکل گی۔۔۔
۔۔اشعر اسے جاتا دیکھ اسنے سوچا کیا ناراضگی جتاتی ہے وہ ۔ مجھ سے بات نہ کر کے ۔۔ یا اسے اب مجھ سے بات کرنا بھی پسند نہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن گزرتے گئے پردونوں کا رویہ ایک دوسرے سے نہ بدلا وہ کچھ کہتا کام تو ارشیا کر دیتی پر اس سے خود کچھ نہ بولتی ۔ وہ اس کی ہر چیز کا دھیان رکھتی کھانے پینے افس کی ہر بات کا ۔پر خاموشی کا راج ابھی بھی تھا ان کے رشتے میں ۔۔۔۔ ارشیا کے لیے جیسے وہ رشتہ تھا ہی نہیں وہ جیسے اس گھر میں صرف امی کے لیے ہے کم از کم وہ اشعر کو یہی تاسب دیتی ۔
میں اج ادھر ہی روکوں گئی امی ۔ احد بہت ضد کر رہا ہے ۔۔۔ تو سوچ رہی اج چلی جاوں کل احد کی چھٹی ہے تو اسکو ساتھ لیتی آؤں گئی ۔
احد کے انے سے اس گھر میں رونق ا جاتی ۔ سعدیہ نے فوراً کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔۔۔
ارشیا سعدیہ کو دیکھتے ۔۔۔امی اپ بھی چلیں ساتھ۔۔۔۔ اشعر افس واپسی پے اپ کو لیتے آئیں گے ۔۔۔۔۔
ہاں یہ ٹھیک ہے میں بھی گھر اکیلے کیا کروں گی تم چلی گئی تو ۔۔۔
شام کو اشعر امی کو لینے علی کے گھر ایا تو سعدیہ علی کی محلے کی ہی ایک عورت کے پاس بیٹھی تھی ۔
اشعر بھی وہی بیٹھ گیا وہ اج پہلی دفعہ علی کے گھر ایا تھا ۔۔۔۔ احد وہی صحن میں اپنے دوست کے ساتھ ہی سائیکل پے کھیل رہا تھا سعدیہ نے بیٹے کو یوں بور ہوتے دیکھا تو اشعر جاو بیٹا ارشیا سے کہو چائے لے ائے ۔ وہ جو سچ میں وہاں سے فرار چاہتا تھا جلدی سے اٹھا پروہ نہیں جانتا تھا کہ کچن کس طرف ہے ۔
ایک کمرے سے اگے جاتے اسے علی کی آواز ائی ۔۔۔
ارشی اپی ۔۔۔۔
ارشیا جو چائے بنا رہی تھی اسے فورا ٹوکتے کتنی دفعہ کہا ہے علی مجھے ا س نام سے مت بولایا کرو ۔۔۔۔
پر کیوں اپی ۔۔۔ اتنا اچھا تو ہے اور
ارشیا سے اسے گھور کردیکھا تو ۔
غصہ کیوں ہوتی ہیں اپی ۔۔۔۔۔ یا یہ کہیں کہ میں نہ بولاوں اس نام سے ۔۔۔
ارشیا نے زچ ہوتے علی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
علی ایک منٹ چپ ہو گیا ۔
ادھر باہر اشعر مسکرا تا رہا تھا کیونکہ وہ ارشیا کو ارشی کہتا تھا یہ نک نیم اس نے دیا تھا ۔۔۔
علی نے فورا بسکٹ کھاتے اپی اپکی شادی لیو میرج ہے یا ارینج ۔؟
ارشیا جو چائے ڈال رہی تھی ایک دم روکی ۔۔۔۔۔
فورس فل میرج ۔ گن پوائنٹ والی میرج ۔۔
علی جو مزے سے بسکٹ کھا رہا تھا ۔ وہ ارشیا کا چہرہ دیکھنے لگا ارشیا کبھی بھی اس سے کچھ نہ کہتی تھی ۔ اج اس کا یہ جواب اسکے لیے حیران کن تھا
اسے دیکھتا پاکر ۔۔۔ کیوں کبھی ایسی شادی کا نہیں سنا ۔۔۔۔۔ کیا پہلے ۔۔۔۔ ؟؟
اپ تو پسند ؟؟ اسنے روک روک کر بولا
پسند ۔ عورت کی کیا پسند ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ارشیا طنزیہ ہنسی ۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔کرتی تھی میں کسی کو پسند ۔۔۔۔۔ پر وہ یہ اشعر نہیں تھا ۔۔۔۔ جسے میں پسند کرتی تھی وہ تو کہیں گم ہو گیا ۔ بہت دور چلا گیا ۔ اتنا دور کے میری اواز ہی نہیں سن پاتا۔۔۔۔۔۔۔۔ لگتا یک طرفہ محبت تھی میری ۔۔۔ یا پھر میرا محبوب بھی ظالم تھا
علی نے ارشیا کا چہرہ دیکھتے اپ نے پھر شادی کیوں کی؟
ارشیا نے ٹرے میں چائے لگائی ۔ اور بسکٹ کی پلیٹ علی کے پاس سے اٹھاتے ۔۔۔۔۔۔۔ تم اج کچھ زیادہ سوال نہیں کررپے مجھ سے ۔۔۔۔ انوسٹیگیٹر افیسر بنے وے ۔۔
ارشیا نے ٹرے اٹھاکر جانے لگی واپس موڑ کر اسے دیکھتے ۔ میری لائف سے متعلق سوال۔مت کیا کرو علی۔۔۔۔۔ میں تم سے جھوٹ نہیں بول پاوں گی اور سچ بتا کر ایک دفعہ پھر اپنی ٹوٹی ہوئی امیدیں نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔۔ کہہ کروہ چلی گئی ۔ علی اپنی جگہ شرمندہ تھا ۔۔اور اشعر کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا ۔ وہ سیدھا باہر نکل گیا۔ گھر سے ۔۔
سعدیہ نے ارشیا کودیکھتے اشعر کوچائے دے دی ۔
ارشیا نے حیران ہوتے وہ کب ائے ۔ ؟؟؟
ابھی ہی ایا تھا میں ہی کہا اندر تم دونوں کےپاس چلا جائے دیکھو کہیں ادھر ہی ہو گا۔
ارشیا نے پورا گھر چھان ڈالا پر کہیں نہ ملااشعر
وہ ابھی سوچ رہی تھی کہ علی نے اکر بتایا کہ اشعر بھائی افس چلے گئے کچھ کام آگیا پے انکا ۔۔ مجھے کہا ہے کہ۔میں اپ کو گھر چھوڑ دوں ۔۔
سعدیہ اور ارشیا نے سکون کا سانس لیا ورنہ دونوں پریشان ہوگئی تھیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر ارشیا رات کو احد کے پاس لیٹی تھی۔ علی نے نوک کیا ۔ میں آجاؤں ۔۔۔۔
ارشیا فورا اٹھ کے بیٹھتے ہاں اوں ۔۔۔ سوئے نہیں اب تک تم ۔۔۔۔۔
بس نیند نہیں آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔ تو سوچا اپ کو دیکھ لوں ۔۔۔ احد سو گیا ۔۔۔ احد کو دیکھتے ۔۔۔
ہاں یہ تو اج جلدی ہی سو گیا ۔۔۔۔
علی کرسی پر سر جھکائے بیٹھا تھا ۔
اسے ایسا دیکھ کیا ہوا تمہیں ۔۔۔۔؟؟؟ کوئی مسئلہ ہے ؟
کچھ نہیں ۔۔ اپ کی باتیں سوچ رہا ہوں ۔۔۔۔
ارشیا اسے دیکھتے ۔ پاگل۔ہوں میں تو ۔۔۔۔۔تم میری باتوں کو سوچ رہے ہو ۔۔۔۔ پہلی دفعہ تم سے کچھ کہا ہے اور تم سوچنے بیٹھ گئے۔ میری۔بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا کرو ۔ ۔۔۔۔
وہ اسے ٹالنے کی کوشش کر رہی تھی
آپ سب کچھ کہتی کیوں نہیں ہے ۔۔۔ دل میں کیوں رکھتی پیں ۔۔۔۔ علی نے بھی اسکی بات کو نظر انداز کرتے اپنی بات کہی ۔۔۔
کیا کہوں ۔۔۔۔۔۔۔ کس سے کہوں ۔۔۔۔۔ میری زندگی اتنی آسان نہیں رہی ۔۔۔۔ پھر اسے دیکھتے ۔۔۔۔ تم سے کہا نا اج ۔۔۔شام سے اب تک سوچنےمیں لگے ہو ۔۔۔۔
علی کچھ نہ بولا ۔۔۔
میری زندگی کے دکھوں کا 0.1% بھی نہیں تھا یہ ۔۔۔۔ اگر میں شادی کا کبھی سوچتی تو اشعر سے ہی کرتی ۔۔۔۔۔پر ایسے نہیں جیسے ہوئی اور نہ ہی حالت ایسے تھے کہ میں انکار کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
پتہ مجھے نکاح کے وقت تک پتہ ہی نہیں تھا کہ میری شادی ہو کس سے رہی ۔۔۔۔۔۔۔ پر ہو گئی ۔۔۔۔۔ اسنے طنزیہ مسکراتے کہا ۔۔۔
علی دو منٹ چپ رہا ۔۔۔۔۔اپ روتی کیوں نہیں ؟؟؟؟
ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ ارشیا کھلکھلا کر ہنسی ۔۔۔ رونا ۔۔۔۔۔۔ علی کل۔میں چلو گی تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کو ایک دفعہ دکھائے گے تمہیں ۔۔۔ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہو تم ۔۔۔
وہ تو ہنستی رہی ۔ پر علی اج سیریس تھا وہ ایسے ہی اسے سنجیدہ منہ بنائے دیکھتا رہا ۔
ارشیا کو اپنا پنسنا جیسے فضول لگا
تم کیوں مجھے روتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہو ۔۔۔۔ اور لوگ تھوڑے ہیں جو چاہتے میں ہر وقت روتی رہوں ۔۔۔۔۔۔
یہ جواب نہیں سوال کا ۔۔۔۔ اور میں بس اپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
خوش ۔۔۔۔۔ کتنا عجیب سونڈ کر رہا نا یہ ورڈ میرے لیے ۔۔۔۔۔۔ علی کو سنجیدہ دیکھتے ۔۔۔ مذاق کر رہی ہو ں اب تم سیریس ہو تو کیا میں بھی مذاق نہ کروں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی نے فورا بات کو بدلیں مت ۔۔۔۔۔
ارشیا چپ ہو گئی وہ جانتی تھی اج وہ اسے نہیں ٹال پائے گی ۔۔۔۔۔۔۔,وہ اٹھ کر ائی علی کے پاس رکھی دوسری کرسی پر بیٹھ گئی ۔ علی سامنے دیکھتا رہا تھا ۔۔ احد کے بیڈ کی طرف ۔۔۔
رونا نہیں اتا مجھے ۔۔۔۔ وہ بہت سنجیدگی سے بات کرتے احد کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
وہ تو سنا ہو گا نا تم نے ۔۔۔ مشکلیں اتنی پڑی کہ اساں ہو گئیں ۔
بس مجھے بھی دکھ اتنے ملے کہ بھول ہی گئی رونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی دل کرتا رونے کو تو ہوتا یہ غم یہ تو اتنا چھوٹا اس پے کیا رونا دوسرے غم پے روتی ہوں پر جب وہ غم سامنے رکھتی تو لگتا یہ بھی چھوٹا سا ۔۔۔۔ اب تو مزا اتا غم برداشت کرتے ۔۔۔۔۔۔۔ پتہ ہے زندگی غم دے تو انسان بہادر بنتا حالت کا مقابلہ کرنا سیکھتا لیکن جب اپنے غم دیں تو انسان ٹوٹ جاتا سمجھ ہی نہیں پاتا کہ غم پے روئے یا اپنوں کے دییے دکھ پے ۔۔۔۔۔ ایک ماں تھی جس کے لیے میں زندگی گزار رہی تھی اس ماں نے ہی۔۔ وہ بولتے بولتے ہی چپ کر گئی ۔
ایک دن ایک مرد کے سامنے بہت روئی تھی پر اس شخص کو رحم۔نہیں ایا تھا مجھ پے ۔۔۔۔۔۔۔اس دن سے رونا چھوڑ دیا میں نے۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ انسان سے زیادہ تو جانور وفا کر جاتے شام سے صبح تک میں برونو کے پاس بیٹھے روتی رہی آنسوؤں سوکھ گے پر کسی کو ترس نہ ایا لیکن برونو میرے پاس بیٹھا رہا ۔۔۔۔۔۔۔ تم نے کسی جانور کو روتے دیکھا ہے علی کو دیکھتے ۔۔۔۔ پھر خود ہی اپنی بات کا جواب دیتے ۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا تھا برونو کو اس دن روتے ۔۔۔۔۔ سب کو برونو یاد تھا پر میں نہیں ۔ صبح اسے بہت پیٹا گیا مجھ سے وفاداری نبھانے پر ۔ یا مجھے دیکھانے کے لیے کہ مجھ سے جوڑے لوگوں کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی نے ارشیا کے چہرے کو دیکھا سنجیدگی انتہا کی تھی پر یہ سب بتاتے بھی اس کی آنکھیں نم نہیں ہوئی تھیں ۔۔۔۔ وہ بات کرتے طنزیہ مسکراتی ۔۔۔۔ جیسے کوئی فنی بات بتا رہی ہو ۔۔۔۔
احد ہلا تو وہ اٹھ کر اس کے پاس چلی گئی ۔۔۔ اسے تھپکی دیتے ۔۔۔ اسنے علی کو دیکھا تم میری زندگی پر سٹوری لکھ رہے ہو ۔ کیا ۔۔۔۔ مت لکھنا بڑی کی بکواس سٹوری ہو گی ۔
پر علی نے سر جھکا لیا اپنا ۔وہ جو ماحول کو فنی کرنے کی کوششش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ علی اسے اپنی انکھوں کی نمی کیسے دیکھتا ۔۔۔ اسکی محنت ضائع کسے کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو خود آنسوؤں نہ بہاتی ہو ۔۔۔ اسکے دکھ پے رو کر اپنی اس بہادر بہن کامان کیسے توڑتا ۔۔۔۔۔ وہ بہن مانتا تھا اسے احساس تھا اسے اپنی بہن کے دکھ کا ۔ ارشیا جو سب نارمل لہجے میں بتا رہی تھی علی اس کے دکھ کی حد سمجھ گیا تھا وہ اٹھ کر جانے لگا جب ارشیا نے اسے اواز دی
وہ روکا تو ارشیا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔ لیکن وہ موڑا نہیں ۔۔۔۔۔
زیادہ مت سوچا کرو ۔۔۔۔ زندگی اسی کا نام ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔جو دکھ گزر گے ان کو اب کیا سوچ کر کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی کو دیکھ کر ۔۔ وہ سمجھ گئی تھی اس کی حالت ۔۔۔
علی نے بھی فورا اپ بھول سکتی ہیں وہ سب ۔۔۔۔
کوششش کرتی ہوں بہت۔۔۔۔ پر ماضی پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔ ۔۔۔۔۔
وہ ارشیا کا جواب سن کر چلا گیا ۔
ارشیا اسے جاتا دیکھ اس وقت کو کوس رہی تھی جب اس نے یہ بات شروع کی تھی ۔ کیا ضرورت تھی اسےعلی کو پریشان کرنے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر دیر رات گھر ایا۔۔۔۔ تو سعدیہ کو بتا کر کہ وہ اگیا ہے ۔ وہ کمرے میں چلا گیا ۔ بچپن سے اس کا وہ کمرا تھا اسلیے سیدھا چلتا وہ ارشیا کے روم میں اگیا ۔ کمرا کھولتے اسے احساس ہوا کہ یہ اب اسکا نہیں ارشیا کا روم یے ۔ کمرے میں آندھیرا تھا ۔ لیکن ہر چیز سے وہ واقف تھا اسلیے بنا لائٹ اون کیے وہ صوفے پر اکر بیٹھ گیا ۔
اس کمرے کی خوشبو اسے بار بار ارشیا کی یاد دلاتی ۔۔۔۔ شام سے وہ بے مقصد گھوم رہا تھا ۔ اسے غصہ تھا وہ کسی اور کو پسند کرتی تھی اسکی ایک اور خوش فہمی دور ہوئی تھی کہ ارشیا اسے پسند کرتی تھی ۔۔۔۔ یہ بات اسے ہضم۔نہیں ہو رہی تھ ۔۔۔ اس کا چین چھینے کے لیے کافی تھی ۔۔ غصے سے سوچتے ۔تبھی اج تک اسے فرق نہیں پڑا جو کچھ میں نے اسے سزا دینے کے لیے کیا وہ تو اس کے لیے سزا تھی ہی نہیں وہ تو شکر کرتی تھی کہ میں اسے بیوی نہیں مانتا ۔۔۔۔۔ وہ لال آنکھیں کیے بس غصے میں سوچتا رہا کبھی کبھی انسان کا چپ رہنا فائدہ دیتا ہے پر جہاں پہلے ہی اتنی غلط فہمیاں ہو وہاں یہی چپی مزید رشتہ خراب کرتی ۔ اشعر کا بھی یہی حال تھا وہ ارشیا کی بات بنا سمجھے بنا سچ جانے اپنے اپ کی اسے مجرم بنا بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے خود پر بھی غصہ تھا کہ کتنی بڑی غلط فہمی پال رکھی تھی اسنے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اسے پسند نہیں تھا تواس نےشاری ہی کیوں کی مجھ سے ۔۔۔۔۔ وہ لال آنکھیں کیے صوفے سے ٹیک لگائے سوچتا رہا ۔۔۔۔
رات کو کب اسکی انکھ لگی وہ نہیں جانتا تھا ۔۔۔۔ پر صبح اسکی انکھ ارشیا کی اواز پر کھولی وہ جو احد کے پیچھے بھاگتے ساتھ ساتھ اسے اہستہ بھاگنے کو کہہ رہی تھی ۔۔۔ اسکی ہنسی کی اواز سنتے وہ کمرے سے باہر نکلا تو ارشیا سیڑھیوں سے ا تر ر کر صحن میں احد کو پکڑ رہی تھی وہ کھڑا اسے کافی دیر دیکھتا رہا۔۔۔۔۔پھر کل شام کی ارشیا کی بات یاد اتے اسکی ہنسی سمٹ گئی ۔۔۔۔ وہ کمرے میں واپس چلا گیا ۔ پورا دن وہ کمرے سے نہ نکلا یہ کہہ کر کہ اسے افس کا کچھ کام کرنا ہے ۔۔۔ ارشیا نے اسے ناشتہ بھی کمرے میں دیا جو اسنے باکل نہ کیا ۔ دن کے کھانے کے وقت جب ارشیا اسے بعلانے ائی تو اسکا کمرا بند تھا ۔۔۔ ارشیا نوک کرتی رہی پر اشعر نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔
ارشیا بھی اشعر کے اس رویہ پے پریشان تھی ۔ وہ کچھ نہ کہہ رہا تھا نہ ہی کھا پی رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سعدیہ کو تو اس نے جھوٹ بول کر مطمئن کر دیا کہ کھا لیا پر خود کو کیسے کرتی ۔۔۔۔۔۔۔
شام کو احد کے جانے کے بعد وہ رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگی ۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اشعر ابھی بھی کھانا کھائے گا یا نہیں ۔۔۔ پر اشعر خود ہی کھانے کی ٹیبل پر اگیا ۔۔۔۔
سعدیہ نے اسکی حالت دیکھی تو تمہاری طبیعت خراب ہے ۔ ؟؟؟
نہیں امی رات سے کام کر رہا ہوں تو بہت تھک گیا ہوں ۔۔۔ بس نیند پوری نہیں ہوئی اس وجہ سے ۔
چلو کھانا کھاو پھر ارام کر لینا ۔ باقی کام کل افس جا کر کرنا ۔۔۔۔۔۔ کیا ہر وقت افس کا کام کرتے رہتے ہو ماں اور بیوی کو بھی تھوڑا ٹائم دیا کرو ۔
وہ سر جھکائے سنتا رہا۔۔۔۔۔ کھانا کھا کر وہ کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
ارشیا ٹیبل پر ائی تو سعدیہ نے اسے دیکھتے ۔ تم دونوں کا کوئی جھگڑا ہوا ہے ۔ ارشیا جو پلیٹیں اٹھا رہی تھی ۔ فورا نہیں امی ۔۔۔ میری تو صبح سے ان سے صحیح طرح بات ہی نہیں ہوئی ۔۔۔۔افس کے کام کا بارڈن ہے ۔۔۔۔
سعدیہ نے اسےدیکھتے تم دونوں کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ تم دونوں ک شادی کو دو مہنیے ہوئے ہیں ایسا لگتا سالوں گزر گئے ہیں ۔۔۔ بیٹا کچھ ہوا ہے تو بتاوں میں سمجھاوں گی اشعر کو ۔ کچھ کہا ہے اس نے ۔۔۔
ارشیا نے برتن چھوڑے سعدیہ کے پاس بیٹھتے امی ایسا کچھ نہیں پے جیسا اپ سوچ رپی پریشان نہ ہو ۔ کبھی کچھ ہوا تو اپ کو ضرور بتاوں گی ۔۔۔
سعدیہ اسکے سر پر پاتھ رکھا ۔۔۔تم دونوں کو خوش دیکھ کر ہی تو مجھے سکون ملتا ہے ۔۔۔۔ وہ پریشان سی حالت میں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ارشیا کے بھی جواب ان کو مطمئن نہ۔کر پائے ۔۔۔
ارشیا کچن سنبھلتے وقت بھی اشعر کے بارے میں ہی سوچتی رہی اسے اشعر کے ساتھ سعدیہ امی کی فکر تھی ۔ وہ اشعر اور اسے لے کر کتنا پریشان تھیں ۔۔ اس نے کچن کا کام ختم کر کے اشعر سے بات کرنے کا سوچا ۔۔۔ وہ سیڑھیوں چڑھ کر اپنے کمرے کی طرف ائی جہاں صبح سے اشعر قبضہ کر کے بیٹھا تھا ۔۔۔
کمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔۔۔ لائٹ بند ہونے کی وجہ سے کمرے میں اندھیرا تھا ۔ لائٹ اون کر کے وہ اندر ائی اشعر صوفے پر انکھیں بند کیے بیٹھا تھا لائٹ اون کرنے کی وجہ سے اسکی انکھیں چندھیا گئی ۔ انکھوں کو مسلتے اس نے ارشیا کو دیکھا جو پریشانی سے پورے کمرے کی حالت کو دیکھ رہی تھی ایک دن میں یہ کمرہ کم کارڈکبار زیادہ لگ رہا تھا ارشیا نے اشعر کی طرف موڑ کر دیکھا ۔۔
۔ اشعر آنکھیں لال کیے اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ تم سے بات کر نے تھی اس نے ڈرتے ہوئےکہا ۔۔۔ ۔۔۔
اشعر صوفے سے اٹھ کر واش روم چلا گیا اسنے ارشیا کو کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔
ارشیا اس کےجاتے ہی کمرے میں بکھری چیزوں کو دیکھنے لگی جس میں زیادہ طرح کاغذ بکھرے پڑے تھے ۔۔۔۔ اسنے اگے بڑھ کر اٹھانے لگی
رہنے دوں میں خود کر لوں گا ۔۔۔۔ وہ جو واش روم سے منہ دھو کر نکلا تھا اسے دیکھتے ہی فورا بولا ۔۔۔۔ ساتھ چلتے ہوئے اکر صوفے پر دوبارہ بیٹھتے کیا بات کرنی تھی تمہیں ۔۔
ارشیا نے اسے دیکھا تو ۔۔۔۔ جس نے اسے بیٹھنے تک کو نہ کہا ۔۔۔۔
اشعر اسے کچھ نہ کہتا پا کر اپنا سیل اٹھا کر چیک کرتے بیٹھو ۔۔۔۔۔
ارشیا نہیں شکریہ ۔۔۔۔ میں یہی ٹھیک ہوں وہ بھی پھر اشعر سے زیادہ ضدی تھی ۔۔۔۔
بیٹھ کر بات کرو اشعر نے اپنے لہجے کو تھوڑا سخت کرتے بولا تو ارشیا بھی چپ چاپ بیٹھ گئی ۔۔۔۔
کیا کام تھا ۔؟؟؟ اشعر اسی مصروف انداز میں اس کی طرف بنا دیکھے پوچھا ۔۔
کوئی مسئلہ ہے کیا ؟؟؟ تم صبح سے کافی پریشان لگ رہے ہو ۔۔۔ ؟؟؟
تم یہ بات کرنی تھی ۔۔اشعر سیل کو سائیڈ پر رکھتے اس نے ارشیاکو دیکھا ۔۔۔۔
ہاں وہ امی تمہیں لے کر کافی پریشان ہیں اس لیے
اشعر نے اسکی بات کاٹتے اور تمہیں ؟؟؟
اس نے اسے حیرانی سے دیکھا تو
طنزیہ ہنستے ہاں تمہیںں کیوں میری فکر ہونے لگی ۔۔۔۔ تو خوش ہوتی ہو گی مجھے ایسے دیکھتے ۔۔۔
پر ارشیا نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔ کتنا غلط سوچتا تھا وہ اس کے بارے میں ۔۔۔
ارشیا کی چپی اس مزید غصہ دلا گئی وہ اپنا لہجہ بے حد درجے نرم رکھتے ۔ کون تھا وہ ۔۔؟؟ وہ یہ سوال کیوں کر رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا
کون ؟؟؟ کس کا پوچھ رہے ۔۔۔۔ارشیا کے دماغ میں ثمرہ کی باتیں گونجنے لگی ۔۔۔ ۔۔ اشعر کو پتہ چلا تو ایک سیکنڈ لگے گا اسے تمہیں طلاق دینے میں ۔۔۔۔۔اسے لگا جیسے اسکے دل۔کی دھڑکن روک گی ہے ۔۔۔
وہ اٹھ کر غصے سے اس تک ایا ۔ ارشیا بھی کھڑی ہو گئی معصوم مت بنو تم جانتی ہو میں کس بارے میں پوچھ رہا ہوں ۔۔۔۔
اشعر کے غصے کو دیکھتے وہ ایک قدم پیچھے ہٹی اشعر پیچھے ہٹتے دیکھ اسنے دونوں بازوؤں سے اسے زور سے پکڑا اگر اتنی نفرت کرتی تھی تم مجھ سے تو شادی کیوں کی تم نے ۔ تم جو دیکھتی ہو وہ تم بالکل نہیں ہو ۔ معصوم تو بالکل نہیں تمہیں رشتے نبھانے اتے ہی نہیں نہ دوستی کا نہ اعتبار کا نہ ہی بیوی ہونے کا ۔۔۔۔ اس نے ارشیا کو پیچھے کیا ۔۔۔ اور کمرے سے باہر جانے لگا
اسے ارشیا کی آواز ائی وہ روک گیا رشتہ تو تم نے بھی نہیں نبھایا اشعر کچھ بھی سن کر مجھے مجرم قرار دیا ۔ ملزم سے بھی ایک دفعہ صفائی مانگی جانتی پھر میرے معاملہ میں تم نے ایسا کیوں نہیں کیا ۔۔۔۔۔
اشعر نے اسے غصہ سے کہتے صفائی کا موقع تم نے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ارشیا کا کوئی جواب نہ پا کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا ۔۔۔۔
ارشیا کی انکھ سے آنسوؤں پھسل کر رخسار پر بہا اسنے اپنے انگلی سے انسو سے دیکھا تو طنزیہ ہنستے پھر نکل آئے ۔ انکھیں بند کرتے مزید آنسوؤں کو روکا ۔۔۔ اشعر نے بھی اسے ہی مجرم قرار دیا ۔ اس نے بھی اس کا بھروسہ نہیں کیا ۔۔۔
وہ کافی دیر بیٹھی اپنی ہی سوچوں میں گم رہی جب سوچ سوچ کر تھک گئی تو کمرے کو دیکھا اشعر ابھی تک کمرے میں واپس نہیں ایا تھا اسنے اٹھ کر کمرے کی حالت ٹھیک کرنی شروع کر دی کہ اتنے میں اسے اشعر کی غصے سے بھری اواز سنائی دی ۔۔۔۔ وہ جیسے ایک خواب سے نکلی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر ابھی تک چلا رہا تھا کسی پر ۔۔۔۔ وہ کمرے سے نکل۔کر باہر ائی تو سعدیہ امی کو دولڑکے ٹیکسی میں بیٹھا رپے تھے ۔ ارشیا سعدیہ امی کو دیکھتے ۔۔۔۔جلدی سے سیڑھیاں اترتی ہوئی ائی ۔۔۔ پر سعدیہ کو وہ بیٹھا چکے تھے ۔۔۔
سعدیہ کو دیکھتے ۔۔۔ کیا ہوا امی کو اشعر ۔۔۔؟؟؟؟
اشعر جو فون پوکٹ میں ڈال رہا تھا ۔ ایک نظر اسے غصے سے دیکھتے جانے لگا تو ارشیا اس کے پیچھے تیز تیز قدموں سے چلتے ۔۔۔ میں بھی چلوں گی ساتھ ۔۔۔
اشعر نے غصے سے اسے دیکھا میں اپنا اور اپنی ماں کا خیال رکھ سکتا ہوں۔ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ۔۔۔
ارشیا نے میں بھی جاوں گی امی کے ساتھ اپ مجھے
اشعر نے اسکی بات کاٹی ۔ روک سکتا ہوں تمہیں ۔۔۔۔ تمہارا میری ماں پر کوئی حق نہیں بے وجہ دوسروں پر حق جمانا بند کرو ۔ کہتا گھر سے نکل گیا ۔
وہ وہی کھڑے اس دروازے کو دیکھتی رہی ۔ اس کا حق پھر کس پے تھا ۔
کیا وہ اسکی ماں نہیں تھی ۔ اتنے دن وہ ان کےساتھ رہی کیا اتنا بھی حق نہیں رکھتی تھی وہ ان پر ۔۔۔ کیا صرف پیدا کرنے والے ہی حق جتا سکتے ہیں ۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...