مجھ کو پانی میں________اترنے کا اشارہ کر کے
جا چکا چاند _________سمندر سے کنارہ کر کے
تجربہ ایک ہی ________عبرت کے لیے کافی تھا
میں نے دیکھا ہی نہیں _______ عشق دوبارہ کر کے
“اچها خیال ہے پر تم وہاں اکیلی کیوں رہو گی تم وہاں اسکول بناؤ پر رہو ہمارے ساتهہ ہمارے گهر میں ۔ اور اب اپنے بارے میں بهی سوچنا بیٹا اب تمهاری عمر نکل رہی ہے”۔۔ آج امبرین کو پاکستان آۓ ایک ہفتہ ہو گیا تها اور اس ایک ہفتے میں وہ سفیان کے سامنے نہیں گئ تھی پر زہرا سے بہت بار سامنا ہوا لیکن ہر بار امبرین راستہ بدل لیتی تھی ۔۔ کیونکہ وہ اسے وہ دے چکی تھی جو اس نے مانگا تھا۔۔ اور ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کا سامنا کرے اور دیکھے وہ جو اس نے اس کو دیا ہے ۔۔وہ اس سے کتنا خوش ہے ۔۔تبھی اس نے فیصلہ کر لیا تھا خالہ سے بات کرنے کا ۔۔۔
“نہیں خالہ میں یہاں رہ کر کیا کرو گی ۔۔میں وہاں رہ کر اسکول کی اچھی طرح دیکھ بھال کر لو گی “اخری بات کو امبرین نے گول کر دیا۔۔
“اچھا بیٹا پر میں چاہتی تھی تم بھی الیشبا کی طرح اپنے گھر کی ہو جاؤ ”
کون سا گھر خالہ وہ گھر جسے اپنے ہاتھ سے جلا دیا بس وہ دل میں ہی کہہ پائ اور جب لب کھولے تو صرف اتنا کہا “ہو جاؤ گی خالہ آپ فکر نا کریں ”
“بس بیٹا میرے سارے بچے اپنی اپنی زندگی میں مگن ہے ماسؤاے تمہارے ۔۔ ایک دو رشتے دیکھے ہیں تم ایک بار دیکھ لو ۔۔۔۔”
“نہیں خالہ بس چھوڑے مجھے شادی نہیں کرنی ویسے بھی میں بہت خوش ہوں اور جہاں تک اپنے گھر کی بات ہے تو کل میں جا رہی ہو ۔۔اپنی حویلی۔۔”
امبرین نسرین کی بات کاٹ کر بولتی ہے
۔۔۔
“پھر بھی بیٹا تم اپنے گھر کی تو نا ہوئ نا بیٹا اپنا گھر مضبوط سئبان سے بنتا ہے ۔۔ میرا کیا بیٹا میں اج ہو کل نہیں میں اپنی زندگی میں تمھیں تمھارے گھر کا دیکھنا چہاتی ہو بیٹا۔۔”
“فل حال نہیں خالہ مجھے وقت چائیے۔۔”
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“امبرین ادھر مت جاؤ کچی جگہ ہے ۔۔گر جاؤ گی ۔”
“امبرین سر پر تیل لگا لو بال بہت خشک ہو گۓ ہیں۔”
“ارے ارے میرا بیٹا رو کیوں رہا ہے ۔۔”
اماں گر گئی چوٹ لگ گئ ”
“تو روتی کیوں ہے بیٹا دیکھ میں جادو کرتی ہو آرام آ جائے گا ۔”
“امبرین اتنی دیر گئے تک سوتے ۔نہیں ہے اور آج اسکول نہیں جانا کیا ۔”
“نہیں اماں آج اتوار ہے سونے دیں ”
“امبرین کچھ پکانا سیکھ لے یہ نقشے بنا بنا کر کھلائے گی اپنے سسرالیوں کو ”
“کیا ہے اماں جب سر پر پڑھے گی نا تو سیکھ جاؤں گی ابھی تو میرے کھیلنے کودنے کے دن ہے ”
“ہیی ہیی ہیی ۔۔ تیرا کھک نا راوے عمر دیکھ قد دیکھ اپنا اس عمر میں کھیلے گی کودے گی ۔”
“افف او اماں محاروتن کہا تھا ”
اسکو ہر جگہ اماں نظر ا رہی تھی کبھی اسے پیار کرتی کبھی کبھی اسے ٹانٹتی ۔۔جب سے ہوش سمبھلا تھا اماں ہی کو پاس پایا تھا ۔ماما پاپا کو تو صرف تصویروں میں دیکھا تھا ۔۔۔
“کہاں چلی گئی ہو اماں مجھے چھوڑ کر تم بہت بری تھی بہت پر میری اپنی تو تھی نا ۔۔مجھ سے پیار تو کرتی تھی نا۔۔۔۔”
“اماں تو نے اتنے سالوں سے
مجھے سینچا اپنے ہاتھوں سے
اماں میں چھوٹی سی ایک بچی
تیری یاد میں آج بھی پل پل روتی
ہو ۔۔۔”
وہ پوری حویلی میں چکر لگا رہی تھی اور سوچ رہی تھی “جب اتنی نفرت تھی اماں کو مجھ سے تو گلے سے کیوں لگایا اپنا عادی کیوں بنایا ۔۔”
آج اماں نہیں ہیں بس یادیں ہیں انکی اور یادیں تو بہت تلخ اور ظالم ہوتی ہیں ۔کسی معصوم پر رعایت نہیں کرتیں ۔
آج حویلی میں اس کا دوسرا دن تھا ۔۔ پر ابھی تک وہ ایسے ہی حویلی گھوم رہی تھی ۔۔ جیسے ابھی یہاں آئی ہو ۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“سفیان امبرین حویلی چلی گئی ہے ”
“ھمممم”
“اور وہ وہاں اسکول بنانا چاہتی ہے ۔۔ بلکہ بنا رہی ہے ۔”
“ھممم”
“ھمم ھمم کیا کر رہے ہیں بیچاری کتنی اکیلی ہو گئی ہے”
“تو میں کیا کرو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے ۔” سفیان کو زہرا کا امبرین سے ہمدردی کرنا بہت ناگوار گزرا ۔۔
“ھمم ہاں آپ کیا کرے گے خیر چھوڑو مجھے آج حویلی جانا ہے کچھ ہاتھ ہی بٹا دو گی اس کے ساتھ ۔”
“ہاں بیٹا لے جاؤ چھوڑ آؤ اس یتیم کے پاس پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے میری بچی کو”
وہ جو انکار کرنے لگا تھا امی کے حکم کی وجہ سے چپ ہو گیا ۔۔۔
نسرین بیگم ٹی وی لونچ سے گزر رہی تھی ۔ زہرا کی بات سن کر رک گئی اور اس کی بات کی تاکید کی ۔۔۔
“ہاں سفیان آپ مجھے شام میں چھوڑ ائیے گا ” سفیان کو نا چاہ کر بھی جانا پڑھا۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“میں نے کیا کیا تھا ان سب کا مجھے کیوں اتنی تکلیف دی اللہ اتنی بے مول تھی کہ کسی نے قبول نہیں کیا ماما پاپا بچپن میں چلے گئے اماں نے بچپن چھین لیا جوانی چھین لی ۔۔ایک عزت واحترام تھا ۔۔ سفیان کی انکھوں میں میرے لیے زہرا تم نے وہ بھی چھین لیا ۔۔۔پر میں نے سب کو معاف کیا برالزمہ کیا ۔۔ سب صیح تھے اپنی جگہ پر میں ۔۔۔ میں کہاں ہو ہو ان سب کہ بیچ ۔۔۔۔۔۔
اووووو ۔۔میں تو کہیں نہیں ہوں۔۔”
آج اندر کا غبار باہر نکلا تھا ۔۔ آج وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی تڑپ رہی تھی بلک رہی تھی ۔۔آج پھر اس کو سنے والی ذات سن رہی تھی اور اس کہ حق میں فیصلہ کر رہی تھی ۔۔ آج اس کی زندگی میں خوشیاں لکھی جارہی تھی ۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“میں نے کیا کیا تھا ان سب کا مجھے
کیوں اتنی تکلیف دی اللہ اتنی بے مول
تھی کہ کسی نے قبول۔۔۔۔۔۔۔” نہیں نہیں نہیں مجھے معاف کردو مجھے معاف کر دو امبرین مت رو پلیز ایسے مت رو تمھارے انسوں کو دیکھ کرمیرا وجود گناہوں کی صبط میں اور آجاتا ہے ۔۔ ”
“اٹھوں زہرا کیا ہوا ہے اٹھوں زہرا”
زہرا پاگلوں کی طرح ادھر ادھر سر مار رہی تھی اور
اچانک بےہوش ہو گئی سفیان اس کو اتنی رات کو اس طرح امبرین سے معافی مانگتے دیکھ کر حیران ہو گیا وہ گہری نیند سو رہا تھا جب اسے زہرا کی آواز انے لگی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا اور اوپر سے وہ بے ہوش ہو گئی سفیان اتنی رات کو اس کو اہسپتال لے کر گیا ۔۔”ڈاکٹر کہا ہے “وہ رسیپشن پر جا کر زور سے دھڑا تھا
“پلیز آرام سے میں دیکھتی ہو اس وقت کس کی ڈیوٹی ہے ۔۔”
“جلدی دیکھے میری بیوی بے ہوش ہے آپ جلدی دیکھ کر بتائے ”
جی آپ یہاں بیٹھ جائے” رسیپشن پے کھڑی لڑکی نے اس کو سامنے پڑھی چئیر پر بیٹھنے کو کہا پر یہاں پروا کس کو تھی سب اس کو عجیب نظرو سے دیکھ رہے تھے وہ سلیپنگ سوٹ پہنے ہوے تھا اور اس کے بال بکھرے ہوے تھے ۔۔ اور چہرے پر خوف لہرا رہا تھا لیکن یہاں اپنی پروا کس کو تھی اس کو تو بس زہرا کی پروا تھی جو سامنے سٹریچر پر لیٹی ہوہی تھی اپنے آس پاس سے انجان۔۔۔ اسی اثنا میں سامنے سے ایک ڈاکٹر آ رہا تھا اور اس کے ساتھ وہی لڑکی تھی جو کچھ دیر پہلے اسے بیٹھنے کا کہہ کر گئی تھی ۔۔”جی کیا ہوا ہے اپکی وائف کو ” ڈاکٹر زہرا کی طرف دیکھ کر اس سے پوچھنے لگا ۔۔”یہ بےہوش ہو گئی ہے پلیز ڈاکٹر اسے ہوش میں لائے یہ کافی دیر سے ایسے ہی ہے پلیز کچھ کرے پلیز کچھ کرے ۔۔۔”
سفیان کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی زہرا کو کیا ہو گیا ہے۔۔
“نرس انہیں اندر لے کر جائے۔”
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
دو گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر آئے “اپکی وائف کو Dipression ہے جس کی وجہ سے برین ہمریچ ہوا ہے ”
“برین ہمریچ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔” سفیان پریشان ہو گیا ۔۔
“اور ہاں یہ امبرین کون ہے “ڈاکٹر جاتے جاتے مڑا۔
“یہ میری کزن ہے۔”
“اپ اسے بلا لے اپکی وائف کے پاس وقت کم ہے ”
“کیا۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا زہرا تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی ”
اپ حوصلہ رکھے اللہ سے دعا کریں” ڈاکٹر اتنا کہہ کر واپس اندر چلا گیا اور سفیان سوچنے لگا ۔۔۔
“امبرین آج ایک بار پھر تم ہمارے بیچ ا گئی تم مر کیوں نہیں جاتی میں نے کیوں تمہیں تمھاری اماں سے بچایا۔۔”بھائی کیا ہوا ہے بھابی کو ۔۔۔” سفیان نے گھر کال کر کے اپنے اہسپتال آنے کی خبر دے دی تھی ۔۔اس وجہ سے وہ اسی وقت اہسپتال پہنچ گیا تھا ۔۔
“ریحان امبرین کو لے کے آؤ ۔۔”سفیان نے ٹوٹے ہوے لہجے میں کہا وہ سامنے لگے فانوس کو خالی نظرو سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ بھائی کی ایسی حالت دیکھ کر ریحان نے کچھ نہیں کہا بس “جی اچھا بھائی “کہہ کر چلا گیا۔۔
نہ میں گرا نہ میری اُمیدوں کے مینار گرے
پر کچھ لوگ مجھ کو گرانے میں کئی بار گرے
“کیا ہوا ہے زہرا کو کوئی مجھے بتائے سفیان کیا ہوا ہے زہرا کو”
ریحان امبرین کو لے آیا تھا ۔۔۔ امبرین اتے ہی زہرا کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔۔ جو کچھ کیا تھا اس نے وہ اپنی جگہ وہ دونوں بہت اچھی دوست رہ چکی تھی آج اسے اس طرح ہسپتال میں تکلیف میں دیکھ کر اسے بھی تکلیف ہو رہی تھی ۔۔۔
“بند کرو اپنا یہ ناٹک کاش زہرا کی جگہ تم ہوتی ۔۔۔تم ہمیشہ ہمارے بیچ میں آ جاتی ہو ۔۔۔تم مر کیوں نہیں جاتی تم مر جاؤ امبرین اگر مجھ سے محبت کرتی ہو تو مر جاؤ دے دو باقی زندگی اپنی زہرا کو تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہو میری زہرا کو بچا لو ۔۔”
سفیان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے وہ اتنا بےبس کبھی نہیں ہوا تھا جتنا آج ہو گیا تھا اس نے زہرہ سے بہت پیار کیا تھا یہ پیار اس کی لیے ناسور بن گیا تھا وہ زہرا کو چھوڑنے کا اس سے دور ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن آج وہ خودی چھوڑ کر جا رہی تھی اس کی محبت دور ہو رہی تھی اس سے اور وہ بےبس تھا تبھی وہ امبرین پر غصہ ہو رہا تھا ۔۔۔
“بھائی کیا ہوا ہے کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔۔”
“کہنےدو ریحان یہ صیح کہہ رہے ہیں۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا زہرا کو ۔۔سفیان آپ مجھے زہرا کے پاس لے کر جائے ۔۔”
“ہمم آؤں” ۔۔ سفیان نے بہت غصے اور نفرت سے امبرین کے طرف دیکھا ۔۔
“یہ وہی آنکھیں ہیں جن میں میں اپنے لیے پیار دیکھنا چہاتی تھی پر آج ۔”
“چلو ” سفیان زہرا کو اپنی طرف اس طرح دیکھ کر اور غصے میں آ گیا اور دانت چبا کر بولا اس کو چلنے کا ۔۔۔
امبرین جو اپنی سوچو میں گم تھی اس کے اس طرح کہنے پر وہ سر جھٹک کر آگے چلنے لگی ۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
دروازے کی کھولنے کی آواز سے زہرا کی آنکھ کھل گئی ۔۔
“او امبرین تمہارا ہی انتظار تھا ۔۔”
“کیسی ہو تم اب ”
“بس ٹھیک ہو میں”
“ہوں ۔۔ کیا ہوا تھا ۔”
“امبرین مجھے معاف کر دو ۔۔”
“تم اس سے معافی کیوں مانگ رہی ہو یہ تمہاری دشمن ہے ہمیشہ ہمارے بیچ میں ائی ہے یہ ۔۔”
“پلیز سفیان امبرین کو کچھ نا کہیے”
“زہرہ بس کر دو کب تک اسکا ساتھ دو گی “سفیان غصے سے باہر چلا گیا ۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“امبرین مجھ کو معاف کر دو تُمہیں دُکھ دے کر میں خوش نہیں رہ سکی دیکھو اللّٰہ بھی مجھ سے ناراض ہے ۔اس نے مجھے اولاد سے بھی نہیں نوازا میں تمہاری گنہگار ہو۔۔”
“بس کر دو زہرا وہ سب میرا نصیب تھا اور وہ کسی سے ناراض نہیں ہوتا تم توبہ کرو اپنے گناہوں کی معافی مانگو وہ ضرور تُمہیں اولاد دے گا۔۔”
“تم نے مجھے معاف کیا امبرین پلیز مجھے معاف کر دو جب بھی تُمہیں دیکھتی ہو تو دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے میں نے تمہیں برباد کر دیا جس کی نظروں میں تم اپنے لیے عزت اور احترام دیکھنا چاہتی تھی انہی نظروں میں تمہارے لئے نفرت بھر دی میں ظالم ہو ۔بہت ظالم ہو ۔۔”
“بس کر دو زہرا ریسٹ کرو ڈاکٹر نے تُمہیں آرام کے لیے کہا ہے ”
“نہیں امبرین ” زہرا کی سانسے اکھر رہی تھی اس سے بولا نہیں جا رہا تھا لگتا تھا اگر آج نا بولی تو کبھی نہیں بول پائے گی “آج ہی تو بولنے کا موقع ملا ہے ۔آج نہیں بولی تو کبھی نہیں بول پاؤ گی ۔مجھے آج سچ بولنے دو ۔ اس رات تم نے میرے لیے جھوٹ بولا وہ سب کہا اور تُمہیں معلوم تھا سفیان ا گئے ہیں ۔۔اور وہ تمہاری میری کال پر باتیں سن رہے ہیں ۔۔ “زہرا سے بولنا مشکل ہو رہا تھا اس کی سانسیں اوپر نیچے ہو رہی تھی امبرین اس کو بولنے سے منع کر رہی تھی پر وہ بولے جارہی تھی ۔”تم نے وسیم کی ساری بات اپنے اوپر لے کر مجھے سفیان دیلا دیا ۔۔ ہمیشہ کی طرح تم بہت اچھی ہو ”
“بس کر دو پلیز زہرا تُمہیں کیا ملے گا یہ سب بولنے سے اب تو وقت گزر گیا ہے نہ وہ وقت پہلے جیسا ہے نہ اب پہلے جیسے رشتے رہے ہیں ۔۔ تم سن رہی ہو نا۔”
امبرین کو کسی انہونی کا خدشہ ہوا کیوں کے زہرا اب ایک جگہ ٹکٹکی بندھے دیکھ رہی تھی اور ہاتھ ایک طرف کو ڈھیل گیا تھا ۔۔
“زہرہ سنو میری بات۔۔ تم سفیان کی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لکھ دی گئی ہو “امبرین نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔۔پر سامنے پڑا وجود بے حس ہی رہا “زہرا زہرا زہرا۔۔۔ زہرا کیا ہوا ہے ادھر دیکھو مجھے۔۔۔۔ بولو کچھ زہرا۔۔ بولو زہرا بولو نہ ۔۔۔۔۔تُمہیں کچھ نہیں ہو سکتا اٹھو میری جان اٹھو۔۔۔۔
آٹھ بھی جاؤ تم یو نہیں جا سکتی میں نے تمہارے لئے قربانی دی ہے ۔۔۔آٹھ جاؤ نہ زہرا دیکھومجھے کھ لو جو کہنا ہے پر بولو نہ کچھ۔ ڈاکٹر کوئی ہے یہاں ۔۔ ڈاکٹر اس کو دیکھیں کیا ہوا ہے ۔۔ “امبرین اندر اتے ڈاکٹر کو کہتی ہے اور خود باہر کی طرف بھاگتی ہے ۔اور سفیان کو باہر کھڑا دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے پر یہ وقت کچھ پوچھنے کا نہیں تھا “سفیان وہ زہرا وہ کچھ نہیں بول رہی ”
سفیان جو غصے سے باہر نکلا تھا اپنا سیل فون اندر بھول گیا وہ ہی لینے آیا تھا پر زہرا اور امبرین کی باتیں اس وہی بت کا کر دیتی ہے پھر امبرین کا يو چلانا وہ اندر کی طرف بھاگا ۔۔ پر بہت دیر ہو چکی تھی وہ اس دنیا سے بہت سکوں سے اور امبرین سے معافی مانگ کر چلی گئی تھی ۔۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا bp شوٹ کر گیا تھا اور کنٹرول سے آؤٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی ڈیتھ ہو گئی تھی ۔۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“میں تم سے بہت شرمندہ ہو میں اب تک یہی سمجھتا رہا کہ تم۔۔”
بس جانے دے سفیان اب وہ بھی چلی گئی ہے اس دنیا سے اب کیا پورانی باتوں کو یاد کرنا ”
چھت پر کھڑے دونوں اپنے اپنے دُکھوں کو رو رہے تھے ۔۔
“تمہارا آگے کا کیا پروگرام ہے ”
“کچھ خاص نہیں اب اسکول بھی بہتر ہو گیا ہے اور میں وہی شفٹ ہو رہی ہو اب یہاں رہنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ایک خالہ تھی اب وہ بھی نہیں رہی تو میرا سفر ہوا ختم اس گھر میں۔”
“ہوں۔” دونوں کے درمیان ایک لمبی چپ ایک لمبی اُداسی کا پہرہ تھا ۔
اس خاموشی کو توڑا سفیان کی گھمبیر آواز نے “آج زہرا کو مجھے چھوڑے ایک سال ہو گیا ہے ۔ اس کے جانے کا اتنا دُکھ تھا میں سنبھل ہی نی پایا اور پھر جب مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ تمہاری مجرم ہے تو مجھے اس سے نفرت سی محسوس ہوتی ہے دل کرتا ہے خود کو تحس نہس کر دو ۔۔ماما مجھ کو بھکرا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی دیکھو آج وہ بھی چلی گئی ”
امبرین ابھی تک دور آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھ رہی تھی اب اسے تکلیف نہیں ہوتی تھی اُسے صبط کرنا ا گیا تھا وہ ایسے کھڑی تھی جیسے کوئی مجسمہ ہو ۔۔۔
ایک بار پھر خاموشی کو سفیان کی آواز نے توڑا۔۔
“امبرین ۔۔۔”
“ہوں۔۔۔بولو میں سن رہی ہو ۔۔”
امبرین نے ذرا سا مر کر سفیان کو دیکھا ۔۔پھر دوبارا دور آسمان پر نظر ٹکا لی ۔۔
“امبرین بہت ٹوٹ گیا ہو بکھر گیا ہو ۔۔میں اندر ہی اندر ختم ہو رہا ہو ۔۔”
سفیان نے امبرین کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف گھمایا پھر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔
“امبرین مجھے جوڑ دو مجھے سمیٹ لو ۔۔ امبرین مجھے مکمل کر دو”
اور امبرین کو کیا چائے تھا بس پیار کے دو بول وہ بھی سفیان سے ۔۔اس نے روتے ہوئے سفیان کو گلے لگا لیا اور دور آسماں پے چمکتا چاند ان دونوں کے خوبصورت ملن کو دیکھ کے شرما گیا ۔۔۔۔۔
“محبت جیت ہوتی ہے
یہ کبھی ہار نہیں مانتی
کبھی لفظوں میں چھپ کر
محبوب کو بلاتی ہے
کبھی آنسو میں بہہ کر
محبوب کو پاس بلاتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے
یہ کبھی ہار نہیں مانتی ”
ختم شد۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...