بیٹا پڑھناآپ نے ہے اگر آپکو دلچسپی ہے تو اور بھی اچھا ہے ہمیں کیا اعتراض ،اور رہی بات یونیورسٹی کی تو وہ زمہ داری احسن پر چھوڑ دیتے ہیں ، اس کا ایک دوست وائس چانسلر ہے یونیورسٹی کا تو یہ ہی وہاں داخلہ کروا دیں گے آپ کا ، کیوں احسن میاں کیا خیال ہے ” احسن نے مروتا اثبات میں سر ہلایا (چلو ایک اور مصیبت ،ابا بھی نا” )
فاطمہ بیٹا تیار ہوجاؤ پھر آپ بھی احسن کے ساتھ آج ہی جائیں اور دیر نہ کریں ” احمد کے کہنے پر فاطمہ نے ایک نظر اس پر ڈالی جو کافی اکتایا ہوا لگ رہا تھا اور خود وہ تیار ہونے چل پڑی جبکہ احسن بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ دیر تو پہلے ہی ہو چکی تھی اور اب نئی مصیبت گلے پڑ گئ تھی
************ ********* ********
پورچ میں کھڑی گاڑی کے آگے احسن کھڑا باربار گھڑی کی طرف دیکھتا اور بے چینی میں ماتھے کو ہاتھ سے مسلتا ، وجہ یہ تھی کہ فاطمہ آ ہی نہیں رہی تھی یونیورسٹی میں بھی دیرلگنی تھی اوپر سے اس کی بہت امپورٹنٹ میٹینگ بھی تھی
ابھی وہ گاڑی میں غصے سے بیٹھا ہی تھا جب اسے فاطمہ دور سے آتے دکھائی
“بیٹھ جائیں میڈم اگر آ ہی گئی ہیں تو ” احسن نے پاس آنے پر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے فاطمہ کو کہا جو بلیک کلر کی فراک پہنے ہوئے تھی ساتھ اس نے بڑے ہی سلیقے سے دوپٹہ کا حجاب بنایا ہوا تھا ، فاطمہ چپ چاپ فرنٹ سیٹ پربیٹھ گئی تو اس نے گاڑی اسٹارٹ کی
احسن بہت تیزی سے گاڑی چلا رہا تھا اور فاطمہ کم از کم اب چپ نہیں رہ سکتی تھی
____________
“آپ کو مسئلہ کیا ہے آخر ؟ ”
“ایکسکیوزمی مس “احسن نےنا سمجھی والے انداز میں کہا تو فاطمہ اس کے اسے مس کہنے پر گھور کر رہ گئی
“اول تو یہ کہ میرا نام فاطمہ ہے اور دوسری بات یہ کہ گاڑی آہستہ چلائیں مجھے ڈر لگتا ہے
” واہ واہ میڈم کیا خوب کہی ، اگر آپ میٹینگ کا مطلب سمجھتی ہیں تو یہ بھی اندازہ ہو گا کہ میٹینگ میں لیٹ پہنچنے سے اپنا ہی نقصان ہے ” احسن کو تو پہلے ہی غصہ تھا فاطمہ نے بہتر یہی سمجھا کہ چپ رہے سو وہ ڈڑتے ڈڑتے یونیورسٹی پہنچ ہی گئی ،
وائس چانسلر کے آفس میں بیٹھے جب دس منٹ گزر گئے تو احسن نے اپنے موبائل سے عبداللہ کو کال کی جو کہ اس کا اپنا ہی دوست تھا
کال کرنے کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ وہ فوراً آ گیا تھا ، دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے تھے تو احسن نے فاطمہ کی طرف اشارہ کیا
” یہ میری پھپھو کی بیٹی فاطمہ ہے ، داخلہ لینا ہے ، اردو لٹریچر کے لیے ، باقی کا حساب تم خود ہینڈل کرو کہ کیا کیا پروسس ہے ”
” ارے بھئی اتنی جلدی ، کہیں جانا ہے کیا؟ ”
” ہاں میری میٹنگ ہے اس لیے کہہ رہا ہوں تم سنبھال لو سب ” احسن نے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا اور الله حافظ کہہ کر چلا گیا
فاطمہ کافی نروس ہو رہی تھی اور عبداللہ نے بخوبی اندازہ لگا لیا تھا
عبداللہ نے مس فرحت کو بلایا تھا تاکہ وہ مزید اس کی ہیلپ کرے
******* : *********
فاطمہ احسن کے ساتھ ہی یونیورسٹی جارہی تھی ، وہ ہی آفس سے آتے ہوئے اسے یونیورسٹی سے پک کر لیتا ، آج صبح سے ہی احسن کا دل کر رہا تھا کہ وہ آفس نہ جائے کیونکہ کام کچھ زیادہ نہ تھا لیکن فاطمہ کو تو یونیورسٹی جانا ہی تھا ، ناشتہ کرنے کے بعد وہ اس کے کمرے کے باہر کھڑی بار بار دروازہ ناک کرتی رہی ، احسن کبھی تو اپنے کانوں پر تکیہ رکھتا اور کبھی کروٹ لیتا ، لیکن فاطمہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ، زور زور سے بجاتی رہی ، ایکدم سے احسن نے دروازہ کھولا تو وہ لڑکھڑائی ، اس سے پہلے کہ وہ گرتی احسن نے اسے بازو سے پکڑ کر سیدھا کیا ، اور غصے سے اسے دیکھا
“تم ڈرائیور کے ساتھ نہیں جا سکتی کیا ” اس کا بس نہیں چل رہا تھا وگرنہ وہ اسے کچا چبا دیتا ،
“سوری کزن ڈرائیور کو چھٹی آپ نے ہی دی تھی ، اگر یاد ہو تو ” فاطمہ نے طنز کیا تو وہ تلملا کر رہ گیا اور اس وقت کو کوسنے لگا جب اس نے ڈرائیور کو چھٹی دی تھی
“مجھے دیر ہو رہی ہے پلیز جلدی کریں ”
” میڈم اس کے لیے آپ کو پہلے میرے کپڑے پریس کرنا ہوں گے پھر ہی میں ریڈی ہو سکتا ہوں ، ” احسن نے جان بوجھ کر ایسا کہا تھا ورنہ کپڑے تو اس کے ہر وقت تیار رہتے تھے ،احسن نے اسے اندر آنے کا رستہ دیا ،فاطمہ نے بھی مجبوری کے تحت مان لیا تھا ورنہ وہ کاموں کے بارے میں بہت سست تھی
وائیٹ شرٹ اور بلیو جینز اس کے سامنے پڑی اس کامنہ چڑھا رہی تھی ،فائل اس نے سائیڈ پر رکھی اور آستینیں چڑھا کر کپڑے پریس کرنے لگی جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ سر انجام دینا ہو ، جب تک اس نے کپڑے پریس کیے تھے احسن فریش ہو کر آ گیا تھا ، کپڑے دیکھنے پر احسن نے گھور کر فاطمہ کو دیکھا ، کپڑے بلکل صحیح پریس نہیں ہوئے تھے احسن استری سٹینڈ کے قریب آیا اپنی شرٹ دوبارہ اسے خود ہی پریس کرنا تھی اگر فاطمہ کو تنگ کرنا نہ ہوتا تو وہ کوئی اور بھی ڈریس پہن سکتا تھالیکن اب مجبوری تھی سو اس نے خود پریس کرنے کا سوچا
پاس کھڑی فاطمہ نے حیرت سے احسن کو دیکھا جیسے کہہ رہی ہو اب کیا ہے ؟
احسن نے پہلے اسے غور سے دیکھا پھر شرٹ کو اس کے سامنے کیا اور ہلکی سی چپت اس کے سر پر لگائی ، ایسا کرنے سے اسنے برائے نام جو کیچر بالوں کو لگایا تھا وہ کھل چکا تھا اور سارے بال بکھر کر اس کی کمر پر گر گئے ، چونکہ اس کے بال کافی سلکی اور لمبے تھے اس لیے وہ کیچر سے فورا نکل گئے تھے ، احسن کی نظر اس پر پری تو وہ جم کے رہ گیا ، خوبصورت لمبےبال اس کی نظروں کے سامنے تھے اس نےاس سے پہلے کسی کے اتنے لمبے بال نہیں دیکھے تھے چند لمحے گزر گئے اس کی نظریں فاطمہ کے لمبے بالوں میں اٹکی ہوئی تھیں جبکہ وہ ابھی تک اسی الجھن میں تھی کہ اس نہ اس کے سر پر ہلکی بھی چپت کیوں لگائی ،
آپ ۔۔۔۔” فاطمہ بولتے بولتے رہ گئی ، اس کے بولنے پر احسن ہوش میں آیا تھا ، اور پھر اس نے شرٹ پریس کر کے جلدی جلدی ڈریس اپ ہو کر گاڑی کی چابی لی اور اسے آنے کا کہا ، احسن اپنی اس حرکت پر تھوڑا شرمندہ بھی تھا کہ پتہ نہیں وہ کیا سوچتی ہو گی ، انہی خیالوں میں یونیورسٹی آ چکی تھی ، فاطمہ بنا کچھ کہے گاڑی سے نکل گئی تھی ، جبکہ احسن بھی سر جھٹکتا گاڑی ریورس کرتا گھڑ کی طرف موڑ گیا
*********** *********
فاطمہ کے کچھ چیپٹرز جو داخلہ جلدی نہ ہونے پر رہ گئے تھے ان کی تیاری ابھی رہتی تھی ، اس نے سوچا کہ اس بارے میں سر عبداللہ سے ضرور ہیلپ لے گی ، یہ سوچ کر وہ آفس کی طرف چلی گئی ۔
عبداللہ کسی فائل کا مطالعہ کر رہا تھا ، فاطمہ کے آنے پر اس نے فورا فاعل بند کر دی اور اس کی طرف متوجہ ہوا
“سر مجھے آپ سے کچھ ہیلپ چاہئیے ” چئیر پر بیٹھتے ہوئے اس نے ہچکچاتے ہوئےکہا ، خوبصورت وائیٹ ڈریس میں وہ اسےبلکل پاکیزہ اور معصوم سے لگی ، عبداللہ کے لبوں پر مسکراہٹ در آئی لیکن اس نے ظاہر نہ ہونے دیا
“جی فاطمہ کہیں ، میں کیا ہیلپ کر سکتا ہوں آپ کی؟”
“سر ایکچوئلی میرے کچھ لیسن رہ گئے تھے تو اب مجھے وہ کرنے ہیں ، لیکن کوئی بھی میرے ساتھ تیار نہیں ہو رہا لیسن کرنے کو، اور میم کے پاس بھی ابھی ایکسٹرا ٹائم نہیں ہے ” فاطمہ کی نظریں نیچی تھی ، اور صاف لگ رہا تھا جیسے وہ ڈر رہی ہو ، حالانکہ ایسی وہ نہیں تھی احسن ہوتا تو شاید اس کا یہ روپ دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتا
“فاطمہ اگر آپ کہیں تو میں آپ کو پڑھا دیا کروں گا لیکن ایک مسئلہ ہے کہ یونیورسٹی میں تو وقت نہیں ہوتا اگر آپ کو کوئی پرابلم نہ ہو تو گھر آ جایا کروں گا ”
“سر میں آپ کو ماموں سے پوچھ کر بتاؤں گی ” عبداللہ کو ہنسی آئی تھی اس کی بات پر ، پھر اس نے اثبات میں سر ہلایا ، فاطمہ نے ایک نظر عبداللہ کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ، اس نے فورا اپنی نظریں ہٹا لیں
اور اجازت لیکر آفس سے باہر آ گئی ، چھٹی کا وقت ہو چکا تھا لیکن احسن ابھی تک اسے لینے نہیں آیا تھا ، عبداللہ نےاسے گیٹ پر کھڑے دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ سکا
“فاطمہ آپ ابھی تک یہی ہیں ؟گھر نہیں جانا ، اگر کوئی مسئلہ ہے تو میں ڈراپ کر دوں؟” فاطمہ تھوڑا سا ہچکچائی تھی
“احسن نے آنا تھا لیکن وہ آئے ہی نہیں ” جس احترام کے ساتھ اس نے احسن کا نام لیا تھا احسن ہوتا تو شاید بے ہوش ہو جاتا
“میرا بھی گھر اسی راستے میں ہیں آئیں میں آپ کو ڈراپ کر دوں ، ہو سکتا ہے اسے کوئی مسئلہ ہو گیا ہو ، اس کا فون بھی تو بند ہے ”
“فاطمہ نے ٹائم دیکھا آدھا گھنٹہ اوپر ہو چکا تھا اس نے بہتر یہی سمجھا اور خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی ، اندر ہی اندر اسے احسن پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا لیکن مجبوری تھی اسی وجہ سے اسے عبداللہ کے ساتھ آنا پڑا
گھر آ گیا تھا ، فاطمہ نے دروازہ کھولا اور گاڑی سے باہر نکل گئی ، لیکن تھینک یو کہنا نہ بھولی تھی ، عبداللہ کو اس نے اندر آنے کا کہا تھا لیکن اس نے معزرت کر لی ، احسن جو ٹیرس پر کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا، اسے پہلے تو حیرت ہوئی لیکن پھر خیال آنے پر کہ وہ اسے لینےنہیں گیا ، شرمندگی سے اس نے ٹائم دیکھا اور پھر اپنا سیل بھی چیک کیا جو شاید بیٹری لو ہونے پر بند ہو چکا تھا، لیکن ایک بات جو احسن کو کچھ خاص پسند نہیں آئی تھی وہ یہ کہ فاطمہ عبداللہ کے ساتھ کیوں آئی ہے لیکن پھر یہ سوچ کہ اگر عبداللہ کے ساتھ نہ آتی تو کیسے گھر آتی ) اسے چپ رہنے پر مجبور کر گئی تھی
*********** *********
“تم گھر کس کے ساتھ آئی ہو ؟” فاطمہ ابھی فریش ہو کر بیٹھی ہی تھی جب احسن جن کی مانند اس کے سر پر آ کر کھڑا ہو گیا ،اس کے سوال پر فاطمہ نے بھنویں اچکائے
“جب آپ کو پتہ ہے تو پوچھ کیوں رہے ہیں ؟کم از کم آپ نہیں لے کر آئے مجھے ”
“اوہ تو تم طنز کر رہی ہو مجھ پر ” احسن کو اس کی آخری کہی ہوئی بات پر طیش آیا تھا
” طنز نہیں حقیقت کہیے ”
“تم آئندہ عبداللہ کے ساتھ نہیں آؤ گی ” احسن نے تنبیہی لہجے میں کہا
“اگر مجھے کوئی لینے نہیں جائے گا تو سر کے ساتھ ہی آؤں گی ، وہاں رہنے تو لگی نہیں تھی ہاں شکر کریں میں نے ماموں کو نہیں بتایا ورنہ آپ کی شامت آ جانی تھی ” فاطمہ نے نخوت سے کہہ کر منہ پھیر لیا
“آپ کا احسان ہے میڈم اگر آپ نے بابا کو نہیں بتایا ، اورایک اور بات آئندہ عبداللہ یا کسی اور کے ساتھ آنے کی ضرورت نہیں ” احسن نے حتمی لہجے میں کہا تو فاطمہ آگے سے مزید بولی تھی
” لینے نہیں آئیں گے تو ان کے ساتھ ہی آنا پڑے گا ” یہ کہہ کر وہ جانے ہی لگی تھی جب احسن نے اس کی کلائی پکڑ کر جانے سے روک لیا تھا ، اور اتنے دباؤ سے پکڑا تھا کہ کلائی میں موجود تین چار چوڑیاں ٹوٹی تھیں
“جب کہہ رہا ہوں کہ نہیں آنا تو پھر بحث نہیں “اس نے چوڑیاں ٹوٹنے پر دھیان نہیں دیا تھا دھیان تو اس کا تب ہٹا تھا جب فاطی کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے احسن نے آنکھيں سکیڑ لیں ،فاطمہ نے اپنا ہاتھ چھڑوایا تو اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کر چکا ہے ، ایک چوڑی ٹوٹ کر اس کی کلائی میں لگ چکی تھی ،
” ایم سوری وہ مجھے پتہ نہیں چلا ” احسن کا لہجہ یکدم تبدیل ہوا تھا
” غلطی بھی آپ کی ہے اور اوپر سے ڈانٹ بھی آپ مجھے رہے ہیں ” بھیگی آواذ سے بچوں کی سی معصومیت لیے اس نے انتہائی دھیمی آواز میں کہا ، احسن تو یک ٹک اس کی آنکھوں کو ہی دیکھے جا رہا تھا ، گہری سیاہ آنکھوں میں آنسو موتیوں کی طرح جھڑ رہے تھے ، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ،فاطمہ بھاگتی ہوئی چلی گئی تھی ،احسن انجانے میں سب کر چکا تو اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ اس نے یہ سب فاطمہ کو کیوں کہا حالانکہ عبداللہ اچھا خاصا شریف بندہ تھا پھر بھی احسن کو اچھا نہیں لگا تھا
************ ******
“بھائی صاحب مجیب بھائی کسی دن منہ اٹھا کر چلے آئے تو میں کیا کروں گی اس قدر پریشان ہوں کہ مجھے نیند ہی نہیں آتی ، فاطمہ کی مجھے بہت ہی فکر ہے ”
رقیہ بیگم احمد صاحب کے پاس بیٹھی دل کےڈر ان کے آگے کھول کربیٹھی تھیں
“رقیہ اگرتمہیں میری بات پر یقین ہوتا تو شاید آپ یہ نہ کہتیں ”
“لیکن بھائی صاحب بچوں کے بھی تو رحجان کا پتہ ہونا لازمی ہے نا زبردستی تو ہم کر نہیں سکتے ” رقیہ کے لہجےمیں پریشانی اور وہم بیک وقت ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے
“میں احسن کو جانتا ہوں ، اگر میں اس سے بات کروں تو وہ مان جائے گا اس کی کوئی پسند ہوتی تو ہم سےبات ضرور کرتا ”
احسن جو احمد صاحب سے بات کرنے کی غرض سےآ رہا تھا اپنا نام سن کر وہیں رک گیا
“بھائی صاحب آپ پھر بھی ایک دفعہ اس کی مرضی ضرور پوچھیے گا ”
“رقیہ تم پریشان نہ ہو ،فاطی میری بیٹی ہی جب سے وہ پیدا ہوئی ہے میں تب سےکہہ رہا ہوں حالانکہ اس وقت میرا احسن پانچ برس کا تھا ، اگر یہ بات نہ بھی ہوتی
تو پھر بھی میں نے فاطمہ کو ہی اس گھر میں لانا تھا تم بس کچھ وقت دو تا کہ بچوں سے بات کر لیں ” احمد نےرقیہ بیگم کو تسلی دی تھی لیکن یہ بات سن کر احسن ضرور ٹھٹھک گیا تھا اور اس کے دل سے نو نیور ہی نکلا تھا
“بابا ایسا کیسے سوچ سکتےہیں فاطمہ ، نو میں اس سے شادی نہیں کروں گا بچوں جیسی حرکتیں ، اوپر سے لڑتی ہی رہتی ہے ”
احسن ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا ، یہ سوچ کر کہ وہ بابا کو منع کر دے گا
*********** ************
رقیہ بیگم کو جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا ، مجیب صاحب اس بات کے چند دنوں کے بعد اپنے بیٹے ثاقب کو لیے احمد صاحب کے گھر میں موجود تھے اوپر سے جو وہ کاغذات لے کر آئے تھے وہ اور دل دہلا دینے والے تھے
گھر میں سب ہی موجود تھے امتیاز صاحب تو بپھڑے ہوئے شیر کی مانند غصے میں تھے کہ مجیب کی ہمت کیسے ہوئی یہاں آ کر دھمکانے کی
” تم لوگ شاید بھول گئے ہو کہ فاطمہ اس گھر کی بیٹی ہے اور ہم اسے لینے آئے ہیں ” مجیب صاحب نے بڑی رعونت سے کہا تو احمد صاحب چلا اٹھے
“مجیب تم اپنی حرکتوں سے بعض نہ آئے تو بہت برا ہو گا اسی لیے اچھا ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ”
“تم کون ہوتے ہو ہماری بات میں بھولنے والے ، یہ ہم دونوں بھائیوں کا معاملہ ہے ہم فاطمہ کو لینے آئے ہیں ساتھ میں اگر اس کے ماں باپ بھی جانا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ” یہ
بات کر کے وہ جیسے ان کی نسلوں پر احسان کر رہے تھے
“کس حق سے یہ بات تم کہہ رہے ہو ”
“”بھائی صاحب حق کی بات نہ کریں حق تو آپ اس فائل میں موجود کاغذ میں دیکھ سکتے ہیں ” مجیب نے انتہائی مکاری سے کہا تو امتیاز صاحب نے آگے بڑھتے ہوئے فائل اٹھائی ، جعلی کاغذات اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ فاطمہ ثاقب کی بیوی ہے
“فاطمہ اس گھر کی بہو بھی ہے تم اسے جانے سے نہیں روک سکتے ” وہاں موجود ہر ایک پر سناٹا سا چھا گیا تھا احسن فوراََ اپنی جگہ سے ہلا تھا ، اور نکاح نامے پر غور کرتا رہا ، وہ جانتا تھا کہ یہ جھوٹا ہے
رقیہ بیگم اپنی بیٹی کو ساتھ لگائے سائیڈ پر کھڑی تھیں
“دفعان ہو جاؤ یہاں سے مجیب تم اس حد تک گر سکتے ہو مجھے اندازہ نہیں تھا ” امتیاز صاحب طیش میں آ گئے تھے
“ابھی تو میں جا رہا ہوں لیکن پھر جلد ہی حاضر ہوں گے اور ہاں ساتھ اس نکاح نامے کے پولیس بھی ہو گی ” مجیب صاحب نے فائل کو اٹھایا اور دھمکی دیتے ہوئے وہاں سے چلے گئے
ان لوگوں کے جانے کے بعد رقیہ بیگم سے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا امتیاز صاحب اور احمد صاحب ان کو حوصلہ دیتے رہے جبکہ احسن کسی سوچ میں گم بیٹھا تھا
************ ***********
“ماما مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ” آنسہ بیگم کچن میں موجود تھیں جب احسن وہیں چلا آیا
“ہاں ہاں کرو بات میں سن رہی ہوں ” آنسہ بیگم کو یہی تھا کہ کوئی معمولی سی بات ہو گی اسی لیے وہ اپنے کام میں ہی مصروف رہیں احسن نے جھنجلاہٹ میں ان کے ہاتھوں سے ٹرے لیکر سائیڈ پر رکھا اور انہیں چئیر پر بٹھا کر خود ان کے قدموں میں ہی بیٹھ گیا
“ماما وہ میں نے ۔۔”احسن کہتے ہوئے بھی ہچکچا رہا تھا آنسہ جان گئیں تھیں کہ کوئی خاص بات ہے
“احسن خیریت ہے نا؟ بات کرو بیٹے جو دل میں ہے ”
“ماما میں جانتا ہوں بابا نے پھپھو سے بات کی ہوئی ہے فاطمہ کے رشتے یے بارے میں لیکن آپ یہ بھی سوچیں نا کہ مجھے ابھی کوئی انٹرسٹ نہیں ہے میں شادی کیسے کر لوں ” احسن نے بات تو کر دی تھی لیکن اب آنسہ کے ری ایکشن کا ویٹ کرنے لگا جبکہ پانی پینے کی غرض سے آتی فاطمہ کے قدم وہیں رک گئے تھے
“احسن تمہیں کوئی مسئلہ ہے فاطمہ سے ؟”
“ماما بات مسئلے کی نہیں ہیں بات یہ ہے کہ میرا دل اس رشتے کے لیے ابھی راضی ہی نہیں ، آپ پلیز بابا کو بتا دیں وہ زبردستی نہ کریں میرے ساتھ ” احسن نے دو ٹوک بات کہہ دی تھی لیکن دروازے کے پیچھے موجود فاطمہ تو اسی شاک میں تھی کی آخر اس کی ماں نے یہ بات کی بھی کیوں ؟
“اچھا تم زیادہ سوچو مت میں تمہارے ابو سے بات کتتی ہوں ویسے اگر سوچو تو فاطمہ بڑی پیاری بچی ہے مجھے تو وہ صحیح لگی ہے تمہارے لیے ” آنسہ بیگم نے اپنی رائے دی تو وہ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا
“ماما پلیز نا ،میرے لیے بابا سے بات کریں ”
“اچھا کروں گی ” انہوں نے بجھے ہوئے دل سے کہہ تو دیا تھا لیکن مرضی ان کی بھی یہی تھی یہ فاطمہ ہی اسی گھر میں رہے
فاطمہ پانی پیے بغیر ہی وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اتنی بے مول ہو جائے گی ، آنکھوں سے نکلےہوئے آنسوؤں کواس نے بے دردی سے صاف کیا تھا.
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...