نماز صبح پڑھ کر ہو گئی چلنے کی تیاری
اٹھا خود مسجد نبوی سے ابر رحمت باری
دکھانا شان حق منظور تھی ہادی کامل کو
مدینے سے نکل کر روکنا تھا فوج باطل کو
دوم تھا سال ہجری بارھویں تھی ماہ رمضاں کی
کہ نکلی مختصر سی اک جماعت اہل ایماں کی
نکل کر شہر سے تعداد دیکھی جانثاروں کی
تو گنتی تین سو تیرہ تھی ان طاعت گذاروں کی
سلاح جنگ یہ تھا آٹھ تلواریں تھیں چھ زرہیں
غنار کا رنگ یہ تھا چیتھڑوں میںبیسوں گرہیں
کمانیں اور نیزے، چوبہائے نا ترا شیدہ
حدود کفش سے آزاد پائے آبلہ دیدہ
زیادہ لوگ پیدل تھے سواری پر بہت تھوڑے
کہ ستر اونٹ تھے بہر سواری اور دو گھوڑے
ہلا دیتی تھہ کہساروں کو جن کی دھاک پیدل تھے
جناب حمزہ کیا خود صاحب لو لاک پیدل تھے
علیؓاور بولبابہ اور جناب سید عالمؐ
یہ تینوں باری باری سے شریک ناقہ تھے باہم
ابو بکرؓو عمرؓاور عبد رحمٰنؓاک سواری پر
منازل طے کئے جاتے تھے اپنی اپنی باری پر
سمندر میں اٹھا کرتی ہے جیسے موج بے پروا
اسی صورت رواں تھی غازیوں کی فوج بے پروا
کھجوریں تک میسر تھیں نہ جن کے پیٹ بھرنے کو
یہ اللہ کے مجاہد تھے چلے تھے جنگ کرنے کو
بہت سے سر بسر محروم گھوڑے سے اور ناقے سے
بہت ایسے تھے جن کی رات بھی کٹتی تھی فاقے سے
خیال عظمت ملت مکیں تھا ان کے سینوں میں
کوئی ساماں نہ تھا ذوق یقیں تھا ان کے سینوں میں
یہ چند افراد اٹھے تھے ضعیفوں کی حمایت کو
شریروں کے مقابل میں شریفوں کی حمایت کو
چلے تھے یہ مجاہد آج میدان شہادت میں
محمدؐکی ہدایت پر محمدؐکی قیادت پر