مجاہدین کے خلاف سرکار ہند کی پالیسی نہایت معادندانہ تھی، ۱۸۶۳ء میں وہابیوں کی گرفتاری کی جو آگ تھانیسر میں روشن ہوئی تھی، وہ تیز ہوتی گئی اور ہر طلوع ہونے والا سورج اس کی تیزی کا پیام لے کر افق پر نمودار ہوتا، ہمارے ہندو اور بعض مسلمان بھائی اس آگ کو بجھانے کے بجاے اس میں تیل اور تارپین ڈال کر بڑھاتے گئے، آخر کار ڈاکٹر ہنٹر نے اس جلتی ہوئی آگ پر ہزاروں من ولایتی بارود اور مٹی کا تیل ڈال دیا اور ہماری سرکار کو یہاں تک بھڑکایا کہ اس نے صادق پور پٹنہ کے وہابیوں کے ان مکانات کو نہ صرف پیوند زمین کردیا؛ بلکہ زمین سے ان کی بنیادوں کو کھدواکر دور پھنکوادیا، جن میں اسی قافلۂ حرّیت کے لوگ ٹھہرا کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود بھی سرکار کی آتش انتقام سرد نہ ہوئی۔
پٹنہ اور بنگال میں گرفتاریاں
۱۸۷۲ء کے آخر تک پٹنہ اور بنگال میں بے گناہوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری رہا، امیر خاں سوداگر چرم اور مولوی تبارک علی کے علاوہ دیگر بے شمار آدمی پٹنہ میں دھر لیےگئے، مولوی امیر الدین صاحب کو پٹنہ اور ایک بوڑھے شخص ابراہیم منڈل کو اسلام پور سے گرفتار کرایا گیا اور اپنے معمولی اور پرانے گواہوں سے اپنی مرضی کے مطابق شہادت حاصل کرکے ان بے چارے مظلوموں کو سوئے کالا پانی روانہ کر دیا گیا۔
حکومت نے اپنا تمام خرچ امیرخاں کی جائیداد فروخت کرکے حاصل کر لیا، اگرچہ اسے بھی حبس دوام کی سزادی گئی تھی، لیکن چار سال بعد مفت کا احسان کرکے اسے چھوڑ دیا اور اس غریب کی ضبط کی ہوئی جائیداد میں سے ایک پائی بھی اسے واپس نہ کی، ذرا غور فرمائیے کہ اگر امیر خاں اتنا بھاری مجرم تھا جیسا کہ مقدمہ کی مثل ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے تواسے چار برس بعد کیوں رہا کردیا گیا؟ اور اگر وہ قصور وار نہیں تھا؛ جیساکہ اس کی رہائی سے معلوم ہوتا ہے تو اتنے شدید اہتمام سے اس غریب کی جائیداد فروخت کرکے اسے پابند زنجیر و سلاسل کرنے کا کیا جواز تھا؟
مارچ ۱۸۷۲ء میں مولوی تبارک علی صاحب اور مولوی امیر الدین صاحب ہمارے پاس کالا پانی پہنچ گئے، قانون جدید کے جاری ہونے کی وجہ سے ان بے چاروں کو ایک مدت تک سخت مشقت کرنا پڑی، پھر اللہ کا فضل ہوا اور مولوی تبارک علی صاحب اسٹیشن محرر اور مولوی امیر الدین صاحب معلّم مدرسہ مقرر ہوگئے، دس برس قید کاٹنے کے بعد لارڈ رپن کے حکم سےہمارے ساتھ ہی رہا ہو گئے، گو ایّام قید کم تھے، لیکن مشقت کی سختی کی وجہ سے گویا ہمارےبرابر ہو گئے تھے۔
جب دس برس تک بھی وہابیوں کی قید وبند کا یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو میں اپنے برے اعمال کو یاد کرکے بہت کڑھا کرتا تھا کہ یہ آگ میرے گھر سے نکلی اور میری بد اعمالیوں کی وجہ سے دس برس تک تمام ہندوستان میں جلتی رہی اور ہزارہا علماء و شرفاء اس مصیبت میں مبتلا ہوئے، اے کاش! مجھ سا منحوس اور بدبخت پیدا نہ ہوتا یا بچپن ہی میں مرجاتا تو مسلمانوں پر یہ آفت نہ ٹوٹتی ؎
چو از قومے یکے بے دانشی کرد
نہ کہ را منزلت ماند نہ مہ را
مارچ ۱۸۷۲ء میں جس جہاز میں مولوی تبارک علی اور مولوی امیر الدین آئے تھے، اسی جہاز سے میاں عبد الغفار کی بیوی اور دو بچے بھی بحکم سرکار کالا پانی پہنچے، میاں عبد الغفار نے چیف کمشنر پورٹ بلیر کے ذریعہ گورنمنٹ سے درخواست کی تھی کہ ان کے بیوی اور بچوں کو ہندوستان سے بلا دیا جائے، گورنمنٹ بنگال شکریہ کی مستحق ہے کہ اس نے ایسے “باغی” کے بیوی بچّوں کو اپنے خرچ پر کالاپانی بھیج دیا۔
اتنے شدید غیض وغضب سے مسلسل دس برس تک وہابیوں کے دھڑا دھڑ گرفتارکرکے دریا برد کرنے سے انگریزی سرکار کا مقصد یہ تھا کہ ان فرزندان توحید کا ہندوستان کی سرزمین سے قلع قمع کرکے ہمیشہ کے لیے انھیں بیخ بن سے اکھاڑ پھینکا جائے، لیکن جسے خدا رکھے اسے کون چکھے، میں نے کالا پانی سے واپس آکر دیکھا کہ جب میں ہندوستان سے رخصت ہوا تھا تو سارے پنجاب میں وہابی عقیدے کے دس مسلمان بھی نہ تھے، لیکن اب دیکھتا ہوں کہ پنجاب کا کوئی شہر، قصبہ، گاؤں ایسا نہیں، جس میں چوتھائی حصہ وہابی نہ ہوں، جو امام محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے معتقد ہیں اور یوماً فیوماً دیوانوں اور فرزانوں کی یہ جماعت ترقی کر رہی ہے، یورپ میں پراٹسٹنٹ فرقہ پر جب عتاب نازل ہوا تو کوئی عذاب، شکنجہ، سولی، پھانسی، جلاوطنی اور آگ ان کے راستہ میں رکاوٹ نہ بنی، یہی کیفیت یہاں تھی،تجربہ سے ثابت ہے کہ کسی فرقہ کی ترقی کو روکنا اور اس پر تشدد کرنا اس کی ترقی اور جاہ و جلال کا سب سے مضبوط سبب ہوا کرتا ہے۔
دور کیوں جائیں، تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ جب سکھ فرقہ پیدا ہوا اور اس نے بال و پر نکالنے شروع کیے تو مغلوں نے ان کے نیست و نابود کرنے کے لیے کیا کیا نہ کیا، مگر خدا کے بڑھائے کو کون گھٹا سکتا ہے، آخر وہی سکھ ہیں جنہوں نے پشاور سے دہلی تک مغلوں کی سلطنت چھین لی اور سو برس تک جلال و اقبال سے حکومت کی ،ادھر دکن میں مرہٹوں کا یہی حال تھا، جتنا روکا اتنا ہی بڑھتے گئے، خدا تعالی کی حکمت بالغہ میں دست اندازی کرنا، اپنے لیے ہلاکت کے سامان فراہم کرنے کے مترادف ہے۔