حمایت علی شاعر(کراچی)
میں بُت پر ست نہیں ہوں پہ بُت شکن بھی نہیں وہ مر د تیشہ بکف ہوں جو کو ھکن بھی نہیں
میں کس کے نام لکھو ں یہ ستم کہ اہل کرم فقیہہ و صوفی و مُلا ہیں ، بر ھمن بھی نہیں
میں ایک چہرہ تھا اور اب ہزار چہرہ ہوں اب ا عتبار کے قابل مرا سخن بھی نہیں
میں روشنی کے بہت خواب دیکھتا ہوں مگر اس انجمن میں جہاں شمع انجمن بھی نہیں
میں فکرِ بوذرؓ و صبرِ حسینؑ کا ورثہ گنوا چکا ہوں تو ماتھے پہ اک شکن بھی نہیں
میں چل رہا ہوں کسی پیر تسمہ پا کی طرح اگرچہ پاؤں میں میرے کوئی رسن بھی نہیں
مرا وجود ہے سنگ مزار کے مانند کہ میرے ساتھ مری روح کیا ، بدن بھی نہیں
میں شہر علم سے منسوب کیا کروں خود کو کسی کتا ب کا سایہ مرا کفن بھی نہیں
کہا گیا جسے قرآں میں بندۂ مومن وہ میں تو کیا کہ مرا کوئی ہم وطن بھی نہیں
ہر اُمتی کی یہ فرد عمل ہے ، کیا کیجیے
حضور آپ ہی ، ہم سب کا فیصلہ کیجیے