محمد حسن عسکری (B:05-11-1919,D:18-01-1978)کاشمار اردو زبان کے ان ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی موثر تخلیقی فعالیت اور عمدہ تنقیدی بصیرت کا ایک عالم معترف ہے ۔ ادبیات کی سماجی تاریخ ،قومی تعمیر و ترقی کے مراحل ،عالمی کلاسیک کے مطالعہ اور تاریخ کے پیہم رواں عمل پر گہری نظر رکھنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل نے اپنی تنقیدی بصیرت کے اعجاز سے اردو تنقید کو متعددنئے آفاق سے آ شنا کیا ۔وہ اپنے عہد کے ممتازادیب ،نقاد،ماہر لسانیات ،مترجم اور افسانہ نگار تھے ۔ انھوں نے سیاسی زندگی کے نشیب و فراز ،ادیان عالم ،تصوف ،نفسیات ، جدیدیت کی تحریک ،علم بشریات اور فلسفہ کے موضوع پر افکار ِ تازہ کی جو شمع فروزاں کی اس کی ضیا پاشیوں سے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات پید اہوئے ۔ نو آبادیاتی دور اور پس نو آبادیاتی دور میں جنوبی ایشیا کی سیاسی ،سماجی اورمعاشرتی زندگی کے ارتعاشات پر ان کے عالمانہ مضامین رجحان ساز ادبی مجلہ ساقی (دہلی:1930-1947،کراچی:1947-1968)کی زینت بنتے ر ہے ۔ محمد حسن عسکری تئیس سال ( 1944-1957) تک ادبی مجلہ ساقی کے قلمی معاون رہے ۔ ان کے مضامین ’’جھلکیاں ‘‘ کے عنوان سے ادبی مجلہ ساقی میں شائع ہوتے تھے۔ایک وسیع المطالعہ نقاد کی حیثیت سیمحمد حسن عسکری نے زندگی بھر تہذیبی اقدار کی تفہیم اور تدریس میں گہری دلچسپی لی ۔ان کے افکارمیں جہاں مشرقی افکارکی تابانیوں کا کرشمہ دامنِ دل کھینچتاہے وہاں مغربی دانش کی ضو فشانیاں بھی قاری کو متوجہ کرتی ہیں ۔ دیار مغرب کے فکر و فلسفہ اور مابعدالطبیعات سے متعلق مباحث سے مزین یہ دھنک رنگ منظر نامہ قاری کو جہانِ تازہ کی جانب پیش قدمی پر مائل کرتا ہے ۔محمد حسن عسکری نے روسی ،انگریزی اور فرانسیسی ادب کی مقبول تحریروں کے تراجم پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔محمد حسن عسکری نے عربی زبان کے صوفیانہ ادب کے تراجم کیے اور بدھ مت کے افکار کو بھی اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ ان کے تراجم کا یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا۔ سال 1943میں انھوں نے روسی ناول نگار اور ڈرامہ نگار میکسم گورکی ( 1868-1936 :MAXIM GORKY ) کی تصنیف( How I Learnt to Write) کااردو ترجمہ کیا۔ انھوں روسی مفکر لینن ( 1870-1924 :Vladimir Lenin)کی سال 1917میں شائع ہونے والی کتاب (The State and Revolution)کا سال 1942 میں اردو ترجمہ کیا۔ زندگی کے آخری ایام میں محمد حسن عسکری نے ترقی پسند تحریک کے نظریات پر شدیدگرفت کی ۔پس نو آبادیاتی دور میںمحمد حسن عسکری نے پاکستان کی نو آزادمملکت میں قومی تشخص پروان چڑھانے کی مقدوربھر سعی کی ۔اپنی تحریروں میں وہ اس امر پر توجہ دیتے کہ پاکستانی ادبیات میںاقتضائے وقت کے مطابق عصری آ گہی پروان چڑھانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔انھوں نے آزادی کے بعدپاکستان میں ادب کی اہمیت پر اپنا واضح موقف پیش کیا۔
تصانیف:
۱۔انسان اور آدمی ، ۲۔ستارہ یا بادبان (اس میں 1948-1955 کے عرصے میں لکھے گئے مضامین شامل ہیں )، ۳۔وقت کی راگنی ، ۴۔جھلکیاں، ۵۔جدید یت یا مغربی گمراہیوں کی تاریخ، ۶۔مجموعہ (سال اشاعت :2008)،۷۔تخلیقی عمل اوراسلوب ،۸۔بیسویں صدی کا مزاج ،۹۔ہندوستان کے عہد وسطیٰ پر مقالات ,۱۰۔انتخاب طلسم ہوشربا
ممتاز اسلامی مفکر اور دانش ور مولانا محمد اشرف علی تھانوی(1863-1943) کی خدمات پر محمد حسن عسکری نے جو تحقیقی کام کیا وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ اپنی حیات مستعار کے آ خری برسوں میں اپنے پیر و مرشد مولانا محمد اشرف علی تھانوی کے زیر اثر محمد حسن عسکری نے روایت پسندی کو زادہ راہ بنا لیا۔محمد حسن عسکری نے جن عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی علمی وادبی کامرانیوں کو پہلی مرتبہ اردو داں طبقے کے سامنے پیش کیا ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔ رینے گویاں ( B,1886,D: 1951: René Guénon )۔یہ فرانسیسی فلسفی بعد میں مسلمان ہوگیا اور اس کا اسلامی نام عبدالواحد یحیٰی تھا۔ فلسفہ کے روایتی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اس دانش ور کی باطنیت ، مغربی اور مشرقی فلسفہ پر وقع تصانیف کا دنیا کی بیس زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے ۔
۲۔ برطانوی دانش ور ،فلسفی اور مفکر ابو بکر سراج الدین ،مارٹن لنگز ( 1909-2005 :Martin Lings)نے اسلام قبول کرنے کے بعد سیرت النبی ﷺ پر قابل قدر کام کیا ۔ولیم شیکسپئیر پراس کے تجزیاتی مطالعات بہت مقبو ل ہوئے ۔
۳۔ جرمن فلسفی فریتجوف شون ( 1907-1998:Frithjof Schuon ) نے اسلا م قبول کر لیا اور عیسیٰ نو ر الدین احمد ان کااسلامی نام ہے ۔ اس فلسفینے روحانیت کے موضوع پر فکر پرور اور خیال افروزمباحث کا آغاز کیا ۔
فن افسانہ نگاری میں دس سال ( 1937-1947) تک محمد حسن عسکری نے شعور کی رو کے اسلوب میں افسانے لکھ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’ جزیرے ‘‘ سال 1943میں شائع ہوا۔یہ مجموعہ آ ٹھ افسانوں پر مشتمل ہے ۔ دوسرا افسانوی مجموعہ ’’ ذکر انوار ‘‘ ہے جوسال 1947میں منظر عام پر آ یا۔ ان کے افسانوں میں جنس و جنوں اور شباب کے منھ زور جذبات سے لڑھک جانے والے کرداروں کا طرز عمل دیکھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔ محمد حسن عسکری کی افسانہ نگاری کو قارئین ادب کی طرف سے زیادہ پزیرائی نہ مل سکی ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے افسانوں میں اپنی نثر کو بلند معیار تک لے جانے کے لیے عام فہم انداز اپنانے کے بجائے با لعموم علامات ،اشارات اور تلمیحات کا سہارا لیا ۔ ہم جنس پرستی کے موضوع پر عصمت چغتائی (1915-1991) اور محمد حسن عسکری نے متعد د افسانے لکھے ہیں مگر ان کا اسلوب جداگانہ ہے ۔ مثال کے طور پر عصمت چغتائی کاافسانہ ’’ لحاف‘‘ جس میں دو عورتوں کے جنسی جنون کا ذکر ہے ان میںایک تو بیگم جان اور دوسراکردار ربو کا ہے جسے بیگم جان اپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لیے استعمال کرتی ہے ۔افسانہ لحاف سماجی حقیقت نگاری کا مظہر ہے جب کہ افسانہ ’’ پھسلن‘‘ میں محمد حسن عسکر ی نے دو مردکرداروں جمیل اور سید نذیر علی نذروکی ہم جنس پرستی کو موضوع بنا یا ہے ۔اس میں زیادہ تر فرانسیسی علامت نگاری کے زیر اثر ورائے واقعیت پر انحصار کیا ہے ۔
رگھو پتی سہائے فراق گورکھ پوری ( 1896-1982) کے اسلوب کو محمد حسن عسکری نے قدرکی نگاہ سے دیکھا۔نو آبادیاتی دور میں بر طانوی استعمارکی شقاوت آمیزناانصافیوں کے بارے میں فراق گورکھ پوری نے ہمیشہ کھل کر لکھا ۔ہوائے جو رو ستم میںرخِ وفا کو فروزاں رکھنے اور برصغیر کی علمی و ادبی روایات کو پروان چڑھانے میں محمدحسن عسکری نے جو کاوشیں کیں ان کو تحریک دینے میں فراق گورکھ پوری کا بھی حصہ ہے ۔فراق گورکھ پوری کے ساتھ محمد حسن عسکری کا معتبرربط زندگی بھر برقراررہا۔فراق گورکھ پوری کے اسلوب کے تجزیاتی مطالعہ پر محمد حسن عسکری نے درج ذیل مضامین لکھے:
فراق صاحب کی تنقید ،فراق صاحب کی دو نظمیں ،کچھ فراق صاحب کے بارے میں
فراق گورکھ پوری کے ساتھ محمد حسن عسکری کو جو گہری عقیدت تھی اس کا اظہار مندرجہ بالا مضامین میں بھی ملتاہے ۔فراق گورکھ پوری کے ادبی منصب کے بارے میں محمد حسن عسکری نے جو رائے قائم کی ہے جن نقادوں نے اس سے اتفا ق نہیں کیاان میں ابوالکلام قاسمی ،احمد بخش ناصر ، ارشاد گرامی ،شمس الرحمٰن فاروقی ،گدا حسین افضل ،نثار احمد قریشی ،شفیع ہمدم ، مظفر علی سید اور محمد فیروزشاہ شامل ہیں ۔ان ناقدین کا خیال ہے کہمحمد حسن عسکری نے فراق گورکھ پوری کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے جو رائے د ی ہے وہ عقیدت ،مروّت اور ذاتی پسند کی آئینہ دار ہے ۔اپنی ممدوح شخصیت پر استحقاق سے بڑھ کر نچھاور کیے جانے والے عقیدت کے یہ پھول میزان تنقیدمیں یک طرفہ ثابت ہوتے ہیں۔
اپنی تنقیدی تحریروں میںمحمدحسن عسکری نے علامت نگاری کو اہم خیال کیا ۔بادی النظر میں اس کا سبب یہ ہے کہ علامت نگاری میں تصوف کے خیالات کو جگہ دینانسبتاً سہل ہے ۔ایک رجحان ساز ادیب کی حیثیت سے محمدحسن عسکری نے تخلیق ادب میں اپنے لیے ایک منفرد راہ کاانتخاب کیا ۔ان کی تنقیدات میں جو ادبی تھیوری کارفرما ہے اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں جب ایک زیرک تخلیق کار قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتاہے تو وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتاہے ۔ہر لحظہ نیا طُور نئی بر ق تجلی کی کیفیت سے مرحلۂ شوق ہے کہ طے ہونے میں نہیں آتا ۔ان حالات میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ تخلیق کارادب کو انسانی زندگی کے تمام معمولات اورحالات و واقعات کاآ ئینہ دار سمجھتاہے ۔ادب کے وسیلے سے تہذیبی و ثقافتی میراث کے سب اسرار و رموز کی گرہ کشائی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں ۔ جہاں تک زبان و بیا ن کا تعلق ہے ایک زیرک تخلیق کار ایک ماہر صناع اور مرصع ساز کے طور پرالفاظ کا اس طرح استعمال کرتاہے کہ تخلیقی ترفع کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے ۔محمد حسن عسکری کے تنقیدی اسلوب کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ گلدستہ ٔمعانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے کے آ رزو مند تھے ۔اس طرح تصور کی دنیا میں الفاظ کا ایک ایسا نیا آ ہنگ سامنے آ تاہے جو پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتاہے ۔ زبان و بیان پر خلاقانہ دستر س رکھنے والا تخلیق کارایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھ کر قارئین کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دیتاہے ۔
محمد حسن عسکری اردو تنقید کے افق پر نصف صدی تک ضوفشاںرہے۔ ان کا شمار پس نو آبادیاتی دور کی تھیوری کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے ۔ ان کے مکتبہ فکر میں سلیم احمد ، سجاد باقر رضوی اورشمیم احمد کے نام قابل ذکرہیں۔ محمد حسن عسکری نے 1944 سے قبل اپنی تنقید کا آغاز کیا ۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر میں تخلیق ہونے والے ادب پر ان کا مضمون ’’ ہندوستانی ادب کی پرکھ ‘‘ سال1946میں شائع ہوا ۔ ارض ِوطن اوراہلِ وطن کے ساتھ والہانہ محبت اورقلبی وابستگی محمد حسن عسکری کے اسلوب کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے ۔ پس نو آبا دیاتی دورمیںشائع ہونے والے اپنے وقیع مضامین ’’ تقسیم ہند کے بعد ‘‘ ، ’’ پاکستان ‘‘ ،’’ پاکستانی حکومت اور ادیب ‘‘ ، میں انھوں نے اس نو آزاد مملکت میں ادب کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی ہے ۔ انیسویں صدی کے ممتاز ادیبوں کے بارے میں محمد حسن عسکری کا خیال تھاکہ انھوں نے آئینِ نو پر عمل پیرا ہونے کے بجائے ماضی کے اسالیب کی امین روایات پر انحصارکیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن ادیبوں کی تخلیقات سے عصر ی آ گہی پروان چڑھانے میں مدد نہ مل سکی ۔نو آبادیاتی دور کی ادبی تخلیقات میںانگریزی ادب کی اصناف کی عکاسی پر توجہ نہ دی گئی۔ ان کا مضمون’’جدید شاعری‘‘ ادبی مجلہ ’’ساقی ‘‘ میں اپریل 1944 میںشائع ہوا ۔ محمد حسن عسکری کے تنقیدی مضامین کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے امریکی شاعر اور نقاد ایذرا پاونڈ ( 1885-1972:(Ezra Pound ، بیسویں صدی کے ممتاز امریکی شاعر اورنقاد ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ ( 1888-1965 : T. S. Eliot )، فرانس سے تعلق رکھنے والے نقاداور شاعر سٹیفن میلارمے ( 1842-1898 : Stéphane Mallarmé )اور جرمن دانش ور ،ماہر عمرانیات اور فلسفی مارٹن ہیڈیگر ( 1889-1976: Martin Heidegger ) ، فرانسیسی نقاد اور مورخ طین ( 1828-1893:Hippolyte Adolphe Taine ) اور فرانسیسی ادبی نقاد سینت بیو ( 1804-1869 :Charles Augustin Sainte-Beuve )سے اثرات قبول کیے ہیں ۔ محمد حسن عسکری کی دلی تمناتھی کہ پس نو آبادیاتی دور میں پاکستانی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کو قومی تشخص اور ملی شناخت کی علامت ہوناچاہیے ۔وہ اردو تنقید میں حق گوئی و بے باکی ، بے لاگ رائے ،غیر جانب دارانہ ،تحلیل و تجزیہ اور مثبت انداز فکر کے مظہر محاکمہ کو شعار بنانے پر اصرار کرتے تھے ۔ فرانسیسی شاعر چارلس بودیلئیر ( 1821-1867 :Charles Baudelaire)کی مقبول نظموں ’’ خفقان‘‘ ( OBSESSION) اورزہراب نوشین ( LE POISON) پر محمد حسن عسکری کی تنقید بہت اہم سمجھی جاتی ہے ۔
زہراب ِنوشین
تیری یہ سانس جو ہے خوشبوؤ ں سے معنبر
افیون و مے سے بھی ہے بڑھ چڑھ کے نشہ آور
یہ سانس میرے حق میں ہے ایک سمِ قاتل
یہ میری روح کو ہے پیغامِ مرگ ِ عاجل
اس جاں ستاں بلا کی جب زد میں آ تی ہے وہ
قعرِ فناکی جانب سر دُھنتی جاتی ہے وہ (1)
نو آبادیاتی دور میںاس خطے میں ثقافتی اقدار و روایات کو جو ضعف پہنچاہے وہ ایک المیہ ہے ۔محمد حسن عسکری اس خطے کی ارضی و ثقافتی پہچان کو ذہن نشین کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔اسی دشواری کو محسوس کرتے ہوئے محمد حسن عسکری نے پس نو آبادیاتی دور میں پاکستانی ادب کی تخلیق پر اصرارکیا ۔ اپنے ایک مضمون ’’ روایت کیاہے ‘‘ میں ادبی روایت کے بارے محمد حسن عسکری نے ایک واضح موقف اختیار کیا۔ انھوں نے دیار ِ مغرب کے مکین مفکرین کے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ روایت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ثقافت کے زیر اثررہتی ہے ۔ ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ یہ بات مشاہدے میں آ ئی ہے کہ دنیا بھر میں ہر معاشرہ اپنی منفرد روایت کو زاد ِ راہ بنا کر روشنی کا سفر جاری رکھتا ہے ۔مذہب،ثقافت، ادب،فنون لطیفہ اورمعاشرت کے امورمیں روایت کی جلوہ گری ایک اچھوتا انداز پیش کرتی ہے ۔ جہاں تک روایت کا تعلق ہے یہ فرانسیسی دانش ور عبدالواحد یحیی ٰ رینے گوئنے (René Guénon )کے خیالات کی بازگشت محسوس ہوتی ہے ۔اپنے ایک اور اہم مضمون ’’ استعارے کاخوف‘‘ میں محمد حسن عسکری نے مولاناالطاف حسین حالی ؔ کے تنقیدی نظریات پر گرفت کی ہے ۔انھوں نے اس خیال کا اظہارکیا کہ مولاناالطاف حسین حالی ؔ نے استعارے کے بارے میں درست رائے قائم نہیں کی ۔ تقابلی تنقید پر مبنی اپنے ایک اور مضمون میںمحمد حسن عسکری نے مولاناالطاف حسین حالی اورمحسن کاکوروی کے اسلوب کا جائزہ لیاہے ۔انھوں نے محسن کاکوروی کے اسلوب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے واضح کیا کہ محسن کاکورو ی (1837-1905)کے کلام میں جو اثر آ فرینی ہے اس کے سوتے خلوص ،عقیدت اورروحانیت سے پھوٹتے ہیں ۔محسن کاکوروی کا شہرۂ آفاق قصیدہ ’’مدیح خیر المرسلین ﷺ‘‘ آج بھی دلوں کو مر کزِ مہر و وفا کرنے کا وسیلہ ہے :
سمت کاشی سے چلاجانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
سب سے اعلیٰ تیری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمانِ مفصل کا یہی ہے مجمل
ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ ، نہ غزل
اپنی شاعری میں محسن کاکوروی نے مقامی تہذیب و ثقافت کو اہم قرار دیا ہے۔محولہ بالا قصیدے میںانھوں نے برصغیر کی مقامی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے ۔مثال کے طور پر یہ الفاظ خالص مقامی نوعیت کے ہیں :
اشنان، استل،بھادوں، گنگا،گوکل،جمنا،مہابن،تیرتھ،کنھیا،اٹکل،گھاگھرا،ہیکل،چمل
ادب کے پمفلٹ باز نقادوں ،چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد عناصر کی خود نمائی اور مکر کی چالوں سے ادبی منظر نامہ گہنا گیاہے ۔خیالی پلاؤپکانے کے رسیا ایسے جعل ساز بونے مسخرے خود کو باون گزا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں مگر ان کی ہئیت کذائی دیکھ کر سب لوگ لاحول پڑھتے ہیں ۔ محمد حسن عسکری نے تنقیدی معائر کو پیش نظر نہ رکھنے والے ادیبوں کے طرز عمل پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے انھیں متنبہ کیا کہ مغرب سے مستعار نظریات پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے خیال میں کسی واضح نصب العین کا تعین کیے بغیر مغرب کی جامعات کی تدریس سے متاثر ہو کر خیر و شر کا فلسفہ پیش کرنا حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کے مترادف ہے ۔پس نو آبادیاتی دورمیں تنقید کے منصب پرمحمد حسن عسکری نے واضح موقف اپنایا۔ادب میں درخشاں روایات کی مظہر اخلاقی مطابقت کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے ۔ان کا خیال تھاکہ فنون لطیفہ اور شعر وادب میں کوئی بھی اخلاقیات کا بدل کیسے ہو سکتاہے ۔ تخلیق ِ ادب میں قوت ارادی کے مظہرنئے فنی تجربات کو وہ فروغ ادب کے لیے مفید سمجھتے تھے ۔پس نو آبادیاتی دور میںبدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ایک زیرک تخلیق کار کی چھٹی حسی اسے نئے ادبی تجربات پر مائل کرتی ہے اور وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتاہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں روز کا معمول بن گیا ہے ۔ان حالات میںآدمی کو بھی انسان ہونا میسر نہیں ۔ محمد حسن عسکری نے اس المیے کے بارے میں لکھاہے :
’’انسان اور آدمی میں بہت فرق ہے ۔اسی ذریعے سے مجھے یہ اندازہ بھی ہوا ہے کہ اگر لوگوں نے جلد ہی یہ فرق واضح طور سے نہ سمجھا تو انسانی تہذیب کا مستقبل صدیوں کے لیے مبہم ہے ۔‘‘ (2)
ادب اور فنون لطیفہ کے اخلاقی اور افادی پہلوؤں پر محمد حسن عسکری نے جن خیالات کا اظہارکیا وہ بہت اہم ہیں ۔ایک تخلیق کار کے لیے ضروری ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میںتخلیق کے مقاصد اور لائحہ ٔ عمل کو پیشِ نظر رکھے ۔ایک کامل انسان کا تصورسر حدِادراک سے بھی پرے ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ انسان کے ارفع مقام تک رسائی اور انسان سے وابستہ تصورکی تفہیم ایک کٹھن مر حلہ ہے ۔آدمی اور انسان میںجو فرق موجود ہے اس کی صراحت کرتے ہوئے محمد حسن عسکری نے لکھا ہے :
’’آدمی انسان نہیں بن سکتا،بل کہ آدمی رہنے پر مجبور ہے ۔یہ ایک حیاتیاتی مجبوری ہے جس میں آدمی کا کوئی اختیارنہیں ۔اس لیے آدمی کو ترجیح دینابھی ایک حیاتیاتی ضرورت ہے ۔‘‘ (3)
ادب کی جمالیاتی اقدار میں محمد حسن عسکری نے گہری دلچسپی لی اور سال 1944میں اس جا نب توجہ مبذول کرائی ۔انھیں اس بات کا قلق تھا کہ معاصر ادب میں ان اقدار پر بہت کم توجہ دی گئی ۔خاص طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیبوں نے ادب کی جمالیاتی اقدار پر بہت کم توجہ دی ۔ یہ امر حیران کن ہے کہ ترقی پسندتحریک سے وابستہ ادیبوں نے نصف صدی کے بعدادب کی جمالیاتی اقدار میں بھی دلچسپی لیناشروع کر دی ۔ ایسا محسوس ہوتاہیمحمد حسن عسکری نے بدلتے ہوئے حالات میں حرص و ہوس کے مسموم ماحول کے اثرات کو دیکھ لیا تھا۔سمے کے سم کے ثمر کو دیکھ کر ایک حساس تخلیق کار اور کیاکہہ سکتاہے ۔جب انسا نیت کابلند معیارعنقا ہونے لگے تو آدمی کو ترجیح دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
محمد حسن عسکری کا خیال تھاکہ فن برائے فن کانظریہ کوئی پناہ گاہ نہیں تھابل کہ یہ توادیبوں کا میدان کارزار میں لے جانے،ستیز پر آمادہ کرنے اور جمودکے خاتمے کا ایک طریقہ تھا۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترجانے کی تمنا کرنے والے تخلیق کاروں نے فنی حس کے علاوہ تما م روّیوں سے گلو خلاصی حاصل کرلی ۔ فن برائے فن کی روایت کوپیش نظر ر کھنے اور خوب سے خوب تر کی جستجوکرنے والے پُر عزم ، مہم جُو اور باہمت ادیب جن حالات میںپرورش ِ لوح و قلم کرتے ر ہے اس کے معجزنما اثر سے دلوں کوایک ولولۂ تازہ نصیب ہوا۔ تخلیق ادب میںفن برائے فن کی روایت کے بارے میں محمد حسن عسکری نے لکھا ہے :
’’یہ روایت ایک عظیم الشان تحقیقی مہم کی حیثیت رکھتی ہے جوزندگی اورزندگی کے بنیادی لوازم کو ڈھونڈنے نکلی ہے اور اس ہمت اور خوداعتمادی کے ساتھ کہ کسی بنے بنائے تصورکا سہارا تک نہیں لیا۔یہ تحریک خیر و صداقت کے بنیادی وجود سے منکر نہیں ہے بل کہ اِن کا مکمل اثبات چاہتی ہے ۔‘‘ (4)
روشن خیالی کے نظریے کومحمد حسن عسکری نے لائق اعتنا نہیں سمجھا ۔ان کا خیا ل تھاکہ ماضی کی درخشاں روایات کی بحالی اور عمدہ روایت کو برقرار کھنا وقت کااہم ترین تقاضا ہے ۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ مغربی فکر و فلسفہ سے بیزار رہنے لگے تھے ۔ایک بلند پایہ نقاد کی حیثیت سے انھوں ادبی تنقید کے منصب کی تفہیم پر بھی توجہ دی۔ادبی تنقید کی نوعیت ،مقاصد اور دائرہ ٔ کار کو سمجھے بغیر صحت مند تنقید کو پروا ن چڑھانابعید ازقیاس ہے ۔اردو تنقید میں تاریخی تناظر سے بے خبری ،تشریح ا و رتجزیے کے فقدان پر انھیں تشویش تھی۔ محمد حسن عسکری نے اپنے تنقیدی مضامین میں پاکستانی ادب اور پاکستانی ثقافت کے مباحث پر توجہ دی مگر پس نوآبادیاتی دور میں اس خطے کے علاقائی ادب اور تہذیب وثقافت پرانھوں نے بہت کم توجہ دی ۔ادبی تنقید کی حدود پرروشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے لکھاہے :
’’میری سمجھ میں توایک بڑی سیدھی سادی سی بات آئی ہے ۔آدمی نے کوئی کتاب پڑھی ،اچھی معلوم ہوئی ،جی چاہا اوروں کو بھی بتا ؤں ۔اب اُس نے ایسے تصورات اوراصطلاحیں ڈھونڈیں جن کی مدد سے وہ دوسروں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔یہ ہوئی تنقید ۔‘‘ ( 5)
اپنی تنقیدی تحریروں میں محمد حسن عسکری نے مارکسیت اور ادبی منصوبہ بندی پر بے لاگ رائے دی ہے ۔ان کا خیال تھاکہ مار کسیت نے زندگی کے معمولات اور انسانی جذبات پر کبھی توجہ نہیں دی ۔ادبی تنقید میںانسانی جذبات و احسات کونظر انداز کرنا ایسی محرومی ہے جس کاازالہ ممکن ہی نہیں ۔ محمد حسن عسکری کاخیال تھاکہ مارکسیت میںجذبات کانظام عنقا ہے ۔پس نو آبادیاتی دور میںادبی شعور میں تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہا۔خاص طور پر تقسیم ہندکے موقع پر ہونے والے فسادات کے موضوع پر جو ادب تخلیق ہوا وہ ایک معتبر تاریخی حوالہ ہے ۔ہجرت کے واقعات کوادب کی اساس بنا کر ادیبوں نے زندگی کی حقیقی معنویت،صبر و استقامت ،مقصدیت اورسعیٔ پیہم کی ضرورت کو اجاگر کرنے پر زور دیا۔محمد حسن عسکری کاخیال تھاکہ ہجرت کے موقع پر رونما ہونے والے فسادات کے موضوع پر سعادت حسن منٹوکی کہانیاں جہاں ہولناک ہیں وہاں یہ رجائیت آمیزبھی ہیں۔انسان اگر کٹھن حالات میں صبر و تحمل اور قناعت کو شعار بنالے تو اس کا ضمیر منور ہو جاتا ہے جب کہ نا شکر ی،احسان فراموشی ،محسن کشی ،بے غیرتی اوربے ضمیری تباہ کن بددماغی پر منتج ہوتی ہے ۔
قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ ہر طرف بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ،اپنا اُلو سیدھا کرنے والے،جو فروش گندم نما ،ابن الوقت ،آستین کے سانپ اور بروٹس قماش کے عیار مسخروں،بھڑووں ،آدم خور بُھوتوں ،چڑیلوں ،ڈائنوں اور طوائفوں کا جھمکاہے ۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا مشکو ک نسب کے یہ سفہا اور اجلاف و ارزال محسن کُشی کا قبیح کردار اپنا کر ہمیشہ اہلِ ہنر کے در پئے آزار رہتے ہیں ۔ اِن سفید کووں ،کالی بھیڑوں،گندی مچھلیوں اورعفونت زدہ انڈوں کے باعث مسموم معاشرتی ماحول سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے ہیں ۔یہ ابن الوقت درندے جس تھالی میں کھاتے ہیں اُسی میں چھید کرتے ہیں اور اسی شجر سایہ د ار کی شاخیں کاٹنے اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں جو ان کے سر پر سایہ فگن ہے ۔کسی معاشرے میں منافقت ،خست و خجالت ،انصاف کُشی او ربے حسی کا بڑھنا اس معاشرے کے وجود اور بقاکے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میںتیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک میں چور محل میں جنم لینے والے ،کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے اور چور دروازے سے گُھس کر اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے والے سگانِ راہ نے سماجی اورمعاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر ،زندگیاں پُر خطر اورآ ہیں بے اثر کر دی ہیں ۔ ان حالات میں طلوع ِ صبح ِ بہاراں کا یقین کیسے کر لیا جائے کہ ان چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد متفنی سفہاکی چیر ہ دستیوںاور خزاں کے سیکڑوں مناظر نے تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے ۔ شاطر اور نوسر باز ٹھگوں نے سادہ لوح انسانوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔اس کے باوجودسادہ لوح لوگ ان عادی دروغ گو سفہاکے فریب میں آجاتے ہیں۔ ہوائے جورو ستم میں بھی شمع ِ وفا کو فروزاں رکھنا ،حریت ِ ضمیر سے جینا اور حریتِ فکر کا علم بلند رکھنا زندگی بھر محمد حسن عسکری کا شیوہ رہا ۔ انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ کر گسوں میں پلنے والے ایک فریب خوردہ شاہین کے مانند ہے جو رہ و رسم شہبازی بھلاچکاہے ۔ فریب خوردگی کے بغیر اس کا جینامحال ہے ۔محمد حسن عسکری نے انسانی فطرت کے حوالے سے اس مسئلے کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیاہے ۔ محمد حسن عسکری کا شمار اپنے عہد کے ان جری تخلیق کاروں اور ماہرین علم بشریات میں ہوتا تھا جنھوں نے حق گوئی و بے باکی کو سدا اپنا شعار بنایا ۔زاغ و زغن ،بوم و شپر اور کر گسوں کے جھرمٹ میں پلنے والے فریب خوردہ شاہینوں کے بارے میں محمد حسن عسکری نے لکھا ہے:
’’انسان کے دماغ میں دھوکا کھانے کی بڑ ی صلاحیت ہے ،بل کہ فریب خوردگی کے بغیر اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور وہ ہر قیمت پرکسی نہ کسی طر ح کا فریب بر قرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔‘‘ (6)
ممتاز افسانہ نگار غلام عباس کے افسانے ’’کتبہ ‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے محمد حسن عسکری نے خیال ظاہر کیاکہ جب اجل کے ہاتھوں بوڑھے کلرک’’ شریف حسین ‘‘ کی بے ثمر زندگی کے خوابوں کی عمارت منہدم ہو جاتی ہے تو اس کانو جوان بیٹااپنے مر حوم باپ کی قبر پر کتبہ نصب کر ا دیتا ہے ۔اس طرح وہ اپنے لیے اہمیت کا ایک نیا فریب تلاش کر لیتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محمدحسن عسکری کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ معاشرے میں محسن کشی کی وہی قبیح صور ت نمو پا رہی ہے جو بروٹس اور جولیس سیزر کے زمانے میں تھی ۔جب محسن کش اور نمک حرام بروٹس سنگِ ملامت لیے اہلِ درد کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں تو ہر حساس تخلیق کار کو دلی صدمہ ہوتا ہے ۔اپنے محسن کے ٹکڑوں پر پلنے والے وہ بروٹس جن کے بارے میںیہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ آزمائش و ابتلا کی گھڑی میںمرہم بہ دست آ ئیںگے ،انہی کو جب اپنے کرم فرما پر خنجر آزما ہوتے دیکھتا ہے تو اس کا جی گھبر جاتا ہے اور اُس کے دِلِ صد چاک سے آ ہ نکلتی ہے ۔ وقت کی مثال بھی سیلِ رواں کی تند و تیزموجوں کی سی ہے ۔اس دنیا میں کوئی بھی شخص خواہ اس کی قوت و ہیبت کتنی ہی جہاں گیرکیوں نہ ہوسیلِ زماں کے تھپیڑوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔درِ کسریٰ سے یہی صدا سنائی دیتی ہے کہ کوئی شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا لے وہ بیتے لمحات کی چاپ اورپُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا ۔ایک تخلیق کار ان باتوں کو خاطر میں نہیں لاتا کہ دیوان جمع کرتے وقت درد و غم کی کیا کیفیت رہی ۔ یہ فریب ہی تو ہیں جو انسانی زندگی کودکھوں کی سوغات بنا دیتے ہیں۔فراقؔ گورکھ پوری نے سچ کہاتھا:
میاں رو پیٹ کر بیٹھے ہیں ان فریبوںکو
یہ ہم سے پوچھنے آئے ہوغم کیا تھا خوشی کیا تھی
مولانا الطاف حسین حالی نے زبان اور استعارے کو الگ الگ قرار دیا تھا۔محمد حسن عسکری کاخیال تھا کہ مولاناالطاف حسین حالی ؔ ادب میں بھی علی گڑھ کھولنے کے لیے فکر مند تھے۔ محمد حسن عسکری ادب کو ایک پیہم تجربے سے تعبیر کرتے تھے ۔اپنے ایک تنقیدی مضمون ’’ استعارے کا خوف ‘‘ میں زبان اور استعارے کی ماہیت کے بارے میں محمد حسن عسکری نے مولانا الطاف حسین حالی ؔ کے تنقیدی خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ حالیؔ خودکتنے ہی اچھے شاعر کیوں نہ ہوں اورایک خاص طرح کے شعروں کی کتنی ہی اچھی تمیز کیوں نہ رکھتے ہوں اِس کور ذوقی کا آغاز انھیں سے ہوا۔یہ خالی خولی ادب کا مسئلہ نہیں ۔جو شخص یا جماعت استعارے سے ڈرتی ہے ،وہ در اصل زندگی کے مظاہر اور زندگی کی قوتوں سے ڈرتی ہے ۔‘‘(7)
اپنی تحریروں میں محمد حسن عسکری نے سوئٹزر لینڈسے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات کارل یونگ( 1875-1961 : Carl Jung ) کے خیالات کاحوالہ دیاہے ۔اس کے مطابق حالات کے ادراک اور ان سے وابستہ حقائق تک رسائی کے لیے انسانی ذہن کی تین تہوں یعنی شعور ، ذاتی لاشعور اور اجتماعی لاشعور کے بارے میں آ گہی ضروری ہے ۔ ادب میں نفسیاتی اندازِ فکر کو محمد حسن عسکری نے بہت اہمیت دی ۔وہ سمجھتے تھے کہ ایک موثر ذہنی عمل کی حیثیت سے ادب کونفسیات سے مربوط کرنا دانش مندی کی دلیل ہے ۔ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ وہ ادیب جو تخلیقی فن پاروں کو عمرانیات یا اجتماعیات کے نقطہ ٔ نظر سے دیکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ادب سیاسی ،معاشی اور سماجی عوامل کامظہر ہوتاہے ۔ خالصتاً ادب پاروں کی ماہیت پر توجہ دینے والے نقادوں کاخیال ہے کہ ادب کو ایک قائم بالذات چیزکی حیثیت حاصل ہے ۔دنیا بھر میں یہ بات قابل توجہ سمجھی جاتی ہے کہ ایک خاص تصور کی اساس پر ادب کا قصر عالی شان تعمیر ہوتاہے ۔تخلیق کار کے اسلوب کے سوتے بھی اسی خاص تصورسے پھوٹتے ہیں ۔اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ تصور کومرکزی مقام حاصل ہے جب کہ اسلوب ثانو ی حیثیت کاحامل ہے ۔ نو آبادیاتی دور میںاردو تنقید کی سب سے بڑی محرومی یہ رہی کہ مغربی تنقید سے سطحی نوعیت کی واقفیت پر انحصار کیا گیااورتنقیدی معائر اور موضوعات کی غواصی کی جانب توجہ دینے کی کسی کوتوفیق ہی نہ ہوئی۔عالمی ادب میں تنقید کے تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھاناوقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔تخلیق ادب کو صحیح سمت عطاکرنے کے سلسلے میں تراجم خضر راہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔اس لیے اقتضائے وقت کے مطابق تراجم پر توجہ دیناضروری ہے ۔تراجم کے معجز نما اثر سے تخلیقی ادب مقاصدکی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا ہو سکتاہے ۔
ایک وسیع المطالعہ نقاد کی حیثیت سے محمد حسن عسکری نے عالمی کلاسیک کابہ نظر غائر جائزہ لیا ۔وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث مشرقی زبانوں کے ادب میں تشنگی کا احساس ہوتاہے ۔وہ یہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ کون سی چیزیں اور تخلیقی رویے ہیں جومغربی ادبیات کو مشرقی ادبیات سے الگ حیثیت عطاکرتی ہیں ۔وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مشرق اور مغرب میں تخلیق ہونے والے ادب میں پائے جانے والے فرق کے پس پردہ ادبی اقدارکے بجائے عمرانی عوامل کارفرما ہیں ۔ محمد حسن عسکری نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ بعض ناقدین کی رائے میں مشرق اور مغرب کی فکری منہاج میں پایا جانے والا فرق اپنی اصلیت کے اعتبار سے دو روایات کا فرق ہے ۔روایت کے بارے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ ایک ایسا کام ہے جسے کوئی قوم یا گروہ دو سو برس سے پیہم رو بہ عمل لا رہا ہو۔روایت کے بارے میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے اس کا آثار قدیمہ سے گہر ا تعلق ہے ۔یہی وہ تعلق ہے جو روایت کو لائق صدرشک و تحسین مقام عطاکرکے عصری آ گہی پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔مشرق کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاںجمالیات کا فلسفہ عنقا ہے حال آ نکہ جمالیات کو الٰہیات کے ایک اہم حصے کی حیثیت حاصل ہے ۔قوم مذہب سے متشکل ہوتی ہے اور جہا ںتک مذہب کا تعلق ہے یہ اعتقادات ،عبادات اوراخلاقیات کاگنجینہ ہے ۔پس نوآبادیاتی دور میں پاکستانی نقادوں نے با لعموم مسلمان ادیبوں کے تخلیق کردہ ادب پاروں اور مغربی ادب کے مطالعہ پر توجہ مرکوز کر دی ۔ یہ مشرق اور مغرب کے ادب کا تقابلی مطالعہ نہیں ۔مشرقی ادبیات میں اس خطے کی مکین دوسری اقوم اور ملل سے تعلق رکھنے و الے ادیبوں کی تحریروں کو نظر انداز کرنا حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کے مترادف ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ہر ادب کی اساس حقیقت کے ایک خاص تصورپر ہوتی ہے ۔بلادمشرق کے زیرک ،فعال اور مستعد ادیبوں کو مغربی افکار کے انجذاب پر توجہ دینی چاہیے ۔اس طر ح وہ جس فکری تونگری سے متمتع ہوں گے اس کے اعجاز سے مشرقی ادبیات کی ثروت میں اضافہ ہو گا۔وہ دن دُور نہیں جب تخلیق ادب کا اہم ترین موضوع معاشرتی زندگی میں انسانوں کے باہمی تعلقات کے بجائے خالق اور مخلوق کے ربط کے بارے میں ہو گا۔پس نوآبادیاتی دور میں بر طانوی استعمار نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مشرقی ادبیات کو ترقی دینے کے بجائے اپنی تہذیبی و ثقافی اقدار کی ترویج اور مشرق کے مکینوں کو مغرب کے ادبی ورثے سے مرعو ب کرنے پر توجہ دی ۔اس کے نتیجے میں یہاں کے محکوم باشندے ایک مستقل نوعیت کے احسا س کم تری میں مبتلا ہوگئے۔ اس مسموم ماحول نے اُ ردو تنقید پر منفی اثرات مرتب کیے ۔ ان کا خیال تھا کہ اردو زبان میں تخلیق کیے جانے والے ادب پاروںکی غیر جانب دارانہ انداز میں تحلیل و تجزیہ پر توجہ دیناوقت کااہم ترین تقاضاہے ۔ اردو ادب سے مابعد الطبیعات کو بارہ پتھر کرنے کے سلسلے میں مولانا الطاف حسین حالی کے خیالات کومحمدحسن عسکری نے اس عہد کے حالات کااہم تقاضا قرار دیا۔محمد حسن عسکری نے مولانا الطاف حسین حالی اورشبلی نعمانی کی تنقید پر گرفت کی اورلکھا :
’’شبلی مرحوم اور حالی مرحوم پر انگریزوں کی ایسی ہیبت طاری ہوئی تھی کہ انگریزی ادب سے ابتدائی واقفیت کے بغیر اُنیسویں صدی کی انگریزی تنقیدسے دو چار چلتے ہوئے خیالات اخذ کر لیے اوراپنے ادب کوان محدودتصورات میںاس طرح مقیدکیاکہ آنے والی نسلوں کے ادبی فہم اور ادبی ذوق کو غارت کر گئے ۔‘‘ (8)
میراجی ( محمدثنااللہ ڈار :1912-1949)کی تنقیدی بصیرت کومحمد حسن عسکری نے مغربی ادب کے وسیع اوربراہِ راست مطالعے کاثمر قرار دیا۔ میراجی نے افادیت سے لبریز اپنی توضیحی تنقید سے نہ صرف اُردو تنقید بل کہ اردو ادب کی ثروت میں بھی گراں قدر اضافہ کیا۔محمد حسن عسکری کو اس بات پر تشویش تھی کہ بعض مبتدی ادیب اور نو آموزنقاد و محقق مغربی مصنفین کے اقوال نقل کر کے ادب کے عام قارئین کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس قسم کی بھونڈی نقالی تخلیقی صلاحیتوں اورحقیقی نوعیت کی اصلی تخلیقی فعالیتوں کے لیے بہت نقصا ن دہ ثابت ہوتی ہے ۔محمد حسن عسکری نے مشرقی ادیبوں پر واضح کیاکہ انھیں مغربی ادیبوں کی تخلیقات اور ان کے پس پردہ کارفرما محرکات پر غور کرنا چاہیے ۔ دیار مغرب کے ادیب نوائے سروش کو صریر خامہ کے ذریعے زیب ِ قرطاس کرنے کی غرض سے جو طریق کاراپنانتے ہیںاس کاادراک فکر و نظر کے متعد دنئے دریچے واکرنے کاموثر وسیلہ ثابت ہوسکتاہے ۔ اس طرح مشرقی زبانوں کے ادیب ان حقائق سے آ گاہ ہو سکیں گے کہ ادبی اور جمالیاتی اصول ٹھو س اور قابل ِ عمل صورت میں کس طرح منصۂ شہودپر آتے ہیں ۔ محمد حسن عسکری نے ادب میں جمود اور سکوت کے خاتمے کے لیے زندگی بھر جد و جہدکی ۔زندگی کی تاب و تواں سے عاری بے مقصد تحریروں کومحمد حسن عسکری نے مردہ تخلیقات قرار دیا۔ معاشر تی زندگی کی تمازت سے عاری اس قسم کی مردہ تخلیقات سے ادب کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔انھوں نے نقادوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ وہ اس نوعیت کی مردہ تحریروں کا پوسٹ مارٹم کر کے سہل پسندتخلیق کاروں کی جعل سازی ،نقالی ، چربہ اور سرقہ کا کچا چٹھا پیش کرنے میں کوئی تامل نہ کریں ۔
محمد حسن عسکری نے زندگی بھر مذہب ،ملت ،ارض وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کوشعاربنایا ۔ان کا خیال تھا کہ پس نو آبادیاتی دور میںپاکستانی ادیبوں کے ادبی شعور کو بدلنا وقت
کااہم ترین تقاضا ہے ۔معاشرتی زندگی کے بارے میںمثبت شعور پید اکرکے عصر ی آ گہی کوپروا ن چڑھانے کی مساعی ثمر بار ہو سکتی ہیں ۔آزادی کے بعد معاشرتی زندگی اس امر کی متقاضی ہے کہ ادب کو زندگی کا آئینہ دار بنادیاجائے ۔اس طرح ارض وطن میں وہ فصل گُل آئے گی جواندیشہ ٔ خزاں سے بے نیاز ہو گی۔ عالمی ادب کے مطالعہ کے بعد محمد حسن عسکری نے ان عوامل کی صراحت کر دی جن کی اسا س پر روایت کی عمارت تعمیر ہوتی ہے ۔روایت کے متعلق ان کے خیالات سے یہ معلوم ہوتاہے جب بھی مطلق وجود کو تعینات کالحاظ کیے بغیر ذہن میں لایا جائے تو بلا شبہ یہ قادر مطلق کا وجود ہے جو نظام ہستی چلا رہاہے ۔اگر اس عالم ِ آ ب و گِل کے ساکنان بہ لحاظ تناسب تعینات کے احساس سے سرشار ہوں تو یہ کیفیت روحانیت کی مظہرہے ۔جب یہ انگارۂ خاکی فریبِ سُود و زیاں ، اغراض و مقاصد اور مصلحت اندیشی کے سرابوں میںبھٹکنے لگتاہے تو یہ مادیت کی پہچان ہے ۔ بعض فلسفی وجود انسانی کو وجود مطلق کا پرتو خیال کرتے ہیں ۔وجود انسانی کااپنے خالق سے جو ربط ہے اس کے بارے میں غالبؔ نے کہا تھا:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خداہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں، تو کیا ہوتا
جہاں تک انسانی روح کا تعلق ہے اس سے مراد ایسی فقید المثال روحانی قوت ہے جو مجموعہ تعینات انسی و آفاقی ہے ۔انسانی جسم خلاصہ مادیات انس و آفاق سے عبارت ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میںخوش فہمیوں کے سلسلے اس قدردرازہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ہر بوسیدہ اینٹ کو یہ زعم ہے کہ دیوار توصرف اسی کے سہارے پر کھڑی ہے ۔اپنی تنقید میںمحمد حسن عسکری نے روایت کے بارے میںمنفرد اندازفکر اپنایا ہے ۔اگر ادب روایت کے اس منفرد اندا ز کواپنا کر اپنی سمت کاتعین کرتا ہے تو اسے روایتی کہنے میں کوئی امر مانع نہیں ۔اس کے بر عکس اگر تخلیق کارنے الفاظ اوراسالیب کاانتخاب روایتی انداز میں کیا ہو تو پھر بھی ادب پارے کو روایتی کہنے میں انھیںتامل تھا۔
اپنی زندگی کے آخری برسوں میںمحمد حسن عسکری کی تنقیداور تخلیق ادب میں دلچسپی کم ہوگئی اور انھوں نے فغان ِ صبح گاہی کو شعاربنا کر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ٹھا ن لی ۔اس عرصے میں انھوں نے اپنی تمام ادبی مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قرآن حکیم کے اردو ترجمے پرتوجہ مرکوز کر دی ۔ایک پارے کا ترجمہ مکمل ہونے کے قریب تھا کہ فرشتۂ اجل نے ان کے ہاتھ سے قلم چھین لیا ۔
—————————————————————————————————————————————————————-
مآخذ
(1)چارلس بو دیلئیر :نظم’’ LE POISON‘‘ اردو ترجمہ ’’ زہراب نوشین ‘‘،محمدہادی حسین ،ماہ نامہ اسلوب ،کراچی ،تخلیقی ادب 5، صفحہ 351
(2)محمد حسن عسکری :مجموعہ ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور ،سا ل اشاعت 2000،صفحہ 35
(3) ایضاً ،صفحہ 51
(4) ایضاً ،صفحہ 89
(5) ایضاً ،صفحہ894
(6) ایضاً ،صفحہ150
(7) ایضاً ،صفحہ195
(8) ایضاً ،صفحہ651
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...