(Last Updated On: )
انسان کے تجربات و مشاہدات شیریں بھی ہوتے ہیں اور تلخ بھی، جن کے اثرات مصنف پر کبھی مزاح اور کبھی ہجو کی صورت میں مرتب ہوتے ہیں۔ اوّل الذکر کو آپ مثبت یا تعمیری رویہ کہہ سکتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر مزاح نگار جعفر زٹلی کی طرح مزاحمتی رویہ اپناتا ہے تو پھر عدم مصالحت کی صورت میں ہجو بھی کہتا ہے، جسے ’’فرخ سیر‘‘ ہضم نہ کر پائے تو حتمی نتیجہ بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ملازمت خاص طور پر سرکاری نوکری کے دوران بڑے عجیب و غریب کرداروں اور اُن سے وابستہ کہانیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ’’چاند کی گود میں‘‘ کے خالق محمد اشفاق ایاز سرکاری ملازمت کی طویل اننگز کھیل کر سبک دوش ہوئے ہیں۔ اِس عرصہ کے دوران انہیں بھی لا تعداد کرداروں کی بے شمار بوالعجبیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دفتری زندگی کی وارداتیں، رنجشیں، واقعات، تلخیاں، دوستیاں، لطیفے، چھیڑ چھاڑ مختصر یہ کہ انسانی رویے اور اُن کی بو العجبیاں اُن کی دل چسپی کا مرکز و محورر ہیں۔ اُن کے ذہن کی تیزی و زر خیزی نے یہ سرمایہ بڑی ترتیب سے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ کبھی کبھی وہ اُن کرداروں یا مشاہدات کو مزاحیہ مضامین کا روپ دے کر مختلف ادبی جرائد میں شائع بھی کرواتے رہے۔ اب وہ یہ مزاح پارے کتاب کی صورت میں نفاست اور ندرت کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ اِن نگارشات میں طنز کا نوکیلا پن نہیں، تند و تیز لہجہ نہیں، خوش دلی اور سلامت روی ہے۔ اگرچہ یہ اُن کے ملازمت کے دور کے واقعات اور کردار ہیں جو بہت عرصہ پہلے طنزیہ و مزاحیہ پرچوں میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں مگر اسلوبِ بیاں نے تخلیقات کو تازہ کاری اور نیا پن عطا کیا ہے۔ فکری حوالے سے اِن میں لطافت اور باریکی ہے، گرد و پیش کو عمیق نظر سے دیکھا اور اظہار بیان کی بے ساختگی، نوکیلے اور کٹیلے پن میں پیش کیا گیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ واقعات اور کردار دفتری زندگی یا گلی محلے سے ہیں اور اِس چھب اور مہارت سے پیش کیے ہیں کہ اُن میں ایسی ترشی نہیں جو کسی کی ناراضی یا آزردگی کا باعث بنے۔ یہ اعلیٰ سطح کا مزاح، عام اور مروجہ لطیفوں کا سہارالے کر پھکڑ پن پیدا کرنے کی سطحی کوشش سے بہت دور ہے۔ چوں کہ اُن کے کردار، مشاہدات اور تجربات ذاتی تعلق کی بنیاد پر ہیں، اُن میں مقامیت ہے۔ لہذا اُنہیں مزاح میں مبالغے اور غلو سے کام نہیں لینا پڑا، جہاں تصنع ہو وہاں مزاح فطری نہیں کسبی محسوس ہوتا ہے اور تاثرسے خالی ہوتا ہے۔ کراچی میں اصغر خان نے بھی زرعی انجنیئر کی سرکاری ملازمت سے سبک دوشی کے بعد، اپنے مشاہدات ’’اصغر خان کی ڈائری‘‘ کی صورت میں عمدہ انداز سے پیش کیے ہیں۔
مصنف کے لاشعور میں کوئی نہ کوئی واقعہ یا کردار پہلے سے موجود ہوتا ہے مگراُسے طنز و مزاح کے روپ میں بیان کرنے کے لیے وہ اکثر کوئی فرضی کردار تخلیق کر لیتا ہے تا کہ اگر کردار نگاری یا سراپا نگاری کرتے وقت یا کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے کوئی مشابہت محسوس ہو اور اُس سے کوئی منفی پہلو نکلتا ہو تو قاری مماثلت کو محض اتفاق سمجھے۔ تاریخ ادب میں بہت سے مزاحیہ کردار ملتے ہیں منشی سجاد حسین کے حاجی بغلول کو ڈکنس کے (Pick Wick Abroad) اور امتیاز علی تاج کے چچا چھکن کو (Jerome K Jerome) کی مخلوق کا چربہ کہا گیا۔ شوکت تھانوی کے مزاحیہ مضامین کو انگریزی کے مشہور مزاح نگار (Alpha of the Plough) سے استفادہ قرار دیا گیا۔ اشفاق ایاز کے کردار ہمارے گلی محلے، ہمارے ماحول اور معاشرت سے ہیں۔ ہمارے حکومتی دفاتر میں چلتے پھرتے، سانس لیتے، بات چیت کرتے، غیبت کرتے، دروغ گوئی سے کام لیتے اور خوشامد کرتے حشرات الارض کی طرح اِدھر اُدھر دوڑتے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ اشفاق ایاز نے بھی کئی کردار تخلیق کیے ہیں مثلاً لچھن، باؤ کچھن، میڈم نزہت، نائب قاصد مظہر شاہ، مسٹر لال بیگ اور بابا ملنگ وغیرہ
مزاح پیدا کرنے کے لیے مزاح نگار خود پر بھی پھبتی کسنے سے باز نہیں آتا۔ طنز میں عمومی طور پر دوسروں ہی کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔ رونالڈ کاکس نے کہا تھا ’’مزاح نگار ہرن کے ساتھ بھاگتا ہے، جب کہ طنز نگار کتوں کے ساتھ شکار کرتا ہے‘‘۔ اشفاق ایاز کا بنیادی مقصد شگفتگی پیدا کرنا ہے، طنز کے چھینٹوں سے اُنہوں نے حتی الامکان دامن بچایا ہے۔ اِس میں اُنہوں نے ایمائیت کا سہارا بھی نہیں لیا۔ یہاں تک کہ کچھ معاشرتی تلخ حقائق کو بے نقاب کرتے وقت بھی اُنہوں نے محض شگفتہ لب و لہجہ اپنایا ہے۔ یہاں اُن کا مقصد اگرچہ ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانا ہے مگر اسلوب بیاں بے ضرر ہے۔ لطافت کے ساتھ گہرائی بھی ہے۔ اُنہوں نے زبردستی ذہن کے دریچے وا کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی بصیرت کی شمعیں روشن کرنے کی تگ و دو کی ہے، اُنہوں نے انبساط پیدا کیا ہے۔ مزاح نگار قومی شاعر اور حکیم الامت نہیں ہوتا بہ قول سیدضمیر جعفری وہ قوموں کو پالش کرنے کے لیے ہے مالش کرنے کے لیے نہیں۔
مزاح نگار جو بات خود نہیں کہہ سکتے، کردار کی آڑ میں کہہ دیتے ہیں۔ جیسے موجودہ عہد کے ایک مزاح نگار محمد اسلام نے ’’حکیم شرارتی‘‘ کا کردار تراشا ہوا ہے۔ اشفاق ایاز کے ہاں ایک بنیادی کردار ’’میاں لچھن‘‘ کا ہے جن سے کئی کہانیاں منسوب ہیں۔ مصنف، میاں لچھن سے کالے شیشوں والی عینک کے استعمال کی وجہ پوچھتے ہیں۔ جس کے جواب میں لچھن بہت سے مزاحیہ نوعیت کے فوائد بتاتے ہیں۔ مصنف بتاتے ہیں کہ موصوف صرف جمعہ کی نماز پڑھتے تھے۔ لہذا جب حکومت کی طرف سے دفتری اوقات میں نماز کی پابندی کا حکم نامہ جاری ہوا تو اُنہوں نے دفتر میں نماز کی امامت کروانا شروع کر دی۔ ظہر کی نماز میں بہ طور امام قرات شروع کر دی اور دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا۔ جب لوگوں نے اعتراض کیا تو سخت غصے میں آ گئے اور کہنے لگے کہ شہر کی سب سے بڑی مسجد میں جمعہ ظہر کی نماز پڑھتا ہوں، جاہلو وہاں کوئی اعتراض نہیں کرتا، عالم دین وہاں اسی طرح قرات کے ساتھ دو رکعت پڑھاتا ہے۔
مصنف کے دیگر اہم کرداروں میں مسٹر لال بیگ (محمد لال)، نائب قاصد مظہر شاہ جو دفتر کی کینٹین کے مالک کو نماز میں کھڑا کر کے، اُس کی کینٹین سے بسکٹ چُرایا کرتا ہے۔ ایک دن پکڑے جانے پر پلی بارگین کر لیتا ہے۔ مسٹر لال بیگ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے، جس میں مصنف سادہ لوح محمد لال (مسٹر لال بیگ) کو الٹی سیدھی باتیں بتا رہا ہے اور لال بیگ اپنی سادگی کی وجہ سے سن کر حیرت زدہ ہو رہا ہے:۔
’’مرزا جی۔ پانی میں بجلی ہی تو انسان کے جسم میں طاقت پیدا کرتی ہے۔ اب جس پانی سے بجلی ہی نکال لی جائے۔ اس میں طاقت کہاں رہتی ہے۔ بلکہ الٹا نقصان کرتا ہے‘‘۔
’’اچھا جی؟‘‘۔ مرزا لال بیگ حیرانی سے میرا منہ دیکھنے لگا۔
’’مرزا جی۔ پھر یہ بجلی نکلا ہوا پانی جن کھیتوں میں جاتا ہے وہاں کی سبزی اور اجناس میں ٹڈیوں اور سنڈیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہی نہیں ہوتی۔ اسی لئے تو ایسی سبزیاں کھا کھا کر لوگ صحت مند ہونے کی بجائے بیمار ہو رہے ہیں‘‘۔
مرزا لال بیگ کی آنکھوں میں پیدا ہونے والی چمک زیرو کے بلب سے سو واٹ کے بلب کی روشنی تک جا پہنچی تھی۔
’’اور سنو مرزا جی۔ جو گوالے اور دودھ فروش ان بجلی نکلی نہروں کا پانی ملاتے ہیں وہ دودھ پی کر بچے کمزور ہوتے جا رہے ہیں، ان کی ہڈیاں دس کلو کا بستہ بھی نہیں اٹھا سکتیں‘‘۔
اس سے پہلے کہ مرزا لال بیگ کے دماغ کا بلب بھک سے پھٹ جاتا، بڑے صاحب کے کمرے کی گھنٹی بجی اور ہماری جوابی انکشافی گفتگو درمیان میں ہی ختم کرنا پڑی۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اس دن کے بعد سے مرزا لال بیگ کی نظروں میں میری عقلمندی اور دانش پر مہر لگ گئی‘‘۔
اشفاق ایاز کے کردار تھوڑے مختلف ہیں۔ چوں کہ وہ مزاح نگار ہیں تو زیادہ تر کردار طربیہ ہیں مگر جہاں مکمل طور پر افسانوی رنگ اور کہانی پن، مضبوط پلاٹ کے ساتھ جھلکتا ہے وہاں کردار المیہ و حزنیہ بھی ہیں مثلاً افسانہ ’’بابا ملنگ‘‘ کے عنایت اور رضیہ، ماحول اور معاشرت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اُردو ادب کی ابتدائی افسانہ نگار خواتین میں ایک اہم نام رضیہ سجاد ظہیر کا ہے۔ اُن کے خاکے اور کہانی آپس میں اِس طرح شیر و شکر ہوتے تھے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ تخلیق خاکہ ہے یا افسا نہ۔ اشفاق نے ایک کہنہ مشق مزاح نگار کی طرح باؤ کچھن کی خود فریبیوں، کمزوریوں، خامیوں، بے تابیوں اور غیر حاضر دماغی سے کیفیات سے جنم لینے والی عجیب و غریب حرکات کو ایک مزاح نگار کی آنکھ سے دیکھا اور اِس خام مال کو ادیبانہ کرافٹ کے ساتھ پیش کر کے قاری کو فرحت و انبساط سے ہم کنار کیا ہے۔ قاری ہنستا بھی ہے مگر اُسے باؤ کچھن سے ہم دردی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح افسانہ ’’وائے حسرت شادی‘‘ میں نہ صرف پلاٹ بے حد مضبوط ہے بل کہ اِس افسانہ میں ’’باؤ کچھن‘‘ اور ’’ریٹائرڈ ہیڈ مسٹریس‘‘ ’’میڈم نزہت‘‘ کے کردار بھی محنت سے تخلیق کیے گئے ہیں۔ کہانی پن اور کردار آپس میں شیر و شکر ہیں۔ کرداروں اور کہانی پن دونوں سے مزاح کشید کیا گیا ہے۔ اسی طرح دو اور مضامین ’’ٹنڈ اور بیگم‘‘ اور ’’بیگم کا روزہ‘‘ میں بھی چھوٹے چھوٹے واقعات اور لچھن و بیگم لچھن کے کرداروں سے مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ اُن کے ہاں مشاہدات و تجربات وافر ہیں جو اُن کی ذہنی زرخیزی کا مظہر ہیں۔ وہ منشی سجاد حسین کی طرح محاورات سے نہیں بل کہ عظیم بیگ چغتائی کی طرح چھوٹے چھوٹے واقعات سے خام مال حاصل کرتے ہیں۔ یوں اُن کا مزاح چھوٹے واقعات سے اُبھرتا ہے۔ اگرچہ عمومی طور پر اشفاق ایاز نے کرداروں کی تخلیق اور واقعات کے بیان سے مزاح پیدا کیا ہے مگر اُنہوں نے بہت سے مضامین میں شستہ اور ذو معنی الفاظ کے استعمال سے بھی مزاح پیدا کیا ہے جیسے کونسلر کا انتخاب لڑنے والا ’’خواجہ سرور‘‘ جس کا نام ’’خواجہ سرا‘‘ پڑ جاتا ہے مگر یہ اُن کا بنیادی وصف نہیں۔ اگرچہ مقصد افسانہ لکھنا نہیں مگر وہ کرداروں اور واقعات سے مزاح کشید کرتے ہیں۔ موصوف کہیں بھی اپنی غیر ضروری علمیت کا اظہار کر کے قاری کے ذہن پر اپنی معلومات کا بوجھ نہیں ڈالتے بلکہ وہ ایک دوست کردار کی طرح مرکزی کردار کے ساتھ کہانی میں رواں دواں نظر آتے ہیں۔ اُن کا انداز مجلسی اور ہم نشینی والا ہوتا ہے۔ جملہ سازی میں ہنر مندی ہو یا واقعات کا بیان اور کرداروں کی سراپا نگاری، اُن کا انداز فطری و طبع زاد محسوس ہوتا ہے اکتسابی نہیں۔
ایڈیسن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ناول نگار تھا نہ افسانہ نگار مگر اُس کی تخلیقات میں اِن دونوں اصناف کے جراثیم موجود ہیں۔ اشفاق ایاز کی اِس کتاب میں کئی تخلیقات ایسی ہیں جو پلاٹ کی مضبوطی، کہانی پن، تجسس، کردار نگاری، مکالمہ نگاری اور تاثر کے سبب مکمل افسانہ ہیں۔ اُن کے مزاحیہ نثر پاروں میں جگہ جگہ کہانی پن جھلکتا ہے۔ بیان کی جاذبیت اور واقعاتی عناصر نے تجسس کی صورت قاری پر گرفت مضبوط رکھی ہے۔ ’’بابا ملنگ‘‘ ایک مکمل افسانہ ہے۔ دیہی تہذیب و ثقافت کی منظر کشی، بیدی، احمد ندیم قاسمی یا موجودہ عہد کی فکشن نگار طاہرہ اقبال کی یاد تازہ کرتی ہے۔ افسانے میں پنجاب کا گاؤں جیتا جاگتا اور سانس لیتامحسوس ہوتا ہے، دیہاتیوں کی سادہ زندگی، کھیت کھلیان، جانور، پانی کے کنویں، خدا رسیدہ بزرگوں کے مزارات، خود فراموش ملنگوں کی ٹولیاں سب کی متحرک تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ اِس افسانے میں مزاح کے چھینٹے کہیں کہیں ضرور موجود ہیں مگر یہ مکمل طور پر ایک سنجیدہ افسانہ ہے۔ صورتِ حال ایم اسلم کی تخلیقات کی طرح ہے وہ ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں مگر تحریر کو تھوڑی مزاح و ظرافت کی چاشنی سے شگفتہ اور پُر لطف بنا دیتے ہیں۔ یہ حقیقت نگاری ہے۔ مرکزی کردار عنایت مصنف کا میٹرک تک ہم جماعت رہا۔ اُسے گاؤں کی ایک لڑکی رضیہ سے محبت ہو گئی۔ دونوں کا ملن نہ ہو سکا دونوں نے تمام عمر مجرد زندگی گزار دی۔ عنایت فوج میں بھرتی ہو گیا۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد گاؤں میں ایک مزار پر ملنگوں کے ساتھ زندگی گزار دیتا ہے۔ یہ عنایت (بابا ملنگ) کا خاکہ بھی ہے اور محبت کے کومل جذبوں میں گندھی ہوئی کہانی بھی۔ ’’وائے حسرتِ شادی‘‘ بھی باؤ کچھن اور ایک بیوہ میڈم نزہت کی مضبوط پلاٹ کے ساتھ شگفتہ کہانی ہے۔ باؤ کچھن خود فریبی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ’’میڈم نزہت‘‘ اُسے پسند کرتی ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ بعد ازاں میڈم نزہت جو ریٹائرڈ ماہرِ تعلیم ہے، بہت حکمت سے ’’باؤ کچھن‘‘ کی عجیب و غریب حرکتوں سے نجات پا لیتی ہے اور وہ دوبارہ اُس کے گھر کا رخ نہیں کرتا۔
موصوف کی نگارشات میں تنوع ہے۔ ’’چاند کی گود میں‘‘ کی چند تخلیقات ایسے بھی ہیں جن میں مزاح کی آنچ نہایت آہستہ ہے۔ وہ ’’پرسنل ایسے‘‘ (Personal Essay) کی طرح ہیں۔ اُن کی اندر کی ترنگ کا نتیجہ ہیں۔ اُن میں کہانی پن بھی نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ محض فکری انبساط کے لیے تحریر کی گئی ہیں۔ یوں ہم انہیں انشائیوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ ویسے انشائیے پر ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر وزیر آغا کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو دو الگ مکاتب فکر نظر آتے ہیں۔ اوّل الذکر انشائیے کو مضمون کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں اور مضمون کی شاخ خیال کرتے ہیں جب کہ آخر الذکر اِسے فکاہیات کی شاخ خیال کرتے ہیں۔ اِس تضاد سے انشائیے کی ہئیت میں بے انتہا فرق آ جاتا ہے۔ بہر حال اِس کتاب میں ’’عادتیں‘‘ ، ’’تیاری‘‘ اور ’’کھسرے‘‘ ایسے مضامین یا فکاہیے ہیں جن کو انشائیوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔
یہ مزاحیہ نثری تخلیقات صاحب کتاب کے تاریخی اور عصری شعور کی دلالت کرتی ہیں۔ اُنہوں نے ایک طرف اپنے تین مضامین بہ عنوان ’’انار کلی‘‘ میں بہترین مکالمہ نگاری سے مزاح پیدا کیا ہے۔ جلال الدین محمد اکبر اور مان سنگھ کے درمیان مکالمے، جلال الدین محمد اکبر اور انار کلی کے درمیان مکالمے مزاح کی اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ دوسری طرف اُنہوں نے ’’چاندگیس پیپر نمبر ۱‘‘ میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کے حوالے سے بہت سی باتیں مزاح کے روپ میں کہہ دی ہیں مگر حساس دلوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘۔ مصنف نے اِن مزاح پاروں کو ضابطۂ تحریر میں لانے سے پہلے خوب تحقیق کی ہے کہ جب چنگیز اور ہلاکو سیلِ بلا بن کر حملہ آور ہوتے تھے۔ تو مختلف خطوں میں آباد مسلمان تلوار لے کر اُن کا مقابلہ کرنے کی بجائے دافع بلیات، قرآنی آیات کی اجتماعی تلاوت اور ختم کا اہتمام کرنے میں لگ جاتے تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن کو مصنف نے مزاح کے رنگ میں پیش کر دیا ہے۔ دیکھا جائے تو عقلِ سلیم کے لیے یہ بڑے نازک موضوعات ہیں مگر موصوف نہیں ترسیل و ابلاغ میں کہیں کڑواہٹ یا تلخی پیدا نہیں ہونے دی۔ منگول حملہ آور ہماری ملی تاریخ کی دکھتی رگیں ہیں۔ چنگیز، ہلاکو سے متعلق طنزیہ انداز میں ہماری بے بسی اور جرمِ ضعیفی پر پھبتیاں کسی ہیں۔ ہماری بے حسی کے خول میں سوراخ کیا ہے۔
مزاح نگار کے لیے ٹیلی اسکوپک وژن یعنی خارجی عوامل کے مشاہدات سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گرد و پیش سے بے خبر نہیں بل کہ وہ لکھنے کے لیے اُن چیزوں اور کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں جو مسلسل اُن کے مشاہدات میں رہے ہوتے ہیں جن کو وہ من و عن اپنے ہلکے پھلکے انداز میں اٹھکھیلیاں کرتے قلم سے پیش کرتے ہیں۔
چاند گیس پیپر میں ادیب نے بتایا ہے کہ در اصل یہ اور اِس نوعیت کے گیس پیپرز تو اس بات کا نتیجہ ہیں کہ نقل، بچوں کی سہل پسندی اور والدین و اساتذہ کی عدم دل چسپی یا تربیت کی بے سمتی و لایعنیت نے بڑے گُل کھلائے ہیں۔ مزاح میں عمومیت ہے کہیں بھی ذاتی نوعیت کی طنز نہیں۔ یہ ہماری و قومی و معاشرتی زندگی کی متحرک تصویریں ضرور ہیں جن کو شگفتہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
اِن گیس پیپرز میں بعض ننھے منے بچوں کے سوالات اور اُن کے جوابات مزاح نگار کی بہترین حسِ مزاح کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی نوعیت کی مختصر سو لفظی کہانیوں کے لیے محمد اسلام بھی شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ پہلے اُن کی کتاب ’’گناہِ صغیرہ و کبیرہ‘‘ شائع ہوئی تھی اور اب اُن کی ایک اور مزاحیہ سو لفظی کہانیوں کی کتاب ’’شر گوشیاں‘‘ کے نام سے زیرِ طبع ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کے الفاظ گراں قدر ہیں کہ مزاح نگار کے لیے سوچ، سچائی اور دانائی کا توازن از حد ضروری ہے۔ اِن عناصر کو باہم شیر و شکر نظر آنا چاہیے۔ در اصل مشاہدات، اور واقعات پر، مزاح نگار ایک وعظ اور مصلحِ قوم کی طرح ردِ عمل نہیں دیتا بل کہ وہ ہنستے ہنستے بات کہہ دیتا ہے۔ کسی اَن کہی، نا گفتنی اور اچھوتی بات کو پہلو بچا کر شگفتہ لہجے میں بیان کر دینا ہی اُس کا فن ہے۔ اِس کے لیے کئی بار وہ خود پربھی پھبتیاں کسنے سے باز نہیں آتا۔ اب جس کے جی میں آئے بہ قدرِ ظرف اپنی یا سماجی و حکومتی اداروں کی اصلاح کرے۔ ذات اور سماج کے طرزِ عمل میں توازن پیدا کرے۔ اُن کے گیس پیپرز کی صورت میں لکھے ہوئے مزاح پاروں میں خیال آفرینی نمایاں ہے۔ اوّل تو خیال پیچیدہ اور دقیق نہیں ہیں۔ مزید براں انہیں خیال کو ترسیل و تفہیم کے مرحلے تک پہچانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ کم از کم اِن گیس پیپرز کے سوالات کے جوابات کے صورت میں، مزاح میں اپیل کا دائرہ وسیع ہے۔ مجھے یہ کہنے میں بھی ہچکچاہٹ ہیں کہ فی زمانہ کچھ مزاح گو مثلاً اسلام آباد کے ایک بزرگ مزاح گو شاعر کی مثال لے لیجیے جس قسم کی تخلیقات سامنے لا رہے ہیں ’’موٹی عورت‘‘ ، ’’ہمسائی حسینہ‘‘ ، ’’کالج کی لڑکی‘‘ اور اسی طرح کے عنوانات کے تحت مزاحیہ شاعری کے نام پر بیہودگی، اُن پر رشید احمد صدیقی کے الفاظ صادق آتے ہے کہ لوگ اپنی خامیوں اور دوسروں کی بیویوں کو آرٹ سمجھتے ہیں، ایسے میں اشفاق ایاز نے صاف ستھرے مزاح پارے عامۃ الناس کی فکری انبساط اور ذہنی شگفتگی کے لیے پیش کیے ہیں۔ اُن کے چند مزاح پاروں کے نمونے ملاحظہ کیجیے:۔
سوال نمبر۴:۔ بریک ڈانس سیکھنے کے لئے کس قسم کے درد کا ہونا ضروری ہے
بریک ڈانس کے لئے سب سے پہلے ایک جسم کا ہونا ضروری ہے پھر اس جسم میں درد کا ہونا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر جسم نہ ہو گا تو بریک کیا ہو گا اور درد نہ ہو تو ڈانس کیا ہو گا۔ جسم میں درد کی غیر موجودگی میں ڈانس نہیں بلکہ بھلے مانس ہو گا۔ بریک ڈانس اور بھلے مانس میں وہی فرق ہے جو کوّے اور کبوتر میں ہے۔ کوّا ہنس کی چال چلتے چلتے اپنی بھی بھول جاتا ہے۔ جبکہ درد والا جسم بریک ڈانس کے شوق میں اپنے اصل افعال بھی یاد نہیں رکھ پاتا۔ بریک ڈانس کی ترقی سے ہی جل کر ایک شاعر نے کہا تھا کہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
کاندھوں کا درد: بریک ڈانس کے لئے اگر کاندھے نارمل ہوں تو کام نہیں چلے گا اور بریک ڈانس نہیں بلکہ بھلے مانس کی چال نظر آئے گی۔ کندھے اچکانے کا فن اصل میں بریک ڈانس کی ہی شکل ہے جو لوگ ہوں ہاں کا جواب کندھے اچکا کر دیتے ہیں وہ در اصل فن بریک ڈانسنگ کی معاشرتی حیثیت کا اعتراف کرتے ہیں۔
بازوؤں کا درد: کوشش کریں کہ بازوؤں میں صرف درد ہی نہ ہو بلکہ ان میں لچکیریا کے جراثیم بھی موجود ہوں۔ ان جراثیموں کی موجودگی جسم کو وہ لچک عطا کرتی ہے جو اس کام کے لئے لازمی حیثیت رکھتی ہے۔
کمر اور ٹانگوں کا درد: کمر اور ٹانگوں کے درد میں ایک خاص نسبت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے کیونکہ کمر اور ٹانگوں میں تھرکیریا کے جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں۔ جس سے کمر اور ٹانگیں تھرکنا شروع کر دیتے ہیں۔ بریک ڈانسنگ کے لئے جسم کا تھرکنا، لچکنا اور ہچکولنا ایسا ہی ہے جیسے گوبھی کے لئے پھول کا لفظ۔
سوال نمبر۸:۔ مندرجہ ذیل خود کشی کے طریقوں میں سے آپ کونسا طریقہ اختیار کریں گے اور کیوں؟
(۱) شادی (۲) کراچی یا حیدر آباد میں قیام (۳) ہوٹل کا کھانا۔
شادی: ماہرین خود کشیات کے مطابق شادی چھٹکارۂ جان کے اولین طریقوں میں سے ایک ہے۔ روز اول سے ہی جس شخص سے انتقام لینا ہوتا تھا یا سبق سکھانا مقصود ہوتا تو اس کی فوراً شادی کر دی جاتی تھی جس کا لازمی نتیجہ اور منطقی حاصل یہ ہوتا کہ شادی کرنے والا پہلے ماں باپ سے کنارہ کرتا، پھر بہن بھائیوں سے علیحدہ ہوتا، پھر رشتہ داروں، سجن بیلیوں سے منہ پھیرتا اور پھراس دنیا سے ہی پردہ کر لیتا۔ ہائے اللہ میں مر جاواں۔۔۔۔ شادی کے بعد اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ موت کی طرف رواں دواں ہوتا اور دیکھنے والے بڑے اشتیاق سے مشاہدہ کرتے کہ اب گیا کہ اب گیا لیکن اس طریقہ روح اُڑا میں ایک خرابی یہ ہے کہ انسان یکلخت عالمِ بالا کو نہیں پہنچ جاتا بلکہ بتدریج ایک اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ بیگم کی فرمائشی جھڑکیاں، والدین کی پیار میں ڈوبی گالیاں اور سسرالیوں کی لالچ آمیز نگاہوں کے تیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مرنا ہی ہے تو پھر فوراً کیوں نہ فوراً مرا جائے۔ اتنے لمبے سرکاری مرحلے سے گزرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔
۲۔ کراچی یا حیدر آباد میں قیام:۔ فی زمانہ بوری بند نامعلوم لاشوں کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت پانے والے دو شہروں کراچی اور حیدر آباد ایک مشترکہ جد و جہد کی وجہ سے بھی مقبول ہو رہے ہیں۔ ملک بھر سے خود کشی کے خواہشمند مردو خواتین کی بڑی تعداد ان شہروں کا رخ کر رہی ہے۔ یہاں آ کر خود کشی کے لئے نہ تو زیادہ تردد کرنا پڑتا ہے اور نہ زیادہ دن انتظار۔ بلکہ صرف خود کشی کی نیت کرنا ضروری ہے پھر اللہ شافی اللہ کافی۔ کہیں نہ کہیں سے، کسی نہ کسی سمت سے، کسی بھی وقت، کوئی نامعلوم گولی خاکی جسم کو خاک کے حوالے کر سکتی ہے‘‘۔
٭٭٭