کے کے کھلر
… بن تیرے ادب کے گھر بے چراغ ہیں …
اردو ادب میں انشائیہ کا مقام اور مرتبہ ہمیشہ مشکوک رہا ہے، جنس سے صنف تک۔ اس ستم ظریف کی طرح جس نے ایک کلب میں ایک لڑکی کو دیکھ کر ساتھ بیٹھے ممبر سے کہا تھا: ’’دیکھئے اس لڑکی نے کیسا لباس پہن رکھا ہے !‘
تو ممبر نے جواباً کہا: ’’وہ لڑکی نہیں لڑکا ہے اور میرا بیٹا ہے۔‘‘
پوچھنے والے نے معذرت چاہ لی اور بولا: ’’ساری، مجھے اس بات کا علم نہ تھا کہ آپ اس لڑ کے کے باپ ہیں۔‘‘
’’باپ نہیں میں اس کی ماں ہوں۔‘‘
ذرا دھیرے بول کوئی سن لے گا:
انشائیے کے بادشاہ محمد اسد اللّٰہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی حادثہ ہوا جب ایک فوجی افسر نے ریٹائر منٹ کے بعد اخبار کا دھندا شروع کیا تھا اور اس اخبار کے ادبی صفحے کا نگراں بھی تھا، محمد اسد اللّٰہ سے پوچھا کہ یہ انشائیہ کیا ہوتی ہے؟ جواب ملا: ’’خان صاحب یہ ہوتی نہیں ہوتا ہے۔‘‘
لیکن عالی جاہ !وہاں تو آپ نے دامن بچا لیا۔ لیکن اس کا کیا کیجئے گا۔ جب کوئی ایم اے (اردو ) کا طالبِ علم آپ سے پوچھے گا: ’’کیا آپ وہی محمد اسد اللّٰہ ہیں جنھوں نے یہ شعر کہا تھا: مارا زمانے نے اسد اللّٰہ خاں تمھیں۔
ایسی حالت میں آپ کے پاس ایک ہی Escape Route ہے جس سے آپ کا دامن تو بچ سکتا ہے لیکن پگڑی نہیں۔ انشائیہ ہر ایک کے بس کا نہیں،
بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
تو آئیے تھوڑی سی بحث کریں۔ انشائیہ اعظم کِسے کہیں۔ محمد اسد اللہ نے اپنی کتاب ’یہ ہے انشائیہ‘ (۲۰۱۷ء) میں ۱۰۵؍ انشائیہ نگاروں کی لسٹ مہیا کی ہے۔ وزیر آغا سے لے کر رام لعل نابھوی سے ہوتے ہوئے زوبی جعفری تک ۳۹ مجموعے آ چکے ہیں، جن میں محمد اسد اللّٰہ کے مجموعے، ’’بوڑھے کے رول میں‘‘ (۱۹۹۱ء) اور ’ڈبل رول‘ (۲۰۱۵ء) ، وزیر آغا کا مجموعہ ’چوری سے یاری تک‘ (۱۹۶۶ء) ، ’آم کے آم‘ ، رام لعل نابھوی، پروین طارق کے ’بولتے سناٹے‘ (۲۰۱۵ء) پیش پیش ہیں۔ علاوہ ازیں انشائیہ سے متعلق ۲۳ مطبوعات کی لسٹ بھی دی ہے جس میں ڈاکٹر سلیم اختر کی ’انشائیہ کی بنیاد‘ (۱۹۸۶ء) اور ’اردو انشائیہ کے ابتدائی نقوش‘ (لطیف ساحل) اور محمد اسد اللّٰہ کی کتاب بعنوان ’انشائیہ کی روایت، مشرق و مغرب کے تناظر میں‘ اہم ہیں۔ جہاں تک تنقید کا تعلق ہے اردو میں انشائیے پر ڈاکٹر انور سدید کی کتاب ’انشائیہ اردو ادب میں‘ (۱۹۸۵ء) کو حرفِ آخر تسلیم کیا جا چکا ہے جس میں انشائیے کے تیور، اس کے خد و خال، اس کے ناز اور نخرے، اس کے داؤ پیچ کھل کر بیان کیے گئے ہیں۔ انشائیہ پر بحث اس کتاب کے مطالعے کے بغیر ادھوری ہے۔ ورنہ انشائیہ وہیں کا وہیں کھڑا رہ ا جائے گا جہاں چالیس سال پہلے تھا۔
میرے خیال میں یہ طے کرنے کے لیے کہ انشائیہ کیا ہے، بہتر یہی ہو گا کہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ انشائیہ کیا نہیں ہے۔ پیدل تو سبھی چل رہے ہوتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کم گہرا کون ہے؟ پہلی شرط یہ ہے کہ انشائیہ طنز و مزاح سے کوسوں دور ہے۔ انیس ناگی کا فرمان ہے کہ اگر ہنسی مذاق، پھبتی اور جگت سے انشائیہ جنم لیتا ہے تو پھر نقال، بہت بڑے انشائیہ پرداز ہیں۔ اور تہواروں پر جواب الجواب اور تمسخر، انشائیوں کے مجموعے ہیں۔ موٹی بات یہ ہے کہ انشائیہ کو طنز و مزاح کے دائرے میں لانا اپنے آپ میں طنز و مزاح ہے۔
انشائیہ نہ کو ئی معمہ ہے نہ معجزہ، انشائیہ میں کوئی جملہ دو بارہ نہیں کہا یا لکھا جاتا۔ کوئی بات ایک بار کہہ دی تو کہہ دی اور نہیں کہی وہ کہی ہوئی بات سے زیادہ معنی خیز ہے۔ بقول وزیر آغا سر گودھوی، ’معمولی شے کے غیر معمولی پن کو سطح پر لانے کا نام انشائیہ ہے۔‘ کھلی ہوا میں ایک پرندہ پروں سے اڑنا بھول گیا۔ انشائیہ میں قہقہہ لگانے کی اجازت نہیں ہے اسے ہنسنے کے لیے اپنا PAN نمبر اور رونے کے لیے آدھار کارڈ رکھنا پڑے گا۔ جب وہی رونا چاہتا ہے تو اس کے پاس ٹائم نہیں اور ہنسنے کے لیے ٹائم پیس نہیں۔ انشائیہ میں کھل کر بات نہیں ہوتی، بس آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ ہو جاتا ہے۔ صرف مسکراہٹ کی گنجائش ہے وہ بھی زیرِ لب۔ اس میں اصل چیز موضوع نہیں ہے۔ انشائیہ سچائی کا ڈھنڈھورا نہیں پیٹتا بلکہ جھوٹ کو قابلِ برداشت بنا دیتا ہے۔ اس میں بات بنتی نہیں بنائی جاتی ہے۔ مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر یہی کہوں گا اس کی وضاحت تک پہنچنے کے لیے محمد اسد اللّٰہ کے منتخب انشائیے بہ عنوان ’’دوسرا ٹکٹ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر اظہر ابرار (۲۰۰۹ء) ضرور پڑھئے۔ کرشن چندر کا ’الٹا درخت‘ اور منٹو کے ’سیاہ حاشئے‘ بھی انشائیے کی زد سے نہیں بچ سکے۔ قصہ کوتاہ دریا کو کوزے میں بند کر تے ہوئے حافظ کرناٹکی نے صحیح لکھا ہے کہ ’لوگوں کے بکھرتے خواب، اجڑے دل اور ادھورے ارمانوں کی ادبی کاوش کا نام انشائیہ ہے یعنی بے معنی باتوں میں معنی کی تلاش۔‘ (دوسرا ٹکٹ)
امید اور انتظار انشائیے کے دو بنیادی عنصر ہیں۔ یونانی فاتح سکندر اعظم جس نے پنجاب کے صرف ۲۲ گاؤں پر قبضہ کیا تھا تاریخ میں اسے سکندر کہتے ہیں۔ اور جو دولت، سونا، چاندی، ہیرے جواہرات کی شکل میں اس کے ہاتھ لگا اس نے سب کے سب اپنی فوج میں بانٹ دئے۔ تو سیلوکس (سکندر کا سپہ سالار) نے پوچھا: حضور ! آپ نے اپنے لیے کیا رکھا ہے؟ تو سکندر کا جواب تھا: امید اور انتظار۔ اور جب میرے ہم وطن پوچھیں گے کہ ہندوستان سے کیا لائے ہو، تو میرا جواب وہی ہو گا۔ ’امید اور انتظار‘ ۔ لیکن دیوتاؤں کو یہ منظور نہیں تھا۔ کیونکہ اس نے دیوتاؤں کی آگ چرائی تھی۔ اور جو رہی سو بے خبری رہی۔ لہٰذا کوئی یونانی شاعراس واقعے پر انشائیہ نہ لکھ سکا۔
انشائیہ نا عاشقانہ حقیقتوں کی عاشقانہ تشریح ہے جن میں نظیر صدیقی کے الفاظ میں حکمت سے لے کر حماقت تک ساری منزلیں طے ہو جاتی ہیں سوائے ایک منزل کے یعنی منزلِ مقصود۔
پیاسوں کے مقدر میں نہ آیا کوئی قطرہ
کہتا رہا دریا کہ نیا سال مبارک
انگریزی میں انشائیہ کا نام Essay ہے۔ یہ فرانسیسی کا لفظ ہے اور عربی سے لیا گیا ہے۔ اس کے معنی میں ’ادبی کاوش‘ اس کے لغوی معنی ہیں۔ ایک مختصر نثری اور ادبی تحریر بلا امتیاز مضمون یا موزوں یا مقصد۔ نہ کوئی معمہ ہے نہ معجزہ۔
انگریزی لغت کے بانی Dr. Samuel Johnson نے اسے A loose sally of mind کہا یعنی ذہن کی آزاد ترنگ کچھ ناقدین نے اسے ذہن کی آوارہ خیالی سے منسوب کیا۔ اردو میں پہلا انشائیہ ۱۹۵۸ کے قریب لکھا گیا لیکن فرانس میں انشائیے کے بانی مانتین Montaigne نے اسے ۱۵۷۱ء میں منظر عام پر لایا۔ ہندوستان میں اسے انگریزی کے اخبارات مختلف ناموں سے چھاپتے رہے ہیں۔ جیسے ٹریبون میں اس کا نام تھا، Of my head ہندوستان ٹائمز میں Middle، انڈین ایکسپریس میں Time out سٹیٹسمین میں Now Again۔ مانتین نے اپنے انشائیوں کو ’ہم وجود‘ کا نام دیا۔
انگلستان میں ایڈیسن اور اسٹیل کے انشائیے کافی مقبول ہوئے۔ جیسے ہندوستان میں انڈین ایکسپریس اور سٹیٹسمین کے۔ یہ دو اخبار ایسے تھے جن کے انشائیوں پر بھی بحث ہوتی تھی۔ اسٹیٹسمین کے قاری تو آج بھی سب سے پہلے ایڈیٹوریل کو کھولتے ہیں اور انشائیہ پڑھنے کے بعد فرنٹ صفحے کی ہیڈ لائنس دیکھتے ہیں۔ میرا انشائیہ جب بھی اس اخبار میں چھپتا ہے میرا فون نان اسٹاپ بجتا ہے اور بیوی نان اسٹاپ ریڈیو لگا دیتی ہے۔ محمد اسد اللّٰہ کے انشائیوں میں ساز بھی ہے اور سوز بھی۔ بقول انور سدید ’انشائیہ اندھیرے کے جگنو کی طرح ہے جو منزل کی امید تو دلاتا ہے لیکن خود منزل نہیں بنتا۔ انشائیہ میں عصری آگہی معروضی نہیں بلکہ انشائیہ عصری آگہی کو بھی ایک نئی لو کے تاثر میں تبدیل کر دیتا ہے‘ ۔ لہٰذا آج انشائیہ عصری حقیقت بن چکا ہے جیسا ’بوڑھے کے رول میں،‘ دوسرا ٹکٹ، گنگنانا۔ محمد اسد اللّٰہ لکھتے ہیں کہ ’گنگنانا اور نہانا دونوں کا پیدائشی وطن ایک ہی ہے، حمام خانہ۔ گانا ایک سماجی عمل ہے اور گنگنانا ایک انفرادی فعل۔‘
میں زندگی کے ساتھ بہت دور تک گیا
یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا
بہر کیف انشائیہ ایک دریائے عشق ہے اور ہر عاشق کو ڈوب کے جانا ہے۔ اپنا مضمون ایک قصے پر ختم کرتا ہوں۔
جب آدی شنکر آچاریہ منڈن مشرا سے ایک اہم ویدک بحث کرنے بہار کے شہر گیا میں پہنچے تو ایک پھول بیچنے والی مالن سے منڈن مشرا کے گھر کا رستہ پوچھا۔ مالن بولی: جوگی سیدھے چلے جاؤ، گلی کے نکڑ پر جس صحن میں طوطے وید پاٹھ کر رہے ہوں وہی منڈن مشرا کا گھر ہے۔ حسبِ شرطِ بحث شنکر آچاریہ کو سرسوتی کو ایک سو ایک پیلے گلاب کے پھول چڑھانے تھے۔ بحث کی امپائر Umpire یعنی منڈن مشرا کی بیوی نے جب پھول گنے تو ایک پھول کم تھا۔ شنکر اچاریہ اسی پھول کی تلاش میں نکل پڑا۔ تلاش آج تک جاری ہے۔
میرے خیال میں محمد اسد اللّٰہ بھی گم شدہ پھول کی جستجومیں محو ہے۔ دیکھئے کیا ہو۔
٭٭٭