رات کا مخصوص اندھیرا پھیلاا ہوا تھا۔محلے کی آوارہ بلی گاڑی کے نیچے دبکی ‘نیم کے پیڑ کو دیکھتے ہوئے جس کی ایک شاخ مسلسل جھولتی تھی”میاؤں”کررہی تھی۔
ثانیہ کے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی ۔صائم اب بیل بجا رہے تھے اور ادھر نیم کے پیڑ کی شاخ جھولنا بند ہوچکی تھی۔
“بیٹا!بھائی’بھابھی آئے ہیں جاؤ چائے لے کے آؤ۔”کمال صاحب نے روشنی سے کہا جو اکتائی ہوئی نظروں سے ثانیہ کو دیکھ رہی تھی۔
ایک تو آج دن بھر دادی اور اماں نجانے اس پہ کیا ‘کچھ پھونکتی رہیں اور پلاتی رہیں اور اب یہ بھابھی صاحبہ آگئی تھیں۔روشنی کو کچھ یاد نہ تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہورہا ہے۔
وہ برے دل سے اٹھ کے کچن کی جانب آئی تھی لیکن کچن میں قدم رکھتے ہی اسکے قدم وہیں تھمے تھے۔
خالی کچن میں ‘ جلتےچولہے پہ دھرے پتیلے میں کفگیر(چمچہ)خود ہی گھوم رہا تھا۔
چولہے کی تیز آنچ پہ کوئی نادیدہ مخلوق چمچہ تیز رفتاری سے گھما رہی تھی۔روشنی کے لبوں سے ایک زور دار چیخ آزاد ہوئی تھی۔
ثانیہ کا چہرہ خوف سے سفید پڑگیا ۔کمال صاحب کے ساتھ دونوں بھائی بھی اٹھ کے کچن کی جانب دوڑے جہاں روشنی لبوں پہ سختی سے ہاتھ جمائے’پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے کا منظر دیکھ رہی تھی۔
“یہ کیا؟”کمال صاحب چونکے۔
کھانا پکتا دکھائی دے رہا تھا لیکن جو پکا رہا تھا وہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
“یہ کیسے ہوسکتا ہے؟”صائم خوفزدہ نظروں سے سامنے دیکھتے ہوئے بولا جہاں اب کاؤنٹر سے گوشت کی پلیٹ خود ہی اٹھتی ہوئی پتیلے کی جانب جارہی تھی۔
“جب تک ہم ہیں یہاں’کوئی نہیں آئے یہاں ورنہ تم میں سے کوئی نہیں بچے گا۔”وہی تیز باریک آواز جو سلطانہ بیگم پہلے بھی سن چکی تھیں ‘اس بار سب کو سنائی دی تھی۔
“کون ؟کون ہو تم؟”صارم نے جی کڑا کے پوچھا۔
“تمہاری پہنچ سے بہت دور۔”وہی باریک آواز سنائی دی جسے سن کے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔
کمال صاحب نے جلدی سے آگے بڑھ کے کچن کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بند کیا۔
“چلو!یہاں سے سب۔”
وہ روشنی کا ہاتھ تھام کے اسے سب سے پہلے وہاں سے لے گئے ،باقی سب نے بھی انکی تقلید کی تھی۔
٭٭٭٭٭
“یہ سب کیا ہورہا ہے انکل جی؟”سب سے زیادہ ثانیہ ڈری ہوئی تھی۔
“واللہ عالم بیٹا!صبح کسی سے بات کرتا ہوں۔تم لوگ اس وقت آئے خیریت؟”کمال صاحب نے کچھ اور بولنے سے گریز ہی کیا۔کچھ کچھ انہیں اندازہ ہورہا تھا۔
“وہ بابا آج دوپہر میں روشنی گھر آئی تھی۔”صائم نے تمہید باندھی۔
“نہیں تو روشنی کو تو آج ہم نے کہیں نہیں جانے دیا۔”فرحانہ بیگم نے فورا نفی کی۔
“مجھے معلوم ہے لیکن روشنی جیسی لڑکی گھر آئی اور پھر روشنی کی کال بھی اسی دوران آئی تھی۔”صائم نے بتایا۔
“اوہ!تب ہی بھابھی نے مجھ سے وہ بات کی۔”روشنی جو خوف سے سفید پڑرہی تھی ،چونک کے بولی۔
“ہاں!”ثانیہ نے صرف سر ہلایا تھا۔
“ااور وہ میرے دیکھتے’دیکھتے اتنی چھوٹی ہوگئی جتنا ایک بونا ہوتا ہے۔”
“لیکن روشنی گھر سے باہر نہیں نکلی۔یا اللہ!کمال یہ کیا ہورہا ہے؟آج جو آواز سنائی دی ‘وہ اس دن میں نے بھی سنی تھی۔”سلطانہ بیگم کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ کسی نے انکا گلا پکڑ لیا۔
“آہ!”وہ تکلیف سے چیخیں’آنکھیں باہر کو ابل آئی تھیں۔
“امی!کیا ہوا آپ کو؟”صارم دوڑ کے انکے پاس آیا۔
“گونگی!گونگی ہوگی یہ اب ‘کیا تھا نا منع۔”وہی باریک آواز ایک بار پھر سنائی دی تھی۔
“کون ہو تم؟آخر کیا چاہتے ہو؟”صارم چیخ پڑا۔
دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تھا بس سلطانہ بیگم منہ کے بل فرش پہ گری تھیں۔
“اسے اندر لے جاؤ۔صائم تم وضو کر کے میرے ساتھ آؤ۔”کمال صاحب سلطانہ بیگم پہ پھونکتے ہوئے بولے۔
“یا اللہ!رحم کر۔”فرحانہ بیگم آبدیدہ ہوگئی تھیں۔
٭٭٭٭٭
صبح ہوتے ہی کمال صاحب کسی صاحب کو گھر لے کے آئے تھے۔
“لڑکی!لڑکی کو بلاؤ۔”انہوں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔
کمال صاحب نے روشنی کو آگے آنے کا کہا۔
“ہوں!وہ جو کوئی بھی مخلوق ہے’اسکی وجہ سے اس گھر تک پہنچی ہے۔”عامل صاحب نے آنکھیں موندے ہی جواب دیا۔
“وہ کون ہے اور کیوں گھر تک پہنچی ہے؟”
“میرے علم میں جو تھا’میں نے بتادیا۔آپ لوگ کسی بڑے عامل سے رابطہ کریں۔”عامل صاحب نے صاف گوئی سے کہا تھا۔
صارم مایوسی سے ابا کو دیکھنے لگا۔
“جی ٹھیک ہے۔”
“گھر کی تفصیلی صفائی کروائیں اور قرآن پاک کی کثرت سے تلاوت کریں۔”عامل صاحب مشورہ دیتے ہوئے چلے گئے ۔
٭٭٭٭٭
“ثانیہ!گھر چلیں۔”صائم نے پوچھا تھا۔
“نہیں!میں وہاں نہیں جاؤں گی۔”اس نے صاف انکار کیا تھا۔
“کب تک؟”
“پلیز!ابھی نہیں۔”اس نے صاف منع کردیا تھا۔وہ منظر اسکی آنکھوں کے سامنے ہٹتا ہی نہیں تھا کہ کیسے وہ لڑکی پورے قد سے ایک بونے میں تبدیل ہوگئی تھی۔
“ثانیہ!جھاڑن الماری کے پیچھے رکھا ہے’وہ لے آؤ۔”فرحانہ بیگم خود بھی صفائی کرنے میں مصروف تھیں۔
ثانیہ انکی بات سن کے الماری کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اس سے پہلے ہی الماری کے پیچھے سے جھاڑن خود دنکل آیا تھا۔
وہ ثانیہ کی طرف یوں آرہا تھا جیسے اپنے پیروں پہ چلتا ہوا آرہا ہو۔
“دادو!”ثانیہ چلاتے ہوئے بھاگی تھی۔
“اللہ رحم!اب کیا ہوگیا۔”فرحانہ بیگم ہول کے کمرے میں آئی تھیں ۔
ہوا میں تیرتا ہوا جھاڑن سیدھا فرحانہ بیگم کے منہ سے ٹکرایا تھا۔
“آہ!”وہ سر پکڑ کے رہ گئی تھیں۔
ثانیہ خوفزدہ ہوتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی۔
“تو جو کوئی بھی ہے’مت ستا میرے بچوں کو۔یہاں سے جا۔”فرحانہ بیگم نے حوصلہ کرتے ہوئے مخاطب کیا تھا۔
“نہیں !نہیں!”باریک سی آواز نے صاف انکار کردیا تھا۔
آواز کے ساتھ ہی کونے میں رکھی الماری دھڑام سے نیچے گری تھی۔
فرحانہ بیگم کمرے سے فورا باہر نکلی تھیں۔
٭٭٭٭٭
“وہ مخلوق جو کوئی بھی ہے’ہمیں اس سے مقابلہ کرنا ہے۔”
“کہیں وہ روشنی پہ عاشق تو نہیں ہوگئی۔عامل صاحب نے یہی تو کہا تھا۔”ثانیہ نے انکی بات کو دوسرا ہی رنگ دیا۔
“ثانیہ!ایسا کچھ نہیں ہے۔اللہ سے رحم مانگو۔چلو سب مل کے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔سلطانہ تم بھی اٹھو’ڈاکٹر نے کہا ہے تم بولنے لگو گی۔اس لئے ہمت کرو۔”فرحانہ بیگم نے سب کو سمجھایا۔
ثانیہ قرآن پاک لینے اور سلطانہ بیگم وضو کرنے اٹھ گئی تھیں۔
٭٭٭٭٭
“بابا! کل جو صاحب آئے تھے ،کیا ہم ان سے مدد نہیں لے سکتے۔”صارم نے پوچھا۔
“نہیں بیٹا!وہ صرف جمعرات والے دن آتے ہیں۔اگر ان سے بات کرنی ہے تو پھر اگلے ہفتے تک انتظار کرنا ہوگا۔”
“لیکن تب تک ہم رک نہیں سکتے۔نجانے وہ مخلوق کیا کرجائے؟”صارم نے بےچینی سے کہا۔
“ابھی ہم نور اللہ صاحب کے پاس جارہے ہیں۔اللہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔”کمال صاحب کو امید تھی۔
٭٭٭٭٭
“روشنی!تم بھی تلاوت کرو بیٹا۔”فرحانہ بیگم نے اسے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے دیکھ کے ٹوکا۔
روشنی نے انہیں گھورتے ہوئے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھ لئے۔
فرحانہ بیگم نے اونچی آواز میں تلاوت شروع کردی۔
روشنی کا چہرہ سرخ پڑنے لگا۔
ثانیہ نے بھی آواز بلند کی تو روشنی کا جسم اکڑنے لگا تھا۔
فرحانہ بیگم سورہ البقرہ کے آخری رکوع پہ پہنچی ہی تھیں کہ روشنی کی آواز انکے کانوں سے ٹکرائی۔
“بند کرو یہ۔”
فرحانہ بیگم کی آواز مزید اونچی ہوئی تھی۔
“میں نے کہا بند کرو۔”وہ دونوں کانوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے چلائی تھی۔
فرحانہ بیگم نے ان سنی کردیا۔
“سنا نہیں !میں نے کہا بند کرو۔”انکی گردن دبوچتے ہوئیے روشنی کے حلق سے بےحد خوفناک آواز نکلی تھی۔
سلطانہ بیگم اور ثانیہ کا چہرہ خوف سے سفید پڑگیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...