ڈاکٹر اشفاق احمد
ڈاکٹر اشفاق احمد ادیب الاطفال اور افسانہ نگار کے طور پر ادب میں معروف ہیں۔ بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ان کے افسانچے اور کہانیاں اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق احمد کی پیدائش یکم جولائی ۱۹۶۱ کو رائے پور (تعلقہ چکھلی ضلع بلڈانہ) میں ہوئی۔ انھوں اردو میں ایم اے، بی ایڈ اور پی ایچ کی ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ قدوائی ہائی اسکول و جونیئر کالج ناگپور میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد سبکدوش ہوئے۔
صبح کا بھولا، برجستہ، آئینہ ایام ان کی کتابیں ہیں۔ مختلف سرکاری اور غیر سر کاری اداروں نے انھیں انعامات اور اعزازات سے نوازا ہے۔ ان کے چند مزاحیہ مضامین بھی شایع ہوئے ہیں۔
محلے کا سرکاری نل
ڈاکٹر اشفاق احمد
دنیا میں وارد ہونے کے بعد جب ہم کچھ دیکھنے، بولنے اور سننے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے ہمارا دھیان گھر کے سامنے چورا ہے پر لگے نل اور جم غفیر کی طرف گیا۔ اس وقت یہ بات ہماری سمجھ میں نہ آئی کہ محلے کے سبھی لوگ اسی ایک نل پر پانی بھرنے کے خواہش مند کیوں ہیں؟ اور پانی بھرنے کے لیے ایک دوسرے پر اس طرح کیوں ٹوٹے پڑتے ہیں جیسے تبرک حاصل کرنے کے لیے کسی درگاہ پر۔۔ ۔۔ یہاں لوگ معصوم بچوں کو بھی کچل دیتے ہیں۔ وقت بیتنے کے ساتھ ساتھ جب ہماری عقل کے دروازے کھلتے گئے تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ ایک
آزاد ملک ہے۔ عوام کی سہولت کے لیے سرکار نے ہر محلے میں نل لگا رکھا ہے اور سبھی کو اس پر پانی بھرنے کا پورا حق ہے۔ جو بھرتے ہیں انھیں بھی ٹیکس دینا ہوتا ہے اور جو نہیں بھرتے وہ بھی ٹیکس سے بچ نہیں سکتے۔ اس لیے کہ اس جمہوری ملک میں حکومت مساویانہ سلوک کر نے کی عادی ہو چکی ہے۔
اس طرح ہمارے محلے میں صبح اسی وقت ہوتی ہے جب سر کاری نل آتا ہے۔ نل آتے ہی عورتیں ایسے شور مچاتی ہیں جیسے ٹرین آنے پر پلیٹ فارم پر پھیری والے چلاتے ہیں۔۔ ۔ خالی برتن آواز کرتے ہیں۔ اور ہم بستر سے اٹھ کر الگ ہو جاتے ہیں۔ یوں بھی ہمارے محلے کی زندگی ان ہی کے دم سے ہے۔ یہ نہ ہو تو زندگی خاموش ہو جائے۔ صبح سویرے محلے کی سبھی عورتیں اوریجنل حالت میں نل پر پائی جاتی ہیں۔ شام میں جب یہ عورتیں شاپنگ کے لیے اپنے گھروں سے نکلتی ہیں تب آپ اپنے چشمے کا گلاس بار بار صاف کرنے کے باوجود انھیں نہیں پہچان پاتے کہ وہی عورتیں ہیں جو صبح نل پر پانی بھرنے آتی ہیں۔ اردو کے مشہور شاعر علامہ اقبالؔ نے بھی شاید کسی شاپنگ سینٹر یا میلے کی سیر کرتے ہوئے ہی یہ مصرع کہا ہو گا، وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ، ورنہ اگر ان کے زمانے میں سر کاری نل ہوتا تو اس مصرع میں ترمیم کر کے وہ یوں لکھتے۔ وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں جنگ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مصرع انھوں نے شادی سے قبل کہا ہو۔ طاق سے جفت ہو جانے کے بعد یعنی حقیقت جاننے کے باوجود علامہ اس میں ترمیم کرنے کی جرات نہ کر سکے۔
بہر حال سر کاری نل پر روزانہ صبح شام عورتوں کی تو تو میں میں کا بازار گرم رہتا ہے۔ نل پر عورتوں کا لڑائی جھگڑا اور اس کے بعد پنچ نامہ ہونا آئے دن کا معمول ہے۔ جس دن پنچ نامہ ہوا اس کے دوسرے دن ٹینشن رہتا ہے۔ لفظی جھڑپیں ہوتی ہیں جو ہماری قوم کا طرۂ امتیاز ہے۔ لیکن تیسرے دن پھر نل پر جنگ کا ماحول چھایا رہتا ہے۔
جس طرح موت اور گاہک کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ کب آ دھمکے، اسی طرح سرکاری نل کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ ایک مرتبہ ہمارے محلے کا سرکاری نل مسلسل آٹھ دن تک بہتا رہا۔ آٹھ دن بعد معلوم ہوا کہ نل کا ذمہ دار شخص نل کا والو کھول کر شادی میں چلا گیا تھا۔ وہاں سے واپس لوٹا تو اسے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ محلے کی ساری گندگی گٹر لائن سے ہوتی ہوئی ناگ ندی کی نذر ہو گئی ہے اور ناگ ندی کے پانی کا فورس بڑھ گیا ہے۔ سر کار نے ہر محلے میں نل لگاتے وقت اس کے منھ کو باقاعدہ بند کرنے کے لیے ٹونٹی لگا رکھی تھی۔ تاکہ ضرورت کے مطابق پانی لے کر اسے بند کیا جا سکے۔ لیکن ٹونٹی لگانے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی محلے کے بے روزگار نوجوانوں نے اسے نکال کر اپنی ضرورت پوری کر لی۔ اس کے بعد سر کار نے نلوں کے منھ بند کرنے کا سلسلہ بند کر دیا۔ اسے اس کی پر وا نہیں ہے۔ اس کے سامنے ہر کسی کا منھ کھلا ہے آخر وہ بھی کس کس کا منھ بند کرے؟ اور پھر جہاں صبح شام عورتوں کا ڈیرہ رہتا ہے وہاں نل جیسی شے کا منھ کھلا رہنا نامناسب ہی نہیں بلکہ واجبی ہے۔
نل پر عورتوں کے علاوہ وہ مرد بھی پانی بھرنے آتے ہیں جن کی عورتیں ان پر حکمرانی کرتی ہیں۔ پڑھے لکھے ہیں تو خاموشی سے پڑوسی کا گیٹ کھول کر اخبار اٹھا لاتے ہیں اور پڑھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ان پڑھ ہیں تو بیڑیاں پھونک کر ٹائم پاس کرتے ہیں۔ جن گھروں میں شوہر، بیوی دونوں ایک دوسرے پر حکومت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے پریشر میں آئے بغیر آرڈر فالو نہیں کرتے صبح نل پر ان کے بچے پانی بھرنے کے لیے نل پر لائین لگاتے ہیں۔۔ یہاں ان لوگوں پر ترس کھایا جاتا ہے جو بیوی کے معاملے میں خود کفیل نہیں ہیں اور پانی بھرنے لے لیے بلا ناغہ لائین میں شریفانہ انداز سے کھڑے نظر آتے ہیں۔ دوسرے ان عورتوں کو بھی فوقیت حاصل ہے جن کے بال قدرتی طور پر چھوٹے ہیں یا انھوں نے بیوٹی پارلر جا کر اپنے بال چھوٹے کروانے میں عافیت سمجھی ہے۔ جہاں عورتیں اپنے بال کٹوا کر نڈر ہونے کا ثبوت پیش کر رہی ہیں وہیں اس کا سائیڈ ایفیکٹ یہ ہو رہا ہے کہ مرد اپنے بال بڑھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
سر کاری نل اگر لیکیج ہو جائے تو عورتیں وہاں بھی برتنوں کی لائین لگا کر پانی بھرنا شروع کر دیتی ہیں۔ لہٰذا اہلِ محلہ کی فلاح و بہبود کی خاطر پانی کی اس روانی کو بند نہیں کیا جاتا۔ کئی محلے ایسے بھی ہیں جہاں سڑک کے کنارے سرکاری نل لگائے گئے ہیں لیکن آج وہ اس طرح غائب ہو چکے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ در اصل وہاں کے لوگوں نے اس نل کو مرکز مان کر اسے کمپاؤنڈ سے گھیر لیا ہے۔ گزشتہ پیڑھی نے یہ حماقت کی تھی، نئی نسل اسے اپنی جاگیر سمجھتی ہے اور جن لوگوں میں یہ جرات نہیں ہے کہ وہ نل کو اپنے کمپاؤنڈ کے اندر کر لیں وہ خود اپنے ساز و سامان کے ساتھ باہر آ جاتے ہیں۔ پھر وہ نل پر کپڑے دھونے کے علاوہ غسل بھی فرماتے ہیں۔
محلے میں کچھ بڑے لوگ بھی ہیں جن کے یہاں ذاتی نل ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو نوکرانی ہے جس کی ساری زندگی ان کے گھر پانی بھرتے بیت جاتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آخر بڑے لوگ ہیں ان کے گھر تو قانون بھی پانی بھرتا ہے۔
محلے کا سرکاری نل جائے واردات ہی نہیں بلکہ براڈکاسٹنگ سینٹر بھی ہے جو پورے محلے کو کور کرتا ہے اور صبح کا اخبار آنے سے پہلے کی خبریں یہیں سے نشر کی جاتی ہیں۔ یہاں عورتوں کے خفیہ پروگرام بھی ترتیب پاتے ہیں جن کا شوہروں کی عدم موجود گی میں اہتمام ہوتا ہے۔ یہی عورتوں کا وہ پلیٹ فارم ہے جہاں ایک دوسرے کی ناکیں ذبح کی جاتی ہیں، جہاں ایک دوسرے کو بد چلنی کے پرمان پتر سے سمّانِت کیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں نل پر کیا ہوا عشق دیر پا اور مستحکم ہوتا ہے۔ ایسے کئی بوڑھے جن کی جوانی میں نل پر نل پر آنکھ لڑی تھی، آج بھی نل پر پانی بھرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
محلے کے سرکا ری نل پر جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے وہیں نئے رشتے بھی طے پاتے ہیں۔ نئی نئی گالیاں ایجاد کی جاتی ہیں۔ دوستی کا دشمنی میں اور دشمنی کا دوستی میں تبدیل ہونا یہاں روزانہ کا معمول ہے۔ محلے کا نل اگر صبح شام عورتوں کی عدالت ہے تو دوپہر میں اسی نل پر محلے کے من چلے نوجوان تاش اور شطرنج کھیل کر اپنی ذہانت کو چمکاتے ہیں اور اپنے والدین کی دولت کو داؤ پر لگاتے ہیں۔ دیر رات تک محلے کے بزرگ حضرات کی پارلیمنٹ اپنا ڈیرہ جمائے رہتی ہے اور جب یہ تمام رخصت ہو جاتے ہیں تو کتے اس جگہ پر قبضہ جما لیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ نل ہماری تہذیب ہے نہ جانے کتنی پیڑھیاں آئیں اور اس نل پر پانی بھر کر اللہ کو پیاری ہو گئیں مگر نل اپنی جگہ جوں کا توں ہے۔